نسخ و تحریف پر مولانا کیرانویؒ اور ڈاکٹر فنڈر کا مناظرہ

محمد عمار خان ناصر

(یہ مناظرہ امام المناظرین مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ اور نامور عیسائی مناظر پادری ڈاکٹر سی جی فنڈر کے درمیان ۱۲۷۰ھ کے دوران آگرہ میں ہوا۔ مناظرہ اردو زبان میں ہوا تھا جو دستیاب نہیں ہو سکا۔ اس کے عربی ترجمہ کو سامنے رکھ کر اسے نئے سرے سے مرتب کیا گیا ہے۔ مناظرہ کے لیے پانچ موضوعات طے ہوئے تھے: (۱) نسخ (۲) تحریف (۳) تثلیث (۴) رسالتِ محمدیؐ (۵) حقانیتِ قرآن۔ مگر صرف دو دن پہلے دو موضوعات پر مناظرہ ہوا اور تیسرے دن پادری فنڈر یا ان کے کسی ساتھی کو سامنے آنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر وزیرخان مرحوم نے اس مناظرہ میں مولانا کیرانویؒ کی معاونت کی جو انگریزی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور عیسائیت کے موضوعات پر خود بھی کامیاب مناظر تھے، جبکہ پادری فرنچ اس مناظرہ میں پادری فنڈر کے معاون تھے — ناصر)


مناظرہ کا پہلا دن

نسخ کی بحث

پہلے روز مناظرہ ’’نسخ‘‘ کے موضوع پر شروع ہوا اور پادری فنڈر نے یوں بحث کا آغاز کیا:’’حاضرین! یہ مباحثہ فاضل مولوی صاحب کی دعوت پر منعقد ہو رہا ہے اور میں نے اس کو انہی کی دعوت پر قبول کیا ہے ورنہ مجھے اس کا کوئی خاص فائدہ معلوم نہیں ہوتا۔ میرا ارادہ ہے کہ مذہب مسیحی کی حقانیت کے دلائل اہلِ اسلام کے آگے رکھوں۔ یہ مناظرہ نسخ، تحریف، تثلیث، اثباتِ نبوت محمد اور حقانیتِ قرآن پر ہو گا۔ پہلے تین مسائل میں بندہ مجیب اور مولوی صاحب معترض ہوں گے اور آخری دو مسائل میں اس کے برعکس۔‘‘

یہ کہہ کر فنڈر بیٹھ گئے، مولانا رحمت اللہ کھڑے ہوئے اور کہا:’’آپ نے اپنی کتاب میزان الحق باب اول فصل دوم میں دو باتیں لکھی ہیں جو صحیح نہیں ہیں:

اول: نسخہ مطبوعہ ۱۸۵۰ بزبان اردو کے صفحہ ۱۴ پر لکھا کہ ’’قرآن اور مفسرین کا دعوٰی ہے کہ جیسے زبور کے نزول سے تورات اور انجیل کے نزول سے زبور منسوخ ہو گئی اسی طرح انجیل بھی قرآن کی وجہ سے منسوخ ہو گئی ہے۔‘‘

دوم: صفحہ ۲۰ پر لکھا کہ ’’کسی محمدی کے پاس اس دعوٰی کی کوئی دلیل نہیں کہ زبور تورات کی ناسخ اور انجیل دونوں کی ناسخ ہے۔‘‘

آپ نے زبور کے نزول سے تورات کے منسوخ ہونے کا دعوٰی غلط طور پر اہلِ اسلام کی طرف منسوب کیا ہے۔ قرآن اور مفسرین میں سے کسی نے بھی ایسا نہیں کہا بلکہ اس کے برعکس ’’تفسیر عزیزی‘‘ میں بقرہ ۸۷ کے تحت لکھا ہے کہ ’’ہم نے موسٰیؑ کے بعد پے در پے پیغمبر بھیجے مثلاٍ یوشعؑ، الیاسؑ، الیسعؑ، سموئیلؑ، داوٗدؑ، سلیمانؑ، اشعیاءؑ، ارمیاءؑ، یونسؑ، عزیرؑ، خرقی ایلؑ، زکریاؑ، اور یحٰیؑ وغیرہ۔ تقریباً چار ہزر تھے اور سب کے سب شریعت موسوی کے ماتحت تھے اور ان کی بعثت سے مقصود شریعت موسوی کے احکام کا اجراء تھا جن پر بنی اسرائیل کی سستی اور کاہلی اور ان میں سے علماء سوء کی تحریفات کے باعث عملدرآمد نہ ہو رہا تھا۔‘‘

اور ’’تفسیر حسینی‘‘ میں لکھا ہے (تحت نساء ۱۶۳) ’’ہم نے داؤد کو ایک کتاب دی جس کا نام زبور تھا جو حمد و ثنا پر متضمن اور احکام و اوامر سے خالی تھی کیونکہ داؤد علیہ السلام شریعت موسوی ہی کے پیرو تھے۔‘‘ اور اسی طرح دوسری اسلامی کتب میں لکھا ہے۔

فنڈر: آپ انجیل کو منسوخ مانتے ہیں یا نہیں؟

مولانا: ہم انجیل کو ان معنوں میں منسوخ مانتے ہیں جن کا ہم ابھی ذکر کریں گے۔ فی الحال صرف یہ ہے کہ آپ نے دونوں عبارتیں اپنی کتاب میں غلط لکھی ہیں۔

فنڈر: یہ میں نے ان لوگوں سے سنی ہیں جن کے ساتھ مجھے بحث  و مباحثہ کا اتفاق ہوا ہے۔

مولانا: یہ کیسا انصاف ہے کہ آپ سنی سنائی باتیں قرآن اور مفسرین کی جانب منسوب کر دیتے ہیں؟ یہ یقیناً غلط ہے۔

فنڈر: ٹھیک ہے۔

مولانا: کیا آپ مسلمانوں کے ہاں اصطلاحی نسخ کے مفہوم سے واقف ہیں؟

فنڈر: بتائیں۔

مولانا: ہمارے نزدیک نسخ صرف اوامر و نواہی میں ہوتا ہے۔ چنانچہ تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ ’’النسخ یعترض علی الاوامر والنواھی‘‘ مطلب یہ ہے کہ قصص و واقعات یا امور عقلیہ قطعیہ (مثلاً یہ کہ اللہ موجود ہے) یا امور حسیہ (مثلاً دن کی روشنی اور رات کی تاریکی وغیرہ) میں نسخ نہیں ہو سکتا۔ اور امر و نواہی میں بھی تفصیل ہے۔ وہ یہ کہ ضروری ہے کہ اوامر و نواہی ایک ایسے حکم عملی کے ساتھ متعلق ہوں جس کے وجود و عدم دونوں کا احتمال ہو۔ پس حکم واجب مثلاً ایمان باللہ اور حکم ممتنع مثلاً شرک و کفر وغیرہ محل نسخ نہیں۔ اور عملی حکم جو احتمال وجود و عدم دونوں کا رکھتا ہو اس کی بھی دو قسمیں ہیں: (۱) مؤبد، یعنی وہ حکم جس کے کرنے یا نہ کرنے کا حکم ہمیشہ کے لیے ہو جیسے ’’ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدًا‘‘ (النور) میں متہمین کی شہادت کی عدم قبولیت! یہ بھی نسخ کا محل نہیں۔ (۲) غیر مؤبد، اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔ (۱) مؤقت، یعنی وہ حکم جس کی مدتِ انتہا بیان کر دی گئی ہو۔ مثلاً ’’فاعفوا واصفحوا حتٰی یاتی اللہ بامرہ‘‘ (مائدہ) میں عفو کا حکم موقت ہے۔ اتہیان اللہ بالامر کے ساتھ یہ قسم محل نسخ کا نہیں جب تک کہ مقررہ وقت پورا نہ ہو جائے۔ (۲) غیر مؤقت، یعنی حکم مطلق، یہ محل نسخ کا ہے۔

اب نسخ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالٰی جانتے تھے کہ یہ حکم مکلفین پر فلاں وقت تک باقی رہے گا پھر منسوخ ہو جائے گا۔ جب وہ وقت آ گیا کہ دوسرا حکم پہلے حکم کے مخالف بھیج دیا جائے، اس سے پہلے حکم کی انتہا معلوم ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ پہلے حکم میں اس کے مقررہ وقت کا بیان نہیں تھا لہٰذا دوسرے حکم کے آجانے پر ہمارا ناقص ذہن یہ خیال کرتا ہے کہ یہ پہلے حکم کی تغییر ہے، حالانکہ فی الحقیقت یہ تغییر نہیں بلکہ اس کی انتہا کا مظہر ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ مالک غلام کو ایک خاص خدمت کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس کے علم میں ہوتا ہے کہ اس سے یہ خدمت میں فلاں وقت تک لوں گا۔ جب وہ مدت گزر جاتی ہے تو مالک اس کو کوئی دوسری خدمت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ خادم کے گمان میں تغییر نہیں بلکہ دراصل اس کی پہلی خدمت کی انتہا کا بیان ہے۔ یا یوں سمجھئے کہ حاکمِ وقت اہلِ دربار کو گرمیوں کے موسم  میں حکم دیتا ہے کہ وہ صبح کے وقت حاضر ہوں اور اس کے اپنے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ میرا یہ حکم سردیوں کے آنے تک رہے گا، لیکن وہ درباریوں کو بتاتا نہیں۔ اس سے اہلِ دربار سمجھتے ہیں کہ یہ حکم ہمیشہ کے لیے ہے۔ پھر جب سردیاں آجاتی ہیں تو حاکمِ وقت اہلِ دربار کو کسی اور وقت میں آنے کا حکم دیتا ہے۔ درباریوں کے خیال میں میں یہ پہلے حکم کی تغییر لیکن حاکم کے مطابق حکمِ سابق کی انتہا کا بیان ہے۔

