۱۹۴۷ء سے لے کر اب تک وطن عزیز کو کئی مسائل سے سابقہ رہا ہے۔ ان میں سے سرفہرست تین کی ترتیب یوں بیان کی جاتی ہے:
۱۔ ملکی سلامتی کا تحفظ
۲۔ معیشت کی بحالی اور مضبوطی
۳۔ عوامی امنگوں کے مطابق دستوری نظام
حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں آپس میں باہم مربوط ہیں لیکن ان کی ترتیب ٹھیک نہیں رکھی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسائل کے انبار تلے دبتے چلے جارہے ہیں کیونکہ مسائل کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ ان کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے دی گئی ترتیب بھی کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ترتیب اس طرح ہونی چاہیے تھی:
۱۔ عوامی امنگوں کے مطابق دستوری نظام
۲۔ معیشت کی بحالی اور مضبوطی دستور کے احترام سے مشروط ہے۔
۳۔ درج بالا دو امور پورے ہونے سے ملکی سلامتی خود بخود محفوظ ہو جاتی کیونکہ ملکی سلامتی کو بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات لاحق رہے ہیں۔
ہماری تاریخ شاہد ہے کہ ملکی سلامتی کو مرکزی اہمیت دینے سے بھی ملک سلامت نہیں رہا۔ اگر دستور کو مرکزی اہمیت دی جاتی تو بہتری کی خاصی گنجائش موجود تھی۔
ہمارے بنیادی دستوری مسائل تین ہیں:
۱۔ طالع آزماؤں سے دستور کا بچاؤ
۲۔ دستور کی اسلامائزیشن
۳۔ وفاق اور صوبوں میں تقسیم اختیارات بشمول مرکزی مقننہ کے دونوں ایوانوں کے مابین اختیارات کا توازن
جہاں تک دستور کی اسلامائزیشن کا تعلق ہے تو پاکستان کی تاریخ میں ہم نے سب سے پہلا دستوری قدم ۱۹۴۹ء میں قرارداد مقاصد کی صورت میں اٹھایا جس میں ملک کا سپریم لا قرآن وسنت کو قرار دیا گیا۔ اس قرارداد کو ۵۶ء‘ ۶۲ء اور ۷۳ء کے دساتیر کے دیباچے کی زینت بنایا گیا۔ صدر ضیاء الحق نے جو چند اچھے کام کیے‘ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آٹھویں ترمیم کے ذریعے سے قرارداد مقاصد کو دستور کا قابل نفاذ حصہ بنا دیا۔ ہمارا پہلا دستوری قدم نفاذ کے اعتبار سے ابھی تشنہ تکمیل ہے۔
اس کے سب سے بنیادی مسئلہ تقسیم اختیارات کا ہے ، وفاق اور صوبوں کے مابین اور مرکزی مقننہ کے دونوں ایوانوں کے مابین۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں آٹھویں ترمیم کے بعد بھی ایوان بالا یعنی سینٹ خاصا کمزور ایوان ہے۔ اس ایوان کے پاس مالیاتی اختیار نہیں۔ کہتے ہیں جس کے پاس مالیاتی کنٹرول ہو‘ وہی طاقت کا حامل ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایوان بالا اور ایوان زیریں میں اختیارات کے حوالے سے توازن رکھا جائے کیونکہ یہی وہ ایوان ہے جس میں ہر صوبے کی مساوی نشستیں ہیں۔ امریکی سینٹ کی طرح ایوان بالا کو بہت زیادہ طاقت ور بنانے کی بھی ضرورت نہیں۔ بہرحال انفارمیشن کے موجودہ سیلاب میں چھوٹے صوبے ’’محدود اختیارات‘‘ پر قانع نہیں ہو سکتے۔ باخبری کے اعتبار سے وہ ’’بڑے‘‘ ہو گئے ہیں۔
