معاصر اسلامی دنیا بیدار ہو چکی ہے۔ اپنے حقوق اور تشخص کی بازیافت کے لیے ہر مسلمان کسی نہ کسی محاذ پر سرگرم عمل ہے۔ اس صورت حال میں ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے موجودہ سفر کے راستے کا تعین کریں اور اس سفر کے تقاضوں سے کماحقہ واقف ہوں۔ ذیل میں اس حوالے سے ایک طالب علمانہ کاوش کی گئی ہے۔
اگر ہم کائناتی تناظر میں زندگی پر غور وفکر کریں تو اس کی بے ثباتی عیاں ہو جاتی ہے۔ فانی دنیا ہے اور فانی انسان۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری تگ ودو اور دوڑ دھوپ کس لیے ہے کیونکہ ہماری اپنی زندگی تو نہایت محدود ہے کہ سانس کا کیا بھروسہ! ہماری محدود زندگی کی ’’تحدید‘‘ میں پہلی دراڑ اس وقت پڑتی ہے جب ہم ’’تاریخی شعور‘‘ کے حامل ہو جاتے ہیں، یہ شعور کہ ہم اپنے اجداد کے اجساد اور خیالات کا تسلسل ہیں، ان کی چھوڑی ہوئی میراث کے پاسبان اور امین ہیں۔ اسی تاریخی شعور سے زندگی کی ایسی معنویت جنم لیتی ہے جو ہمیں مستقبل کے ادراک کے قابل بناتی ہے، امیدوں کا مسکن، امنگوں کی آماج گاہ شاندار مستقبل۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس شاندار مستقبل کا تانا بانا تاریخی شعور سے ہی بنا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم شان دار مستقبل کی امید باندھتے ہیں تو ہمیں لازماً تاریخی شعور کو اپنے افکارواعمال میں رچانا ہوگا۔ ایک دوسرے زاویے سے ہم مذکورہ بات کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ ہر موجود نسل حقیقت میں ذمہ دار نسل ہوتی ہے جس کے ایک کندھے پر تاریخی شعور کی میراث ہوتی ہے اور دوسرے کندھے پر شان دار مستقبل کی منصوبہ بندی۔ اس اعتبار سے یہ ذمہ داری زندگی کی تحدید کی نفی کر دیتی ہے کیونکہ اس ذمہ داری کے سبب ہمارا رابطہ ماضی، حال اور مستقبل تینوں سے بیک وقت ہوتا ہے کہ یہ رابطہ اور ذمہ داری انسان اور زندگی کو مسلسل وسعت پذیر رکھتے ہیں۔
اس گفتگو کے پیش نظر ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ :
۱۔ انسان کا بنیادی حوالہ حیاتیاتی حوالہ ہے۔
۲۔ اسی حیاتیاتی حوالے کے طفیل انسان اپنے اجداد کے خیالات وافکار کے تحفظ سے نہ صرف میراث کو محفوظ رکھتا ہے بلکہ اپنے عصری ماحول کے ساتھ ان خیالات وافکار کے تطابق سے فکری وحیاتیاتی تسلسل کے فروغ کی امید بھی باندھتا ہے۔ اس طرح ضروری ہو جاتا ہے کہ کوئی بھی فکر یا نظریہ اگر اپنے دوام کا خواہش مند ہے تو اس کا زندگی سے رشتہ بہت مضبوط اور گہرا ہونا چاہیے کیونکہ فقط اسی صورت میں مستقبل کا انسان ایسی فکر کو اپنے عصری ماحول میں جگہ دے پائے گا۔
جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، وہ انسان کے حیاتیاتی تحفظ کے لیے ایک جامع پروگرام دیتا ہے۔ ’’انسان جیسا کہ وہ ہے‘‘ کی حفاظت کا اہتمام مسواک سے شروع ہوتا ہے اور درجہ بدرجہ مختلف مراحل طے کرتا ہوا حفظ قرآن کی روایت پر ختم ہو جاتا ہے۔ اسلام کے حیاتیاتی پروگرام کی اہمیت وافادیت جس قدر آج کے دور میں اجاگر ہو سکتی ہے، اس سے پہلے اس کا عشر عشیر بھی ممکن نہیں تھا۔ اگرچہ آج انسان اربوں کی تعداد میں ہیں لیکن ان کا حیاتیاتی اثبات (Biological Assertion)بحیثیت انسان بری طرح مجروح ہوا ہے جس کی چند مثالیں ایٹمی وماحولیاتی منفی اثرات اور کلوننگ ہیں۔ جدید عہد اور اس میں رائج رجحانات جراحت کا سامان پیدا کرنے میں تاحال ناکامی سے دوچار ہیں۔ اس ناکامی کی بنیادی وجہ خارجی (Extrovert) اپروچ ہے۔ کسی تبدیلی اور بہتری کے آثار کے لیے اس اپروچ پر کاری ضرب لگانے کی ضرورت ہے۔ یہ اطمینان کی بات ہے کہ عالمی مسلم معاشرے کا عمومی رجحان داخلی (Introvert) ہے لہٰذا دنیا کے سامنے ایک ’’مثالی حیاتیاتی انسانی گروہ‘‘ پیش کرنے میں ہماری راہ میں زیادہ مشکلات حائل نہیں ہیں۔ ہمیں صرف اتنا کرنا ہے کہ اسلام کے حیاتیاتی پروگرام کی معنویت کی تہیں کھولنا شروع کر دیں۔ خیال رہے کہ ہر عہد اپنے حصے کی تہیں کھول سکتا ہے اس لیے اجداد کی تشریحات کو ہوبہو اپنانے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔
حیاتیاتی سطح کے بعد انسان کی معاشرتی سطح کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس سطح پر انسان کو Extrovert ہونا پڑتا ہے لیکن چونکہ مسلم معاشرے کا عمومی رجحان Introvert ہے لہٰذا اچھی خاصی گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ مثلاً ہم رہتے اکیسویں صدی میں ہیں لیکن ہماری معاشرتی سطح یعنی افراد کا باہمی تعامل (Interaction) مخصوص رجحان کی وجہ سے چھٹی ساتویں صدی کی سطح پر ہوتا ہے۔ معاشرتی سطح پر اسی خود بینی کے سبب ہر کوئی لیڈر بنا ہوا ہے، ہر ایک کی اپنی اپنی سوچ ہے، کوئی بھی اپنے دائرے کو پھلانگ کر معاشرتی دھارے میں شامل ہونے کو تیار نہیں کہ اس سے اس کی اپنی انفرادیت اور لیڈری ختم ہونے کا احتمال رہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مذہب ایک جذباتی قدر بن کر رہ گیا ہے اور اس کا زندگی سے رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔ خیال رہے کہ یہاں ہم نے ’دین‘ کے بجائے ’مذہب‘ کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ ’دین‘ کا تقاضا تو معاشرتی سطح پر Extrovert اپروچ اختیار کرنا ہے جس سے مسلم معاشرہ محترز ہے۔ مذہب اور زندگی کی باہمی دوری سے معاشرت کے ساتھ ساتھ انسان کی حیاتیاتی سطح بھی مجروح ہونے کا امکان ہے۔ بہرحال یہ نہایت ضروری ہے کہ مسلم معاشرہ زندگی کی معاشرتی سطح پر Extrovert اپر وچ اپنائے تاکہ مذہب اور زندگی کے باہمی رشتے سے ’دین‘ کی تفہیم ہو سکے۔
دین کو معاشرتی دھارے میں سمونے کے ساتھ ساتھ عصری ماحول کی تفہیم بھی بہت ضروری ہے۔ اپنے عہد کی نبض پر ہاتھ رکھے بغیر ہم ابھر کر سامنے نہیں آ سکتے اور نہ خارجی واقعیت پر فتح پا سکتے ہیں۔ مثلاً برصغیر میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک میں علما کا کردار بہت اہم تھا لیکن اس کا کریڈٹ قائد اعظم محمد علی جناح لے گئے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ہماری رائے میں جناح نے اپنے عہد کی نبض کو سمجھ لیا تھا، علما ایسا کرنے سے قاصر رہے۔ جناح نے باقی سب امور کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد کو ’’دستوریت‘‘ سے عبارت کر لیا کیونکہ انگریزوں کی آمد کے بعد حکمرانی کے انداز وآداب، دستوریت اور جمہوریت سے عبارت تھے۔ جناح نے اسی چیز کو بھانپتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور شناخت کے لیے دستوری اقدامات کا مطالبہ کیا اور کانگریس کے انکار اور ہٹ دھرمی پر خود مختار پاکستان کا مطالبہ کر دیا۔ جناح کے خطبات میں وہ ’’تاریخی شعور‘‘ پوری طرح جھلکتا ہے جس کا ابتدائی سطروں میں ذکر ہوا۔ اس تاریخی شعور کی زمین سے ہی مستقبل کا خاکہ یعنی پاکستان تعمیر ہوا۔ اکیسویں صدی کی مسلم لیڈر شپ کو طے کرنا ہوگا کہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے تشخص کی سلامتی دستوری، عسکری، تبلیغی اور معاشرتی میدانوں میں کس قسم کے اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں ۔