پس اہل اسلام کے ہاں نسخ اصطلاحی ایک ایسے حکمِ عملی کی مدت انتہا کے بیان  کو کہتے ہیں جو وجود و عدم دونوں کا محتمل ہو اور ہمارے خیال میں وہ ہمیشہ کے لیے ہو (حالانکہ دراصل ایسا نہ ہو)۔

فنڈر: اس لحاظ سے تمہارے نزدیک انجیل کا کون سا حکم منسوخ ہے؟

مولانا: مثلاً حرمتِ طلاق کا حکم۔ انجیل میں ہے کہ طلاق دینا حرام ہے، حالانکہ ہمارے نزدیک جائز ہے۔

فنڈر: کیا تمہارے نزدیک ساری انجیل منسوخ نہیں؟

مولانا: نہیں! کیونکہ انجیلِ مرقس میں لکھا ہے: ’’اے اسرائیل سن خداوند ہمارا ایک ہی خدا ہے اور تو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ۔ دوسرا یہ ہے کہ تو اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ ان سے بڑا اور کوئی حکم نہیں۔‘‘ (آیات ۲۹ تا ۳۱) ہمارے ہاں یہ دونوں حکم باقی ہیں۔

فنڈر: انجیل ہرگز منسوخ نہیں ہو سکتی کیونکہ مسیح نے کہا ہے ’’آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی۔‘‘ (لوقا ۲۱ : ۳۳)

ڈاکٹر وزیر خان (مولانا کے معاون خصوصی) : یہ قول عام نہیں ہے بلکہ ان امور کے ساتھ خاص ہے جن کا بیان مسیحؑ نے اس سے ماقبل کیا ہے۔

فنڈر: نہیں مسیح کا قول عام ہے خاص نہیں۔

ڈاکٹر صاحب: ڈی آئلی اور رچرڈمنٹ کی تفسیر انجیل متی ۲۴: ۳۵ کے ذیل میں دیکھئے، لکھا ہے ’’پادری بیرس صاحب کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ جن امور کی خبر میں نے تمہیں دی ہے وہ یقیناً واقع ہوں گے، اور دین استاین ہوب نے کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ اگرچہ آسمان اور زمین دوسری اشیاء کی بہ نسبت تغیر و تبدل کے قابل نہیں ہیں لیکن یہ بھی ایسے محکم نہیں ہے جتنا ان امور کا وقوع جن کی میں نے تمہیں خبر دی ہے۔ یہ دونوں زائل ہو جائیں گے لیکن میری بتائی ہوئی باتیں نہ ٹلیں گی بلکہ جو کچھ میں نے تمہیں ابھی بتا دیا ہے اس سے کچھ بھی متجاوز نہ ہو گا۔‘‘

فنڈر: ان دونوں کا قول ہمارے دعوی کے منافی نہیں کیونکہ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ میری انسانی واقعات کی بابت خبریں ٹل جائیں گی اور باقی نہ ٹلیں گی۔

ڈاکٹر صاحب: اس بات کا مذکورہ آیت سے کیا تعلق؟

فنڈر: نہیں! مسیح کا قول عام  ہی ہے۔

ڈاکٹر صاحب: ہم نے اپنے حق میں دو گواہ پیش کیے ہیں اور آپ ہیں کہ بے دلیل اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں۔

فنڈر: پطرس کے پہلے خط کے باب کی آیت ۲۳ یوں ہے: ’’کیونکہ تم فانی تخم سے نہیں بلکہ غیر فانی سے خدا کے کلام کے وسیلہ سے، جو زندہ اور قائم ہے، نئے سرے سے پیدا ہوئے ہو‘‘۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا کا کلام ہمیشہ قائم رہے گا اور منسوخ نہیں ہو گا۔

مولانا رحمت اللہ: پرانے عہد نامہ کی کتاب یسعیاہ میں بھی یونہی لکھا ہے: ’’ہاں گھاس مرجھا جاتی ہے پھول کملاتا ہے پر ہمارے خدا کا کلام ابد تک قائم ہے۔‘‘ (۴۰: ۸)۔ اگر اس قول سے عدمِ نسخ ہی مراد ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ تورات کے احکام منسوخ نہیں ہوئے۔ حالانکہ ان میں سے کئی احکام شریعتِ عیسوی میں منسوخ ہوئے۔

فنڈر: ہاں تورات منسوخ ہے لیکن ہم تورات کی بات نہیں کرتے۔

مولانا: بھئی ہمارا مقصود یہ ہے کہ پطرس کا کلام بھی وہی مفہوم رکھتا ہے جو یسعیاہ کا۔ اور جب یسعیاہ کے قول سے عدمِ نسخ مراد نہیں تو پطرس کے قول سے کیسے ہو سکتا ہے؟

فنڈر: میں نے پطرس کا قول سند کے قول پر نقل کیا ہے، دلیل ہماری مسیح کا قول ہی ہے (یعنی یہ کہ میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی)۔

مولانا: ہم پہلے دلیل دے چکے ہیں کہ وہ قول مخصوص ہے تاہم ’’نہ ٹلنے‘‘ سے مراد بھی عدمِ نسخ نہیں ہے۔ انجیل متی ۵: ۱۸ یوں ہے: ’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے‘‘۔ اگر نہ ٹلنے سے عدمِ نسخ ہی مراد ہے تو تورات کے احکام کیوں منسوخ ہوئے؟

فنڈر: ہم تورات کی بات نہیں کرتے۔

ڈاکٹر وزیر خان: آپ توریت کی بات کریں نہ کریں، ہمارے نزدیک دونوں عہد نامے برابر ہیں۔ نیز آپ نے اپنی کتاب میزان الحق باب اول فصل دوم میں لکھا ہے کہ انجیل اور عہد قدیم ہرگز منسوخ نہیں ہو سکتے۔

فنڈر: میں نے یہ بات وہاں لکھی ہے۔ یہاں پر میری بحث صرف انجیل میں ہے۔

ڈاکٹر صاحب: حواریوں نے اپنے زمانے میں تورات کے چار احکام (بتوں کی قربانیوں، خون، گلا گھونٹے ہوئے جانور، اور زنا کی حرمت) کے علاوہ تمام احکام منسوخ قرار دیے تھے یعنی صرف چار احکام باقی رہ گئے تھے۔ حالانکہ اب صرف زنا کی حرمت باقی رہ گئی ہے، باقی تین چیزیں تو اب آپ کے نزدیک حلال ہیں۔ کیا یہ انجیل میں نسخ نہیں؟

فنڈر: ان اشیاء کی حرمت ہمارے نزدیک مختلف فیہ ہے۔ بعض کے نزدیک منسوخ ہیں اور بعض کے نزدیک نہیں۔ لیکن بتوں کی قربانیوں کو ہم اب تک حرام کہتے ہیں۔

مولانا رحمت اللہ: آپ کو روا نہیں ہے کہ آپ بتوں کی قربانی کو حرام کہیں کیونکہ آپ کے مقدس بزرگ پولس نے کہا: ’’مجھے معلوم ہے بلکہ خداوند یسوع مسیح میں مجھے یقین ہے کہ کوئی چیز بذاتہ حرام نہیں لیکن جو اس کو حرام سمجھتا ہے اس کے لیے حرام ہے۔‘‘ (رومیوں ۱۴: ۱۴)۔ اور کہتا ہے کہ ’’پاک لوگوں کے لیے سب چیزیں پاک ہیں مگر گناہ آلودہ اور بے ایمان لوگوں کے لیے کچھ بھی پاک نہیں (ططس ۱: ۱۵)۔

فنڈر: (حیران ہو کر) ہمارے بعض علماء نے ان آیات کے پیشِ نظر ان اشیاء کی حلت کا فتوٰی دیا ہے۔

مولانا: مسیح نے حواریوں کو پہلے یہ حکم دیا: ’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے  کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی بھیڑوں کی طرف جانا‘‘۔ (متی ۱۲: ۵، ۶)۔ اور کہا: میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے لیے نہیں بھیجا گیا۔‘‘ (۱۵: ۲۴)۔ یعنی اپنی نبوت کو محدود قرار دیا لیکن بعد میں حکم دیا کہ ’’تم تمام دنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو۔‘‘ (مرقس ۱۶: ۱۵)

فنڈر: ہاں لیکن یہاں مسیح خود اپنے قول کا ناسخ ہے۔

مولانا: اس قدر تو ثابت ہو گیا کہ مسیح کے کلام میں نسخ جائز ہے اور اس نے خود اپنے قول کو منسوخ کیا۔ ہم کہتے ہیں کہ آسمانی باپ زیادہ قادر ہے کہ اپنے کلام کو منسوخ کرے کیونکہ انجیل میں قولِ مسیح ہے کہ ’’باپ مجھ سے بڑا ہے‘‘۔ (یوحنا ۱۴: ۲۸)۔ اور ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ آسمانی باپ نے اپنے کلام کو منسوخ کیا نہ کہ حضرت محمدؐ نے بذاتِ خود۔ اور باقی آپ کا استدلال مسیح کے اس قول سے کہ ’’میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی‘‘ تو ہم ثابت کر چکے ہیں کہ یہ قول خاص ہے۔ نیز ’’نہ ٹلنے‘‘ سے عدمِ نسخ مراد نہیں۔ اب اگر آپ اجازت دیں تو ایک اور خدشہ کی وضاحت بھی کر دوں جو آپ کے ایک قول کے بارے میں میرے ذہن میں موجود ہے۔

