لوگوں کو خیر و بھلائی کی تعلیم دینے والے کو دو مختلف طریقوں سے تعلیم دینی پڑتی ہے: ایک یہ کہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دے جو ان کے اخلاق کو درست کریں، اور اقامتِ خیر اور رائے سلیم پر مبنی معاشرتی زندگی بالخصوص ارتفاقِ ثانی و ثالث کے نظام کو اس طریقہ سے قائم کرنے میں مدد دیں جو رائے صواب کے مطابق ہو۔ دوسرے یہ کہ ان کو ان باتوں کی تعلیم دے جن کے ذریعے وہ خدائے بزرگ و برتر کا قرب حاصل کریں اور دارِ آخرت میں ان کی نجات و سعادت کے باعث ہوں۔
ایک دوسری تقسیم کے مطابق خیر کی تعلیم دو طریقوں سے دی جا سکتی ہے:
(۱) جن باتوں کے ذریعے ان کی دنیا سنورتی ہے اور جن باتوں سے ان کو بارگاہِ الٰہی میں تقرب حاصل ہوتا ہے ان تمام باتوں کی تعلیم دینا، جو زبانی وعظ و تذکیر کے ذریعے بھی دی جا سکتی ہے اور قلم و تحریر کے ذریعے بھی ان مسائل کی اشاعت کی جا سکتی ہے۔
(۲) ان کے باطن میں پاکیزہ حالت پیدا کر دینا جس کو سکینہ اور طمانیتِ قلب کہا جاتا ہے اور جس کی تشریح ہے کہ آدمی کا دل ہر وقت آخرت کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ دارِ غرور یعنی دنیا سے اعراض اور بے تعلقی پیدا ہوتی ہے، نیز ان امور سے بھی لا تعلقی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو دنیاوی زندگی سے نفس کی کُلّی وابستگی کے ذرائع ہیں۔ یہ پاکیزہ حالت معلم کبھی تو مؤثر پند و نصیحت کے ذریعے پیدا کرتا ہے اور کبھی اپنی پاکیزہ مجلس و صحبت اور روحانی توجہ کے ذریعے پیدا کرتا ہے۔
معلم ان دونوں میں سے جو بھی قسم یا طریقۂ تعلیم اختیار کرے اس کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ وہ خود عادل و منصف مزاج اور کامل ترین نمونۂ اخلاق ہو، اور آخرت کی نجات و سعادت کو دنیا اور دنیا کی عیش و عشرت پر ترجیح دینے والا ہو۔
(البدور البازغۃ مترجم)