اسلام میں معاشی مساوات کا تصور
سوال: ایک طالب علم تنظیم (۱) خدا پرستی (۲) انسان دوستی اور (۳) معاشی مساوات کو اپنے بنیادی اصول قرار دیتی ہے۔ کیا معاشی مساوات کا تصور اسلام میں ہے؟ (نیاز محمد ناصر بلوچستانی)
جواب: معاشی مساوات کا معنٰی اگر تو یہ ہے کہ ایک معاشرہ کے تمام افراد ایک ہی جیسی زندگی گزاریں اور خوراک، لباس، رہائش، ملکیت، کاروبار اور دیگر معاملات میں ان میں کسی قسم کا کوئی تفاوت اور ترجیحات نہ ہوں تو یہ قطعی طور پر ایک غیر فطری تصور ہے جو نہ صرف یہ کہ اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہے بلکہ عملاً بھی ناممکن ہے۔ ہر انسان ذہنی صلاحیت، قوتِ کار اور وسائل سے استفادہ کی استعداد کے لحاظ سے دوسرے سے مختلف ہے۔ اور یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ اپنے چار یا پانچ لڑکوں کو ایک ایک ہزار روپے کی رقم دیں اور یہ توقع رکھیں کہ سب کے سب اس رقم کو ایک ہی مدت میں خرچ کریں گے، ایک ہی مصرف میں صرف کریں گے اور ایک ہی جیسے نتائج اور منافع حاصل کریں گے۔ یہ قطعی غیر فطری بات ہے اور اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ اسلام پیداوار کے قومی ذرائع سے استفادہ کا ہر شہری کو یکساں حق دیتا ہے اور قومی ذرائع سے استفادہ کے باب میں ترجیحات کا قائل نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی شہری اس حق کو استعمال کرنے میں اپنی ذہنی صلاحیت اور قوت کار کے لحاظ سے دوسروں سے بڑھ جائے تو یہ اس کی اپنی محنت اور صلاحیت کا ثمر ہے۔
جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت صدیق اکبرؓ کے دورِ خلافت میں بحرین سے بیت المال میں خاصا سامان اور دولت آئی، اس موقع پر حضرت عمرؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ بیت المال سے وظائف اور اموال کی تقسیم میں ترجیحات قائم کی جائیں اور حضراتِ صحابہؓ کرام میں فضیلت کے جو درجات ہیں اس لحاظ سے تقسیم کے درجات قائم کیے جائیں۔ مثلاً بدری صحابہؓ کو سب سے زیادہ دیا جائے، پھر مہاجرینؓ کو، پھر تیسرے نمبر پر انصارؓ کو اور پھر بعد میں مسلمان ہونے والے حضراتؓ کا درجہ رکھا جائے۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ نے یہ کہہ کر اس تجویز کو مسترد کر دیا کہ فضیلت کا تعلق آخرت سے ہے، اس کا ثواب زیادہ یا کم آخرت میں ملے گا ’’وھذہ معاش فالأسوۃ فیہ خیر من الاثرۃ‘‘ اور یہ معیشت ہے اس میں برابری ترجیح سے بہتر ہے۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبرؓ اپنے دور خلافت میں اسی اصول پر عمل کرتے رہے لیکن جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو انہوں نے اس اصول کو بدل کر اپنی تجویز کے مطابق ترجیحات کی بنیاد پر وظائف کی تقسیم کا سلسلہ شروع کر دیا اور دس سالہ دور خلافت میں اسی طریق کار پر عمل کیا۔ البتہ آخری سال انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ تجربہ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بیت المال سے وظائف کی تقسیم کے بارے میں حضرت ابوبکرؓ کی رائے درست تھی اس لیے آئندہ سال سے میں موجودہ طریق کار کو ترک کر کے حضرت ابوبکرؓ کے طے کردہ اصول کے مطابق برابری کی بنیاد پر وظائف کی تقسیم کا نظام قائم کروں گا۔ لیکن اس کے بعد حضرت عمرؓ کی شہادت ہوگئی اور انہیں اپنے نظام پر نظرثانی کا موقع نہیں مل سکا۔
