تعارف و تبصرہ

ادارہ

خطباتِ صدارت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ برصغیر پاک و ہند بنگلہ دیش کی وہ نابغۂ روزگار شخصیت ہیں جنہوں نے علمی، روحانی اور سیاسی میدان میں ملک و قوم کی بے پناہ خدمت کی اور تحریکِ آزادی میں مؤثر اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ حضرت مدنیؒ نے سالہا سال تک مسجدِ نبویؐ میں روضۂ اطہر علٰی صاحبہا التحیہ والسلام کے سامنے حدیثِ رسولؐ کا درس دیا اور ہزاروں تشنگانِ علوم کو سیراب کیا۔ انہوں نے اپنے عظیم استاذ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے ساتھ مالٹا کی قید کاٹی اور رہائی کے بعد متحدہ ہندوستان میں آزادیٔ وطن کی جدوجہد کی قیادت سنبھالی۔

جمعیۃ العلماء ہند اس خطہ کے حریت پسند علماء کی جماعت ہے جس نے آزادیٔ وطن کی خاطر مسلسل جدوجہد کی۔ اس عظیم کردار کی حامل جماعت کی قیادت مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے ہاتھ میں تھی۔ جمعیۃ العلماء ہند کے سالانہ اجتماعات متحدہ ہندوستان کے علماء کرام کے ملک گیر نمائندہ اجتماع ہوتے تھے جن کے فیصلے اور خطباتِ صدارت قومی سیاست میں اپنی ایک مخصوص حیثیت رکھتے تھے۔ ان اجتماعات میں ملک کی نامور علمی اور قومی شخصیات کو صدارت کی زحمت دی جاتی اور ان کے خطبہ ہائے صدارت قومی سیاست اور تحریکِ آزادی میں فکری راہنمائی کا ذریعہ بنتے۔ جمعیۃ کے مختلف قومی اور علاقائی اجتماعات میں حضرت مدنیؒ نے بھی خطبات ارشاد فرمائے۔ ان کا اپنا ایک مخصوص انداز تھا اور جب وہ تاریخی حوالوں اور معاشی اعداد و شمار کے ساتھ آزادی کی اہمیت اور فرنگی حکمرانوں کے مظالم کو بے نقاب کرتے تو ان کے مضبوط دلائل کے سامنے فرنگی سازشوں کے تار و پود بکھر کر رہ جاتے۔

مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے مہتمم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی مدظلہ العالی نے حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے گیارہ خطباتِ صدارت کو اس مجموعہ میں یکجا کر کے شائع کیا ہے جو ۱۹۲۱ء سے ۱۹۵۱ء تک جمعیۃ العلماء ہند کے تاریخی کردار کے ساتھ ساتھ اس دور کے حالات اور سیاسی پس منظر کی عکاسی کرتے ہیں۔ پانچ سو صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ معیاری کتابت و طباعت کے ساتھ ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کی طرف سے شائع کیا گیا ہے اور اس کی قیمت ۸۰ روپے ہے۔

تسہیل الادب (جزء اول)

تالیف: مولانا سلیم اللہ خان

کتابت و طباعت عمدہ۔ صفحات ۱۱۰

ناشر: جامعہ فاروقیہ (پوسٹ بکس ۱۱۰۲۰) شاہ فیصل کالونی ۴ کراچی ۴۵

حضرت مولانا سلیم اللہ خان مدظلہ کا شمار ملک کے نامور اساتذہ میں ہوتا ہے جن کی زندگی کا بیشتر حصہ تعلیم و تدریس میں گزرا ہے۔ انہوں نے درجۂ اول کے طلبہ کے لیے ’’تسہیل الادب‘‘ کے نام سے یہ مجموعہ ترتیب دیا ہے جس کا جزء اول ہمارے سامنے ہے۔ اس میں نحو کے ضروری مسائل اور اصطلاحات کو مبتدی طلبہ کی ذہنی سطح کا لحاظ رکھتے ہوئے آسان انداز میں بیان کیا گیا  ہے۔ اور تمرینات کے ذریعے اس کی کوشش کی گئی ہے کہ طلباء کے اذہان مسائل کو اخذ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی عملی مشق بھی اچھے انداز سے کر سکیں۔ مبتدی طلبہ کے لیے اس قسم کے رسائل کی ضرورت بہت زیادہ ہے اور حضرت مولانا سلیم اللہ خان مدظلہ کی یہ کاوش اس سمت ایک اچھی پیشرفت ہے۔

امام اعظم  ابوحنیفہؒ کا نظریہ انقلاب و سیاست

از: مولانا عبد القیوم حقانی

کتابت و طباعت عمدہ۔ قیمت ۶ روپے صفحات ۶۸

ملنے کا پتہ: مؤتمر المصنفین، دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک ضلع پشاور

