فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں اور متعلقہ اخبار کے دفتر پر حملہ کے نتیجے میں ہونے والی ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ ہلاکتوں پر رد عمل کا سلسلہ دنیا بھر میں جاری ہے۔ گزشتہ دنوں پیرس میں لاکھوں افراد کی ریلی کے ساتھ مختلف ممالک کے سربراہوں نے بھی شریک ہو کر اس سلسلہ میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے، جبکہ پاکستان کے دینی حلقوں اور عوام کی طرف سے قتل کی مذمت کے ساتھ ساتھ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر شدید غم و غصہ ایک بار پھر سامنے آرہا ہے۔ 

دراصل اس حوالہ سے دو بلکہ تین الگ الگ مسئلے آپس میں گڈمڈ ہوگئے ہیں اور عالمی سطح پر مختلف لابیاں اپنے اپنے مقاصد کے لیے اس حوالہ سے سرگرم عمل ہیں جس سے یہ معاملہ بظاہر پیچیدگی اور کنفیوژن کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ کیا کسی کی توہین اور اس کے مذہبی جذبات کی تحقیر، بالخصوص حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی شان میں گستاخی بھی اظہار رائے کے حق کا حصہ ہے؟ دوسرا یہ کہ کیا یہ جرم اس قدر سنگین ہے کہ اس پر موت کی سزا نافذ کی جائے؟ اور تیسرا یہ کہ اگر ایسے مجرم کو موت کی سزا ہی دی جائے گی تو اس سزا کا نفاذ کون کرے گا اور اس کی اتھارٹی کس کو حاصل ہے؟

جہاں تک پہلے مسئلہ کی بات ہے، اس پر پوری دنیا میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ توہین و تحقیر کا رائے کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ کم و بیش ہر ملک میں شہریوں کو یہ حق قانوناً حاصل ہے کہ وہ ہتک عزت اور ازالۂ حیثیت عرفی کی صورت میں عدالت سے رجوع کریں اور ایسا کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا دلوائیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی بھی ملک کے عام شہری کی عزت نفس اور حیثیت عرفی کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور اسے مجروح کرنے والا قانون کی نظر میں مجرم تصور کیا جاتا ہے تو مذاہب کے پیشواؤں اور خاص طور پر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے یہ حق کیوں تسلیم نہیں کیا جا رہا اور مذہب اور مذہبی راہ نماؤں کی توہین و تحقیر کو رائے کی آزادی کے ساتھ نتھی کر کے جرائم کی فہرست سے نکال کر حقوق کی فہرست میں کیسے شامل کیا جا رہا ہے؟

دوسرے مسئلہ پر پورا عالم اسلام متفق ہے اور دیگر مذاہب بھی اس کی تائید کرتے ہیں کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین و تحقیر سنگین ترین جرم ہے، اس لیے کہ اس میں مذہبی پیشواؤں کی توہین کے ساتھ ساتھ ان کے کروڑوں پیروکاروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے کے جرائم بھی شامل ہو جاتے ہیں جس سے اس جرم کی سنگینی میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے اور قرآن و سنت، بائبل اور وید سمیت تمام مسلمہ مذہبی کتابوں میں اس کی سزا موت ہی بیان کی گئی ہے۔ کیونکہ اس سے کم سزا میں نہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے احترام کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے کروڑوں پیروکاروں کے مذہبی جذبات کی جائز حد تک تسکین ہو پاتی ہے۔ 

مگر جہاں تک تیسری بات ہے، اس پر توجہ کی ضرورت ہے کہ موت کی سزا کی اتھارٹی کس کو حاصل ہے؟ اس پر گفتگو اور مکالمہ کی گنجائش موجود ہے اور قانون کو ہاتھ میں لینے سے معاشرہ میں جس لا قانونیت اور افراتفری کو فروغ ملتا ہے، اس پر قابو پانے اور اسے روکنے کے لیے باہمی بحث و مباحثہ کے ساتھ تمام طبقات کو متفقہ رائے اور موقف اختیار کرنا چاہیے۔ جبکہ ہماری رائے میں قانون کو ہاتھ میں لینے اور از خود کاروائی کر ڈالنے کی بجائے قانون کا راستہ اختیار کرنے اور توہین و تحقیر کا سنگین جرم کرنے والوں سے قانون کے ذریعے نمٹنے کے طرز عمل کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، کیونکہ اسی صورت میں ہم ان بہت سے مفاسد سے بچ سکتے ہیں جو اس بارے میں مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس لیے فرانس میں قتل عام کا ارتکاب کرنے والوں کے عمل کی مذمت کرنی چاہیے، مگر توہین و تحقیر کے عمل کو بھی اسی طرح سنگین جرم قرار دے کر اس کی مذمت کرنا ضروری ہے۔ 

اس کے ساتھ ہی ہم اس مسئلہ کے ایک اور پہلو کی طرف بھی توجہ دلانا چاہیں گے جو اس مسئلہ پر مغربی دنیا کی سیاسی اور مذہبی قیادت کے متضاد موقف کے باعث سامنے آرہا ہے اور نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور امریکی صدر بارک اوباما نے مشترکہ بیان میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو رائے کی آزادی کے دائرہ میں شامل کیا ہے، اور اسے اپنا پسندیدہ حق قرار دیا ہے، جبکہ پاپائے روم نے کہا ہے کہ توہین اور مذہبی جذبات کی تحقیر کا آزادئ رائے کے حق سے کوئی تعلق نہیں ہے، حتیٰ کہ انہوں نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص میری ماں کی توہین کرتا ہے تو اسے میری طرف سے مکا کھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہمارے خیال میں مغربی دنیا کا یہ فکری تضاد ہی اس مسئلہ کی اصل جڑ ہے کہ مذہب کے معاشرتی کردار سے انحراف کرنے والوں نے مذہب کے خلاف نفرت اور اس کی ہر حوالہ سے نفی اور توہین کو اپنا مشن بنا رکھا ہے، جبکہ خود مسیحی دنیا کی اعلیٰ ترین مذہبی قیادت بھی اس موقف کو قبول نہیں کر رہی۔ 

اس لیے ضرورت ہے کہ ارباب علم و دانش مغربی قیادت کے اس داخلی فکری تضاد کو واضح کریں اور مغربی لامذہبیت کی اس انتہا پسندی اور فکری دہشت گردی کو اجاگر کریں جو اس نے مذہب کے معاشرتی کردار کو دنیا سے ختم کر دینے کی مہم میں مسلسل ناکامی کے بعد جھنجھلاہٹ میں اختیار کر رکھی ہے اور جو اس بات کی علامت ہے کہ مغرب کی لامذہبیت انسانی معاشرہ میں اپنی پسپائی کو یقینی سمجھتے ہوئے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ 

حالات و واقعات

(فروری ۲۰۱۵ء)

تلاش

Flag Counter