اسلامی تحریکات کا تنقیدی جائزہ (۳)

ڈاکٹر یوسف القرضاوی

(ب) عجلت اور بے صبری

عقل ومنطق اور علم وتدبیر پر جذبات کے غالب آجانے کا یہ ایک اور بڑا اور منفی نتیجہ ہوتا ہے۔ عجلت کار شخص میں تحمل وبردباری اور صبر اور ٹھہراؤ کی خوبی نہیں ہوتی۔ وہ چاہتا ہے کہ آج بوئے اور کل صبح ہی کاٹ لے بلکہ صبح پودا لگائے اور شام کو اس کا پھل پا لے۔ یہ چیز نہ تو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق ہے اور نہ دنیا میں ایسا کوئی اصول کارفرما ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا۔ وہ اس بات پر قادر تھا کہ ’’کن‘‘ کہہ دیتا اور ‘‘فیکون‘‘ کی صورت میں نتیجہ سامنے آجاتا لیکن اللہ نے چاہا کہ وہ اس سنت کے ذریعے سے تامل اور تحمل کی تعلیم دے۔ وہ اس بات پر بھی قادر تھا کہ اپنے نبی نوح علیہ السلام اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کی غیب سے مدد کر دیتا اور پہلے روز ہی وہ کام یاب قرار پاتے لیکن اس نے ایسا کرنے کے بجائے نوح علیہ السلام کو ساڑھے نو سو سال تک شب وروز اور چپکے چپکے بھی اور ہانکے پکارے بھی دعوت دینے پر مامور کر دیا۔ پھر انجام میں بھی نوح علیہ السلام کو نجات سے نوازا تو ان کے اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی کشتی ہی کے ذریعے۔ آسمان سے اس کے لیے کچھ نہ برسایا۔ وہ حضرت محمد ﷺ کی مدد اور آپ کے دشمنوں کو کسی آسمانی یا ارضی آفت کے ذریعے سے ہلاک کر دینے پر بھی قادر تھا لیکن اس کے بجائے اس نے اپنے پیارے نبی اور ان کے ساتھیوں کو ابتلاؤں اور آزمائشوں سے گزار کر فتح ونصرت سے نوازا۔ یہاں تک کہ ابتدا میں طاغوتی قوتوں کے مقابلے میں جہاد کر کے اپنابچاؤ کرنے کی بھی اجازت نہ دی اور تاکید کر دی کہ:

کفوا ایدیکم واقیموا الصلوۃ (النساء ۷۷)

اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو۔

تا آنکہ آپ کا کانٹوں بھری راہوں کا پر عزیمت سفر ختم ہوا ۔ کفار کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت مل گئی اور اللہ کا ارشاد ہوا:

وان اللہ علی نصرہم لقدیر (الحج )

اور اللہ یقیناًان کی مدد پر قادر ہے۔

اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا امر صادر کرنے تک اپنے نبی اور مومنین کو صبر وتحمل کی روش پر قائم رہنے کا حکم دیا:

فاصبر کما صبر اولو العزم من الرسل ولا تستعجل لہم (الاحقاف ۳۵)

’’پس اے نبی، صبر کرو جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو۔‘‘

فاصبر ان وعد اللہ حق ولا یستخفنک الذین لا یوقنون (الروم ۶۰)

’’پس اے نبی، صبر کرو۔ یقیناًاللہ کا وعدہ سچا ہے اور ہرگز ہلکا نہ پائیں تم کو وہ لوگ جو یقین نہیں لاتے۔‘‘

واصبر وما صبرک الا باللہ ولا تحزن علیہم ولا تک فی ضیق مما یمکرون (النحل ۱۲۷)

’’اے نبی، صبر سے کام کیے جاؤ اور تمہارا یہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ ان لوگوں کی حرکات پر رنج نہ کرو اور نہ ان کی چال بازیوں پر دل تنگ ہو۔‘‘

یا ایھا الذین آمنوا اصبروا وصابروا ورابطوا واتقوا اللہ لعلکم تفلحون (آل عمران ۲۰۰)

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو۔ باطل پرستوں سے مقابلے میں پامردی دکھاؤ۔ حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ امید ہے فلاح پاؤ گے۔‘‘