ملک کی داخلی سلامتی کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے کہ دستور کی کلی اسلامائزیشن کے ساتھ ساتھ صوبوں کو مالیاتی اختیارات سے نوازا جائے۔ جہاں تک مرکزیت اور قومی وحدت کا تعلق ہے‘ اسلامائزیشن بہت موثر اور مثبت کردار ادا کرے گی۔ میرا خیال ہے کہ دستوری اعتبار سے مضبوط مرکز کے بجائے سماجی وحدت کا حامل مرکز زیادہ مفید ثابت ہوگا۔ شعبہ تعلیم کی مرکزیت سے سماجی وحدت حاصل کی جا سکتی ہے۔ پورے ملک کے لیے یکساں نظام تعلیم ہونا چاہیے جو مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہو اور اس کے اخراجات کی مد میں مرکزی حکومت کو ٹیکس لگانے کا بھی اختیار ملنا چاہیے۔ یہ کام وہی حکومت کر سکتی ہے جو قومی وحدت اور ملکی سلامتی کے لیے واقعی سنجیدہ ہو۔
اور اب آئیے دیکھیں کہ دستور سے کمٹ منٹ کے حوالے سے ہمارا ریکارڈ کیا ہے؟
۱۔ سب سے پہلے تو یہ نکتہ وضاحت طلب ہے کہ ۱۹۴۰ء میں قرارداد لاہور میں یہ طے پا جانے کے بعد کہ ہماری منزل پاکستان ہے‘ متوقع پاکستان کے متوقع دستور کے خدوخال ابھارنے کے لیے سات سال کے عبوری دور میں ہوم ورک کیوں نہیں کیا گیا؟ قائد اعظم کی جدوجہد ’’دستوریت‘‘ سے عبارت تھی۔ اس مخصوص نوعیت کی جدوجہد کے تناظر میں ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے ظہور کے وقت مملکت خداداد کا اپنے دستور سے تہی دامن ہونا خاصا حیران کن ہے۔ شاید ہم مسلمان دور اندیش نہیں ہیں۔ عین وقت پر ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ قسم کے کام کرتے ہیں۔ ۴۷ء میں بھی ہم نے ۳۵ء کے ایکٹ کو عجلت میں نافذ کر دیا۔
۲۔ ’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے، خواجہ صاحب! نہ آپ لیاقت علی خاں ہیں نہ میں ناظم الدین ہوں۔‘‘ گورنر جنرل غلام محمد نے یہ جواب اسمبلی کی اکثریتی جماعت کے لیڈر وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو دیا تھا جن کی حکومت کو گورنر جنرل نے ۳۵ء کے آئین کی دفعہ ۱۰ کے تحت برطرف کر دیا تھا حالانکہ آزادی کے بعد قانون آزادی ہند کی رو سے گورنر جنرل ایسا اقدام اٹھانے کا مجاز نہیں تھا۔ گورنر جنرل کا مذکورہ جواب اس نفسی کیفیت اور رجحان کو نمایاں کرتا ہے جس کے مطابق ان دنوں ریاست کا نظم ونسق چلایا جا رہا تھا۔ اس کو ہم ’’شخصی بنیاد‘‘ کہہ سکتے ہیں یعنی جیسی شخصیت ہو، دستوری تقاضوں سے قطع نظر عہدے کی اہمیت میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ بے اصولی بنیادی اصول تھا۔ پاکستان کی سیاسی اور دستوری تاریخ کا المیہ یہی ہے کہ ایک طرف شخصی انتہا پسندی ہے اور دوسری ’’سمجھوتے‘‘ کی انتہا۔
گورنر جنرل غلام محمد نے بے اصولی کو راہ پاتے دیکھ کر، اپنے پہلے ’’کمانڈو ایکشن‘‘ سے شہ پا کر شخصی انتہا پسندی کا وہ قدم اٹھایا جس کی تاریکیاں اور پرچھائیاں آج بھی ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۵۴ء کا اعلان آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے جس میں اسمبلی کی ’’تنسیخ‘‘ کا لفظ شامل نہیں تھا۔ ۲۸؍ اکتوبر کو دفعہ ۱۴۴ لگا کر کسی بھی قسم کے عوامی اجلاس پر دو ماہ کے لیے پابندی عائد کر کے صورت حال کو کنٹرول کر لیا گیا۔ اس طرح اسمبلی عملاً تحلیل ہو گئی۔ اسمبلی کا اجلاس ۲۱ ستمبر کو ختم ہو چکا تھا تاہم مولوی تمیز الدین نے، جو اسمبلی کے صدر تھے، گورنر جنرل کے اس اقدام کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں کا اجلاس جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن وزیر داخلہ سکندر مرزا نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے کمانڈو ایکشن کو بھی کام یابی سے ہمکنار کر دیا۔