ان میں سے کسی ایک پر زور دینا ہوگا یا سبھی سمتوں میں متوازی انداز میں آگے بڑھنا ہوگا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ان کی Presentation کیسے ہوگی؟ مثلاً برصغیر میں دستوری اقدامات کے حوالے سے مسلم مفادات کو جداگانہ انتخابات کی صورت میں پیش کیا گیا۔ اسی طرح مطالبہ پاکستان کی Presentation دو قومی نظریہ اور ’پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ‘ کی صورت میں ہوئی۔ لہٰذا نہایت ضروری امر ہے کہ اپنے عہد کی نبض سمجھنے کے ساتھ ساتھ اقدامات کی Presentation خاصے ڈھنگ سے ہو۔
موجودہ عہد کی تفہیم کے ضمن میں ایک نکتہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ہماری کاوشیں جغرافیائی اور مقامی ہونی چاہییں نہ کہ غیر جغرافیائی اور عالمی۔ یہ حقیقت ہے کہ گلوبلائزیشن سے غیر جغرافیائی عوامل تقویت پکڑ رہے ہیں لیکن دوسری طرف گلوبلائزیشن کے دباؤ سے علاقائیت اور مقامیت بھی رد عمل کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ ہمیں اسلامی عالم گیریت میں موجود مقامی عناصر کو منصہ شہود پر لانا ہوگا تاکہ غلط فہمیاں پیدا نہ ہو سکیں۔
مسلم احیا کے لیے اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے ہمیں ایسے افراد اور انجمنیں تلاش کرنی ہوں گی جن کا تعلق ہمارے مخالفین سے ہو لیکن غیر جانب دار اور سلیم الفطرت ہونے کے ناتے وہ ہمارے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوں۔ ایسا گروہ نہ صرف ہماری حمایت کرے گا بلکہ ایک خاص پہلو سے راہنمائی بھی کرے گا۔ مخالفین میں سے ہونے کے ناتے اس گروہ کی رسائی ہمارے مخالفوں کے افکار واعمال کے داخلی ڈھانچے تک بھی ہوگی جس سے ہماری منصوبہ بندی کافی حد تک ممکنہ نقائص سے پاک رہے گی۔ دنیا میں جتنی بھی تحریکات کام یاب ہوئیں، جتنے بھی انقلابات برپا ہوئے، ان میں اس مخصوص گروہ کا کردار نہایت اہم رہا۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ صرف ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب کو ہی دیکھ لیجیے۔ اس میں Narodniks نے بہت فعال کردار ادا کیا۔ (Narodnikism ایک روسی اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے:کسانوں کے ساتھ مواخات)انڈیا، مشرقی یورپ اور دیگر یورپی کالونیوں میں بھی اعلیٰ طبقے کے مقامی لوگوں اور ہم دردی رکھنے والے صاحب اقتدار غیر ملکیوں نے عوام کو انقلاب کی راہ رکھائی۔
مسلم احیا کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک تقاضا خو دتنقیدی ہے یعنی اس سفر پر روانہ ہونے کے بعد ہر وقت الرٹ رہنا کہ کیا ہم سچ مچ صحیح سمت میں جا رہے ہیں؟ کیا ہم حقیقی معنوں میں تاریخی شعور کے حامل ہیں؟ کیا ہم نے ماضی قریب کی اسلامی تحریکات کی ناکامی کا تجزیاتی جائزہ لیتے ہوئے درست نتائج اخذ کیے ہیں؟ ہمیں جوش وجذبے کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن کام یابی پانے کے لیے تشکیک اور خود تنقیدی بہت ضروری ہے۔ امریکی انقلاب پر تحقیق کرنے والے محققین کی رائے ہے کہ اس انقلاب کا نہایت اہم پہلو دوران انقلاب اپنے اقدامات پر انتہائی سختی سے ’’سوالات‘‘ کرنا تھا۔ اگر اٹکل پچو انداز اپنایا جاتا تو یقیناًانقلابیوں کے سارے تیر بے ہدف ثابت ہوتے۔
مذکورہ بالا بحث کے ذیلی پہلوؤں پر مشتمل تفصیلی بساط بچھائی جا سکتی ہے لیکن طوالت کے خوف سے اس سے اغماض برتا گیا ہے: تو خود حدیث مفصل بخواں ازیں مجمل۔