فنڈر: فرمائیں۔

مولانا: آپ نے اپنی کتاب میزان الحق باب اول فصل دوم میں لکھا ہے کہ ’’انجیل اور عتیق کی کتابوں میں نسخ کا دعوٰی دو وجہوں سے باطل ہے۔ اول: اگر نسخ کے فلسفہ کو مان لیا جائے تو لازم آئے گا کہ اولاً خدا نے اپنے ظن کے مطابق تورات کے ذریعے ایک اچھا و اعلٰی حکم دیا لیکن وہ اچھا ثابت نہ ہوا تو اس سے بھی افضل انجیل میں دیا لیکن وہ بھی اچھا ثابت نہ ہوا تو اس سے بھی افضل انجیل میں دیا۔ اس کا حال بھی پہلوں جیسا ہوا تو قرآن میں اس سے اعلٰی و افضل حکم دیا۔ اور اگر یہ مان لیا جائے تو العیاذ باللہ اللہ تعالٰی کی حکمت و قدرت کا بطلان لازم آئے گا اور خدا کا انسانی بادشاہ کی طرح ناقص العقل اور عدیم الفہم ہونا لازم آئے گا حالانکہ یہ صفاتِ الٰہی نہیں بلکہ انسانی ہیں۔ دوم: اگر یہ مان لیا جائے کہ خدا کا مقصودی حکم صرف قرآن میں پایا جاتا ہے تو لازم آئے گا کہ خدا نے پہلے جان بوجھ کر انسان کو ناقص اور بے فائدہ چیز دی اور یہ ذات باری تعالٰی کی نسبت محال ہے۔‘‘

آپ نے کہنے کو تو کہہ دیا لیکن مسلمانوں کے اصطلاحی نسخے کے پیشِ نظر یہ اعتراضات وارد نہیں ہو سکتے، البتہ پولس پر یہ الزام ضرور وارد ہوتا ہے کیونکہ اس نے کہا ’’پہلا حکم کمزور اور بے فائدہ ہونے کے سبب سے منسوخ ہو گیا۔‘‘ (عبرانیوں ۷: ۱۸)۔ اور کہتا ہے کہ ’’اگر پہلا عہد بے نقص ہوتا تو دوسرے کے لیے موقع نہ ڈھونڈا جاتا ۔۔۔ جب اس نے نیا عہد کیا تو پہلے کو پرانا ٹھہرایا۔ جو چیز پرانی اور مدت کی ہو جاتی ہے وہ مٹنے کے قریب ہوتی ہے۔‘‘ (عبرانیوں ۸: ۸۔۱۳)

ان آیات میں پولس نے تورات کو ضعیف، بے فائدہ، عیب دار اور مٹنے کے قریب پرانی و بوسیدہ بتایا ہے۔

فنڈر نے کوئی جواب نہ دیا۔

مولانا: میزان الحق کے یہ چند صفحات جو آپ نے نسخ کے رد میں لکھے ہیں یہ واجب الاخراج ہیں کیونکہ ان میں مذکور امور کو غلط طور پر ہماری طرف منسوب کیا گیا ہے۔

پانچ فرنچ (فنڈر کا معاون خصوصی): ہم نے گذشتہ مناظرہ میں کہا تھا کہ تورات کے احکام اس لیے منسوخ ہوئے کہ ان کی حیثیت مسیح کے مقابلہ میں سائے کی سی تھی، ان کا نسخ مناسب تھا کیونکہ مسیح نے ان کی تکمیل کی۔ البتہ وہ بشارات جو مسیح کے حق میں ہیں غیر منسوخ ہیں کیونکہ انجیل میں لکھا ہے: ’’کیونکہ شریعت جس میں آئندہ کی اچھی چیزوں کا عکس ہے اور ان چیزوں کی اصلی صورت نہیں ان ایک طرح کی قربانیوں ہے جو ہر سال بلاناغہ گزارنی جاتی ہیں پاس آنے والوں کا ہرگز کامل نہ کر سکتی ورنہ ان کا گذراننا موقوف نہ ہو جاتا؟ کیونکہ جب عبادت کرنے والے ایک بار پاک ہو جاتے تو پھر ان کا دل انہیں گناہگار نہ ٹھہراتا بلکہ وہ قربانیاں سال بہ سال گناہوں کو یاد دلاتی ہیں کیونکہ ممکن نہیں کہ بیلوں اور بکروں کا خون گناہوں کو دور کر دے اس لیے وہ دنیا  میں آتے وقت کہتا ہے کہ تو نے قربانی اور نذر کو پسند نہ کیا بلکہ میرے لیے ایک بدن تیار کیا۔ پوری سوختنی قربانی اور گناہ کی قربانیوں سے تو خوش نہ ہوا۔‘‘ (عبرانیوں ۱۰: ۱۔۶)

یعنی خدا شریعت پر راضی نہ تھا بلکہ شریعت صرف مسیح کی طرف اشارہ اور راہنما ہیں اور اس کی آمد پر ان کی تکمیل ہو گئی (۱)۔ چونکہ مسیح سے پہلے کی کتب میں مسیح کی جانب اشارہ پایا جاتا ہے اس لیے مسیح ان کا ناسخ ہو سکتا ہے لیکن انجیل میں کسی کی جانب ایسا کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا لہٰذا انجیل کا ناسخ کون ہو سکتا ہے؟

ڈاکٹر وزیر خان: آپ نے یہ جو کہا ہے کہ کتبِ عہدِ عتیق میں مسیح کی بابت اشارہ و بشارت پائی جاتی ہے اس لیے مسیح ناسخ ہو سکتا ہے، اس لیے غلط ہے کہ مسیح کی آمد سے قبل بھی کچھ احکام منسوخ ہوئے ہیں۔

فرنچ: مثلاً کون سا حکم؟

ڈاکٹر صاحب: مثلاً ذبح کرنا ممنوع تھا (احبار باب ۱۷) لیکن پھر جائز ہو گیا (استثناء ۱۲: ۱۵۔۲۰۔۲۲)۔ اور مفسر ہورن نے اپنی تفسیر مطبوعہ ۱۸۲۲ء جلد اول ص ۶۱۹ پر اقرار کیا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوا ہے اور تصریح کی ہے کہ اس کا نسخ مصر سے خروج اور فلسطین میں دوخل کے درمیانی چالیس سال میں وقوع پذیر ہوا۔

فرنچ: خاموش صامت۔

ڈاکٹر صاحب: تاحال ہم نے امکانِ نسخ پر بحث کی ہے اور انجیل میں وقوعِ نسخ پر ہم اثباتِ رسالتِ محمدؐ کے موقعہ پر بحث کریں گے۔ فی الحال فقط امکانِ نسخ کو ثابت کیا ہے جس کا پادری صاحبان نے بالعموم اور پادری فنڈر صاحب نے بالخصوص میزان الحق میں انکار کیا ہے۔

فنڈر: ہاں ہمارے نزدیک بھی امکان و وقوع میں فرق ہے۔

اس پر نسخ کی بحث مکمل اور تحریف کی بحث شروع ہو گئی۔

تحریف کی بحث

مولانا رحمت اللہ نے کہا کہ ہمیں بتائیں کہ آپ کے نزدیک تحریف کس کو کہتے ہیں تاکہ ہم اس کے مطابق ثبوت مہیا کریں۔ فنڈر نے کوئی واضح جواب نہ دیا تو مولانا نے کہا، کیا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ پیدائش کی  کتاب سے لے کر مکاشفہ کی کتاب تک ہر ایک لفظ اور جملہ الہامی ہے؟

فنڈر: ہم ہر لفظ کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہمیں کاتب کی  غلطیوں کا اعتراف ہے۔

مولانا: میں سہوِ کاتب سے قطع نظر کرتا ہوں۔ دوسرے الفاظ کے بارے میں بتائیے!

فنڈر: ہم الفاظ کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔

مولانا: یوسی بیس مؤرخ نے اپنی کتاب کے باب ۱۸ میں کہا ہے کہ عیسائی عالم ’’جسٹن شہید نے طریفو یہودی کے ساتھ مناظرہ میں چند بشارات ذکر کر کے دعوٰی کیا ہے کہ یہودیوں نے ان کو کتب مقدسہ سے ساقط کر دیا ہے (۲)۔‘‘ اور مفسر والٹن نے اپنی تفسیر جلد سوم ص ۳۲ میں لکھا ہے ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ عبارات جن کے کتب مقدسہ سے اسقاط کا دعوٰی جسٹن نے  طریفو کے ساتھ مناظرہ میں کیا تھا وہ جسٹن اور امینیوس کے زمانہ میں عبرانی و یونانی اور دیگر نسخوں میں موجود تھیں اگرچہ آج کل ان میں نہیں پائی جاتیں۔ خصوصاً وہ عبارت جس کے یرمیاہ کی کتاب میں مذکور ہونے کا دعوٰی جسٹن نے کیا تھا اور سلبر جیسی اور ڈاکٹر کریب نے لکھا ہے کہ جب پطرس نے اپنے پہلے خط کے باب ۴ کی آیت نمبر ۶ لکھی تو اس کے خیال میں یہ بشارت موجود تھی۔‘‘

اور مفسر ہورن اپنی تفسیر مطبوعہ ۱۸۲۲ء جلد ۴ ص ۶۲ پر لکھتا ہے کہ ’’جسٹن نے طریفو کے ساتھ مقابلہ میں دعوٰی کیا کہ غدرا نے لوگوں کو کہا تھا کہ ’’عید قسم کا کھانا ہمارے نجات دہندہ خدا کا کھانا ہے۔ پس اگر تم نے خدا کو اس کے کھانے سے افضل سمجھا اور اس پر ایمان لے آئے تو زمین ویران نہ رہے گی۔ اور اگر تم نے اس کی بات نہ سنی تو غیر قومیں تم سے استہزاء کریں گی اور تم خود اس کا سبب ہو گے۔ اور وائی ٹیکر نے کہا ہے کہ یہ عبارت غالباً عزرا ۶: ۲۲ اور ۶: ۲۱ کے درمیان کی تھی اور ڈاکٹر کلارک نے جسٹن کی تصدیق کی ہے۔‘‘

پس ان تمام عبارات سے ظاہر ہے کہ جسٹن یہودیوں کو تحریف کا ملزم گردانتا تھا اور ارمینیوس، کریب، سیلر جیسی، وائی ٹیکر، ای کلارک اور واٹسن وغیرہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اور یہ عبارات اس وقت عبرانی و یونانی نسخوں میں موجود تھیں لیکن آج نہیں ہیں۔ یا تو جسٹن اپنے دعوٰی میں سچا ہے یا جھوٹا۔ اگر سچا ہے تو تحریف کا اثبات ہوتا ہے۔ اور اگر جھوٹا ہے تو ایک بڑا عیسائی عالم اپنی طرف سے عبارات اختراع کر کے ان کو کتبِ مقدسہ کا جزو قرار دیتا ہے۔