مولوی تمیز الدین اور سندھ چیف کورٹ نے جرات سے کام لے کر گورنر جنرل کی ’’میں‘‘ کو ذلیل ورسوا کر دیا۔جواب آں غزل کے مصداق گورنر جنرل نے سندھ کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں نہ صرف اپیل دائر کر دی بلکہ ’’پرچی سسٹم‘‘ بھی متعارف کروایا۔ برطانوی دستوری ماہر سر آئیور کی خدمات حکومت نے حاصل کر رکھی تھیں۔ انہوں نے دستوری اصولیت سے قطع نظر، خالصتاً پیشہ ورانہ انداز میں اپنے کلائنٹ کی جیت کے لیے ایسی ایسی نکتہ سنجیوں کا مظاہرہ کیا جنہیں اب بذلہ سنجیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ سر آئیور اور جسٹس منیر کی مشترکہ کوششوں سے جو فیصلہ سامنے آیا، اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں کو کتنی تگ ودو اور جتن کر کے کھینچ تان کر ’’پرچی‘‘ کے مطابق فیصلہ دینے کے لیے کوئی نکتہ گھڑنا پڑا۔ اس فیصلے میں اسمبلی کی تنسیخ کے حوالے سے گورنر جنرل کے اختیار کی بابت ذکر تک نہیں کیا گیا بلکہ حکومت وقت کی خوشنودی کے لیے فیصلہ یوں دیا گیا کہ ’’اسمبلی کی تنسیخ کو کالعدم کرنے کے حوالے سے سندھ چیف کورٹ کا رٹ کی اجازت دینے کا حکم منسوخ کر دیا گیا۔‘‘ فیڈرل کورٹ کا یہ فیصلہ ۲۴ اکتوبر کے اعلان سے بھی زیادہ عجیب وغریب تھا جس میں اصل سوال کو گول کر دیا گیا۔
ایوب خان کے نقش قدم پر
جنرل پرویز مشرف کی طرح ایوب خان نے بھی کہا تھا کہ ہمارا اصل مسئلہ ’’اندرونی‘‘ ہے‘ پاکستان کو کوئی بیرونی خطرہ لاحق نہیں۔ بلاشبہ دونوں کی بات میں بہت وزن ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایوب خان نے مسئلے کے ادراک کے بعد درست سمت میں پیش رفت کی تھی؟ کیا ہمارے موجودہ De facto صدر بھی درست اقدامات کر رہے ہیں؟ آئیے ہلکے پھلکے انداز میں موازنہ اور تجزیہ کریں۔
کسے معلوم نہیں کہ صدر ایوب کی کوشش تھی کہ پاکستان کا سرکاری نام ’’جمہوریہ پاکستان‘‘ ہی رائج کیا جائے اور ’’بنیادی حقوق‘‘ کو دستور میں جگہ نہ دی جائے لیکن عوامی احتجاج اور اسلام پسند حلقوں کے رد عمل سے خائف ہو کر نہ صرف بنیادی حقوق کو دستوری ضمانت دی گئی بلکہ پاکستان کا سرکاری نام بھی ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار پایا۔ ہمارے موجودہ صدر بھی دستور کی اسلامی شقوں سے چھیڑ خانی کرنا چاہتے ہیں۔
یہ بھی سب مانتے ہیں کہ ۱۹۶۲ء کے دستور کو صدر ایوب کی خواہشات کے مطابق ترتیب دیا گیا تھا۔ دستور میں صدر کے اختیارات کو دیکھتے ہوئے جسٹس کیانی نے اسے فیصل آباد کا گھنٹہ گھر قرار دیا تھا کہ سبھی بازار اس چوک میں آکر مل جاتے ہیں یعنی صدر نہ ہوا‘ اختیارات کا چوک ہو گیا۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ ان اختیارات سے بھی ایوب خان کی تسلی وتشفی نہ ہو سکی اور مختلف حیلوں بہانوں سے اختیارات کے ارتکاز کا سلسلہ جاری رہا۔ جس طرح دستور کی چوتھی اور چھٹی ترامیم معرض وجود میں آئیں‘ ان کا مطالعہ دل چسپی سے خالی نہیں ہے۔ دسمبر ۱۹۶۲ء میں وزارت خزانہ نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے سے سرکاری ملازموں کی ریٹائرمنٹ کے لیے عمر کی حد ۶۰ سال کر دی لیکن دو سال اور دس ماہ بعد حکومت کو احساس ہوا کہ ایسا کر کے غلطی کی گئی ہے لہذا ۱۱؍ اگست ۱۹۶۵ء کو باقاعدہ دستوری ترمیم کے ذریعے سے (جو کہ چوتھی ترمیم تھی) مرکزی اور صوبائی ملازمین کی عمر ریٹائرمنٹ کے لیے ساٹھ سال سے کم کر کے ۵۵ سال کر دی گئی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ چوتھی ترمیم کے صرف سات ماہ بعد یعنی ۲۱ مارچ ۱۹۶۶ء کو چھٹی ترمیم کی گئی کیونکہ چوتھی ترمیم صدر ایوب کی طالع آزمائی کے لیے درکار تحفظات فراہم کرنے میں موثر ثابت نہیں ہوئی تھی۔ چھٹی ترمیم کے ذریعے سے واضح کیا گیا کہ نہ صرف صدر یا گورنر ۵۵ سال کی عمر ہونے پر کسی کو ریٹائر کر سکتے ہیں بلکہ ریٹائرمنٹ کی عمر پوری ہونے پر اپنی مرضی سے اپنی مرضی کی شرائط پر کسی بھی ملازم کی سروس میں توسیع بھی کر سکتے ہیں۔
ظاہر ہے دل میں چور تھا۔ اس ترمیم سے سرکاری ملازموں کو مکمل طور پر اپنے ہاتھوں میں لینا مقصود تھا لہذا محنت‘ دیانت اور فرض شناسی کے بجائے کاسہ لیسی معیار بن گئی۔ قوم اور ملک کی خدمت کے بجائے چند افراد کو خوش رکھنے سے کوئی بھی ملازم زندگی انجوائے کر سکتا تھا۔ ان ترامیم کے مضمرات امریکی سپائل سسٹم (Spoil System) کی یاد تازہ کر دیتے ہیں جس کے مطابق امریکی صدر من پسند افراد کو اہم پوسٹوں پر تعینات کر سکتا تھا۔ نیا آنے والا صدر ان افراد کو ہٹاکر اپنی مرضی کے افراد بھرتی کرتا تھا۔ اس سسٹم کے نقائص کے پیش نظر امریکیوں نے بیسویں صدی میں اس کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ قواعد کے مطابق اور میرٹ پر ہر کام سرانجام پانے لگا۔ پاکستان میں ایک معکوس عمل ہوا ہے۔ قواعد پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے بجائے ان کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ جس ملک کے طالع آزما دستور کو بھی نہ بخشیں‘ وہاں لاقانونیت ہی فروغ پا سکتی ہے۔
ہمارے موجودہ صدر ’’رٹ آف گورنمنٹ‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ کیا وہ خود اس کا لحاظ کرتے ہوئے اقتدار میں آئے ہیں؟ سرکاری ملازموں کی جو اکھاڑ پچھاڑ وسیع تر قومی مفاد اور معیشت کی بحالی کے نام پر کی جا رہی ہے‘ کیا وہ ایوبی اقدامات سے مماثل نہیں؟ ایڈہاک لیکچرز کی چھٹی کروا کر صدر کی تنخواہ اور مراعات میں جو اضافہ کیا گیا ہے‘ اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ ہمارے صدر محترم صرف اختیارات کے ارتکاز پر قانع نہیں ہو سکتے۔ ظاہر ہے سٹیٹس (Status) کا دور ہے۔ صدر کو ہر حیثیت سے‘ ہر اعتبار سے سوا سیر ہی ہونا چاہیے۔
اپنے آمرانہ اقدامات پر پردہ ڈالنے کے لیے اور عوام میں Good willبنانے کے لیے ایوب خان نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی سیٹوں میں اضافہ کر دیا۔ خواتین کی نشستیں بھی بڑھا دی گئیں۔ ہمارے صدر محترم نے بھی عوام کو اس لولی پوپ سے نوازا ہے۔
