دار العلوم دیوبند محض ایک دینی مدرسہ اور تعلیمی وتربیتی ادارہ ہی نہیں بلکہ ایک عظیم دینی‘ علمی اور اصلاحی تحریک کا عنوان ہے جس نے ملت اسلامیہ کو فکر ونظر کی طہارت وپاکیزگی‘ قلب وجگر کو عزم واستقامت اور جسم وجان کو تازگی وتوانائی بخشنے میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اقامت دین اور حریت فکر کی یہی ہمہ گیر تحریک آج ’’دیوبندیت‘‘ کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔یہ دیوبندیت کوئی جدید مذہب یا فرقہ نہیں بلکہ سلف صالحین سے متوارث قدیم مسلک اہل سنت والجماعت کا ایک متوازن وجامع مرقع ہے جس میں اہل سنت والجماعت کی تمام شاخیں مربوط اور ہم آہنگ ہو گئی ہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال لاہوریؒ سے کسی نے ایک موقع پر پوچھا تھا کہ یہ دیوبندیت کیا چیز ہے؟ یہ کوئی مذہب وفرقہ ہے؟ تو انہوں نے نہایت مختصر مگر جامع الفاظ میں فرمایا کہ ’’یہ مذہب ہے نہ فرقہ بلکہ ہر معقول پسند آدمی کا نام دیوبندی ہے۔‘‘ ایک جملے میں دیوبندیت کی یہ حقیقت نما تعریف انہیں کے کمال فکر وادب کا حصہ ہے۔
ہندوستان کی سیاسی وثقافتی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ سلطنت مغلیہ کے زوال کے دوران ہر قسم کا بگاڑ پیدا ہو گیا تھا۔ شریعت کی جگہ رسوم نے‘ عقیدہ کی جگہ توہمات نے اور سیاست کی جگہ سازشوں نے لے لی تھی۔ علماء دین اور مشائخ ارشاد بھی‘ جن کا معاشرہ کی اصلاح میں اہم کردار رہا ہے‘ اس عمومی زبوں حالی سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکے تھے اور مسلکی وطبقاتی تشتت وانتشار کا شکار ہو کر ایک دوسرے سے دست وگریباں تھے۔ فقہا صوفیوں کو ذہنی اوہام کا اسیر‘ باطل تخیلات میں گرفتار اور گم کردہ راہ بتاتے تھے اور صوفیا فقیہوں کو محروم باطن‘ ظاہر پرست اور ذوق شریعت سے عاری ٹھہراتے تھے۔ علماء حدیث متکلمین کو عقل کا غلام اور نصوص کتاب وسنت سے بے گانہ کہتے تھے اور علماء کلام محدثین کو لفظی تعبیرات میں گم بندۂ ظواہر کا طعنہ دیتے تھے اور اس طبقاتی آویزش میں اس قدر شدت پیدا ہو گئی تھی کہ اس نے باہمی نزاع کی صورت اختیار کر لی تھی اور ہر طبقہ دوسرے کے ابطال بلکہ تکفیر پر آمادہ نظر آتا تھا۔ تحریک دار العلوم دیوبند نے اپنے مبنی بر اعتدال اور جامع مسلک میں‘ جو در حقیقت حکیم الامت امام کبیر شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی دعوت اصلاح وانقلاب کا نقش ثانی اور عکس جمیل ہے‘ حدیث‘ تفسیر‘ فقہ‘ اصول فقہ‘ کلام‘ تصوف‘ حقیقت ومعرفت وغیرہ جملہ اسلامی علوم وفنون اور احوال ومقامات کو مناسب ترتیب سے جمع کر دیا کہ تمام اسلامی علوم وفنون اپنی بھرپور افادیت کے ساتھ ہار کے موتیوں کی طرح ایک سررشتہ میں منسلک ہو گئے جس سے مسلکی اور علمی طبقات کے ایک نقطہ پر جمع ہونے کی صورت پیدا ہو گئی۔ بالفاظ دیگر یوں سمجھئے کہ تحریک دار العلوم دیوبند یا دیوبندیت کے دو بنیادی عنصر ہیں: ایک علمی اور دوسرا اخلاقی، اور یہ دونوں عنصر اپنے دامن اعتدال وجامعیت میں تمام اسلامی طبقوں اور مسلکوں کے مغز اور روح کو سمیٹے ہوئے ہیں، اس لیے دیوبندیت صحیح معنوں میں سارے علمی واخلاقی طبقات کا مرکز اجتماع ہے۔