فنڈر: جسٹن ایک ہی آدمی ہے اور وہ بھول گیا تھا۔

مولانا: ہنری واسکاٹ کی تفسیر جلد اول میں تصریح ہے کہ ’’سینٹ آگسٹائن (مشہور عیسائی عالم و فلسفی) یہودیوں پر تحریف کا الزام لگاتا تھا کہ انہوں نے عبرانی نسخہ میں تحریف کی ہے اور جمہور علماء بھی یہی کہتے ہیں اور ان کا اتفاق ہے کہ یہ تحریف ۱۳۰ء میں کی گئی ہے۔

فنڈر: ہنری واسکاٹ کے کہنے سے کیا ہوتا ہے، ان کے علاوہ بھی کئی مفسرین ہیں۔

مولانا: انہوں نے اپنی نہیں جمہور علماء کی رائے بھی بیان کی ہے۔

فنڈر: مسیح نے کتب عہد عتیق کے حق میں شہادت دی ہے (۳) اور اس کی شہادت سے بڑی کوئی شہادت نہیں۔ چنانچہ انجیل یوحنا ۵: ۴۶ یوں ہے: ’’اگر تم موسٰی کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے اس لیے کہ اس نے میرے حق میں لکھا‘‘۔ اور انجیل لوقا ۲۴: ۲۷ یوں ہے: ’’پھر موسٰی سے اور سب نبیوں سے شروع کر کے سب نوشتوں میں جتنی باتیں اس کے حق میں لکھی ہوئی ہیں وہ ان کو سمجھا دیں‘‘۔ اور انجیل لوقا ۱۶: ۳۱ یوں ہے: ’’اس نے اس سے کہا کہ جب وہ موسٰی اور نبیوں ہی کی نہیں سنتے تو اگر مردوں میں سے کوئی جی اٹھے تو اس کی بھی نہ مانیں گے۔‘‘

ڈاکٹر وزیر خان: تعجب ہے کہ آپ اسی کتاب سے استدلال کر رہے ہیں جس کی صحت و عدمِ صحت پر بحث ہو رہی ہے۔ جب تک اس کا کوئی فیصلہ نہیں ہو جاتا، اس کتاب سے آپ کا استدلال درست نہیں ہے۔ تاہم آپ نے جو آیات ذکر کی ہیں ان سے صرف اسی قدر ثابت ہوتا ہے کہ یہ کتابیں مسیح کے زمانہ میں موجود تھیں لیکن الفاظ کا تواتر اس سے ثابت نہیں ہوتا۔ اس کی تائید بیلی نے اپنی کتاب مطبوعہ ۱۸۵۰ء لندن قسم سوم باب شسشم میں کی ہے اور بیلی کی کتاب کو آپ نے اپنی کتاب ’’حل الاشکال‘‘ میں مستند شمار کیا ہے۔

فنڈر: اس مقام پر ہم بیلی کی بات نہیں مانتے۔

مولانا رحمت اللہ: اگر تم بیلی کی بات نہیں مانتے تو ہم تمہاری نہیں مانتے، ہم تو بیلی کی ہی مانتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب: یعقوب کے عام خط باب ۵ آیت ۱۱ میں ہے: ’’تم نے ایوب کے صبر کا حال تو سنا ہی ہے اور خداوند کی طرف سے جو اس کا انجام ہوا اسے بھی معلوم کر لیا‘‘۔ اس آیت میں ایوب کی کتاب کے حق میں شہادت دی گئی ہے (۴) لیکن اس کے باوجود اہلِ کتاب میں ہمیشہ جھگڑا رہا ہے کہ یہ ایوب نام کا کوئی شخص تھا بھی یا یہ محض ایک کہانی ہی ہے۔ مشہور یہودی عالم ربی ممانی دینہ اور عیسائی علماء ولکلرک، میکاملیس، سملر، اسٹاک وغیرہ اس کو باطل اور فرضی قصہ مانتے ہیں۔

فنڈر: ہمارے نزدیک یہ اصلی ہے اور اگر مسیح کی شہادت میں داخل ہے تو الہامی بھی ہے۔

ڈاکٹر صاحب: پولس، تلمیتھس کے نام اپنے دوسرے خط ۳: ۸ میں لکھتا ہے کہ ’’یاناس‘‘ اور ’’ویمپراس‘‘ نے موسٰی کی مخالفت کی۔ نامعلوم پولس نے یہ دونوں نام کہاں سے دیکھے، شاید جعلی کتاب سے کیونکہ توریت میں ان کا ذکر نہیں۔

فنڈر: ہماری بحث جعلی کتابوں میں نہیں ہے۔ میں نے مسیح کا قول عہد عتیق کی کتب کے حق میں نقل کیا ہے، جب تک انجیل کی تحریف ثابت نہیں ہو جاتی مسیح کی شہادت کافی و وافی ہے۔

مولانا رحمت اللہ: ہم دونوں عہدوں کے مجموعہ کی بات کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک دونوں ایک ہی ہیں۔ اگر فرق ہے تو آپ کے نزدیک۔ آپ ایک جزء کے حق میں دوسرے جزء سے استدلال ہمارے سامنے کیوں کرتے ہیں؟ جب تک آپ دونوں عہدوں کا محرف نہ ہونا ثابت نہ کر لیں تب تک آپ ان سے ہم پر دلیل نہیں لے سکتے۔

فنڈر: میں نے مسیح کا قول کتب عہد عتیق کے حق میں نقل کیا ہے، آپ انجیل کی تحریف کا اثبات کریں۔

ڈاکٹر وزیر خان: لیجئے! لکھا ہے: ’’پس سب پشتیں ابرہام سے داؤد تک چودہ پشتیں ہوئیں اور داؤد سے لے کر گرفتار ہو کر بابل جانے تک چودہ پشتیں ہوئیں۔‘‘ (انجیل متی ۱: ۱۷)۔ ان آیات میں دعوٰی ہے کہ گرفتار ہو کر بابل جانے سے لے کر مسیح تک چودہ پشتیں ہیں حالانکہ ذکر صرف تیرہ کا ہے۔

فنڈر: کیا ایسا تمام نسخوں میں ہے؟

ڈاکٹر صاحب: سب نسخوں میں ہے یا نہیں ہمیں علم نہیں لیکن یہ بہرحال غلطی ہے۔

فنڈر: غلطی اور چیز ہے اور تحریف اور۔

ڈاکٹر صاحب: اگر انجیل الہامی ہے تو اس میں غلطی کیسی؟ لازماً یہ تحریف کا نتیجہ ہے۔ اور اگر الہامی نہیں ہے تو؟

فنڈر: تحریف تب ہی ثابت ہو گی جب ایک آیت کا ۔۔۔۔ قدیم نسخہ میں فقدان یا وجود ہو اور جدید میں وجود یا فقدان۔

ڈاکٹر صاحب: یوحنا کے پہلے خط کے باب ۵ آیات ۷۔۸ کو پیش کیا (۵)۔

فنڈر: ہاں یہاں تحریف ہوئی ہے اور اسی طرح ایک دو اور جگہوں میں۔

جب جج سمتھ نے یہ سنا تو اس نے پادری فرنچ سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ تو پادری فرنچ نے جواب دیا کہ ان لوگوں نے ہورن وغیرہ کی کتابوں سے سات آٹھ جگہوں میں تحریف کا اقرار دکھایا ہے۔

پادری فرنچ: پادری فنڈر بھی چھ سات جگہوں میں تحریف کا وقوع مانتے ہیں۔

مولانا قمر الاسلام (خطیب مرکزی جامع مسجد آگرہ) نے ’’مطلع الاخبار‘‘ کے ایڈیٹر کو کہا کہ فنڈر کا یہ اقرار اخبار میں شائع کروا دو۔

فنڈر: ہاں لکھ لو۔ لیکن تحریف صرف اتنی ہی واقع ہوئی ہے اور اس سے کتب مقدسہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، ہاں اختلافِ عبارات کی وجہ سہوِ کاتبین ہے۔

ڈاکٹر: آپ کے بعض نے ڈیڑھ لاکھ اختلافات کا دعوٰی کیا ہے اور بعض نے تیس ہزار کا۔ آپ کس کو مانتے ہیں؟

فرنچ: صحیح یہ ہے کہ چالیس ہزار اختلافات ہیں۔

فنڈر: لیکن اس سے کتب مقدسہ کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اہلِ انصاف آپ ہی انصاف کریں اور بار بار مفتی ریاض الدین صاحب سے انصاف کا تقاضا کرنے لگا۔

مفتی ریاض الدین: جب ایک وثیقہ میں کچھ حصہ جعلی ثابت ہو گیا ہے تو باقی کا بھی کوئی اعتبار نہیں رہا۔ اور جب آپ نے کتب مقدسہ کے بعض مقامات پر تحریف کا اقرار کر لیا ہے تو آپ کی کتاب کو کیسے معتبر مان لیا جائے؟ اس بات کو تبھی حاضرین سمجھتے ہیں۔ مثلاً جج اسمتھ صاحب آپ ہی بتائیے۔ لیکن اسمتھہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر مفتی صاحب نے کہا کہ جب دو مختلف عبارتیں پائی جاتی ہیں تو کیا آپ صحیح عبارت کو متعین کر سکتے ہیں؟

فنڈر: نہیں۔

مفتی صاحب: اہلِ اسلام کا دعوٰی بھی یہی ہے کہ یہ مروج مجموعہ کلام سارا کا سارا کلامِ الٰہی نہیں اور آپ نے بھی اس کا اقرار کر لیا ہے۔

