بریلوی علما وعوام سے اختلاف میں اعتدال
بہاول پور کے مشہور مقدمے میں ’’مختار قادیانی نے اعتراض کیا کہ علماء بریلی، علمائے دیوبند پر کفر کا فتویٰ دیتے ہیں اور علمائے دیوبند علمائے بریلی پر۔ اس پر شاہ صاحب نے فرمایا: ’’میں بطور وکیل تمام جماعت دیوبند کی جانب سے گذارش کرتا ہوں کہ حضرات دیوبند ان کی تکفیر نہیں کرتے۔ اہل سنت والجماعت اور مرزائی مذہب والوں میں قانون کا اختلاف ہے اور علماء دیوبند وعلماء بریلی میں واقعات کا اختلاف ہے، قانون کا نہیں۔ چنانچہ فقہاء حنفیہ رحمہم اللہ نے تصریح کی ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی شبہ کی بنا پر کلمہ کفر کہتا ہے تو اس کی تکفیر نہ کی جائے گی۔ دیکھو رد المحتار، بحر الرائق غیرہ۔‘‘ (ملفوظات محدث کشمیری ص ۶۹، مرتب: مولانا سید احمد رضا بجنوریؒ )
’’تبلیغ میں الاہم فالاہم پر توجہ ضروری ہے۔ مسائل اختلافیہ کی بنا پر مخالف پارٹی کے لوگ پروپیگنڈہ شروع کر کے عوام کو بدظن بنا دیتے ہیں۔ پھر امور متفقہ علیہا پر بھی موثر تبلیغ نہیں ہو سکتی۔ اس لیے نمازی بنانا اور اصول وعقائد اسلام واہل سنت کو سمجھانا اولاً وبالذات ضروری ہے۔ شرک سے نفرت دلاتے وقت عبادت اصنام واحجار واشجار وحیوانات وغیرہ کو جو کہ ہنود اور دیگر کفار کرتے ہیں اور جن میں ابنائے وطن غیر مسلم مبتلا ہیں، ان کو ذکر کیا جائے اور اس سے قوم کو سمجھایا جائے۔ اس مقام پر قبور، تعزیہ وغیرہ کو صراحتاً نہ ذکر کیا جائے۔ جب نفرت عبادت غیر اللہ ان کے قلوب میں خوب راسخ ہو جائے اور وہ مانوس ہو جائیں، اعمال مفترضہ کے عادی ہو جائیں، تب ان کو آہستہ آہستہ شرور حالیہ سے بھی آگاہ کیا جائے۔‘‘ (ملفوظات حضرت مدنی، مرتبہ ابو الحسن بارہ بنکوی، ص ۷۲)
’’جن صاحب کے یہاں میلاد اور عرس ہوتا ہے اور چونکہ خلاف شرع ہوتا ہے، اس لیے اولاً ان کی اصلاح ہونی چاہیے۔ اگر یہ ممکن نہیں تو آپ ان کے اعمال میں شرکت نہ فرمائیں۔ ہاں اگر ظن غالب ہو کہ وہ لوگ اس کی وجہ سے آپ کے ایذا کے درپے ہوں گے یا تعصب وغیرہ میں پڑ کر اس سے زائد گناہ میں مبتلا ہو جائیں گے یا مسلمانوں میں افتراق کا زہریلا بازار گرم ہو جائے گا تو شریک ہو جانا جائز ہے۔‘‘ (ملفوظات حضرت مدنی، مرتبہ ابو الحسن بارہ بنکوی، ص ۸۶)
’’حضرت مولانا حسین علی مرحوم کے متوسلین میں تشدد بہت زیادہ ہے جو کہ غلط درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔ یسرا ولا تعسرا وبشرا ولا تنفرا (الخ) کے خلاف ہے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوب انوار القلوب کے بالکل مخالف ہے، اگرچہ بریلویوں کے غلو کا جواب اسی طرح ہوتا ہے۔‘‘ ((ملفوظات حضرت مدنی، مرتبہ ابو الحسن بارہ بنکوی، ص ۱۳۱)
’’کانپور میں ایک شخص نے میرے سامنے اہل بدعت کی برائی کرنا شروع کیا۔ میں نے ان کی طرف سے تاویلات کرنا شروع کر دیں۔ پھر اس نے غیر مقلد کی برائیاں شروع کیں۔ میں ان کی طرف سے تاویلات کرنا شروع کر دیں۔ اس نے متحیر ہو کر پوچھا، آخر آپ کا مذہب کیا ہے؟ میں نے کہا میرا مذہب یہ آیات قرآن ہیں:
کُونُواْ قَوَّامِیْنَ لِلّہِ شُہَدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی۔
’’نہ بھڑکائے غصہ تم کو کسی قوم کا اس بات پر کہ نہ تم انصاف کرو بلکہ تمھیں انصاف کرنا چاہیے۔ وہی تقویٰ کے قریب ہے۔‘‘ (تحفۃ العلماء، (افادات وملفوظات حکیم الامت مولانا تھانویؒ ) مرتبہ مولانا مفتی محمد زید جلد دوم، ص ۲۲۳)