دار العلوم دیوبند کے فضلا اور ان فضلا کے تلامذہ نے دیوبندیت کے اسی مذکورہ علمی وفکری منہاج پر اپنے اپنے علاقوں اور دائرۂ اثر ورسوخ میں اسلامی مدرسے اور تعلیمی درس گاہیں قائم کیں۔ یہ سارے ادارے اپنی مستقل حیثیت رکھنے کے باوجود اصولاً اسی نظام شمسی (دار العلوم دیوبند) کے ستارے ہیں جن کی ضیا پاش کرنوں سے نہ صرف برصغیر کا علمی ودینی گوشہ گوشہ تاب ناک ہے بلکہ پورے بر اعظم ایشیا اور اس سے بھی گزر کر افریقہ اور یورپ کے دور دراز بر اعظموں کو بھی علم وہدایت کے اجالے پہنچا رہے ہیں۔ اس طرح دار العلوم دیوبند کی یہ دینی‘ علمی اور اصلاحی تحریک جس کا آغاز ہندوستان کے ایک غیر معروف‘ گم نام قصبے سے ہوا تھا‘ آج ایک عظیم عالم گیر تحریک کی حیثیت سے بین الاقوامی برادری میں اپنی خاص پہچان رکھتی ہے۔ دیوبندی فکر کے حامل دنیا میں پھیلے سارے دینی مدارس دراصل اسی شجرۂ طوبیٰ کی شاخیں ہیں۔ اصل وفرع کا یہ ایسا اٹوٹ رشتہ ہے جو رد وقبول کے رسمی ضابطوں سے بالاتر اور قرب وبعد کی حدوں سے بے نیاز اور معنوی تقسیم وتجزیہ سے ماورا ہے۔
دار العلوم دیوبند اور اس کے فکر وعمل سے ہم آہنگ ان مدارس اسلامیہ میں ایک معقول تعداد ایسے مدرسوں کی بھی ہے جو ہندوستان کی آزادی سے بہت پہلے سے قائم ہیں اور بغیر کسی انقطاع کے مسلسل علم وتہذیب کی روشنی پھیلانے میں مصروف کار ہیں جنہیں سامراجی حکومت بھی اچھی نظر سے دیکھتی تھی اور ان کی علم پروری‘ انسانیت نوازی اور وطن دوستی کی کھلے دل سے معترف تھی۔
غرضیکہ ہندوستان میں موجود ان مدرسوں نے اپنی تعلیم وتربیت کے ذریعے سے جہاں اسلامی علوم وفنون کے ماہرین پیدا کیے‘ جن کی علمی خدمات کی بدولت دنیا میں ہندوستان کا نام سربلند اور روشن ہوا‘ وہیں زندگی کے ہر شعبے کے لیے فرض شناس‘ دیانت دار رجال کار بھی فراہم کیے جن سے براہ راست ملک کے استحکام وترقی میں غیر معمولی تعاون ملا ہے۔ اعلیٰ انسانی قدروں کے فروغ‘ تہذیب وتمدن اور حسن معاشرت کو رواج دینے میں ان مدرسوں نے جو قابل قدر خدمات انجام دی ہیں‘ ان کے پیش نظر بغیر کسی تردد کے کہا جا سکتا ہے کہ ایک منصف مزاج‘ حقیقت شناس‘ تعصب وتنگ نظری سے بری تجزیہ نگار جب حکومتوں کے مصارف اور امداد وتعاون سے چلنے والے تعلیمی اداروں اور ان مدرسوں کی علمی‘ سماجی خدمات کا تفصیلی جائزہ لے گا تو سرکاری تعلیمی اداروں کے مقابلے میں مدارس کی وسیع تر انسانیت نواز خدمات کی تحسین کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
مگر آج کے آزاد بھارت میں، جو دستوری اعتبار سے جمہوریت اور سیکولرازم کا پابند ہے‘ آئین وقانون کی رو سے جہاں ہر مذہبی ولسانی اکائیوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا مکمل حق حاصل ہے‘ ایک خاص فکر وذہن اور سیاسی نقطہ نظر کے تحت سرزمین ہند سے اسلامی مدرسوں کو مٹا دینے یا کم از کم انہیں تہذیبی طور پر بے جان بنا دینے کی ملک گیر پیمانے پر مہم چلائی جا رہی ہے اور عصری سیاست کے ماہر میکاولی کی اس تھیوری کے مطابق کہ ’’اپنے دشمن کو مارنے سے پہلے ضروری ہے کہ اسے خوب بدنام کیا جائے‘‘ انسانی قدروں کے محافظ ان مدرسوں کو بغیر کسی معقول بنیاد اور قانونی ثبوت کے دہشت گرد بتایا جا رہا ہے اور حیرت تو اس پر ہے کہ دہشت گردی جن لوگوں کی سرشت میں پیوست ہے‘ جن کا دامن حیات دہشت گردی کے سیاہ داغوں سے تیرہ وتاریک ہے‘ جن کی دہشت گردیوں سے ملک کی سب سے زرخیز اور ہر اعتبار سے شاد وآباد ریاست کھنڈر میں تبدیل ہو گئی ہے‘ جن کے دہشت گردانہ حملوں سے زندوں کے مکانات‘ مردوں کے مزارات‘ اقلیتوں کی عبادت گاہیں ہی نہیں بلکہ ریاست کی اسمبلیاں تک محفوظ نہیں ہیں، جن کی دہشت گردیوں کی شہادت مظلوم اقلیتوں کے خون سے لت پت ارض وطن کا چپہ چپہ دے رہا ہے‘ آج یہی لوگ ان مدارس کو دہشت گرد بتاتے ہیں جن کی سلامت روی‘ امن پروری اور وطن دوستی کے اپنے ہی نہیں‘ پرائے تک معترف ہیں۔ اسی جون‘ جولائی کے مہینوں میں فرانس اور جرمنی کے سفرا برائے ہند نے دیوبندی مکتب فکر سے متعلق براہ راست معلومات فراہم کرنے اور صحیح حقائق کو جاننے کی غرض سے دار العلوم دیوبند آکر یہاں کے نظام تعلیم وتربیت کا بغور مطالعہ کرنے‘ طلبہ واساتذہ اور انتظامیہ سے براہ راست گفتگو کرنے کے بعد اپنے تحریری معائنے میں صاف لفظوں میں اس کا اعتراف کیا کہ دار العلوم دیوبند اور دیوبندی مکتبہ فکر کے بارے میں آج کل جو باتیں پھیلائی جا رہی ہیں‘ ان کا حقائق وواقعات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ بالخصوص جرمنی کے نائب سفیر نے تو دار العلوم دیوبند میں چوبیس گھنٹے سے زائد گزارے اور درس گاہوں میں جا کر اساتذہ کی درسی تقریریں سنیں‘ طلبہ کے حجروں میں پہنچ کر ان کے رہن سہن اور طرز زندگی کو سمجھنے اور ان سے طویل گفتگو کر کے ان کے عندیہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اس تفصیلی تحقیق وتفتیش کے بعد وہ اس درجہ متاثر ہوئے کہ حضرت مہتمم صاحب مدظلہ سے عرض کیاکہ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں کے اساتذہ کا ایک وفد ہمارے یہاں جرمن آئے اور وہاں آباد مسلمانوں کو اپنے خیالات اور طرز معاشرت سے آگاہ کرے اور مزید برآں دہلی واپس جا کر دار العلوم دیوبند کے بارے میں انگریزی اخبارات میں ایک مضمون بھی شائع کرایا جس میں اس کے بارے میں نہایت اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
یہ ہے دار العلوم دیوبند اور دیوبندیت کی غیروں کی نظر میں سچی تصویر جسے خود دیش باشی اپنے سیاسی مقاصد اور تنظیمی مفاد کے تحت دہشت گرد بتا رہے ہیں اور دنیا کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے اہل کاروں سے جھوٹی رپورٹیں اور آرٹیکل تحریر کرا کے عالم گیر پیمانے پر انہیں نشر کیا جا رہا ہے:
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
لیکن یہ اغراض پسند اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ جب تک ہندوستان میں آئین وانصاف کی عمل داری باقی ہے‘ حق وباطل میں امتیاز کرنے کی صلاحیت زندہ ہے‘ تہذیب وشرافت کا بول بالا ہے اور انسانی قدروں کا احترام جاری ہے‘ یہ لوگ اپنے مذموم سیاسی مقاصد میں کام یاب نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ان جھوٹے‘ من گھڑت پروپیگنڈوں سے علم وتہذیب کے ان سرچشموں کو گدلا کر سکتے ہیں کیونکہ سچائی اور صداقت بہرحال زندہ وپائندہ رہتی ہے اور جھوٹ وفریب کی قسمت میں تباہی وبربادی ہی ہے۔ جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا۔
(بشکریہ ماہنامہ ’’دار العلوم‘‘ دیوبند)