فنڈر: مقررہ وقت سے نصف گھنٹہ زائد ہو گیا ہے، باقی بات کل ہو گی۔

مولانا رحمت اللہ: آپ نے سات آٹھ جگہ تحریف کا اقرار کیا ہے۔ کل ہم پچاس ساٹھ مقامات پر ثابت کریں گے انشاء اللہ، لیکن اگر آپ مزید بحث کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو تین باتیں ہماری ماننا پڑیں گی۔ (۱) ہم آپ سے بعض کتابوں کی سند متصل کا مطالبہ کریں گے وہ آپ کو بیان کرنا ہو گی۔ (۲) جب ہم عیسائی علماء کے اقرار کے ساتھ ۵۰ ۔ ۶۰ مقامات پر تحریف ثابت کریں گے تو یا آپ ان کو تسلیم کریں گے یا تاویل۔ (۳) جب تک آپ دونوں میں سے کوئی بات اختیار نہ کریں آپ ان کتب سے استدلال نہیں کریں گے۔

فنڈر: مجھے منظور ہے لیکن میں بھی آپ سے کل پوچھوں گا کہ محمدؐ کے زمانہ میں کونسی انجیل موجود تھی؟

مولانا: ٹھیک ہے۔

ڈاکٹر صاحب: اگر اجازت دیں تو مولانا ابھی بتا دیں۔

فنڈر: نہیں اب دیر ہو گئی ہے، کل سہی۔

اس پر مناظرہ کا پہلا دن اختتام کو پہنچا۔

مناظرہ کا دوسرا دن

پادری فنڈر کھڑا ہوا اور میزان الحق ہاتھ میں لے کر کچھ قرآنی آیات پڑھنے لگا لیکن عبارات کی بے حد غلطیاں کیں۔

مولانا اسد اللہ (قاضی القضاء): براہِ مہربانی ترجمہ پر اکتفا کریں، عبارات کے بدل جانے سے معانی میں خلل آتا ہے۔

فنڈر: معاف کرنا یہ ہماری زبان کا قصور ہے۔ لکھا ہے: ’’اور کہہ میں ایمان لایا اس کتاب پر جو اللہ نے اتاری اور مجھے حکم ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں۔ اللہ ہمارا اور تمہارا رب ہے۔ ہمارے لیے ہمارے اعمال کی جزا ہے اور تمہارے لیے تمہارے اعمال کی۔ ہمارے تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں‘‘ (سورۃالشورٰی ۱۵)۔ سورۃ عنکبوت میں ہے ’’اہلِ کتاب کے ساتھ اچھے طریقہ ہی سے مجادلہ کرو، سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہیں اور کہو کہ ہم قرآن اور تمہاری جانب آنے والی کتابوں پر ایمان ائ۔ ہمارا اور تمہارا خدا ایک ہے اور ہم اسی کے تابعدار ہیں‘‘ (آیت ۴۶)۔ سورۃ المائدہ میں ہے ’’آج تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کی جاتی ہیں۔ اہلِ کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے‘‘ (آیت ۵)۔

پھر فنڈر نے کہا کہ یہ تو معلوم ہی ہے کہ اہلِ کتاب یہود و نصارٰی کو کہا جاتا ہے اور ان کو جو کتابیں ملی ہیں وہ تورات و انجیل ہیں (سورۃ آل عمران ۳۔۴) تو مذکورہ آیات میں کتاب اور اہلِ کتاب کا تذکرہ ہے۔ معلوم ہوا کہ تورات و انجیل آنحضرتؐ کے زمانہ میں موجود تھیں اور اہلِ اسلام نے ان کو تسلیم کر کے اپنا ہادی ٹھہرایا اور آنحضرتؐ کے عہد تک ان میں تحریف نہ ہوئی تھی۔

مولانا رحمت اللہ: ان آیات سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام زمان سابق میں نازل ہوا تھا اس پر ایمان لایا جائے اور تورات و انجیل زمانۂ سابقہ میں نازل ہوئی تھیں اور محمدؐ کے عہد میں موجود تھیں۔ لیکن یہ کسی طور سے ثابت نہیں ہوتا کہ زمانۂ محمدؐ تک ان میں تحریف نہ ہوئی تھی۔ جبکہ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں بیشتر مواقع پر اہلِ کتاب پر تحریف کا الزام لگایا ہے۔ تو جیسے ہم قرآن کی رو سے تورات و انجیل کے کلام اللہ اور منزل من اللہ ہونے پر یقین رکھتے ہیں اسی طرح قرآن ہی کی رو سے ان میں تحریف کے وقوع پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اہلِ کتاب کی تصدیق یا تکذیب نہ کرو (صحیح بخاری کتاب التفسیر) کیونکہ ان کی تورات و انجیل محرف ہیں۔

فنڈر: آپ فی الوقت حدیث سے قطع نظر صرف قرآنی آیات  پیش کریں۔

مولانا: ان آیات سے یہی دو امور ظاہر ہوتے ہیں جن کا ذکر ہم نے ابھی کیا اور آپ نے ان کا اقرار بھی میزان الحق میں کیا ہے۔

فنڈر: سورۃ البینہ کی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت سے پہلے تحریف نہ کی گئی تھی۔ ’’اہلِ کتاب میں سے کافر لوگ اور مشرکین دلیل آجانے سے قبل باز نہیں آئے، اللہ کا رسول مقدس اور صحیفوں کی تلاوت کرتا ہے۔ اس میں مضبوط کتابیں ہیں اور اہلِ کتاب تفرقہ باز دلیل آنے سے قبل نہ ہوئے‘‘ (آیات ۱۔۴)۔ اور فاضل آل حسن اپنی کتاب ’’الاستفسار‘‘ کے صفحہ ۴۴۸ پر لکھتے ہیں: ’’یعنی جب تک ان کے پاس نبی صلعم نہ آئے تھے اس وقت تک ایک موعود نبی پر اعتقاد رکھتے تھے اور اس بارے مختلف یا متفرق نہ ہوئے تھے‘‘۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ تحریف و تبدیلی آنحضرت کے بارے میں بشارات کے اندر واقع نہ ہوئی تھی۔

مولانا: ان آیات کا مختار ترجمہ جمہور کے نزدیک یہ ہے جیسا کہ شاہ عبد القادر صاحب محدث دہلویؒ نے کیا ہے ’’نہ تھے اہلِ کتاب میں سے کافر اور مشرکین باز آنے والے (یعنی اپنے مذاہب، بری رسوم، فاسد عقائد سے مثلاً یہودیوں کا انکار نبوت عیسٰی اور عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث وغیرہ) جب تک کہ ان کے پاس دلیل نہ آگئی۔۔۔۔ اور نہ تفرقہ کیا اہلِ کتاب نے (یعنی اپنے ادیان، بری رسوم اور فاسد عقائد میں اس طرح کہ بعض نے ان کو چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا اور بعض بغض و عناد کے باعث قائم رہے) مگر دلیل آجانے کے بعد (یعنی رسول اللہ اور قرآن کے آجانے کے بعد)۔ اور اسی سورۃ کی پہلی آیت کے حاشیہ میں لکھتے ہیں: ’’حضرت سے پہلے سب دین والے بگڑ گئے تھے۔ ہر ایک اپنی غلطی پر مغرور۔ اب چاہیئے کہ کسی حکیم کے یا ولی یا بادشاہ عادل کے سمجھائے راہ پر آویں سو ممکن نہ تھا جب تک ایسا رسول نہ آوے عظیم القدر ساتھ کتاب اللہ کے اور مدد قوی کے کئی برسمیں ملک ملک ایمان سے بھر گئے‘‘ انتہٰی۔

پس ان آیات کا حاصل یہی ہے کہ اہلِ کتاب اور مشرکین رسول اللہ کے آنے سے پہلے اپنی بری رسوم سے باز نہ آئے تھے اور جس نے آپؐ کے آنے کے بعد مخالفت کی تو اس کی وجہ بغض و عناد ہے۔ لہٰذا آپ کا ان آیات سے مذکورہ استدلال کرنا صحیح نہیں ہے اور فاضل آل حسن کا جواب تنزلی ہے جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں: ’’اگر اس استدلال کی صحت تسلیم کر لی جائے تو صرف یہ ثابت ہو گا کہ ۔۔۔‘‘ یعنی اول تو آپ کا مزعومہ استدلال ہی صحیح نہیں۔ اگر صحیح بھی ہو تو صرف بشاراتِ نبویؐ میں ہی عدمِ تحریف متحقق ہو گی نہ کہ ہر صحیفہ کے ہر موضوع میں۔ علاوہ ازیں فاضل آل حسن نے ساری کتاب میں پکار پکار کر ان کتب کی تحریف کا اعلان کیا ہے۔

فنڈر: اب آپ بتلائیں کہ قرآن میں جس انجیل کا ذکر آیا ہے وہ کونسی انجیل ہے؟

مولانا: کسی ضعیف یا صحیح روایت سے اس کی تعیین ثابت نہیں کہ وہ انجیل متی کی ہے یا یوحنا کی یا کسی اور کی۔ اور ہمیں ان کی تلاوت کا حکم نہیں تھا اس لیے ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کون سی انجیل تھی۔

فنڈر: (مناظرہ میں شریک انگریز حکام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے) یہ سارے اہلِ کتاب بیٹھے ہیں ان سے پوچھیں کہ وہ کونسی انجیل تھی۔

ڈاکٹر وزیر خان: قرآن سے صرف یہ ثابت ہے کہ حضرت عیسٰیؑ پر ایک انجیل نامی کتاب نازل ہوئی تھی اور معلوم نہیں کہ وہ کون سی تھی۔ کیونکہ بہت سی اناجیل اس زمانے میں مشہور تھیں (۶) مثلاً انجیل برنابا اور انجیل برتوکا، واللہ اعلم کہ انجیل سے مراد ان میں سے کون سی انجیل ہے۔ اس زمانہ میں عیسائی فرقہ مانی کیز بھی تھا جو ان مشہور اناجیل کے مجموعہ کو تسلیم نہ کرتا تھا، اور ایک فرقہ یعقوبیہ بھی تھا جو حضرت مریمؑ کو خدا مانتا تھا شاید یہ ان کی انجیل میں لکھا ہو۔ اور قرآن میں کہیں سے ثابت نہیں ہوتا کہ اعمال کی کتاب خطوط اور مکاشفہ کی کتاب اس انجیل میں داخل تھیں یا نہیں۔

