یہ بات مسلم ہے کہ ’’انسان‘‘ تحریر شدہ کتابوں سے اِتنا نہیں سیکھتا جتنا کتابِ زندگی کے تلخ و شیریں تجربات انسان کو سکھادیتے ہیں اور پھر ’’سفر‘‘ کا تو معنی ہی ’’کھولنا‘‘ ہے۔ سفر انسانی ذہن کے لیے معلومات و تجربات کے اَن گنت دریچے کھول دیتا ہے ۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ اپنی عمر کے ۶۷ ویں برس میں ہیں اور اُن کی زندگی کا اکثر حصہ تدریس، خطابت اور دینی تحریکات کے مقاصد کی خاطراسفار میں گزراہے ۔ اندرون و بیرون ممالک کے سینکڑوں یادگار اسفار اُن کی زندگی کا حصہ ہیں۔ اسفار کی کثرت کے باوجود ۱۹۷۰ء سے باقاعدہ تدریس اور تب سے لے کر اب تک صحافتی شعبہ سے منسلک رہنا، بلکہ اِن شعبوں میں کمال کا حصول آپ کا خاص امتیاز ہے۔ آپ پاکستان کی مختلف دینی تحریکات کا حصہ بلکہ بنیادی کردار رہے ہیں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خاں صفدر رحمہ اللہ اور شیخ التفسیر حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خاں سواتی کے علاوہ حضرت مولانا عبیداللہ انوررحمہ اللہ، حافظ الحدیث مولانا محمد عبداللہ درخواستی رحمہ اللہ اور حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ وغیرہ اکابر کا مکمل اعتماد اور رفاقت بھی آپ کو نصیب ہوئی ۔ اِس کے علاوہ اپنے دَور کی سینکڑوں نابغۂ روزگار شخصیتوں سے ملاقاتیں آپ کی یادداشتوں کا حصہ ہیں۔
آپ کے اِنہی علمی، فکری ، صحافتی اور تجرباتی مشاہدات سے استفادہ کے لیے کچھ عرصہ سے علماء و طلبہ کے لیے بالخصوص اور عوام الناس کے لیے بالعموم الشریعہ اکادمی میں ماہانہ فکری نشستوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ یہ نشست الشریعہ اکیڈمی ، ہاشمی کالونی ، کنگنی والا میں منعقد ہوتی ہے جس میں مولانا موصوف کسی موضوع پر لیکچر اِرشاد فرماتے ہیں۔ گذشتہ برس اِن نشستوں کا موضوع ’’تصوف اور عصر حاضر ‘‘ تھا اور سامعین کے اصرار پر اسے ماہانہ سے پندرہ روزہ میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ یہ نشست جہاں علماء اور طلباء کے لیے انتہائی پر مغز معلومات، قیمتی تجربات ، بامقصد لطائف، سبق آموز واقعات، مشفقانہ نصائح، تاریخی حقائق، ملکی و بین الاقوامی حالات پر جاندار تبصروں پر مشتمل ہوتی ہے، وہیں ایک عام آدمی کے لیے بھی انتہائی مفید ہوتی ہے اور عام فہم روز مرہ کی زبان میں ہونے کی وجہ سے ہر شخص اس سے آسانی سے استفادہ کرسکتا ہے ۔
اِن نشستوں کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں :
۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے بارے میں فرماتے ہیں :
بٹ دری فیکٹری (گکھڑ) کے اوپر ایک چوبارہ سا تھا، اس میں ہماری رہائش تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، والد صاحب رحمہ اللہ خود گرفتاری دینے کے لیے تھانہ گئے ۔ ایک طالب علم مولوی عزیز الرحمن صاحب نے آپ کا بستر اُٹھایا ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے ، میری نظروں میں ہے وہ منظر ۔۔۔ سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے۔ تقریباً دس ماہ کے لگ بھگ آپ رحمہ اللہ جیل میں رہے ۔ واپسی کا منظر بھی مجھے یاد ہے ۔۔۔
