آہ! حضرت مولانا مفتی رشید احمدؒ

حافظ مہر محمد میانوالوی

ابھی حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری مہاجر مدنی ؒ کا صدمہ وفات قلب حسرت ناک سے جدا نہیں ہوا تھا کہ شہید امارت اسلامیہ افغانستان اور انقلاب طالبان کے عظیم مربی اور محسن حضرت مولانا مفتی رشید احمد بھی داغ مفارقت دے کر مولائے حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

دنیا مسافر خانہ اور موت کی گاڑی کا پلیٹ فارم ہے۔ یہاں لاکھوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری ہے مگر کچھ ہستیاں اس سرائے کو نیکیوں کو چمنستان بنا کر یادگار چھوڑ جاتی ہیں۔ بلاشبہ حضرت مفتی صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن باطل شکن تھے۔ بیک وقت مدرس، مفتی، محدث، مصلح، مجاہد، مدبر حق گو، بدعات شکن، شیخ ومرشد، قائد جہادی تنظیمات، حاتم غربا ومساکین اور انقلاب افغانستان کے سب سے بڑے سرپرست ، محافظ ومعاون تھے۔ ضرب مومن کے اجرا سے آپ نے دینی صحافت اور اصلاح عوام کی بے نظیر مثال پیش کی اور لاکھوں گم گشتگان کو راہ راست پر لائے۔ حجرۂ تنہائی میں بیٹھ کر نشتر پارک جیسے جلسوں میں لاکھوں کو زیارت کرائے بغیر ایسا جامع عقیدت پلایا اور شریعت محمدیہ کا پابند بنایا کہ بڑے بڑے اولیاء کرام کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ ۵۰ ہزار فتوے جاری کرنے اور ۶۰ کتابیں تصنیف فرمانے کے ساتھ آپ یقیناًولی کامل بھی تھے کہ ناظم آباد کی ایک چھوٹی سی قدیم مسجد اور معمولی مکان میں پوشیدہ رہ کر، مختلف شہروں اور ملکوں کے دورے کیے بغیرکروڑوں افراد سے اپنی عقیدت کا لوہا منوا لیا۔ لاکھوں گنہ گاروں کو تائب، نیکیوں کا متلاشی، شریعت وسنت اور ڈاڑھی اور پردے کا پابند بنایا۔ آپ کے اشاروں پر ہی نہیں، دعاؤں سے بھی مخیر حضرات کروڑوں کا سامان افغانستان کے یتامیٰ، مجاہدین اور طالبان کے لیے ٹرکوں اور ٹرالوں پر لے جاتے رہے۔

ایں سعادت بزور بازو نیست 

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

مدرسہ قاسم العلوم اکوال تلہ گنگ کے مفتی مولانا الطاف الرحمن فاضل مدینہ یونیورسٹی کے والد محمد قاسم صاحب نے آپ کی کرامت کے طور پر مجھے بتایا کہ میں ۷۸ء میں اپنے بیٹے کو دار الافتا میں داخل کرانا چاہتا تھا مگر شرائط پوری نہ تھیں۔ یہ ورد پڑھتے ہوئے کراچی گیا کہ یا الٰہی کرم کر، سخت دل نرم کر۔ مفتی صاحب نے مولانا کو داخل کر کے فرمایا کہ آپ کے والد کی وجہ سے کر رہا ہوں۔ پھر والد صاحب سے فرمایا کہ مسلمان سخت دل نہیں ہوتا، مضبوط دل والا ہوتا ہے۔ یعنی ان کی قلبی کیفیت بطور کشف وکرامت اللہ نے معلوم کرا دی۔