صدر ایوب نے جو دستوری کمیشن تشکیل دیا تھا‘ اس نے Basic democrats کو بطور ’’انتخابی ادارہ‘‘ دستور کا حصہ بنانے کی مخالفت کی تھی لیکن صدر موصوف کو ان بی ڈی ممبرز پر بہت مان تھا۔ ہمارے موجودہ صدر نے بھی اپنا ضلعی نظام متعارف کرایا ہے۔ اگر اس کے اختیارات کی توسیع بھی بی ڈی کی طرز پر کی گئی تو لامحالہ ناکامی سے دوچار ہوگا۔
صدر ایوب نے پریس کو کنٹرول کرنے کے لیے آرڈی ننس جاری کیا تھا۔ ہمارے موجودہ صدر نہ صرف اس حوالے سے پر تول رہے ہیں بلکہ عدلیہ کے حوالے سے آرڈی ننس جاری کر کے جناب نے ایوب خان سے مسابقت کرنے کی کام یاب کوشش کی ہے۔
جب ۱۹۶۲ء کا دستور تشکیل کے مراحل میں تھا تو دستوری کمیشن نے دستور میں ترمیم کرنے کا اختیار مرکزی مقننہ کو دیا کہ وہ صدارتی منظوری کے ساتھ دو تہائی اکثریت سے اور صدارتی منظوری کے بغیر تین چوتھائی اکثریت سے ترمیم کی مجاز تھی۔ صوبائی اسمبلیوں کو ترمیم کے حوالے سے کوئی اختیار نہیں دیا گیا تھا۔ صدر ایوب نے دستوری کمیشن کی سفارشات جانچنے کے لیے جو دو کمیٹیاں تشکیل دی تھیں‘ ان میں اگرچہ بعض مواقع پر اختلاف رہا لیکن دونوں کمیٹیوں نے ترمیم کے طریقہ کار پر اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کمیشن کی سفارشات سے اتفاق کرتے ہوئے بلکہ کمیشن سے بھی بڑھ کر صدر کے ہاتھ مضبوط کرنے کی کامیاب کوشش کی کہ صدر تین چوتھائی ووٹ آنے پر معاملہ انتخابی ادارے یعنی بی ڈی ممبرز کے حوالے کر سکتا تھا جو ظاہر ہے ایوب خان کے بغل بچے تھے۔
موجودہ صدارتی احکامات کے تناظر میں بدیہی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے صدر محترم بھی اپنی ذات کے مطابق دستوری ڈھانچہ تشکیل دینے کے بعد ترمیم کے حوالے سے ایوبی نظائر سے استفادہ کریں گے۔
موجودہ حکومت نے اصل مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے عوام کی ’’دل پشوری‘‘ کے لیے طرز انتخاب کا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ میر اخیال ہے کہ جداگانہ یا مخلوط طرز انتخاب ہمارا اصل مسئلہ نہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے جداگانہ انتخاب کو متحدہ ہندوستان میں مسلم مفادات کے تحفظ کے لیے ایک ذریعے کے طور پر اپنایا تھا۔ اگر اس کے بغیر مسلم مفادات کا تحفظ ممکن ہوتا تو قائد اس سے دست بردار ہونے کو تیار تھے۔ اس سلسلے میں ’’تجاویز دہلی‘‘ کی مثال دی جا سکتی ہے۔جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو جداگانہ انتخاب کا مسئلہ منصوص نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کی صورت حال کے مطابق شاید اس کی ضرورت نہیں تھی البتہ دستور کی اسلامائزیشن کے ضمن میں قادیانی فتنہ کی روک تھام کے لیے اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اگر قادیانی فتنہ کا تدارک کسی اور طریقے سے ہو سکتا ہو تو جداگانہ طرز انتخاب کو ترک کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے طرز انتخاب‘ دستوری مسائل میں سے ایک یعنی دستور کی اسلامائزیشن کا محض ایک ثانوی پہلو ہے۔ حکومت نے کمال ہوشیاری سے اسلام پسندوں کی توجہ دستور کی ’’کلی اسلامائزیشن‘‘ سے ہٹانے کے لیے یہ شوشہ چھوڑا ہے۔ اب تک یہ شوشہ کامیاب جا رہا ہے۔
