تیل کے بادشاہ اب بھی سعودی ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک تیل کے چشمے خشک نہیں ہو جاتے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے عرب سرمایہ داروں کی تصویر یوں پیش کی جا رہی ہے جیسے وہ تیل فروخت کرنے والی ایک زوال پذیر تنظیم کے ڈانواں ڈول مالک ہوں، جس کی طاقت دو خطروں کے باعث کمزور پڑ رہی ہے: ایک روس کی بڑھتی ہوئی تیل کی طاقت اور دوسرا عراق جو اس انتظار میں ہے کہ خلیج عرب میں سعودیہ کی جگہ لے سکے۔
زوال پذیر صحرائی بادشاہت کے اس خیال میں کچھ صداقت ضرور ہے۔ تیل کے حوالے سے سعودیوں کا اثر ورسوخ اب پہلے کی طرح عام اور وسیع نہیں ہے اور سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی آبادی بھی اب پہلے کی نسبت کم مال دار ہے۔ تاہم کچھ ایسے زمینی حقائق موجود ہیں جنہیں نظر انداز نہیں جا سکتا۔ سعودی عرب نہ صرف دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر کا مالک ہے بلکہ یہ وہ واحد ملک ہے جس کے پاس تیل کی اضافی مقدار مہیا کرنے کی اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ کسی بھی وقت تیل کی مارکیٹ میں ’’سیلاب‘‘ لا سکتا ہے۔ ایک سعودی افسر فخریہ کہتا ہے کہ ’’ہم کسی بھی وقت تیل کی پائپ لائنوں کو چلا کر تیل فراہم کرنے والوں دوسرے ملکوں کا ستیاناس سکتے ہیں۔‘‘
تیل کے ہتھیار کا استعمال ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ تاہم ان دنوں سعودی عرب کا رجحان اپنے صارفین‘ خصوصاً امریکہ‘ کے بجائے اپنے ساتھیوں یعنی تیل مہیا کرنے والے ملکوں(خصوصاً روس ) کا ستیاناس کرنے کی طرف زیادہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بیشتر اوقات یوں لگتا ہے جیسے سعودی عرب اور امریکہ نے توانائی فراہم کرنے والے دوسرے ملکوں کو نقصان پہنچانے کے لیے آپس میں خفیہ اتحاد کر رکھا ہو اور حقیقت بھی یہی ہے۔ ۱۹۹۱ء میں خلیجی جنگ کے اختتام کے بعد سے ریاض اور واشنگٹن تیل فروخت کرنے اور خریدنے کے حوالے سے ایک غیر اعلان شدہ عالمی اتحاد کے مشترک لیڈر بن چکے ہیں جن کا مقصد تیل کی قیمتوں کو اس ممکن حد تک متوازن رکھنا ہے جس سے فریقین میں سے کسی کو بھی زیادہ خسارہ نہ اٹھانا پڑے۔ عالمی معیشت کو سہارا دینے میں اس حقیقت کا ایک نہایت اہم کردار ہے۔ تاہم بیشتر امریکیوں کے لیے یہ ایک حیران کن بات ہوگی جو ابھی تک سعودی عرب کو ۷۰ء میں تیل کی فراہمی بند کر دینے والے ایک دشمن کی نظر سے اور (۱۱ ؍ ستمبر کے) حالیہ ہول ناک واقعات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
تیل کی منڈی کے علاوہ دنیا میں کوئی حقیقی عالمی منڈی موجود نہیں ہے۔ یہ ایک مائع شے ہے جس کی نقل وحمل پورے کرہ ارضی پر پھیلے ہوئے برآمد کنندگان اور صارفین کے مابین بہت آسان ہے۔ طلب اور رسد میں معمولی سا عدم توازن بھی پوری دنیا کو مضطرب کر دیتا ہے۔ سعودی عرب کے پاس اب تک دریافت شدہ تیل کے ذخائر کا چوتھا حصہ ہے اور اس وقت وہ تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔جبکہ امریکہ تیل صرف کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو کل تیل کا تقریباً تیسرا حصہ روزانہ صرف کرتا ہے۔ چنانچہ دونوں ملکوں کے درمیان مفادات کا ایک واضح اشتراک پایا جاتا ہے جس کا ادراک اس وقت سے کر لیا گیا تھا جب صدر فرینکلین روزویلٹ اور سعودی عرب کے فرمانروا عبد العزیز بن سعود‘ جنہوں نے ملک کا نام سعودیہ رکھا‘ کے مابین ۱۹۴۵ء میں Great Bitter Lake میں ملاقات ہوئی اور ایک تزویراتی اتحاد کی بنیاد رکھی گئی۔ روزویلٹ نے کانگریس کو بتایا کہ ’’میں نے ابن سعود کے ساتھ پانچ منٹ کی ملاقات میں اس سے کہیں زیادہ حقائق معلوم کر لیے ہیں جو دو یا تین درجن خطوط کے تبادلے کے بعد میرے علم میں آتے۔‘‘ اس وقت سے اب تک امریکی صدور اور سعودی فرماں رواؤں کے مابین غیر تحریری معاہدے دونوں ملکوں کے تعلقات کے لیے کلید کا کام انجام دیتے رہے ہیں۔ ایک سعودی افسر کا کہنا ہے کہ ’’ہم دونوں اپنے اپنے مفادات سے آگاہ ہیں۔ ہمارے مابین مخصوص اختلافات بھی ہیں اور اتفاق کے مخصوص نکات بھی۔‘‘
پچھلے دس سال میں اس غیر اعلان شدہ اتحاد میں کافی گرم جوشی پیدا ہو گئی تھی تاہم ۱۱ ؍ستمبر کے واقعات کے بعد اس کا مستقبل غیر امید افزا دکھائی دینے لگا تھا۔ ہر نقطہ نظر کے امریکی سیاست دانوں نے ’’بیرونی تیل سے چھٹکارا‘‘ حاصل کرنے کی دہائی دینا شروع کر دی جس کا مطلب عمومی طور پر عرب اور خاص طور پر سعودی تیل سے چھٹکارا حاصل کرنا لیا گیا۔ امریکی اس پر بے حد ناراض تھے کہ اسامہ بن لادن اور ہائی جیکروں میں سے اکثر کی پیدائش اور پرورش سعودی عرب میں ہوئی تھی۔ اور سعودی بھی خوف ودہشت کی حالت میں دیکھتے رہے کہ واشنگٹن فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں ایریل شیرون کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ ایک بااثر سعودی کا کہنا ہے کہ ’’ایک ایسی مارکیٹ کے ساتھ معاملہ کرنا جو مسلسل عرب دنیا کے بارے میں نفرت کا رویہ اپنائے ہوئے ہے‘ ہمارے لیے آسان نہیں ہے۔‘‘
اس کے باوجود واشنگٹن اور ریاض ایک دوسرے پر اتنا ہی انحصار رکھتے ہیں جتنا کہ ایک ’جوڑے‘ کا ایک دوسرے پر ہو سکتا ہے۔ ان کے تعلقات کو مجبوری‘ اتحاد یا باہمی مفاد میں سے کوئی بھی نام دے لیجیے‘ واقعہ یہی ہے کہ سعودی اور امریکی ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ امریکی مارکیٹ کے لیے سعودی عرب بیرونی تیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہے تاہم باہمی انحصار کی یہ صرف ایک وجہ ہے۔ دوسرے بہت سے ملک بھی‘ جن کی تعداد مجموعی طور پر ۶۰ ہے‘ روزانہ ۷۶ ملین بیرل سے زیادہ تیل نکالتے ہیں لیکن تقریباً سب کے سب بے حد تیزی کے ساتھ زمین سے نکالے ہوئے تیل کے ہر قطرے کو یا تو استعمال کر لیتے ہیں یا درآمد کر دیتے ہیں۔ سعودی عرب کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ وہ مختصر عرصے میں تیل کی روزانہ سپلائی کی موجودہ مقدار (سات اعشاریہ دو ملین بیرل) کو بڑھا کر دس اعشاریہ پانچ ملین بیرل تک لے جا سکتے ہیں تاکہ بحران کے زمانے میں قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ نہ ہو ۔ مڈل ایسٹ اکنامک سروے کے ایڈیٹر ولید خدوری کا کہنا ہے کہ ’’ بنیادی طور پر یہی بات عالمی معیشت کی حفاظت کی ضامن ہے۔‘‘