پادری فرنچ: تم ان کتابوں کو جن میں مسیح کے ارشادات درج نہیں ہیں تسلیم نہیں کرتے حالانکہ لودیسیہ کی کونسل نے مکاشفہ کی کتاب کے علاوہ باقی کتب کو مستند قرار دیا اور انہیں واجب التسلیم کہا اور ہمارے بڑے معتبر علماء مثلاً کلیمنس، انکسدر یانوس، ٹرٹولین، اوریجن وغیرہ نے مکاشفہ کی کتاب کو بھی مستند کہا ہے لیکن ہمارے پاس ان کتب کی سند متصل نہیں ہیں کیونکہ مسیحیت پر بڑے ظلم اور حملے ہوئے اور زیادہ تر یہ مذہب مشکلات میں ہی گھرا رہا۔

ڈاکٹر وزیر خان: یہ کلیمنس کس زمانہ میں تھا؟

فرنچ: دوسری صدی کے آخر میں۔

ڈاکٹر صاحب: کلیمنس نے مکاشفہ کی کتاب سے صرف دو فقرے نقل کیے ہیں لہٰذا صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ کلیمنس نے دوسری صدی کے آخر میں مکاشفہ کی کتاب کو یوحنا رسول کی تصنیف تسلیم کیا، لیکن اس سے پہلے بھی سند متصل نہ تھی اور تواتر لفظی تمام کتاب کا صرف دو فقروں سے ثابت نہیں ہوتا۔ اور باقی علماء ٹرٹولین وغیرہ اس سے بھی بعد کے ہیں، جبکہ اسی زمانہ میں علماء یہ بھی کہتے تھے کہ ’’سرن تھیسن‘‘ جو مشہور ملحد تھا مکاشفہ کی کتاب اس کی تصنیف ہے۔

فرنچ: ایک آدھ کی مخالفت سے کچھ نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر: ہم ایک آدھ کی بات نہیں کرتے بلکہ کئی ایسے نام پیش کر سکتے ہیں جو اس کے مستند ہونے پر شبہ کرتے ہیں مثلاً پوسی بیس مورخ، سرل، یروشلم کی کلیسا اور لودیسیہ کی کونسل اور جیروم کے عہد میں بھی بعض کلیساؤں نے اس کو قبول نہیں کیا (۷)۔

فنڈر: یہ خروج عن المبحث ہے، ہم اس وقت اس انجیل کی بات کر رہے ہیں جو عہد ِ محمدؐ میں موجود تھی۰

مولانا رحمت اللہ: ہم نے اپنا موقف بیان کر دیا ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ اہلِ اسلام کا موقف نہیں ہے تو کوئی دلیل پیش کریں ورنہ اسی کو تسلیم کر لیں۔ ہمیں اقرار ہے کہ وحی الٰہی حضرت عیسٰیؑ پر نازل ہوتی تھی لیکن ہم یہ نہیں مانتے کہ وہ انجیل موجودہ عہد جدید ہے اور یہ کہ یہ تحریف سے پاک ہے۔ جبکہ حواریوں کا کلام ہمارے نزدیک قطعاً انجیل نہیں ہے بلکہ انجیل وہ کلام ہے جو حضرت عیسٰیؑ پر نازل ہوا (۸)۔ تخجیل من حرف الانجیل کے مصنف لکھتے ہیں ’’موجودہ اناجیل سچی انجیل نہیں ہیں جو رسولِ خدا کو دی گئی تھیں اور جو منزل من عند اللہ تھی۔‘‘ (باب دوم ص ۲۸)۔ پھر کہتے ہیں ’’اور سچی انجیل وہی ہے جو مسیحؑ نے سنائی‘‘ (ص ۲۹)۔ اور نویں باب میں عیسائیوں کے متعلق لکھتے ہیں ’’ان کو پولس نے اصلی دین سے پُرفریب دھوکہ سے ہٹا دیا۔ وہ جان چکا تھا کہ یہ ’’لائی لگ‘‘ قسم کے لوگ ہیں اور اس نے تورات کے احکام کو تھپڑ دے مارا‘‘ (ص ۱۲۹)۔ امام قرطبیؒ کتاب ’’الاعلام بما عند النصارٰی من الفساد والاوہام‘‘ باب سوم میں لکھتے ہیں ’’یہ کتاب جو آج کل نصارٰی کے پاس ہے جس کا نام انہوں نے انجیل رکھ چھوڑا ہے وہ انجیل نہیں جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے کہ ’’وانزل التوراۃ والانجیل‘‘ (آل عمران ۳) (ص ۲۰۳)۔ اور اسی طرح اسلاف و اخلاف میں علماء نے تصریحات درج کی ہیں اور پھر کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ اقوال مسیح فلانی انجیل میں درج ہیں۔

لہٰذا ہم اس بات کی تعیین نہیں کر سکتے اور اناجیل اربعہ کی حیثیت اخبار آحاد کی سی ہے اور قرن اول کے مسیحیوں سے کوئی معتبر روایت منقول نہیں ہے۔ اس کے متعدد اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس دور میں پوپ (پاپا) کا مکمل تسلط تھا اور انجیل پڑھنے کی عام اجازت نہ تھی لہٰذا بہت کم مسلمانوں نے اس کے نسخے دیکھے کیونکہ عرب کے گرد و نواح میں کیتھولک یا نسطوری فرقہ کے لوگ زیادہ تھے۔

پادری فرنچ: (غم اور غصے سے) تم نے ہماری انجیل پر ایک بہت بڑا الزام لگایا ہے۔ پوپ نے اس میں کچھ بگاڑ نہیں کیا (۹)۔

پادری فنڈر: حضرت عثمانؓ کے احراق قرآن کے قصے کو شد و مد سے بیان کرنے لگا۔

مولانا: آپ کے اعتراضات خارج از بحث ہیں لیکن اگر آپ نے کر ہی دیے ہیں تو جوابات بھی ملاحظہ کریں۔

فنڈر: جب آپ نے انجیل پر اعتراض کیا تو میں نے بھی جواب دیا۔ اب اصل مطلب کی طرف آئیں۔

مولانا: ہم نے شروع ہی سے یہ کہا ہے کہ ہمارے نزدیک عہدِ قدیم و عہدِ جدید ایک جیسے ہیں۔ ہم آپ سے ان کی بعض کتابوں کی سند متصل طلب کرتے ہیں۔

فنڈر: صرف انجیل کی بات کریں۔

مولانا: انجیل کی تخصیص لغو ہے، ہم پورے مجموعہ کی۔

فنڈر: خاموش صامت۔

پادری فرنچ نے ایک لمبا طومار نکالا اور پڑھنا شروع کیا۔  خلاصہ یہ ہے کہ ’’ہمارے علماء نے اختلاف عبارت تیس یا چالیس ہزار پائے ہیں لیکن یہ ایک نسخہ کی بجائے کثیر نسخہ جات میں ہیں۔ اگر ہم ان اختلافات کو تمام نسخوں پر تقسیم کریں تو ہر نسخہ کے حصہ میں چار سو یا پانچ سو آئیں گے۔ بعض غلطیاں بدعتیوں کے تصرفات سے بھی وقوع پذیر ہوئیں۔ ڈاکٹر کریساخ نے انجیل متی میں ۳۷۰ اغلاط پائیں۔ ۱۷ تو سخت ترین ہیں، ۳۲ اغلاط درمیانی اور باقی ہلکی پھلکی ہیں۔ ہمارے علماء نے ان اغلاط کو زیادہ تر مواضع میں درست کر دیا ہے۔ اور جس کا صرف ایک ہی نسخہ ہو اس کی تصحیح ناممکن ہے اور انجیل کے نسخے بکثرت موجود ہیں تو ان کی تصحیح ممتنع نہیں۔ تصحیح کے قواعد میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

اول: جب علماء نے دو عبارتوں کو مختلف پایا، ان میں سے ایک فصیح اور دوسری مشکل تھی تو انہوں نے مشکل کو صحیح قرار دیا کیونکہ احتیاط اور عقل و قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ شاید فصیح عبارت جعلی ہو۔ دوم: اگر ایک عبارت گرائمر کے لحاظ سے صحیح اور دوسری غلط ہو تو انہوں نے غلط کو صحیح اور صحیح آیت کو جعلی قرار دیا کیونکہ ہو سکتا تھا کہ وہ کسی ماہر قواعد نے داخل کر دی ہو۔ اور علماء نے ان اغلاط سے واقف کرانے کے بعد کہا کہ ان کے سوا کوئی غلطیاں نہیں ہیں اور اتنی اغلاط سے مقصود اصل کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر کنکاٹ کہتا ہے کہ ہم ان محرف عبارات کو داخل رکھیں یا نکال دیں، مسیحی الٰہیات کو ان سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

ڈاکٹر وزیر خان نے جواب دینا چاہا تو پادری فنڈر نے ان کو روک دیا اور جب بھی ڈاکٹر صاحب بولنے لگتے تو فنڈر ان کو روک دیتا۔

مفتی ریاض الدین: یہ ضروری ہے کہ پہلے تحریف کا معنی بیان کیا جائے پھر اس پر بحث کی جائے تاکہ حاضرین کے پلے بھی کچھ پڑے اور وہ صحیح طور سے بحث کو سمجھ سکیں۔

فنڈر نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو مفتی صاحب نے کہا کہ یہ آپ کا کام نہیں بلکہ جو تحریف کا دعوٰی کرتے ہیں وہی اس کا معنی بیان کریں گے۰