امام ابو یوسفؒ نے کتاب الخراج میں یہ ساری تفصیل بیان کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری اور قومی ذرائع پر تمام شہریوں کا حق یکساں ہے اور اس میں ترجیحات قائم کرنا بہتر نہیں ہے۔ البتہ یہاں زیر بحث مسئلہ کا ایک اور پہلو بھی ہے جسے نظر انداز کرنا شاید قرین انصاف نہ ہو۔ وہ یہ کہ صدیقی دور میں بیت المال سے وظائف کی تقسیم برابری کی بنیاد پر ہوتی رہی ہے اور فاروقی دور میں ترجیح کا اصول اپنایا گیا ہے۔ اگرچہ حضرت عمرؓ نے اس سے رجوع کا زبانی اظہار فرما دیا تھا لیکن اس کے بعد بھی ترجیحی اصول پر عملدرآمد کا تسلسل قائم رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دراصل دونوں اصول موقع محل کی مناسبت سے قابل عمل ہیں اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں سے کسی بھی اصول کو اپنایا جا سکتا ہے۔ اصل بات اجتماعی مفاد کی ہے، اگر کسی وقت حالات کا تقاضا قومی ذرائع پیداوار کی برابری کی بنیاد پر تقسیم کا ہو اور اجتماعی مفاد اس میں ہو تو ایک اسلامی حکومت اس اصول کو اپنا سکتی ہے، اور کسی دور میں اگر اجتماعی حالات کا تقاضا اس کے برعکس ہو تو دوسری صورت اختیار کرنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔
دینی مدارس کا نصاب اور اکابر کا طرزعمل
سوال: آج مختلف اطراف سے دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی اور اس میں عصری علوم اور تقاضوں کو شامل کرنے کی آواز اٹھ رہی ہے جبکہ ہمارے اکابر نے ایسا نہیں کیا اور نہ ہی کسی بزرگ نے اس مقصد کے لیے کوشش کی۔ کیا موجودہ رجحان اکابر کے طرز عمل سے انحراف نہیں ہے؟ (منظور احمد، سمن آباد، گوجرانوالہ)
جواب: یہ کہنا کہ ہمارے اکابر نے دینی مدارس کے نصاب میں عصری تقاضوں کو شامل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی ہے یا اسے پسند نہیں کیا، خلافِ واقعہ بات ہے۔ سب سے پہلے دینی مدارس اور عصری علوم کو اکٹھا کرنے کی بات شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے کی تھی اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے خود علی گڑھ تشریف لے گئے تھے۔ ندوۃ العلماء لکھنو کا قیام بھی اسی جذبہ کے تحت عمل میں لایا گیا تھا اور اسی مقصد کے لیے جامعہ ملیہ دہلی کی تشکیل ہوئی تھی۔ اس ضمن میں جمعیۃ العلماء ہند کی مندرجہ ذیل قرارداد بطور خاص اہمیت رکھتی ہے جو جمعیۃ کے تیرہویں عمومی اجلاس منعقدہ لاہور بتاریخ ۲۰ تا ۲۱ مارچ ۱۹۴۲ء میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی زیر صدارت منظور ہوئی تھی۔ قرارداد کا متن یہ ہے:
’’جمعیۃ العلماء ہند کا یہ اجلاس مدارس عربیہ دینیہ کے مروجہ نصاب میں دورِ حاضر کی ضرورتوں کے موافق اصلاح و تبدیلی کی ضرورت شدت سے محسوس کرتا ہے اور مدارس عربیہ کے ذمہ دار حضرات اور تعلیمی جماعتوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ماہرین تعلیم کی ایک کمیٹی اس پر غور کرنے کے لیے باہمی مشورے اور تعاون سے مقرر کر کے ایک ایسا نصاب مرتب کرائیں جو دینی علوم کی تکمیل کے ساتھ ضروریات عصریہ میں بھی مہارت پیدا کرنے کا کفیل ہو، اور اس سلسلہ میں جمعیۃ العلماء ہند ارباب علم سے رائے لے کر اپنی صوابدید کے مطابق حتی الوسع جلد کوئی مؤثر اقدام کرے۔‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ درس نظامی کے نصاب میں عصری تقاضوں کے امتزاج کی ضرورت کا احساس ہمارے اکابر کو بھی تھا، صرف اتنی بات تھی کہ وہ تحریکِ آزادی میں مصروفیات کے باعث اس سمت کوئی نتیجہ خیز عملی پیش رفت نہیں کر سکے۔ اور اس سے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ۱۹۴۲ء میں اس ضرورت کا احساس اس قدر شدت کے ساتھ تھا تو آج ۱۹۹۰ء میں اس کی اہمیت اور ضرورت میں کس قدر اضافہ ہو چکا ہوگا۔