۲۴۔ اگست ۲۰۰۲ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں چالیس روزہ ’’خصوصی مطالعاتی کورس‘‘ کی اختتامی تقریب اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کی زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں ناظم سٹی تحصیل گوجرانوالہ الحاج بابو جاوید احمد نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی نے ’’تحفظ عقیدۂ ختم نبوت کے چند ضروری تقاضے‘‘ کے موضوع پر کورس کے شرکا کو لیکچر دیا۔ تقریب میں شہر کے سرکردہ علماء کرام اور معززین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور مولانا چنیوٹی کی دعا پر تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
الحاج بابو جاوید احمد نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مسائل اور مشکلات کی اصل وجہ دینی تعلیمات سے دوری ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ دین کی دعوت اور تبلیغ کے عمل کو وسیع کیا جائے اور نئی نسل کو قرآن کریم اور سنت نبوی کی تعلیمات وہدایات سے روشناس کرانے کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت کی جائے۔
مولانا منظور احمد چنیوٹی نے کہا کہ ’’عقیدۂ ختم نبوت‘‘ اسلام کی بنیاد ہے اس لیے کہ نیا نبی قبول کرنے سے دین کی ہر بات کی تبدیلی کا امکان پیدا ہو جاتا ہے لہٰذا عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ پر ہی دین اسلام کے تحفظ کا دار ومدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ منکرین ختم نبوت بالخصوص قادیانیوں کی سرگرمیاں دنیا بھر میں پھیلتی جا رہی ہیں اور زیادہ تر سادہ لوح مسلمان ان کے دام ہم رنگ زمیں کا شکار ہوتے ہیں اس لیے علماء کرام اور دینی اداروں کو چاہیے کہ وہ عام مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کو اس فریب سے بچانے کے لیے محنت کریں۔
مولانا زاہد الراشدی نے الشریعہ اکادمی کی سالانہ تعلیمی رپورٹ تقریب کے شرکا کی خدمت میں پیش کی اور اس موقع پر بتایا کہ درس نظامی کے فضلا کے لیے ایک سالہ خصوصی کورس ترتیب دیا جا رہا ہے جس میں تاریخ اسلام‘ تقابل ادیان‘ سیاسیات‘ صحافت‘ معاشیات‘ نفسیات‘ بین الاقوامی قوانین ونظام کا تقابلی مطالعہ‘ کمپیوٹر ٹریننگ اور انگریزی زبان کے کورس کے ساتھ ساتھ امام ولی اللہ دہلویؒ کے فلسفہ وافکار پر مشتمل ضروری مضامین شامل ہوں گے اور تحقیق ومطالعہ اور مضمون نویسی کی مشق بھی کرائی جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
چالیس روزہ کورس کے ایک شریک طالب علم مولوی فضل رحیم صاحب آف مانسہرہ نے تقریب میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ان چالیس دنوں میں بہت کچھ سیکھا ہے اور ہمیں پہلی بار اس بات کا صحیح طور پر اندازہ ہوا ہے کہ آج کی دنیا کے تقاضے کیا ہیں اور ہمیں آج کے ماحول میں اسلام کی دعوت وتبلیغ اور دین کی خدمت کے لیے کیا کچھ سیکھنے اور کرنے کی ضرورت ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہماری تجویز ہے کہ اس قسم کے کورسز کا دائرہ اور دورانیہ وسیع کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ علما اور طلبہ اس سے استفادہ کریں۔
۲۰۰۱/ء۲۰۰۲ء کی تعلیمی رپورٹ
الشریعہ اکادمی میں ۲۰۰۱/۲۰۰۲ء کے تعلیمی سال میں مندرجہ ذیل کورسز پڑھائے گئے:
انگلش لینگویج کورس:
دینی مدارس کے طلبہ کے لیے تین ماہ کا انگلش لینگویج کورس جو اپریل تا جون جاری رہا اور اس میں ۳۲طلبہ نے شرکت کی۔
کمپیوٹر ٹریننگ کورس:
دینی مدارس کے طلبہ کے لیے کمپیوٹر ٹریننگ کا تین ماہ کا کورس جو اپریل تا جون جاری رہا اور اس سے ۶۰ طلبہ نے استفادہ کیا۔
چالیس روزہ خصوصی مطالعاتی کورس:
موسم گرما کی تعطیلات کے دوران چالیس روزہ خصوصی مطالعاتی کورس کا اہتمام کیا گیا جس میں مندرجہ ذیل حضرات نے شرکت کی:
۱۔ مولوی خرم شہزاد آف نواب شاہ ۲۔ مولوی محمد نعیم آف وہاڑی ۳۔ مولوی خلیل احمد فاروقی آف کرک
۴۔ مولوی کلیم اللہ طاہر آف کرک ۵۔ حافظ نثار احمد آف حافظ آباد ۶۔ مولوی اشرف علی آف راول پنڈی ۷۔ مولوی محمد ابراہیم خٹک آف کرک ۸۔ مولوی فضل رحیم آف مانسہرہ ۹۔ مولوی محمد ذکر اللہ آف فاریاب ۱۰۔ مولوی عابد رضا آف ملتان ۱۱۔ قاری محمد داؤد خان نوید آف گوجرانوالہ
ان طلبہ کے لیے ۱۔ حجۃ اللہ البالغہ کے منتخب ابواب کے علاوہ ۲۔ بین الاقوامی قوانین کے ساتھ اسلامی قوانین کے تقابل‘ ۳۔ یہودیت ومسیحیت کی تاریخ‘ ۴۔ مرحلہ وار تاریخ اسلام‘ ۵۔ ابتدائی معاشیات‘ ۶۔ ابتدائی سیاسیات‘ ۷۔ انگلش لینگویج‘ ۸۔ کمپیوٹر ٹریننگ اور ۹۔ مضمون نویسی کی مشق کے حوالے سے لیکچرز‘ مطالعہ اور بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔ اساتذہ میں مولانا زاہد الراشدی‘ حافظ محمد عمار ناصر‘ پروفیسر میاں انعام الرحمن‘ یحییٰ خرم اور مولانا محمد یوسف شامل تھے۔
درجہ اولیٰ (صرف ونحو):
اس کے علاوہ درجہ اولیٰ میں صرف ونحو کی ایک کلاس بھی چل رہی ہے جس میں چار طالب علم شریک ہیں۔
عربی گریمر وترجمہ قرآن مجید:
عربی گریمر کے ساتھ ترجمہ قرآن کریم کی کلاس ڈیڑھ سال سے جاری ہے۔ اس میں آٹھ طلبہ شریک ہیں اور دس پاروں کا ترجمہ وتفسیر مکمل ہو چکا ہے۔