۱۹۶۸ء کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
سعودی عرب میں خانہ کعبہ کے غسل میں ظفر اللہ خان (قادیانی) شریک ہوئے۔ اس پر بڑا احتجاج ہوا۔ اگلے سال سعودی گورنمنٹ نے قادیانیوں کے حج پر آنے پر پابندی لگادی۔ اس پر آغا شورش کاشمیری نے چٹان کا چھ یا سات سطروں کا ایک شذرہ لکھا ۔’’ الحمد للہ ‘‘ اس کا عنوان تھا کہ شکر ہے سعودی عرب کو خیال آیا ‘ یہ فیصلہ کیا۔ اس پر چٹان پریس ضبط ہوگیا ۔ چٹان کا ڈیکلریشن منسوخ ہوگیا ۔ آغا شورش کاشمیری کے خلاف گرفتاری کے آرڈر جاری ہوگئے ۔ ایک طوفان مچ گیا۔
۶ مئی ۱۹۶۸ء کو جمعیت علماء اسلام کے جلسے میں آغا شورش نے بڑی خوفناک تقریر کی، اپنے پورے عروج پر ۔ مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ کو میں نے زندگی میں کبھی شعر پڑھتے نہیں سنا کہ تقریر میں کوئی شعر پڑھیں ۔ صرف وہاں آغا شورش کو خطاب کی دعوت دیتے ہوئے مولانا نے ایک شعر پڑھا ۔ میرے ذہن میں وہ نقش ہو گیا۔ مولانا نے کہا کہ آغا شورش کاشمیری کا جرم کیا ہے؟ یہ کہ اس نے سعودی عرب کے ایک فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور چار سطریں لکھی ہیں؟ آپ یہ بھی برداشت نہیں کرسکتے ؟تو وہاں یہ شعر پڑھا :
نزاکت کس قدر ہے دِلربا کو
اُٹھا سکتے نہیں رنگ حنا کو
زندگی میں، میں نے ایک ہی شعر مولانا سے سنا۔ اس جلسے میں پھر آغا صاحب گرفتار ہوگئے ۔
امریکا میں علامہ زاہد الراشدی صاحب کی ایک لاٹ پادری سے ملاقات اور اُس سے دلچسپ اور فکر انگیز مکالمے کی تفصیلات ۔۔۔ اور برمنگھم (برطانیہ)میں سکھوں کے گوردوارہ میں علماء کے وفد کا داخلہ کیسے ممکن ہوا ، حالانکہ وہاں داخلہ کے لیے گرو گرنتھ صاحب کے سامنے ماتھا ٹیکنا لازمی شرط تھا۔
سمر قند اور بخارا کے دورہ کے دوران ایک بڑھیا کا رِقت آمیز واقعہ ۔۔۔اور وہاں کے زمیں دوز مدرسوں کی رُوداد۔۔۔ دورۂ بنگلہ دیش کے دوران سلہٹ کے مدرسہ سے حضرت مدنی رحمہ اللہ کے مرتب کردہ ۱۶سالہ نصاب تعلیم کی نقل کا حصول ۔۔۔ (یہ نصاب عام مدارس کے مروجہ نصاب سے ہٹ کر ہے جس میں دنیاوی و عصری علوم کو بھی نمایاں حیثیت دی گئی ہے ) ۔۔۔ اور دوسرے بہت سے اہم و دلچسپ واقعات۔
مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ کے سینے میں بعض ایسی روایات ہیں جن کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ اِن رازوں کی امین اَب میرے سوا دنیا میں صرف ایک دو شخصیتیں ہیں ۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ وہ کچھ ہماری تاریخ کی راز کی باتیں ہیں جنہیں وہ بتانا مناسب نہیں سمجھتے یا ہمارے دِل اُن کو اُٹھانے کی وسعت نہیں رکھتے ۔ لیکن جتنی باتیں وہ بتا رہے ہیں، اُن کو سننے اور حفاظت کا اہتمام تو بہرحال ہماری ذمہ داری ہے اور ہمیں اس میں کوتاہی نہیں کرنا چاہیے۔
تمتّع من شمیم عرار نجد
فما بعد العشیّۃ من عرار