احقر کا مفتی صاحب سے تلمذ برائے ہے۔ ۱۳۸۶ھ میں دورۂ حدیث شریف پڑھ کر مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے فارغ ہوا تو روحانی اصلاح کے لیے حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ اور مولانا فضل الٰہی قریشی مسکین پوریؒ کے خلیفہ یادگار سلف حضرت مولانا محمد عبد اللہ بہلوی شجاع آبادی نور اللہ مرقدہ (وفات ۱۳۹۷ھ)سے بیعت کا تعلق قائم کیا اور رمضان وشعبان میں دورۂ تفسیر بھی پڑھا۔ وہاں ایک طالب علم نے مفتی صاحب کے دار الافتا کا تعارف کرایا تو احقر نے بذریعہ خط آپ سے رابطہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ۷ شوال تک پہنچ جاؤ۔ میں خوش ہو کر گھر عید کے لیے تھمے والی ضلع میانوالی آیا۔ کراچی کا پہلا سفر تھا۔ والد مرحوم کی علالت اور کچھ اپنی سستی کی وجہ سے تین دن کی تاخیر سے ۱۰ شوال کی شام کو کراچی پہنچا۔ عشا کی نماز حضرت مفتی صاحب کے پیچھے اداکی۔ حضرت مفتی صاحب اصول کے بڑے پابند تھے۔ فرمایا تین دن لیٹ آئے ہو، داخلہ بند ہے۔ ہاں اگر کوئی ۷۵ روپے ماہانہ کے لحاظ سے تمہارا سال کا وظیفہ ادا کرنے پر راضی ہو تو گنجائش نکل آئے گی ورنہ بنوری ٹاؤن میں تخصص فی علوم الحدیث میں داخلہ لے لو۔ میرے مقدر میں آپ کی صحبت سے محرومی اور وارثان علامہ انور شاہ کشمیری حضرت علامہ محمد یوسف بنوری اور مولانا محمد ادریس بھٹی مدیر مسؤل بینات سے تلمذ کی سعادت لکھی تھی۔ انہی دنوں میں مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ جامعہ رشیدیہ ساہیوال سے ہر ماہ پڑھانے آیا کرتے تھے۔ وہاں داخلہ مل گیا۔ کبھی کبھی مفتی صاحب کی زیارت بھی ہو جاتی۔ پھر احقر کا سلسلہ تدریس وملازمت پنجاب میں ہی رہا۔

رمضان ۱۴۲۱ھ میں کراچی کے سفر کے موقع پر مفتی رشید احمد صاحبؒ کی زیارت کے لیے ناظم آباد گیا۔ عشا کی نماز میں آپ سے ملاقات ہوئی۔ انتہائی بارعب لباس اور بزرگانہ شان وشوکت حضرت تھانوی نور اللہ مرقدہ کی وضع قطع معلوم ہوئی۔ بالاخانہ پر بلایا۔ میں نے دل لگی سے اپنا تاثر سنا دیا۔ مسکرائے۔ میں نے ناکام طالب علمی کا حوالہ دیا تو اور خوش ہوئے اور فرمایا کہ میں جانتا ہوں۔ آپ پہلے بھی ملتے رہے ہیں۔ آپ کے مدح صحابہؓ اور رد رفض کے موضوع پر تصانیف سے واقف ہوں۔ دعا بھی دی۔ اپنی علمی وروحانی ضوفشانی سے احقر کو منور وسیراب فرماتے رہے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ امارت اسلامیہ افغانستان کی شہادت کا غم لے کر جانے والے مفتی صاحب کو غریق رحمت فرمائے اور ان کی تمام دینی خدمات کو قبول فرمائے۔

رفتید ولے نہ از دل ما

اخبار و آثار

(مئی ۲۰۰۲ء)

مئی ۲۰۰۲ء

جلد ۱۳ ۔ شمارہ ۵

تحریک ختم نبوت کے مطالبات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قافلہ معاد
ادارہ

جی ہاں! پاکستان کو آئیڈیل ازم کی ضرورت ہے
پروفیسر میاں انعام الرحمن

مقاصد تشریع کا ایک مختصر جائزہ
مولانا منتخب الحق

دینی قوتیں: نئی حکمت عملی کی ضرورت
ڈاکٹر محمد امین

دستور سے کمٹمنٹ کی ضرورت
پروفیسر میاں انعام الرحمن

سر سید کے مذہبی افکار پر ایک نظر
گل محمد خان بخمل احمد زئی

غزوۂ بدر کی سیاسی واقتصادی اہمیت
پروفیسر محمد یونس میو

تیل کی طاقت
کرسٹوفر ڈکی

مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کا حادثہ وفات
امین الدین شجاع الدین

آہ! حضرت مولانا مفتی رشید احمدؒ
حافظ مہر محمد میانوالوی

جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی کا مکتوب گرامی
ڈاکٹر محمود احمد غازی

تلاش

Flag Counter