اب تک کی حکومتی پالیسی کے تناظر میں جس قسم کا سیٹ اپ بننے کی توقع کی جا سکتی ہے‘ اسے Centralized de-centralization سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ محدود، وقتی اور ڈنگ ٹپاؤ اقدامات ہیں۔ ان سے نہ صرف یہ کہ بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی بلکہ یہ دستوری تسلسل میں مخل ہو کر متوقع بہتری کا راستہ مسدود کر دیتے ہیں۔
ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ضیاء الحق اورجنرل پرویز کا اقتدار کی مسند پر فائز ہونا اور اپنی ’’اعلیٰ دانش‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کو ’’ترقی‘‘ کی راہ پر ڈالنے کے نام پر شخصی تحفظات کا بندوبست کرنا قابل تعریف نہیں گردانا جا سکتا۔ اعلیٰ سطح پر دستور کی دھجیاں اڑانے سے عوامی سطح پر قانون شکنی کی نفسیات جنم لیتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ طالع آزمائی اور قانون شکنی سے عبارت ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد‘ فیڈرل کورٹ کے ججز اور سر آئیور نے جو گل کھلایا‘ اس کے نتیجے میں ہماری دستوری اور قانونی گاڑی اسی پٹڑی پر چل نکلی جس میں ہر قدم پر ’’سپیڈ بریکر‘‘ ہیں۔ اگر ۱۹۴۰ء سے ہی ہم دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا دستور تشکیل دینے کا آغاز کر دیتے تو ۱۹۴۷ء میں اپنا بنایا ہوا دستور سر آئیور کی نکتہ سنجیوں کا شکار نہ ہوتا۔ ہو سکتا ہے ہمارا مشرقی بازو بھی ہم سے نتھی رہتا۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک کو صرف ایک کمٹ منٹ کی ضرورت ہے‘ دستور سے کمٹ منٹ کی۔ ملکی سلامتی اور معیشت کی بحالی کو فرنٹ پر رکھنے کے بجائے دستور سے کمٹ منٹ کو فرنٹ پر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ملکی سلامتی اور معیشت کی بحالی کے دھارے دستوری سرچشمے سے پھوٹیں گے۔ ماضی کی غلطیاں دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
ہمارے صدر اور ان کے رفقاء کار بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ موجودہ سیٹ اپ اور انقلابی اقدامات کے تحفظ کے لیے درکار ہر اقدام اٹھایا جائے گا۔ پاکستان کی دستوری تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اصل مسائل سے ہٹ کر مصنوعی انداز میں صرف اپنی ذات کے تحفظ کے لیے نام نہاد نعروں کی آڑ لے کر کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو اس قدم کے مندرجات نعرے میں مضمر صداقتوں کے متوازی نہیں ہوتے۔ وقتی طور پر موثر ہونے کے باوجود ایسے اقدام اپنے پیچھے مسائل کا انبار چھوڑ کر بطور ’’بڑی یادگار‘‘ تاریخ کے صفحات میں نقش ہو جاتے ہیں۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ ہمارے صدر محترم ’’تاریخی یادگاریں‘‘ قائم نہ کریں۔ میری تو خواہش ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے معروضی انداز میں ایسے قدم اٹھائیں کہ قوم کسی اچھی یادگار کو بھی اپنے حافظے میں جگہ دے سکے۔ بہرحال دستور سازی اور رٹ آف گورنمنٹ کے حوالے سے صدر محترم کے بیانات پڑھ کر مجھے اس نوجوان کی کہانی یاد آجاتی ہے جس نے اپنے ماں باپ کو قتل کر دیا تھا اور پھر یتیم ہونے کی بنیاد پر رحم کا طلب گار تھا۔