مولانا رحمت اللہ: ہمارے نزدیک تحریف کا معنی یہ ہے کہ کلام اللہ میں کمی بیشی یا تبدیلی کی جائے۔ خواہ یہ شرارت اور  خباثت سے  کی گئی ہو یا اصلاح کی غرض سے۔ اور ہم دعوٰی کرتے ہیں کہ تحریف ان معنوں میں کتب مقدسہ کے اندر واقع ہے۔ اگر آپ انکار کرتے ہیں تو ہم دلائل دیں گے۔

فنڈر: ہمیں بھی سہو کاتب کا اعتراف ہے (۱۰)۔

مولانا: ہمارے نزدیک سہو کاتب یہ ہے کہ کاتب لام کے بجائے میم اور میم کی بجائے نون لکھ دیتا ہے۔ کیا آپ کے نزدیک بھی سہو کاتب سے مراد یہی ہے یا یہ کہ تحریف قصدًا، سہوًا، کمی بیشی اور تبدیلی سہوِ کاتب میں شامل ہیں؟ یعنی یہ کہ کاتب حاشیہ کی عبارت متن میں لکھ دیتا ہے یا عمدًا آیات کا اضافہ یا کمی کرتا ہے، یا کوئی چیز تفسیر کے طور پر الحاق کرتا ہے، یا ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے بدل دیتا ہے۔

فنڈر: یہ تمام امور ہمارے نزدیک سہو کاتب کے ضمن میں آتے ہیں۔ یہ قصدًا ہوا ہو یا سہوًا، لا علمی سے یا غلطی سے۔ لیکن آیات میں ایسا سہو صرف پانچ یا چھ مقاموں میں ہے جبکہ الفاظ میں بے شمار۔

مولانا: جب زیادتی، کمی، تبدیلی، قصدًا یا سہوًا آپ کے نزدیک سہوِ کاتب میں شامل ہے اور سہوِ کاتب مقدسہ میں واقع ہے، تو اسی چیز کو ہم تحریف کہتے ہیں۔ پس ہمارے اور تمہارے درمیان صرف لفظی جھگڑا باقی رہ گیا ہے۔ یعنی ہم جس کو تحریف کہتے ہیں اسے آپ سہو کاتب کہتے ہیں۔ تو اختلاف صرف تعبیر میں ہے مسمی و معبر عنہ میں نہیں۔ مثال کے طور پر ایک آدمی نے چار فقیروں کو ایک درہم دیا۔ ایک رومی تھا، ایک حبشی، ایک ہندی اور ایک عربی۔ انہوں نے اس ایک درہم سے ایک ہی چیز خریدنی تھی جو سب کی پسند کی ہو۔ تو ایک ڈمی نے انگور کا نام اپنی زبان میں لیا۔ حبشی نے انکار کیا اور اپنی زبان میں کہا میں تو انگور ہی کھاؤں گا۔ تو ان چاروں میں نزاع لفظی ہے، مقصود سب کا ایک ہی ہے۔ اسی طرح تحریف اور سہو کاتب کا مسئلہ ہے۔ پھر مولانا نے بلند آواز سے مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ہمارے اور پادری صاحب کے درمیان جھگڑا صرف لفظی ہے کیونکہ ہم جس تحریف کا دعوٰی کرتے ہیں پادری صاحب نے اسے قبول کر لیا ہے لیکن وہ اسے سہوِ کاتب کہتے ہیں۔

فنڈر: اس قسم کے سہو سے متن کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

مولانا اسد اللہ صاحب (حیرانی سے): متن کیا چیز ہے؟

فنڈر (ناراض ہو کر): میں نے کئی دفعہ بتایا ہے اب کتنی بات بتاؤں؟ متن سے ہماری مراد الوہیت مسیح، تثلیث، کفارہ شافع اور یسوع مسیح کی تعلیمات ہیں۔

مولانا رحمت اللہ: تفسیر ہنری واسکاٹ میں بھی یہی لکھا ہے کہ مقصود اصلی میں کچھ بھی فرق ان اغلاط سے نہیں پڑا۔ لیکن ہم نہیں سمجھ سکے کہ جب تحریف ثابت ہو گئی ہے تو کیا دلیل ہے کہ اس سے کچھ فرق نہیں آیا۔ اور جب تحریف ہر قسم کی واقع ہوئی ہے تو کیا دلیل ہے کہ وہ نو دس آیات جن میں تثلیث کا ذکر ہے وہ تحریف سے محفوظ ہیں؟

فنڈر: متن کی تحریف تب ثابت ہو گی کہ تم کوئی قدیم نسخہ دیکھو، اس میں الوہیت مسیح کا  ذکر نہ ہو اور موجودہ نسخہ میں ہو، اور اس میں کفارہ مسیح کا تذکرہ نہ ہو اور موجودہ نسخہ میں ہو۔

مولانا: ہمارے ذمہ صرف یہ تھا کہ ہم اس مروجہ مجموعہ کا مشکوک ہونا ثابت کریں اور وہ ثابت ہو چکا ہے۔ اب آپ کی کتاب مشکوک ہے۔ ہاں آپ کا دعوٰی ہے کہ بعض مواضع تحریف سے پاک ہیں اور بعض محرف ہیں۔ تو یہ آپ کے ذمہ ہے کہ آپ ان بعض مواضع کی سلامتی اور صحت کو ثابت کریں۔ اب صرف ایک بات رہ گئی ہے جو جواب طلب ہے۔ وہ یہ کہ یہ سہوِ کاتب جو آپ کے ہاں مسلّم ہیں، کیا تمام نسخوں میں ہے؟

فنڈر: ہاں یہ سہو تمام نسخوں میں پایا جاتا ہے۔

اس پر پادری فرنچ نے اعتراض کیا تو فنڈر نے کہا کہ پادری فرنچ کی رائے بہتر ہے۔ قاضی القضاۃ مولوی محمد اسد اللہ نے کہا کہ آپ پہلے اعتراف کر چکے ہیں۔ فنڈر نے کہا، میں نے غلطی کی اور میں نے یقین سے نہیں کہا، شاید کہ ایک سہو عبرانی متن میں ہو اور یونانی میں نہ ہو۔

مولانا رحمت اللہ: اگر ہم بعض ایسے مقامات دکھلا دیں جہاں پر آپ کے مفسروں نے اعتراف کیا ہے کہ یہ جملہ پہلے زمانہ میں ایسا تھا لیکن اب تمہارے معتبر عبرانی متن میں ویسا نہیں ہے تو تم کیا کہو گے؟

فنڈر: اس سے متن کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

ڈاکٹر وزیر خان: لا شک لا ریب مقصودِ اصلی میں خلل آئے گا کیونکہ جب اختلافات عبارات بہت ہیں، مثلاً ہم فرض کرتے ہیں کہ شیخ سعدی شیرازی کی کتاب ’’گلستان سعدی‘‘ کے مختلف نسخوں میں ایک مقام پر مختلف عبارات پائی جاتی ہیں، اس صورت میں ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ سعدی کی اصل عبارت کون سی ہے۔ پس جب سینکڑوں نسخہ جات میں اختلاف ہے اور کسی کو کسی دوسرے پر ترجیح نہیں ہے تو مقصودِ اصل میں تغیر کا امکان ہے۔ اور ہمارے نزدیک انجیل، مسیحؑ کے اقوال منزل من اللہ سے عبارت ہے اور وہ مشتبہ ہو چکی ہیں۔

فنڈر: مجھے مختصر جواب دیں کہ آپ متن کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر آپ تسلیم کرتے ہیں تو مناظرہ آئندہ ہفتہ کو ہو گا کیونکہ ہم باقی مسائل میں اس کتاب (انجیل) سے استدلال کریں گے۔ ہمارے نزدیک عقل کتاب کی محکوم ہے نہ کہ کتاب عقل کی۔

مولانا رحمت اللہ: جب آپ کے اعتراف کے مطابق کتب میں تحریف ثابت ہو گئی تو بایں سبب یہ ہمارے نزدیک مشتبہ ہو گئیں۔ ہم نہیں مانتے کہ غلطیاں متن میں نہیں ہوئیں۔ آپ کو روا نہیں ہے کہ آپ ہم پر اس کتاب سے مناظرہ کے باقی مسائل میں استدلال کریں کیونکہ یہ ہمارے نزدیک حجت نہیں ہیں۔

فرنچ: تم نے یہ تحریفات و اغلاط ہماری تفاسیر سے نکالی ہیں گویا یہ مفسرین تمہارے نزدیک معتبر ہیں۔ تو انہوں نے بھی لکھا ہے کہ ان کے علاوہ اور مقامات میں غلطیاں نہیں ہیں۔

مولانا: ہم نے ان علماء کے اقوال الزاماً نقل کیے ہیں، ان کو معتبر مانتے ہوئے نہیں۔ اور پادری فنڈر نے اپنی کتاب میں بیضاوی اور زمحشری کے کچھ اقتباسات نقل کیے ہیں تو انہوں نے لکھا ہے کہ قرآن کلام اللہ ہے، محمد رسول اللہ ہیں۔ کیا آپ تسلیم کرتے ہیں؟

فنڈر: نہیں۔

مولانا: اسی طرح ہم بھی تمہارے مفسروں کی ساری باتیں نہیں مانتے۔

فنڈر: مجھے مختصر جواب دیں، ہاں یا نہیں میں۔

مولانا: نہیں! کیونکہ وہ متن جو آپ کے نزدیک مقصود اصل سے عبارت ہے وہ ہمارے نزدیک تحریف کے سبب سے مشتبہ ہو گیا۔ اور تم نے پہلے دن سات یا آٹھ جگہ تحریف اور چالیس ہزار اختلافاتِ عبارات کا اقرار کیا ہے جس کو آپ سہوِ کاتب کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور اسے ہم تحریف کہتے ہیں۔ اور ہمارا مقصود صرف یہی تھا کہ یہ مجموعہ مشکوک ثابت ہو جائے اور یہ بفضل اللہ تعالٰی ہو چکا ہے۔ متن کی عدمِ تحریف کا اثبات آپ پر لازم ہے۔ ہم تو دو ماہ تک بلا عذر حاضر ہیں مگر یہ ہے کہ یہ مجموعہ ہم پر حجت نہ ہو گا اور ان سے منقول دلیل ہم پر لازم نہ ہو گی۔ البتہ اگر تمہارے پاس باقی مسائل بارے کوئی دلیل ہو تو پیش کرو۔