چنانچہ امریکہ کو عرب کے تیل کی احتیاج سے نکالنے سے متعلق امریکی صدر اور پریس کی باتوں کو بہت زیادہ سنجیدگی کے ساتھ نہیں لینا چاہیے۔ اس سے امریکہ کی تیل کی سپلائی کا معاملہ غیر محفوظ ہی ہوگا نہ کہ محفوظ اور امریکی انتظامیہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے۔ ذرا سوچیں کہ گیارہ ستمبر کے فوراً کی صورت حال میں سعودی عرب نے کیا کردار ادا کیا؟ میڈیا میں کسی قسم کی تشہیر کے بغیر لیکن گہرے اثرات مرتب کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ساتھی ملکوں کے ساتھ معاہدے میں طے شدہ کوٹے کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگلے دو ہفتے تک وہ امریکہ کو اضافی پانچ لاکھ بیرل تیل روزانہ سپلائی کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ مشرق وسطیٰ کے عظیم بحران کے عین وسط میں، جو کہ تیل کی قیمتوں میں بے حد اضافے کا موجب ہو سکتا تھا، تیل کی قیمت حملے کے کچھ ہفتے بعد ۲۸ ڈالر فی بیرل کی سابقہ قیمت سے گر کر ۲۰ ڈالر فی بیرل تک آچکی تھی۔ سعودی عرب کے علاوہ اور کون ایسا کر سکتا تھا؟ واقعہ یہ ہے کہ کوئی بھی نہیں۔
اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ ان کے پاس بہت زیادہ تیل ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے لیے اسے زمین سے نکالنا بے حد آسان اور سستا ہے۔ سعودیہ کا خام تیل نکالنے کا خرچ فی بیرل ۲ ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ امریکہ کے کنووں سے اتنا تیل نکالنے پر اس سے دو گنا اور روس میں تین گنا خرچ آتا ہے۔ یقیناًانگولا سے لے کر الاسکا تک نئے نئے ذخائر مسلسل دریافت ہو رہے ہیں اور نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے سمندر کی تہہ، زمین کی تہہ اور کینیڈا اور وینزویلا کے صحراؤں میں پائے جانے والے مشکل الحصول تیل کو نکالنے کا خرچ بھی کم ہوتا چلا جائے گا، لیکن یہ ذرائع سعودی تیل کے مقابلے میں ہمیشہ مہنگے رہیں گے اور منافع کی اسی شرح میں سعودیہ کے موجودہ اور مستقبل کے اثر ورسوخ کا راز مخفی ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ امریکی سعودی تعلقات ہمیشہ دوستانہ نہیں رہے۔ ۱۹۷۳ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران میں شاہ فیصل نے اسرائیل کی حمایت کی پاداش میں امریکہ کو تیل کی سپلائی بند کر دینے کا فیصلہ کیا۔ اوپیک ممالک نے بھی اس فیصلے کی تائید کی اور تمام تیل فراہم کرنے والے ممالک نے بھاری منافع کمایا۔ تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ توڑ اضافے سے پوری دنیا کی معیشت کو شدید جھٹکے لگے۔ امریکیوں نے بڑی کاریں چھوڑ کر چھوٹی کاریں خرید لیں جو کم تیل خرچ کرتی تھیں۔ تاہم ۱۹۷۹ء کے آتے آتے، جب ایران میں خمینی انقلاب کی وجہ سے تیل کی قیمتوں کو دوسرا جھٹکا لگا، سعودی عرب کے لیے اس بحران کو حل کرنے میں ایک اور دل چسپی پیدا ہو چکی تھی۔ وہ یہ کہ ۱۹۷۰ء کی صورت حال سے حاصل ہونے والے غیر معمولی اور غیر متوقع منافع کا بیشتر حصہ انہوں نے مغرب میں اور خصوصاً امریکہ میں سرمایہ کاری میں لگا رکھا تھا۔ چنانچہ امریکی معیشت کے نقصان میں اب خود ان کا اپنا نقصان تھا۔(۱۹۷۳ء کے بائیکاٹ کے سخت ترین زمانے میں بھی سعودی، خفیہ طریقے سے Mediterranean میں امریکی بحرے بیڑے کو تیل مہیا کرتے رہے)
