مئی ۲۰۰۲ء
تحریک ختم نبوت کے مطالبات
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
تمام مذہبی مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے جداگانہ طرز انتخاب کے خاتمہ اور ووٹر کے اندراج کے فارم میں مذہب کا خانہ اور عقیدۂ ختم نبوت کا حلف ختم کرنے کے فیصلوں کو مسترد کر دیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ فیصلے فی الفور واپس لے کردستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ یہ فیصلہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی دعوت پر ۴ مئی ۲۰۰۲ء کو لاہور میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں طے پایا کہ اس سلسلے میں تمام مذہبی جماعتوں کا سربراہی اجلاس طلب کیا جائے گا جس کے لیے جمعیۃ علماء اسلام (ف) نے میزبانی کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔...
قافلہ معاد
― ادارہ
عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیت اور بھارت کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ گزشتہ ماہ طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا تعلق صوبہ بہار سے تھا۔ دار العلوم دیوبند کے ممتاز فضلا اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کے مایہ ناز تلامذہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ انہوں نے بھارت میں مسلمانوں کے شرعی خاندانی قوانین کے تحفظ اور ترویج کے لیے مسلسل محنت کی اور صوبہ بہار کے امیر شریعت کے منصب پر بھی فائز رہے۔
افغانستان کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد نبی محمدیؒ گزشتہ روز پشاور میں ۸۲ سال...
جی ہاں! پاکستان کو آئیڈیل ازم کی ضرورت ہے
― پروفیسر میاں انعام الرحمن
جنرل پرویز مشرف آج کل جہاں اپنی حکومت کے ’’انقلابی اقدامات‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں‘ وہاں یہ بھی فرما رہے ہیں کہ مثالیت (Idealism) کے بجائے عملیت اور نتائجیت (Pragmatism) کو قومی شعار بنانا چاہیے۔ جنرل صاحب مجوزہ آئینی ترامیم اور ریفرنڈم کے سیاق وسباق میں قوم کو یہی ’’درس‘‘ دے رہے ہیں۔ اگر ہم ذرا گہری نظر سے معروضی واقعیت کا جائزہ لیں تو دنیا میں اس وقت موجود قومی وعالمی تشتت وانتشار‘ بے حسی اور خود غرضی کے اسباب مثالیت پسندی کے زوال میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد اگر مثالیت پسندی کا مظاہرہ کریں تو انہیں مادی...
مقاصد تشریع کا ایک مختصر جائزہ
― مولانا منتخب الحق
تشریع کے معنی ہیں قانون سازی اور ہر قانون کے بنانے کے تین مقاصد ہوتے ہیں: مقاصد ضروریہ، مقاصد حاجیہ اور مقاصد تحسینیہ۔ مقاصد ضروریہ: یہ وہ مقاصد ہیں جو خود مطلوب ہوتے ہیں اور ان کے بغیر کوئی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ مقاصد ضروریہ کی پانچ قسمیں ہیں: حفاظت دین، حفاظت نفس، حفاظت آبرو، حفاظت نسل اور حفاظت مال۔ قرآن کے احکام بھی انہی پانچ مقاصد کی ترتیب سے ہیں اور بتدریج ان کے متعلق احکامات ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دوسری تمام عبادتیں حفاظت دین کے لیے ہیں۔ یہ مقصد یعنی حفاظت دین دوسری تمام شریعتوں یعنی شریعت نوحی، شریعت موسوی اور شریعت عیسوی سب...
دینی قوتیں: نئی حکمت عملی کی ضرورت
― ڈاکٹر محمد امین
افغانستان میں جو کچھ ہوا‘ وہ ایک عظیم المیہ تھا۔ پاکستان میں اب جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ بھی ایک المیے سے کم نہیں لیکن اگر پاکستان کی دینی قوتوں نے ہوش مندی سے کام نہ لیا تو خدا نخواستہ ایک عظیم تر المیہ ہم سے بہت دور نہیں۔ غلطی کسی فردسے بھی ہو سکتی ہے اور کسی جماعت سے بھی اور یہ کوئی قابل طعن بات نہیں کیونکہ گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں۔ لیکن شکست کے بعد اختیار کی گئی حکمت عملی کا تجزیہ نہ کرنا‘ اگر غلطی نظر آئے تو اسے غلطی تسلیم نہ کرنا یا غلطی سے پہنچنے والے نقصان کی تاویلیں کرنے لگ جانا گویا دوسرے لفظوں میں احساس زیاں کھو دینا ہے۔ یہ غلطی...