عجلت کاری کے نتیجے میں تحریک اسلامی مکمل تیاری سے قبل ہی سخت معرکوں میں کود پڑی۔ ایسی مشکلات کو بھی اس نے قبل از وقت دعوت دے دی جو اس کی طاقت سے کہیں بڑھ کر تھیں۔ بیک وقت مشرق ومغرب سے ٹکرا گئی اور اپنے آپ کو ایسی مشکل راہوں پر ڈال لیا جن سے ہٹنا اب اس کے بس میں نہیں رہا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جملہ معاملات میں ہماری قدرت وطاقت کے بقدر ہی مکلف بنایا ہے۔ ہمارے لیے ہرگز یہ روا اور درست نہیں کہ اپنے آپ کو ان امور میں بھی مکلف ٹھہرا لیں جن کی سردست ہمارے پاس طاقت نہیں ہے اور فتنوں میں اپنے آپ کو بغیر تیاری کے مبتلا کر دیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: واتقوا اللہ ما استطعتم۔’’ اور اللہ سے ڈرتے رہو جہاں تک تمہارے لیے ممکن ہو۔‘‘ رسول پاک ﷺ کاارشاد ہے: ’’جب تمہیں کسی بات کا حکم دیا جائے تو اپنی استطاعت کے مطابق اسے پورا کرو۔‘‘ فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی برائی دیکھے تو قوت بازو سے اسے مٹائے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے اس کے خلاف کلمہ حق بلند کرے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے۔‘‘

تغیر وانقلاب کی کوششوں کے طاقت وقدرت کی نسبت سے درجے مقرر کر دیے گئے ہیں چنانچہ مسلمان کے لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس کام میں اپنے آپ کو لگائے جس کی ہمت وطاقت رکھتا ہو اور اس کام کو چھوڑ دے جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔

اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے عجلت کی روش کو سخت ناپسند کیا ہے کیونکہ نتائج کے اعتبار سے یہ بہت بری روش ہے۔ قرآن پاک میں ایسے اشارے موجود ہیں جو عجلت وبے صبری کے برے انجام پر دلالت کرتے ہیں:

وما اعجلک عن قومک یا موسیo قال ہم اولاء علی اثری وعجلت الیک رب لترضی o قال فانا قد فتنا قومک من بعدک واضلہم السامری o (طٰہٰ ۸۳۔۸۵)

اور کیا چیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی اے موسیٰ؟ اس نے عرض کیا وہ بس میرے پیچھے آ ہی رہے ہیں۔ میں جلدی کر کے تیرے حضور آ گیا ہوں تاکہ تو مجھ سے خوش ہو جائے۔ فرمایا، اچھا تو سنو، ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا ہے اور سامری نے انہیں گمراہ کر ڈالا ہے۔

جب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کی طرف پلٹے تو وہ قوم کے گمراہ ہونے کی وجہ سے غضب اور تاسف میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے بھائی کی ڈاڑھی کے بال پکڑ کر غصے سے کہا:

یا ھرون ما منعک اذ رایتہم ضلوا o الا تتبعن افعصیت امری o قال یابنوم لا تاخذ بلحیتی ولا براسی o انی خشیت ان تقول فرقت بینی وبین اسرائیل ولم ترقب قولی o (طٰہٰ ۹۲۔۹۳)

اے ہارون، جب تم نے دیکھا کہ یہ گمراہ ہو چکے ہیں تو کس چیز نے تمہارا ہاتھ پکڑا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی؟ ہارون نے جواب دیا: اے میری ماں کے بیٹے، میری ڈاڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آکر کہے گا کہ تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا۔

بنی اسرائیل میں شرک کے جرم کے پھوٹ پڑنے پر ہارون علیہ السلام نے صبر وتحمل کا شیوہ اختیار کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے بھائی موسیٰ کے آنے تک بنی اسرائیل باہمی پھوٹ اور خلفشار سے بچے رہیں۔ موسیٰ کے آنے پر ان کے مشورے سے نئی صورت حال کا کوئی حل سوچا جائے گا۔

حدیث نبوی میں آیا ہے کہ صبر وتحمل کی روش کی نسبت اللہ سے ہے جبکہ عجلت اور اوچھا پن شیطانی خصلتوں میں سے ہے۔ ایک اور ارشاد نبوی ہے کہ اس بندے کی دعا قبول ہوتی ہے جو جلدی نہ کرے اور کہے میں نے دعا تو کی تھی، ابھی قبول نہیں ہوئی۔

