عزیز گرامی میاں عمار صاحب۔
شکریہ کہ الشریعہ کے شمارے تا اگست موصول ہو گئے۔ امید ہے اب ماہ بماہ آتے رہیں گے۔ پیکیٹ کھولنے پر جو ذرا سی ورق گردانی فوراً ہی کی تو خاص اشاعت اور جون ہی کی عام اشاعت میں دو باتیں توجہ دلانے کے قابل نظر آئیں۔ خاص نمبر کے اسامہ مدنی صاحب کے مضمون (در دفاعِ مولانا راشدی) میں حضرت مولانا علی میاں صاحب کو فاضل دیوبند بتا دیا ہے جو واقعہ نہیں ہے۔ مولانا نے صرف چار مہینے دیوبند میں رہ کر بخاری اور ترمذی کے درس کی سماعت کی تھی۔ (پرانے چراغ جلد اول، تذکرہ حضرت مدنی)۔ جبکہ عام شمارہ میں انس حسان صاحب نے حضرت شیخ الہند کو جمعیۃ العلماء کا بانی بتا دیا ہے، جبکہ جمعیۃ جب 1919ء میں قائم کی گئی تو حضرت شیخ الہند مالٹا میں محبوس تھے۔ الشریعہ جیسے رسالوں میں تاریخی باتیں تحقیق سے آنے کی امید کی جاتی ہے نہ کہ سنی سنائی۔
جمعیۃ العلماء ہند کی بنیاد رکھنے والے علماءِ دیوبند نہیں تھے، زیادہ تر تو دوسرے علماء تھے اور ان کے سرخیل مولانا عبد الباری فرنگی محلی۔ البتہ رفتہ رفتہ ایسی صورت ہوئی کہ علماء دیوبند ہی حاوی ہو گئے حتیٰ کہ مولانا عبد الماجد بدایونی نے ایک موقع پر مولانا ابوالکلام آزاد سے کہا کہ صاحب، یہ تو اب جمعیۃ علماء دیوبند ہوئی جا رہی ہے جس پر مولانا نے فرمایا کہ ہاں میرے بھائی، جب دیوبند ہی علماء پیدا کر رہا ہوگا تو پھر وہ جمعیۃ علمائے دیوبند ہو ہی جائے گی۔ یہ بات میں نے کہیں پڑھی بھی تھی، اس کے علاوہ والدِ ماجد سے سنی بھی تھی۔
والسلام اور حضرت مولانا کی خدمت میں بھی نیاز۔
عتیق