۱۹۸۰ء تک اوپیک کی طاقت کمزور پڑنا شروع ہو چکی تھی۔ اس کی ایک وجہ تو انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی تنظیم کا قیام تھا جس نے امریکہ اور تیل کے دوسرے صارفین کو خریداروں کے مشترکہ مقاصد کے حوالے سے اکٹھا کر دیا تھا۔ نیز ۷۰ء کے جھٹکوں نے پٹرول کے علاوہ توانائی کے دوسرے ذرائع میں دل چسپی کو بڑھا دیا تھا مثلاً North Sea میں گہرے سمندر میں تیل کی تلاش، نیوکلیئر توانائی، حتیٰ کہ پن چکیوں کے ذریعے سے توانائی کے حصول پر بھی ازسر نو غور کیا جانے لگا۔ اسی اثنا میں سوویت یونین کے زوال سے Caspian Sea میں موجود تیل کے بہت بڑے ذخیرے کے مغرب کی دسترس میں آنے کا امکان پیدا ہو گیا جس سے اوپیک کی طاقت مزید کمزور ہوگئی۔
سعودی عرب اور اس کے ہم سایے کویت کے ساتھ، جو مشرق وسطیٰ میں سعودیہ کے بعد تیل کا سب بڑا ایکسپورٹر ہے، امریکہ کے تعلقات ۸۰ء کی دہائی کے اواخر اور ۹۰ء کی دہائی کے آغاز میں اور مضبوط ہو گئے۔ (حسب سابق یہ بھی کسی تحریری معاہدے کے بجائے باہمی مفاہمت پر مبنی تھے) ۸۷ء اور ۸۸ء میں امریکہ نے کویت کو اپنے ٹینکرز پر امریکی جھنڈے لگانے کی اجازت دے دی اور پھر ان ٹینکروں نیز ایران سے سعودی عرب تک تیل کے نقل وحمل کی حفاظت کے لیے ایک بحری بیڑا بھیج دیا۔۱۹۹۰ء میں جب صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا اور سعودی عرب کو بھی دھمکیاں دینا شروع کر دیں تو امریکہ نے ایک عظیم اتحاد قائم کر کے عراق پر حملہ کر دیا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد امریکی فوجی دستے دونوں ملکوں میں متعین کر دیے گئے جو آج بھی وہاں موجود ہیں۔ گزشتہ ماہ امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی جدہ گئے جہاں انہوں نے ولی عہد شہزادہ عبد اللہ کے ساتھ تازہ ترین علاقائی اکھاڑ پچھاڑ پر تبادلہ خیال کیا۔
تعلقات کی اس بنیاد کے ساتھ تیل کے باثروت صارف ملکوں، جن کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں ہے، اور اوپیک کے مابین، جن کی قیادت سعودی عرب کر رہا ہے، ایک تزویراتی مفاہمت پیدا ہو چکی ہے۔ ان کے مابین وقتاً فوقتاً مشاورت ہوتی رہتی ہے بلکہ سعودی عرب اس بات کی کوشش بھی کرتا رہتا ہے کہ صارف تنظیموں کے ساتھ باقاعدہ تعلقات قائم کیے جائیں۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے ممتاز تجزیہ نگار کلاس ری ہاگ (Klaus Rehaag) کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ کو اپنی تیل کی رسد کی فکر ہے اور اوپیک کو طلب کے متوازن رہنے کی۔‘‘