میری شدید خواہش ہے اور میں نے بارہا اس کا اظہار بھی کیا کہ تحریک اسلامی کو جہد وکاوش کا جتنا موقع ملتا ہے، اسے غنیمت جانتے ہوئے اپنی قوتوں کو مجتمع کرے۔ کسی فریب کا شکار ہو کر محاذ ومعرکہ آرائی میں نہ الجھ جائے۔ نہ تو اپنے اندر کے ناپختہ اور جلد باز عناصر اسے تصادم کی راہ پر ڈال سکیں اور نہ باہر کے مکار اور سازشی گروہ اسے تصادم کے میدان میں کھینچ کر لا سکیں۔ یہ ایک مخصوص عرصے تک حکمت سے اور اچھی اور میٹھی زبان میں اسلامی دعوت کو پھیلانے میں سرگرمی دکھائے۔ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اور اسی کی خدمت کے لیے بلند ہمت نسلوں کی تعمیر وتربیت کا کام کرے۔ نئی نسلوں کو ذہنی، روحانی، جسمانی اور اجتماعی تربیت کے زیور سے آراستہ کرے۔ معاشرے کے اندر جذب ہو کر اس کے مسائل کے حل میں مدد دے، عوام کی مشکلات دور کرنے میں سعی دکھائے اور معاشرے کی غلط سمت درست کرنے اور لوگوں کی ضروریات کی تکمیل میں کوشاں رہے۔ اپنی قوت اور زور بازو کے مظاہرے کی سوچ کچھ عرصہ ترک رکھے، حکومتوں سے کھلی ٹکر لینے کی پالیسی سے باز رہے۔ ۲۰ سال تک اس طرح کا طرز عمل اپنانے سے ایک پرامن انقلاب پورے معاشرے میں برپا ہو سکتا ہے۔ یہ فکر ونظر اور نفس واخلاق کا انقلاب ہوگا جس کے لیے کسی اسلحے کے استعمال یا جہاد کے اعلان کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔

اگرچہ یہ امکان موجود ہے اور اس طرح کے خدشات کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ اسلام سے بیزار وخائف طائفے اور ان کے حامی گروہ تحریک اسلامی کے رسوخ، نشوونما اور اس کے اثرات کے پھیلاؤ کو بھی گوارا نہیں کرتے، اس کے اتحاد کو پارہ پارہ اور اس کی منزل کو کھوٹی کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ اس کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے سازشوں کا جال پھیلا دیتے ہیں۔ تحریک کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسے اقدامات کو نظر انداز نہ کرے جو تحریک کو براہ راست مقابلے پر لانے کی سازش کے تحت کیے جاتے ہیں۔ اہل تحریک کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرتے رہیں۔ جب کوئی آزمائش آہی پڑے تو صبر واستقامت سے اس کا مقابلہ کریں۔

(ج) مبالغہ

عواطف وجذبات جب غالب آجاتے ہیں تو ایک تیسری آفت اندر سے رونما ہوتی ہے۔ وہ مبالغے کا حد سے بڑھ کر معاملات ومکالمات میں شامل ہو جانا ہے۔ اس آفت میں تو صرف تحریک اسلامی نہیں، پوری امت ہی گرفتار ہے۔ ظاہری معاملات میں ہم دو انتہاؤں میں سے کسی ایک پر کھڑے ہوتے ہیں، تفریط کا شکار ہوتے ہیں یا افراط کا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی جس صفت سے مدح فرمائی ہے، وہ تو ’’الوسط‘‘ یعنی میانہ روی ہے:

وکذالک جعلناکم امۃ وسطا (البقرہ ۱۴۳)

اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا۔

یہ خوبی تحریک اسلامی سے رخصت ہو گئی ہے۔ تحریک کی صفوں میں بھی مبالغہ اور حد سے بڑھی ہوئی نمائش، فہمائش اور تعریف ومذمت کا رجحان تقویت پکڑ گیا ہے۔ اپنی تعریف آپ کی جاتی ہے۔ خرابیوں کا مجسمہ اپنے مخالفین کو بتایا جاتا ہے۔ ’’تفضیل کل‘‘ کے صیغوں میں ہی بات ہوتی ہے۔ زبان وقلم سے ’’عظیم ترین، مضبوط ترین، اعلیٰ ترین، بے مثال‘‘ اور مقابلے میں ’’گھٹیا ترین، بد ترین، اور کمزور ترین‘‘ جیسی صفات کا اظہار ہوتا ہے۔ ہم خود پسندی میں حد سے زیادہ فراخ دل ثابت ہو رہے ہیں اور دوسروں کی عیب نمائی میں بھی آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ کسی معقول آدمی کو اس سے اختلاف نہیں کہ اپنی تہذیب پر فخر کیا جائے۔ جو قوم سورج کی شعاعوں تلے فروغ وترقی چاہتی ہے، اس میں اپنی ہر چیز سے پسندیدگی فطری امر ہے۔ خاص طور پر جب تہذیب اور ثقافتی یلغاریں اور معرکے بپا ہوں، ایک تہذیب دوسری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے ہو تو ایسی حالت میں اجتماعی خود پسندی روا ہے۔ لیکن یہاں یہ خطرہ بہرحال ہے کہ غرور اور خود پسندی عقل ونظر سے محروم ہو، اس میں اندھا پن پیدا ہو جائے۔ فخر وتکبر ان مہلکات میں سے ہے جو کسی فرد یا قوم کے مقدر ہو جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن یہ اشارہ دیتا ہے:

ویوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا (التوبہ ۲۵)

ابھی غزوہ حنین کے روز تمہیں اپنے کثرت تعداد کا غرہ تھا مگر وہ تمہار ے کچھ کام نہ آئی۔

حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: ’’دو چیزوں میں ہلاکت ہے، غرور اور قنوطیت۔‘‘

ہم غیروں --- خاص طور پر مغربی تہذیب--- کی خرابیاں کثرت سے گنواتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مغربی تہذیب اپنے اندر بعض ایسے فتنے رکھتی ہے جنہیں اس تہذیب کی اساس کی حیثیت مل گئی ہے۔ اس میں ہزار آفتیں پوشیدہ ہیں جنہیں اب اس کے مزاج سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ مادیت، نفعیت اور عنصریت جیسے اجزا اس کے خمیر میں داخل ہیں لیکن بہ نگاہ انصاف دیکھا جائے تو یہ تہذیب بعض ایسے نکات بھی رکھتی ہے جو اس کی قوت کے منابع ہیں۔ قوت کے ان سرچشموں کا علم واعتراف ہمیں اس لیے بھی ہونا چاہیے کہ یہ عدل کا تقاضا ہے اور اس لیے بھی کہ مخالف کی طاقت کے حقیقی راز کا ادراک معقولیت واحتیاط کے لحاظ سے ضروری ہوتا ہے۔

آپ دیکھتے ہیں کہ اس تہذیب کا قیام علم وتجربہ کی بنیاد پر ہوا ہے۔ وہاں اداروں اور تنظیموں کو محکم بنیادیں فراہم ہیں، تعاون کی فضا ہے، جماعتی عمل کو ایک پائیداری وتسلسل حاصل ہے۔ اجتماعی اخلاق کے کچھ اصول موجود ہیں۔ انسان، اس کی جملہ نوع کی آزادی اور ہر طرح کے حقوق کا احترام پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر مغربی ممالک کے اندر ابنائے تہذیب کے لیے حقوق کی فراہمی کا مکمل اہتمام ہے۔ ان کے معاملات اصول مشاورت کے مطابق طے ہوتے ہیں۔ حکام کے ظلم اور نا انصافی کے مقابلے میں حقوق کی حفاظت کے لیے موثر ادارے موجود ہیں۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اسلاف کے آثار میں سے ایسی مثالوں کا ذکر کروں جن میں دشمنوں کے لیے بھی انصاف اور ان کی بڑائی اور خوبی کا اعتراف ہے۔ یہ انصاف اور اعتراف ان حالات میں بھی برقرار رہا جب مخالف میدان جنگ میں مقابلے پر اترا ہوتا تھا۔ یہ چیز میں کسی ادبی کتاب کے افسانے یا تاریخ کے واقعات سے ڈھونڈ کر پیش نہیں کر رہا ہوں بلکہ یہ ایک حدیث ہے جسے امام احمدؒ نے اپنی مسند میں اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ الفاظ مسلم کے ہیں۔ موسیٰ بن علی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عمرو بن العاصؓ کے سامنے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ’’قیامت برپا ہوگی تو رومیوں (عیسائیوں) کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔‘‘ حضرت عمرو بن العاصؓ نے کہا ’’ذرا غور کرو تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اس شخص نے کہا: ’’میں تو وہی کچھ کہہ رہا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔‘‘ عمرو بن العاصؓ نے فرمایا: ’’اگر یہ بات ہے تو پھر ضرور ان میں چار خصائل ہوں گے: ۱۔ آزمائش کے وقت وہ سب سے زیادہ حلم وبردباری کا مظاہرہ کرتے ہوں گے، ۲۔ مصیبت سے گزرنے کے بعد بہت جلدی سنبھلنے کی صلاحیت کے مالک ہوں گے، ۳۔ مسکینوں، یتیموں اور ضعیفوں کے ساتھ بھلائی کرنے والے ہوں گے اور ۴۔ حاکموں کے ظلم سے بچانے والے ہوں گے۔‘‘

