برادر مکرم ومحترم جناب مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپریل ۲۰۰۲ء کا ماہنامہ ’الشریعہ‘ آپ کے دیرینہ لطف وکرم سے موصول ہوا۔ میں روز اول ہی سے اس رسالے کا باقاعدہ قاری ہوں۔ آپ کی تحریروں اور مضامین میں جو اعتدال اور توازن ہوتا ہے، وہ گزشتہ کچھ عرصے سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کی تحریریں ملک میں ایک متوازن اور معتدل مذہبی رویے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گی۔
زیر نظر شمارے میں اپنی ایک تحریر دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ حیرت اس لیے کہ اس عنوان سے کوئی مضمون لکھنا یاد نہیں تھا اس لیے ابتداءً خیال ہوا کہ شاید یا تو غلطی سے میرا نام چھپ گیا ہے یا یہ میرے کسی ہم نام کی تحریر ہے لیکن جب اصل مضمون پڑھا تو اندازہ ہوا کہ عنوان آپ کا اور معنون اس ناچیز کا ۔ غالباً آپ نے میرا وہ لیکچر ملاحظہ فرمایا ہوگا جس سے یہ اقتباس لے کر شائع کیا گیا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ اور آپ جیسے دوسرے علماء کرام اس پورے لیکچر کو بالاستیعاب مطالعہ فرمائیں۔ آپ کے عطا کردہ اس عنوان سے خیال ہوتا ہے کہ شاید میری کتاب ’خطبات بہاول پور‘ آپ کے لیے دل چسپی کا موضوع ہوگی۔ پتہ نہیں آپ کویہ کتاب دیکھنے کا اتفاق ہوا یا نہیں۔
علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ کے مابین فکری مماثلتوں کے موضوع پر پروفیسر محمد یونس میو کا مضمون اچھا ہے لیکن بہت مختصر۔ شاید ان کو یہ تجویز کرنا موزوں ہو کہ مولانا رومیؒ کے افکار اور پیغام کے بارے میں علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ کے نظریات وخیالات کا تقابلی مطالعہ نہ صرف دل چسپ ہوگا بلکہ دونوں اکابر کے نقطہ نظر میں حیرت انگیز مماثلتیں بھی اس کے ذریعے سامنے آئیں گی۔ میری طرف سے پروفیسر محمد یونس صاحب کو مبارک باد پیش کر دیں۔
والسلام
نیاز مند
ڈاکٹر محمود احمد غازی