عدم تقلید اور ائمہ سے اختلاف
’’ابن تیمیہ اور ابن قیم استاد شاگرد ہیں۔ دونوں بڑے عالم ہیں۔ بعض افاضل کا ان کے بارے میں قول ہے کہ علمہما اکثر من عقلہما۔ یہ دونوں حنبلی مشہور ہیں، مگر حنبلی ہیں نہیں۔ ان کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ خود مجتہد ہونے کے مدعی ہیں۔ ایسا محقق کسی بات میں ائمہ مجتہدین کے خلاف کرے تو ۔۔۔ مضائقہ نہیں۔‘‘ (تحفۃ العلماء (افادات وملفوظات حکیم الامت مولانا تھانویؒ ) مرتبہ مولانا مفتی محمد زید جلد دوم، ص ۴۰۷)
’’مقلد کو اجازت نہیں کہ ایسے شخص کو برا کہے جس نے بعذر مذکور اس مسئلہ میں تقلید [ترک] کر دی ہو، کیونکہ ان کا یہ اختلاف ایسا ہے جو سلف سے چلا آیا ہے جس کے باب میں علماء نے فرمایا ہے کہ اپنا مذہب ظناً صواب محتمل خطا اور دوسرا مذہب ظناً خطا محتمل صواب ہے۔ ۔۔۔ اگر کوئی اہل حدیث تقلید کو حرام نہ سمجھے اور بزرگوں کی شان میں بدزبانی اور بدگمانی نہ کرے تو خیر یہ بھی بعض سلف کا مسلک رہا ہے۔ اس میں بھی تنگی نہیں کرتا ہوں۔ ہاں، دل کا پوری طرح ملنا نہ ملنا اور بات ہے۔‘‘ (تحفۃ العلماء، (افادات وملفوظات حکیم الامت مولانا تھانویؒ ) مرتبہ مولانا مفتی محمد زید جلد دوم، ص ۴۵۸)
معاملات میں عوام کی سہولت کا لحاظ
’’میرا ارادہ تھا کہ ایک رسالہ احکام معاملات میں ایسا لکھوں کہ جن معاملات میں عوام مبتلا ہیں، اگر وہ صورتیں کسی مذہبی میں بھی جائز ہوں تو اس کی اجازت دے دوں تاکہ مسلمانوں کا فعل کسی طرح سے تو صحیح ہو سکے۔ میں نے احتیاطاً اس کے بارے میں حضرت مولانا گنگوہیؒ سے بھی دریافت کیا کہ ایسے مسائل میں دوسرے مذہب پر فتویٰ دینا جائز ہے یا نہیں؟ تو حضرت نے اجازت دے دی۔ مولانا بہت پختہ حنفی تھے۔‘‘ (تحفۃ العلماء، (افادات وملفوظات حکیم الامت مولانا تھانویؒ ) مرتبہ مولانا مفتی محمد زید جلد دوم، ص ۱۶۸)
’’فرمایا کہ ہمارے استاد حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب کے مزاج میں ایسے اختلافی مسائل کے بارے میں بڑا توسع تھا۔ میں نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا جس میں حضرت مولانا کا فتویٰ حضرت گنگوہی کے فتوے سے مختلف تھا۔ اپنی تحقیق کے مطابق مسئلہ بتلا دیا اور پھر یہ بھی فرما دیا کہ مولانا گنگوہی کا فتویٰ اس کے بارے میں یہ ہے۔ اب تمھیں اختیار ہے جس کو چاہو اختیار کرو۔ ۔۔۔(ایضا، ج ۲، ص ۲۲۴)
’’حضرت حاجی [امداد اللہ مہاجر مکی] صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہم لوگوں کو جو خدا تعالیٰ سے محبت ہے، ان کے احسانات کی وجہ سے ہے۔ اس واسطے ہمارے حضرت کا مسلک یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے، آرام سے رہو مگر حد سے نہ نکلو، اس لیے مختلف فیہ مسائل میں وسعت دینی چاہیے۔ اس طرح ایک تو شریعت سے محبت ہوگی، دوسرے آرام رہے گا۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی امر کی دو شقوں میں اختیار دیا جاتا تو جو شق زیادہ آسان ہوتی تھی، آپ اسی کو اختیار فرماتے تھے اور فطرت سلیمہ کا بھی یہی مقتضا ہے۔
فرمایا محققین کا مسلک یہ ہے کہ اپنے نفس کے عمل میں تو تنگی برتے اور اعلیٰ وادنی کو عمل کے لیے اختیار کرے، مگر رائے اور فتویٰ میں وسعت رکھے اور لوگوں کے لیے مقدور بھر آسانی (اور جواز) کو تلاش کرے۔‘‘ (ایضاً، جلد دوم، ص ۲۲۴، ۲۲۵)