امام اعظم ابوحنیفہؒ اُمت مسلمہ کے عظیم المرتبت فقیہ اور مجتہد ہونے کے علاوہ اپنے وقت کے بلند حوصلہ سیاسی راہنما بھی تھے اور انہوں نے عباسی خلفاء کے مظالم اور بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے اور اصلاح و انقلاب کی تحریکات کی سرپرستی میں  نمایاں کردار ادا کیا۔ امام ابوحنیفہؒ نے نہ صرف عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور کو اس کے دربار میں کھڑے ہو کر ان الفاظ سے للکارا کہ’’ تمہاری حکومت شرعی اور آئینی نہیں ہے، جب تم نے خلافت سنبھالی تو اس وقت اربابِ فتوٰی دو آدمی بھی تمہاری خلافت پر متفق نہیں تھے‘‘ بلکہ خلیفہ منصور کے خلاف حضرت زید بن علیؓ اور حضرت نفس زکیہؒ کی انقلابی تحریکات کو جہاد قرار دیتے ہوئے ان میں شرکت کو پچاس حج سے افضل بتایا اور ان کے حق میں باقاعدہ فتوٰی جاری کیا۔ 

امام اعظمؒ کی انقلابی سیاسی زندگی کا یہ پہلو عام طور پر بیان نہیں کیا جاتا جبکہ آج کے دور میں امام صاحبؒ کے سیاسی و معاشی افکار کو زیادہ سے زیادہ وضاحت اور اہمیت کے ساتھ سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے فاضل دوست مولانا عبد القیوم حقانی کا ذوق قابل تحسین ہے کہ انہوں نے اس کتابچہ میں امام اعظمؒ کے سیاسی افکار اور انقلابی جدوجہد کو اجاگر کرنے میں کامیاب کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دیں اور ان کی اس کاوش کو علماء کرام میں سیاسی شعور کی بیداری کا ذریعہ بنائیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

تنقید اور حقِ تنقید

از: مولانا محمد یوسف لدھیانوی

صفحات ۳۲ قیمت ۴ روپے

ملنے کا پتہ: سنی تحریک طلبہ، مدینہ بازار، ذیلدار روڈ، اچھرہ، لاہور

’’جماعتِ اسلامی‘‘ کی بنیاد اس کے دستور کی دفعہ ۶ کے حوالہ سے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو معیارِ حق اور تنقید سے بالاتر نہ سمجھنے پر رکھی گئی تھی اور بانیٔ جماعتِ اسلامی اور ان کے رفقاء نے اس فکری بنیاد پر اس قدر ثابت قدمی دکھائی کہ اس کے دفاع میں اہلِ سنت کے ساتھ مستقل محاذ آرائی کا بازار گرم کر لیا۔ جبکہ یہ دونوں باتیں اہل سنت والجماعت کے مسلّمات کے منافی ہیں اور اہل سنت کے نزدیک حضرات صحابہ کرامؓ نہ صرف معیارِ حق ہیں بلکہ طعن و تنقید سے بھی بالاتر ہیں۔

مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے بانیٔ جماعتِ اسلامی کے ایک عقیدت مند کے استفسار پر اپنے مفصل مکتوب میں اہلِ سنت کے اسی نقطۂ نظر کی وضاحت کی ہے اور تنقیدی فکر کی کجی کو دلائل کے ساتھ آشکارہ کیا ہے۔ مولانا لدھیانوی کے مکتوب کو سنی تحریک طلبہ کی طرف سے زیرنظر رسالہ کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔

تعارف و تبصرہ

(جولائی ۱۹۹۰ء)

جولائی ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۷

شریعت بل اور تحریک نفاذ شریعت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

انسانی اجتماعیت اور آبادی کا محور
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

خبرِ واحد کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

تعوذ اور قرآن مجید
مولانا سراج نعمانی

’’شریعت بل‘‘ پر مختلف حلقوں کے اعتراضات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

عیسائی اور یہودی نظریۂ الہام
محمد اسلم رانا

نسخ و تحریف پر مولانا کیرانویؒ اور ڈاکٹر فنڈر کا مناظرہ
محمد عمار خان ناصر

’’جمہوریت‘‘ — ماہنامہ الفجر کا فکر انگیز اداریہ
ادارہ

ہمارے دینی مدارس — مقاصد، جدوجہد اور نتائج
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قرآنِ کریم اور سود
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

آپ نے پوچھا
ادارہ

برص ۔ انسانی حسن کو زائل کرنے والا مرض
حکیم محمد عمران مغل

عمل کا معجزہ حق ہے سکوت و ضبط باطل ہے
سرور میواتی

تعلیم کے دو طریقے
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

دینی و عصری تعلیم کے امتزاج کیلئے چند تجاویز
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

تلاش

Flag Counter