ممکن ہے کسی کے لیے یہ بات باعث تعجب ہو کہ اہل روم کی خوبیوں کی یہ گواہی مسلمانوں کی عسکری اور سیاسی قیادت سنبھالنے والی ہستی عمرو بن العاصؓ دے رہی ہے جس نے رومیوں کے ساتھ مصر، فلسطین اور دیگر کئی مقامات پر رومیوں کے خلاف زبردست معرکے مارے لیکن اس میں تعجب کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ اسلام نے ہمارے بزرگوں کو انصاف پر قائم رہنے، اللہ کے لیے سچ کی گواہی دینے کی تعلیم دی تھی خواہ اس کی زد خود ان کے اپنے اوپر پڑتی تھی اور کسی قوم سے ان کی دشمنی انہیں عدل سے نہیں روکتی تھی۔

دور حاضر کی تحریک اسلامی کے تجزیہ کار یہ چیز دیکھتے ہیں کہ اس میں جس طرح اپنی قوت کا مبالغہ آمیز تصور پایا جاتا ہے، اسی طرح مخالفین کی مفروضہ کمزوری کے بارے میں بھی خوش فکری کی شکار ہے۔ متعلقین تحریک جب مدح وتعریف کرتے ہیں تو خواہ وہ اپنے عزائم اور کارگزاری کی ہو یا قائدین کی، تعریف میں حد سے بڑھ جاتے ہیں ۔ اور جب مذمت ونفرت کرنے کھڑے ہوتے ہیں تب بھی آخری انتہا پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے پیش نظر کبھی اس طرح کے قول نہیں رہے کہ ’’جب اپنی پسندیدہ اور ممدوح شخصیت سے محبت کرو تو حد سے آگے نہ بڑھو، ہو سکتا ہے وہی شخصیت کسی روز تمہارے لیے سب سے ناپسندیدہ بن جائے۔ اور جب کسی کے خلاف غضب اور غصے کا اظہار کرو تو اس میں بھی اعتدال برتو۔ بعید نہیں کہ آج کی وہی مغضوب شخصیت کل تمہاری محبوب ہستی قرار پائے۔‘‘

قرآن حکیم نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ کسی سے محبت یا نفرت کے معاملے میں ہمیں عدل کو فراموش نہیں کردینا چاہیے۔ محبت ولگاؤ خواہ اپنی ذات کے ساتھ ہو یا اپنی جماعت کے ساتھ، اور نفرت اپنے دشمنوں کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

یا ایھا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شھداء للہ ولو علی انفسکم او الوالدین والاقربین (النساء ۱۳۵)

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری ذات پر یا تمہارے والدین یا رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔‘‘

یا ایھا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط ولا یجرمنکم شنآن قوم علی الا تعدلوا ۔ اعدلوا ھو اقرب للتقوی واتقوا اللہ (المائدہ ۸)

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔‘‘

(جاری)

اسلامی تحریکات اور حکمت عملی

(اگست ۲۰۰۲ء)

تلاش

Flag Counter