(بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ ’’اقبال مرکز بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ‘‘ کے زیر اہتمام 21-20 جنوری کو فیصل مسجد کے اقبالؒ آڈیٹوریم میں ’’بین المسالک ہم آہنگی اور افہام و تفہیم کی حکمت عملی‘‘ کے عنوان پر منعقدہ دو روزہ قومی کانفرنس میں کی جانے والی گفتگو کا خلاصہ۔)
بعد الحمد الصلوٰۃ ! آج کی نشست کا عنوان ’’ہم آہنگی کی حکمت عملی ماضی اور حال کے تجربات کی روشنی میں‘‘ ہے اور اس میں اسی کے حوالہ سے کچھ معروضات پیش کروں گا۔ مجھے مسلکی کشمکش اور ہم آہنگی کے دونوں دائروں میں مصروف عمل ہوئے کم و بیش پچاس سال ہوگئے ہیں اور بحمد اللہ تعالیٰ کشمکش اور ہم آہنگی دونوں میں نصف صدی کا تجربہ رکھتا ہوں۔ اس سلسلہ میں تجربات و مشاہدات کا ایک وسیع تناظر ذہن میں ہے لیکن وقت کا دامن تنگ ہے اس لیے اصولی طور پر یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ پاکستان میں ہم آہنگی اور کشمکش کے اسباب میں چار امور خصوصی توجہ کے طلب گار ہیں۔ ہمارا اجتماعی مزاج یہ بن گیا ہے کہ دو باتیں ہمارے درمیان اتحاد، ہم آہنگی اور رواداری کا سبب بنتی ہیں، اور دو باتیں انتشار و افتراق اور کشمکش کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد کے تناظر میں بات کروں گا کہ جب بھی ہم نے کسی مشترکہ قومی یا دینی مسئلہ کے لیے جدوجہد کی ہے ہمارے درمیان ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہوا ہے اور تمام مذہبی مکاتب فکر باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پیج پر آگئے ہیں۔ قیام پاکستان کی جدوجہد، ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد، ناموس رسالتؐ کا تحفظ، تحریک نظام مصطفیؐ اور نفاذ اسلام کا محاذ جب بھی گرم ہوا ہے ہم متحد ہوئے ہیں اور مل جل کر ایک پلیٹ فارم پر ہم نے محنت کی ہے۔
پارلیمنٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل ہو یا کسی عوامی تحریک کا فورم، مشترکہ دینی اور قومی مقاصد میں پاکستان کے مذہبی مکاتب فکر نے ہمیشہ متحد ہو کر قوم کی راہ نمائی کی ہے۔ اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے جس کی ایک ہلکی سی مثال یہ ہے کہ ملک میں سودی نظام کے خاتمہ کی جدوجہد میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ اور جماعت اسلامی کے سنجیدہ راہ نما آج بھی ملی مجلس شرعی اور تحریک انسداد سود پاکستان کے فورم پر اکٹھے ہیں اور تھوڑی بہت محنت بھی ہو رہی ہے۔
مذہبی مکاتب فکر کے درمیان ہم آہنگی اور وحدت کا دوسرا سبب عام طور پر بیرونی دباؤ بنتا ہے۔ عالمی دباؤ ہو یا ملک کے اندر سیکولر حلقوں کی طرف سے اس قسم کی کوئی بات سامنے آئے تو ہم متحد ہو جاتے ہیں اور ہمارے مسلکی اختلافات مشترکہ جدوجہد میں رکاوٹ نہیں بن پاتے۔ مدارس کے خلاف دباؤ اور تحفظ ناموس رسالتؐ کے قانون کے خلاف عالمی دباؤ اس کی واضح مثالیں ہیں۔ مساجد و مدارس کو کوئی خطرہ لاحق ہو جائے یا ناموس رسالت سمیت کسی مسلمہ شرعی حکم کے خلاف عالمی لابیاں متحرک ہونے لگیں تو یہ دباؤ ہمارے درمیان اتحاد و ہم آہنگی کا سبب بنتا ہے۔ لیکن یہ ہم آہنگی اسی وقت تک رہتی ہے جب تک دباؤ رہتا ہے۔ دباؤ کم ہوتے ہی ہم پھر اپنے اپنے پیج پر چلے جاتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ایک دلچسپ واقعہ یاد دہانی کے طور پر ذکر کرنا چاہوں گا کہ ناموس رسالتؐ کے قانون کے خلاف بین الاقوامی دباؤ کے ایک مرحلہ میں منصورہ لاہور میں مذہبی مکاتب فکر کا ایک بہت بڑا اجتماع ہوا جس میں تمام مکاتب فکر کی اعلیٰ قیادتیں شریک تھیں۔ اجتماع کے اختتام پر غالباً پاک پتن شریف کے سجادہ نشین محترم نے شرکاء سے ایک چبھتا ہوا سوال کیا کہ آج اس اجتماع میں تمام مذہبی مکاتب فکر کے بڑے بڑے راہ نما جمع ہیں اور بہت اچھا منظر دیکھنے میں آرہا ہے، لیکن کیا اس طرح دوبارہ اکٹھا ہونے کے لیے ہم کسی اور بڑے حادثے کا انتظار کریں گے؟ اور کیا کسی سانحے اور حادثے کے بغیر ہم اس طرح جمع نہیں ہو سکتے؟ سچی بات ہے کہ اس سوال کی چبھن میں آج تک اپنے دل میں برابر محسوس کر رہا ہوں، چنانچہ:
تجربہ اور مشاہدہ کے مطابق جس طرح مشترکہ قومی یا دینی مسئلہ کے لیے جدوجہد یا کسی دینی مسئلہ پر بیرونی دباؤ ہمارے درمیان ہم آہنگی کے دو بڑے سبب ہوتے ہیں اسی طرح ہمیں پھر سے منتشر کر دینے کے بڑے سبب بھی میرے خیال میں دو ہی ہیں۔ ایک یہ کہ جب مذہبی قیادتوں کا اتحاد اور مشترکہ جدوجہد زیادہ دیر چلتی نظر آنے لگتی ہے تو ہر مسلک اور مذہبی مکتب فکر کے نچلی سطح کو اپنا اپنا مسلک خطرے میں محسوس ہونے لگ جاتا ہے اور مسلکی تشخص و امتیاز پس منظر میں جاتا ہوا دکھائی دینے لگتا ہے۔ چنانچہ اس سطح کے لوگ اپنے اپنے مسلک کے تحفظ کے لیے بڑی محنت کے ساتھ ایسا ماحول پیدا کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں کہ بڑی قیادتیں ان کے سامنے بے بس ہو جانے میں ہی عافیت محسوس کرتی ہیں اور معاملات پھر پرانی ڈگر پر واپس جانا شروع ہو جاتے ہیں۔
انتشار و افتراق کا دوسرا بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ دینی قیادتوں کا اتحاد جب کسی دینی مسئلہ پر ملک کے عمومی نظام میں کسی تبدیلی کا باعث بنتا دکھائی دینے لگتا ہے تو ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی محافظ قوتیں چوکنا ہو جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ وہ ریڈ لائن نمایاں ہونے لگتی ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے مروجہ نظام کو ہر حالت میں باقی رکھنے کی خواہش مند قوتوں نے قائم کر رکھی ہے۔ اور وہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی حفاظت میں اس قدر حساس ہیں کہ مروجہ نو آبادیاتی نظام میں کسی ہلکی سی تبدیلی کا امکان بھی انہیں بے چین کر دیتا ہے۔ پھر وہ قوتیں اپنے خفیہ وسائل و ذرائع کو حرکت میں لاتی ہیں اور دینی قیادتیں اپنی تمام تر صلاحیتوں اور کوششوں کے باوجود ’’تار پیڈو‘‘ ہو کر رہ جاتی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں متحدہ علماء کونسل کے زیر اہتمام سود کے مسئلہ پر منعقد ہونے والے سیمینار میں اکاؤنٹس کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ اعلیٰ افسر نے تبایا کہ ہم لوگ ایسے مواقع پر سرکردہ علماء کرام کی خدمت میں باقاعدہ حاضری دے کر اور انہیں ان کے مسلک کے ساتھ گہری ہمدردی اور وفاداری کا یقین دلا کر نذرانے بھی پیش کرتے تھے اور ایسے مسائل کی طرف انہیں توجہ دلاتے تھے جو مسالک کے درمیان خلفشار کا باعث بنتے ہیں۔ اور اسی طرح ہم قومی سطح پر دینی جماعتوں کے اتحاد کو سبوتاژ کر دینے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔
اس پس منظر میں حکمت عملی کے حوالہ سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ہمیں دو امور پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی چاہیے۔ ایک یہ کہ مشترکہ دینی اور قومی مسائل پر جدوجہد کو ترجیح دی جائے اور ملک و ملت کو در پیش مسائل میں قوم کی اجتماعی راہ نمائی کو فروغ دینے پر زیادہ سے زیادہ محنت کی جائے۔ دوسرا یہ کہ ہر مسلک کی اعلیٰ قیادتیں اپنی نچلی سطح کے کارکنوں اور علماء کرام کی تربیت کا اہتمام کریں اور ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل و مشکلات کی اہمیت اور نزاکت کا احساس دلاتے ہوئے انہیں اجتماعی جدوجہد، ملی مقاصد اور قومی ضروریات کے لیے محنت پر تیار کریں۔