دستور سے کمٹمنٹ کی ضرورت
― پروفیسر میاں انعام الرحمن
۱۹۴۷ء سے لے کر اب تک وطن عزیز کو کئی مسائل سے سابقہ رہا ہے۔ ان میں سے سرفہرست تین کی ترتیب یوں بیان کی جاتی ہے: ۱۔ ملکی سلامتی کا تحفظ ۲۔ معیشت کی بحالی اور مضبوطی ۳۔ عوامی امنگوں کے مطابق دستوری نظام- حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں آپس میں باہم مربوط ہیں لیکن ان کی ترتیب ٹھیک نہیں رکھی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسائل کے انبار تلے دبتے چلے جارہے ہیں کیونکہ مسائل کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ ان کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے دی گئی ترتیب بھی کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ترتیب اس طرح ہونی چاہیے تھی: ۱۔ عوامی امنگوں کے مطابق دستوری نظام ۲۔ معیشت کی بحالی اور مضبوطی...
سر سید کے مذہبی افکار پر ایک نظر
― گل محمد خان بخمل احمد زئی
مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ کے طالب علم جناب گل محمد خان بخمل احمد زئی نے زیر نظر مضمون میں مولانا سید تصدق بخاری کی کتاب ’’محرف قرآن‘‘ کے بعض مباحث کا ملخص پیش کیا ہے۔ (ادارہ)۔ سرسید احمد خان کے آباؤ اجداد کشمیر کے رہنے والے تھے۔ شاہ عالم ثانی (۱۱۷۳ھ۔۱۱۵۹ھ) کے دور میں جب دہلی میں کلیدی آسامیوں اور مناصب پر فائز علما اور فضلا شاہ وقت سے اختلاف کی بنا پر اپنے اپنے عہدوں سے الگ کر دیے گئے تو ریاست جموں وکشمیر میں اس وقت قحط سالی کا دور دورہ تھا۔ چنانچہ یہاں کے تین معروف و معزز خاندانوں یعنی سید‘ میر اور خان خاندانوں کے افراد نے اپنے وطن کو...
غزوۂ بدر کی سیاسی واقتصادی اہمیت
― پروفیسر محمد یونس میو
مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں مشرکین نے جو دردناک اور ہوش ربا مظالم مٹھی بھر مسلمانوں پر روا رکھے اور مظلوم مسلمانوں نے جس صبر واستقلال اور معجز نما استقامت وللہیت سے مسلسل تیرہ برس تک ان ہول ناک مصائب ونوائب کا تحمل کیاٗ وہ دنیا کی تاریخ کا بے مثال واقعہ ہے۔ قریش اور ان کے حامیوں نے کوئی صورت ظلم وستم کی اٹھا نہ رکھی تاہم مسلمانوں کو حق تعالیٰ نے ان وحشی ظالموں کے مقابلے میں ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہ دی۔ صبر وتحمل کے امتحان کی آخری حد یہ تھی کہ مسلمان مقدس وطن، اعزہ واقارب، اہل وعیال، مال ودولت سب چیزوں کو خیر باد کہہ کر خالص خدا اور رسول صلی اللہ...
تیل کی طاقت
― کرسٹوفر ڈکی
تیل کے بادشاہ اب بھی سعودی ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک تیل کے چشمے خشک نہیں ہو جاتے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے عرب سرمایہ داروں کی تصویر یوں پیش کی جا رہی ہے جیسے وہ تیل فروخت کرنے والی ایک زوال پذیر تنظیم کے ڈانواں ڈول مالک ہوں، جس کی طاقت دو خطروں کے باعث کمزور پڑ رہی ہے: ایک روس کی بڑھتی ہوئی تیل کی طاقت اور دوسرا عراق جو اس انتظار میں ہے کہ خلیج عرب میں سعودیہ کی جگہ لے سکے۔ زوال پذیر صحرائی بادشاہت کے اس خیال میں کچھ صداقت ضرور ہے۔ تیل کے حوالے سے سعودیوں کا اثر ورسوخ اب پہلے کی طرح عام اور وسیع نہیں ہے اور سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی آبادی بھی اب پہلے...
مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کا حادثہ وفات
― امین الدین شجاع الدین
دو تین برسوں سے جس سانحہ کا کھٹکا لگا ہوا تھا، وہ بالآخر پیش آ کر رہا۔ دنیا ہی فانی ہے اور اک دن جان سب کی جانی ہے۔ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی (۱۹۳۶ء ۔ ۲۰۰۲ء) بھی وہاں چلے گئے جہاں ایک نہ ایک روز سب کو جانا ہے اور زمین اوڑھ کر سو جانا ہے۔ ع ’’آج وہ، کل ہماری باری ہے‘‘۔ لیکن قاضی صاحب کی موت ایک فرد کی نہیں، ایک فرد فرید کی موت ہے، ایک فقیہ کی موت ہے۔ ایسا فقیہ جو صرف لغوی اعتبار سے ہی فقیہ نہیں تھا بلکہ معنوی لحاظ سے بھی واقعتا فقیہ تھا۔ قسام ازل نے جس کو بیدار مغز ہی نہیں بخشا تھا بلکہ اس کے سینے میں دل دردمند بھی رکھا تھا اور جسے تڑپنے...
آہ! حضرت مولانا مفتی رشید احمدؒ
― حافظ مہر محمد میانوالوی
ابھی حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری مہاجر مدنی ؒ کا صدمہ وفات قلب حسرت ناک سے جدا نہیں ہوا تھا کہ شہید امارت اسلامیہ افغانستان اور انقلاب طالبان کے عظیم مربی اور محسن حضرت مولانا مفتی رشید احمد بھی داغ مفارقت دے کر مولائے حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دنیا مسافر خانہ اور موت کی گاڑی کا پلیٹ فارم ہے۔ یہاں لاکھوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری ہے مگر کچھ ہستیاں اس سرائے کو نیکیوں کو چمنستان بنا کر یادگار چھوڑ جاتی ہیں۔ بلاشبہ حضرت مفتی صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن باطل شکن تھے۔ بیک وقت مدرس، مفتی، محدث، مصلح، مجاہد، مدبر حق گو، بدعات...
جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی کا مکتوب گرامی
― ڈاکٹر محمود احمد غازی
برادر مکرم ومحترم جناب مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اپریل ۲۰۰۲ء کا ماہنامہ ’الشریعہ‘ آپ کے دیرینہ لطف وکرم سے موصول ہوا۔ میں روز اول ہی سے اس رسالے کا باقاعدہ قاری ہوں۔ آپ کی تحریروں اور مضامین میں جو اعتدال اور توازن ہوتا ہے، وہ گزشتہ کچھ عرصے سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کی تحریریں ملک میں ایک متوازن اور معتدل مذہبی رویے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گی۔ زیر نظر شمارے میں اپنی ایک تحریر دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ حیرت اس لیے کہ اس عنوان سے کوئی مضمون لکھنا یاد نہیں تھا...
مئی ۲۰۰۲ء
جلد ۱۳ ۔ شمارہ ۵
تحریک ختم نبوت کے مطالبات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قافلہ معاد
ادارہ
جی ہاں! پاکستان کو آئیڈیل ازم کی ضرورت ہے
پروفیسر میاں انعام الرحمن
مقاصد تشریع کا ایک مختصر جائزہ
مولانا منتخب الحق
دینی قوتیں: نئی حکمت عملی کی ضرورت
ڈاکٹر محمد امین
دستور سے کمٹمنٹ کی ضرورت
پروفیسر میاں انعام الرحمن
سر سید کے مذہبی افکار پر ایک نظر
گل محمد خان بخمل احمد زئی
غزوۂ بدر کی سیاسی واقتصادی اہمیت
پروفیسر محمد یونس میو
تیل کی طاقت
کرسٹوفر ڈکی
مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کا حادثہ وفات
امین الدین شجاع الدین
آہ! حضرت مولانا مفتی رشید احمدؒ
حافظ مہر محمد میانوالوی
جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی کا مکتوب گرامی
ڈاکٹر محمود احمد غازی