قیمتوں میں اب بھی اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے جو کبھی کبھی کافی شدید ہوتا ہے۔ عین وقت پر حساب کتاب کے اس زمانے میں تیل کی سپلائی میں تاخیر اچھا خاصا دھچکا پہنچا سکتی ہے۔ یہی صورت حال طلب میں اچانک کمی سے پیدا ہوتی ہے۔ ۱۹۹۷ء میں ایشیا کے معاشی بحران سے تیل کی قیمتیں گر کر ۱۰ ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں۔ سعودی عرب اور دوسرے اوپیک ممالک نے تیل کی سپلائی میں کمی کر دی اور ۲۰۰۰ ء کے آغاز میں ایک مختصر عرصے کے لیے قیمتیں ۳۵ ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں۔ تاہم سعودیوں کے مطابق ۱۸ سے ۲۰ ڈالر فی بیرل کی قیمت بہترین ہے اور وہ تیل کی قیمت کو اسی کے قریب قریب رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہرحال، اگر افراط زر کے لحاظ سے تیل کی قیمت کا موازنہ کیا جائے تو امریکی آج بھی گیس پمپ پر اتنی ہی ادائیگی کرتے ہیں جتنی وہ ۷۳ء کے تیل کے بحران سے پہلے کیا کرتے تھے۔ اور قیمتوں میں غیر متوقع اتارچڑھاؤ کا امکان بھی آج پہلے کی نسبت کہیں کم ہے۔
دوسرے صارفین کے مقابلے میں امریکہ سے فی بیرل ایک ڈالر کم قیمت وصول کر کے سعودی اپنے امریکی دوستوں کو خوش ( اور محتاج) رکھنے کی خصوصی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی بڑی شرح منافع کے پیش نظر وہ سمجھتے ہیں کہ آمدنی میں ایک ڈالر کا نقصان وہ خیر سگالی کے جذبات کی صورت میں پورا کر لیتے ہیں۔ صدام اور دوسرے حملہ آوروں سے حفاظت کی یہ ایک معقول قیمت ہے۔ اور اگر ایک طرف امریکہ نیوکلیئر، حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کو صدام کی دسترس سے باہر رکھنے کے متعلق فکر مند ہے، تو دوسری طرف سعودی عرب اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ تیل کا ہتھیار بھی صدام کے ہاتھ میں نہ آنے پائے۔ ۲۰۰۰ء میں صدام نے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے لیے اپنی تیل کی سپلائی منقطع کر دی تو سعودی عرب نے فوراً پائپ لائن کو چلا کر اس کمی کو پورا کر دیا۔
کیا سعودی عرب ناقابل تسخیر ہے؟ بعض دفعہ یوں لگتا ہے کہ سعودی ایسا سمجھتے ہیں۔ سعودی وزارت تیل کے ایک سابق آفیسر نے نیوز ویک سے کہا کہ ’’تم لوگ تیل کا متبادل ڈھونڈ رہے ہو؟ یہ محض خوش کن باتیں ہیں۔ فرض کرو کہ تم توانائی کے کسی متبادل ذریعے کی قیمت کا ایک ہدف مقرر کرتے ہو (جو تیل کی موجودہ قیمت سے کم ہو) اور ہم تیل کی قیمت کو اس سے بھی کم کر دیتے ہیں تو تمہاری ساری سرمایہ کاری بالکل برباد ہو کر رہ جائے گی۔‘‘
یہ بات خارج از امکان نہیں کہ روس سعودی عرب کی جگہ تیل کا سب سے بڑے فراہم کنندہ بن جائے۔ تاہم انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اپنی انڈسٹری کو جدید بنانے کے لیے درکار کئی بلین ڈالر کی سرمایہ کاری میں کشش پیدا کرنے کے لیے روس کو بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔ اگر وہ ایسا کر لے، نیز تیل نکالنے کے لیے نئی پائپ لائنیں اور بندرگاہیں تعمیر کر لے،اپنی سیاسی صورت حال کو مستحکم بنا لے اور پھر اس کا نکالا ہوا تیل اس کی اپنی ملکی معیشت کی ترقی کی وجہ سے اندرون ملک میں ہی صرف نہ ہو جائے تو صرف اس صورت میں وہ سعودی عرب پر برتری حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اس کا امکان اتنا ہی ہے جتنا اس بات کا کہ امریکی قناعت پسندی کا رویہ دوبارہ اختیار کر لیں اور چھوٹی کاریں چلانا شروع کر دیں۔ اس وقت تک ان کے لیے ’’بیرونی تیل سے نجات‘‘ حاصل کرنے کا کوئی امکان نہیں۔
(نیوز ویک، ۸ اپریل ۲۰۰۲ء)