اس کے ساتھ ہی مناظرہ کا دوسرا اور آخری دن اختتام کو پہنچ گیا۔




حواشی

(۱) پادری جے پیٹرسن اسمتھ لکھتے ہیں: ’’وہ (پولوس) یہ کہتا ہے کہ شریعت صرف ایک محدود وقت کے لیے تھی اس کا کام محض لوگوں کو مسیح کی بادشاہت کے لیے تیار کرنا تھا‘‘۔ (حیات و خطوط پولس مطبوعہ ۱۹۵۲ء ص ۸۲۔۸۳))

(۲) عصرِ حاضر کے ایک عیسائی مصنف کے قلم سے اس کا اعتراف ملاحظہ فرمائیے: ’’جوں جوں زمانہ گزرتا گیا پرانے عہد نامہ کی پیشین گوئیوں کا مجموعہ بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ان کے مسیح پر اطلاق میں تجاوز ہو گیا۔ ’’یوسطین شہید کا طریفو یہودی سے مکالمہ‘‘ اور ’’یہودیوں کے خلاف شہادت‘‘ اس قسم کے تجاویز کی مثالیں ہیں۔ جب کلیسا میں زیادہ تر یونانی زبان بولنے والے شریک ہونے لگے تو یہ شہادتیں ترجمہ ہفتادہ پر مبنی تھیں اور بعض اوقات یہ ترجمہ عبرانی سے نہیں ملتا تھا۔ وہ یہودی جن کی طرف ان شہادتوں کا اشارہ تھا یہ جواب دیا کرتے تھے کہ ’’یہ ترجمہ عبرانی سے بڑا ہی مختلف ہے‘‘ (طریفو نے یوسطین کو یہی کہا تھا) لیکن یونانی مسیحی یہ کہا کرتے تھے کہ ’’وہ پیشین گوئیاں جو مسیح کی آمد کے بارے میں ہیں ان میں یہودیوں نے دیدہ و دانستہ رد و بدل کر دیا ہے‘‘ (طلوع مسیحیت۔ مصنفہ ایف ایف بروس ایم اے ڈی ڈی ۔ مترجمہ اے ڈی خلیل بی اے بی ٹی ۔ مطبوعہ ۱۹۸۶ء ص ۸۱۔۸۲ ۔ شائع کردہ مسیحی اشاعت خانہ لاہور)

(۳) پادری طالب الدین لکھتے ہیں ’’وہ (یہودی) یسوع کو گنہگار سمجھتے تھے کیونکہ وہ ان کی ان رسومات سے اتفاق نہیں کرتا تھا جو انہوں نے اور ان کے آبا و اجداد نے کلامِ الٰہی پر اضافہ کر دی تھیں‘‘ (حیات المسیح مطبوعہ ۱۹۴۴ء ص ۱۵۴)۔ ایک دوسرے عیسائی عالم کے مطابق ’’مسیح اور اس کے شاگرد برابر طور پر یہودیوں کو کتبِ مقدسہ میں تحریف کے ملزم گردانتے تھے‘‘۔ (التوراۃ تاریخھا و غایاتھا ۔ ترجمہ سہیل میخائل دیب۔ طبع سادس ۱۹۸۲ء مطبوعہ بیروت ص ۷۸)

(۴) پادری جی ٹی مینلی لکھتے ہیں ’’مصنف کے بارے میں اول یہ بات جاننی ضروری ہے کہ آیا یہ کتاب حقیقی واقعات پیش کرتا ہے یا ڈرامہ ہے یا کچھ ایسی حیثیت رکھتی ہے کہ حقیقت اور تمثیل (ڈرامہ) کے بیچوں بیچ ہے۔ قدیم روایت میں اسے تاریخی کتاب تسلیم کیا گیا ہے۔‘‘ (ہماری کتب مقدسہ ۔ مطبوعہ ۱۹۸۷ء ص ۲۵۹)۔ پادری مینلی نے صرف ایک نظریہ کا ذکر کر کے اس کے حق میں شہادتیں پیش کی ہیں۔

(۵) ان آیات کو کریب، شولز، آدم کلارک، آگسٹائن اور ہورن نے الحاقی قرار دیا ہے یعنی یہ بعد میں داخل کی گئیں۔ تفصیلات اظہار الحق ج ۱ ص ۲۵۷ اور فنڈر نے اگلی سطر میں اعتراف کیا ہے۔

(۶) مسیحی مجلہ سہ ماہی ’’ہما‘‘ لکھنؤ (انڈیا) میں لکھا ہے ’’بے شک یہ صحیح ہے کہ مختلف اشخاص نے جعلی انجیلیں تحریر کر کے ان کے فروغ کی کوشش کی اور مسیحیت کے ابتدائی دور میں کئی انجیلیں وجود میں آگئیں۔‘‘ (اکتوبر دسمبر ۱۹۶۷ء ص ۴ کالم ۱ و ۲)۔ ان میں سے کم از کم ایک جعلی انجیل آنحضرتؐ کے عہد میں موجود تھی۔ (رسالہ تحریف انجیل و صحت انجیل از پادری ڈبلیو میچن ص ۵)

(۷) بشپ ولیم جی ینگ نے تاریخ کلیسا کی تازہ ترین تصنیف ’’رسولوں کے نقشِ قدم پر‘‘ کے صفحہ ۲۰۰ پر مستند اور زیربحث کتب کے بارے میں ایک نقشہ درج کیا ہے جس کے مطابق ’’جنوبی ہند کی سریانی کلیسا‘‘ مکاشفہ کی کتاب کو غیر مستند قرار دیتی ہے۔ یوسی بیس مورخ اور نصیین کی درسگاہ کے ہاں یہ کتاب زیربحث ہے۔ چار مزید مآخذ اس کے بارے میں خاموش ہیں یعنی اس کو غیر مستند قرار دیتے ہیں۔ پادری ایچ والر صاحب لکھتے ہیں کہ ’’اس کتاب کو رسولی تصنیف ماننے میں کچھ چیزیں درکار ہیں لہٰذا بعض مصنفین نے اس کتاب کے رسولی تصنیف ہونے پر شکوک ظاہر کیے‘‘۔ (تفسیر مکاشفہ مطبوعہ ۱۹۵۸ء ص ۷)۔ ’’کتاب کا پس منظر غیر یقینی ہے‘‘ (انجیل مقدس کا مطالعہ از فادر کارلسٹن ۔ مطبوعہ ۱۹۶۷ء ص ۱۳۶)

(۸) عیسائیوں کے موجودہ نظریہ الہام کے مطابق عیسٰیؑ پر کوئی خارجی کتاب نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ انجیل کا لفظ ان کی آمد کی بشارت اور خوشخبری کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ سیالکوٹ کے پادری برکت اے خان نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ ’’اصول تنزیل الکتاب‘‘ کے نام سے تصنیف کیا ہے۔

(۹) پادری لوئیس برک ہاف لکھتے ہیں: ’’رومن کیتھولک کلیسیا کی تعلیم یہ تھی کہ کتاب مقدس کا بذاتِ خود کوئی اختیار نہیں کیونکہ اس کا وجود کلیسیا کی طرف سے ہے‘‘ ۔۔۔۔ گو رومن کیتھولک کلیسیا پاک نوشتوں کی اہمیت اور افادیت کو مان لیتی ہے تاہم وہ اس کو قطعی ضروری نہیں سمجھتی۔ اس کلیسیا کی دانست میں یہ کہنا کہ پاک نوشتوں کو کلیسا کی ضرورت ہے، زیادہ صحیح ہے، بہ نسبت اس کے کہ کلیسا کو پاک نوشتوں کی ضرورت ہے‘‘ (مسیحی علم الٰہی کی تعلیم۔ مطبوعہ ۱۹۸۷ء ص ۷۲ و ۷۳)۔ قارئین خود فیصلہ کر لیں کہ اس صورتحال میں پوپ نے پاک نوشتوں کو کیا خاک اہمیت دی ہو گی۔

(۱۰) سہوِ کاتب اور کتبِ مقدسہ میں اغلاط کی اقسام کے لیے آرچ ڈیکن برکت اللہ کی تصنیفات ’’صحت کتب مقدسہ‘‘ حصہ دوم باب اول اور ’’قدامت و اصلیت انجیل اربعہ‘‘ جلد دوم ص ۲۳۹ ملاحظہ فرمائیں۔

مذاہب عالم

(جولائی ۱۹۹۰ء)

جولائی ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۷

شریعت بل اور تحریک نفاذ شریعت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

انسانی اجتماعیت اور آبادی کا محور
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

خبرِ واحد کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

تعوذ اور قرآن مجید
مولانا سراج نعمانی

’’شریعت بل‘‘ پر مختلف حلقوں کے اعتراضات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

عیسائی اور یہودی نظریۂ الہام
محمد اسلم رانا

نسخ و تحریف پر مولانا کیرانویؒ اور ڈاکٹر فنڈر کا مناظرہ
محمد عمار خان ناصر

’’جمہوریت‘‘ — ماہنامہ الفجر کا فکر انگیز اداریہ
ادارہ

ہمارے دینی مدارس — مقاصد، جدوجہد اور نتائج
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قرآنِ کریم اور سود
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

آپ نے پوچھا
ادارہ

برص ۔ انسانی حسن کو زائل کرنے والا مرض
حکیم محمد عمران مغل

عمل کا معجزہ حق ہے سکوت و ضبط باطل ہے
سرور میواتی

تعلیم کے دو طریقے
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

دینی و عصری تعلیم کے امتزاج کیلئے چند تجاویز
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

تلاش

Flag Counter