ہر قوم اور ہر ملت کے اپنے مخصوص نظریات ہوتے ہیں۔ ان نظریات کی بنا پر ان کا اپنا سیاسی نظام وضع ہوتا ہے۔ پھر اس نظام کو چلانے کے لیے اداروں کی تشکیل کی جاتی ہے۔ امت مسلمہ کے سوا جتنی بھی اقوام اور نسلی گروہ دنیا میں موجود ہیں انہوں نے اپنی اجتماعی زندگی گزارنے کے ضابطے اور اصول خود وضع کیے ہیں۔ ان کے مطابق دساتیر بنائے گئے ہیں۔ ان پر وہ عمل پیرا ہیں۔ وہ اپنے اصولوں اور ضابطوں میں ترمیم و اضافہ بھی کرتے ہیں، ایک دوسرے کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مگر زیادہ تر اپنی زندگی کا ایسا لائحہ عمل اپناتے ہیں جس کے ذریعے وہ زندگی کے عیش و آرام کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکیں اور ہوائے نفس کی بہتر تسکین کریں۔ چونکہ بہت ساری اقوامِ عالم نے مذہب اور روحانیت کو خیرباد کر دیا ہے یا کم از کم ان کی اجتماعی زندگی میں مذہب کی مداخلت ممنوع ہو چکی ہے اس لیے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دوسرے اجتماعی دائروں میں وہ عام انسانوں کے افکار، خیالات اور نت نئے بدلتے ہوئے نظریات کے مطابق اپنا لائحہ عمل بناتے رہتے ہیں۔ وہی ان کا دین اور وہی ان کا نظریۂ حیات ہے۔
مغربی اقوام نے بڑے تجربوں کے بعد ایک سیاسی نظام وضع کیا ہے۔ اس نظام کے لیے انہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں جدوجہد کی، قربانیاں دیں، اپنے مذہبی پادریوں سے لڑائیاں لڑیں، رائے عامہ کو تبدیل کیا، نئی فکر اور نئے زاویے تجویز کیے۔ تاآنکہ مذہب اور مذہبی شخصیات کو ریاست کے معاملات سے ہمیشہ کے لیے خارج کر دیا۔ ریاست اور مذہب کی جدائی کا نظریہ مغربی طرزِ فکر کا بنیادی فلسفہ ہے۔ یہاں پہنچنے کے بعد خدا اور مذہب کا معاملہ کائنات کے اجتماعی امور سے کٹ جاتا ہے۔ یہ انسان کے اجتماعی معاملات سے بے دخل کر دیے جاتے ہیں۔ اب انسان خودمختار، مالک الملک، اور حاکمیتِ اعلٰی کا مظہر سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کو اس کائنات کی سُپر قوت قرار دیا جاتا ہے۔ یہ تصور اور فلسفہ ہے ’’جمہوریت‘‘ کا جسے ایک سیاسی نظام کے طور پر مغربی اقوام نے وضع کر کے اپنایا ہے۔
’’جمہوریت‘‘ آنے کے بعد چرچ کی حاکمیت ختم ہو گئی، اب چرچ فقط چند مقدس مجسموں کے رکھنے کی جگہ قرار پائی۔ چرچ کی زیارت کرنا، مجسموں کے سامنے سر جھکانا، کچھ دعائیں اور گیت پڑھنا، نذر و نیاز دینا، پوپ پال کی بہتر خدمت کرنا اور دیگر اس قسم کی فضول اور لا یعنی رسومات کا بجا لانا مذہب اور روحانیت ٹھہرا۔ جمہوریت میں چونکہ رائے عامہ کی مرضی پر قوانین بنتے اور بدلتے ہیں، ان کی آراء پر حکومت قائم ہوتی اور ختم ہوتی ہے، اس لیے رائے عامہ کی تنظیم کے لیے سیاسی جماعتوں کا وجود لازمی قرار پایا۔ گویا سیاسی جماعتوں نے مذہب کی جگہ لے لی۔ پہلے معاشرہ کی تنظیم مذہب کرتا تھا اب اس کی جگہ سیاسی پارٹی نے لے لی۔ سیاسی پارٹیوں کی اس اہمیت نے معاشرے کے متمول اور دولتمند طبقے کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ پارٹیوں پر اپنا تسلط قائم کریں۔ یوں سیاسی پارٹیاں جاگیردار، سرمایہ دار، اور مالدار افراد کی لونڈیاں بن گئیں۔ یہ لوگ ان کے ذریعے رائے عامہ پر اثرانداز ہوتے رہے، ان کو اپنے حق میں استعمال کرتے رہے۔ نفسیاتی حربوں اور پروپیگنڈہ کے وسیع ہتھکنڈوں کے ذریعے عوام کا استحصال کیا جاتا رہا اور اس کا نام ’’جمہوریت‘‘ تجویز کیا گیا۔
مذہب اور سیاست کی جدائی کے اس فلسفہ سے کمیونزم نے بھی جنم لیا۔ کمیونزم درحقیقت مغربی فکر و فلسفہ کی دوسری شاخ کا نام ہے۔ انہوں نے اپنے معاشی نظریہ میں بزعم خود یہ ترقی پسندانہ تصور دیا کہ پیدواری وسائل انفرادی ہاتھوں کے بجائے ریاست کے ہاتھوں میں ہونے چاہئیں تاکہ کوئی فرد کسی فرد کا استحصال نہ کر سکے۔ مگر انہوں نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ اگر ریاست کے افراد (کمیونسٹ پارٹی) جن کے ہاتھوں میں پیداواری ذرائع ہوں گے اگر وہی استحصال کرنے لگیں تو ان کا احتساب کون کرے گا؟
چنانچہ مغربی فکر و فلسفہ کے زیرسایہ وضع کردہ یہ دونوں معاشی نظام، سرمایہ داری اور کمیونزم، آج عالمِ انسانیت کا پہلے سے زیادہ استحصال کر رہے ہیں۔ آج کا انسان ان دونوں نظاموں کے مظالم سے شدید اذیت میں مبتلا ہے۔
اُمتِ مُسلمہ آج مغربی اور مشرقی اقوام کے مقابلے میں اس پوزیشن میں ہے کہ اس کے پاس محفوظ شکل میں ’’خدائی ضابطۂ حیات‘‘ موجود ہے۔ اس کے ہاں اپنے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات، جو انسان کی انفرادی زندگی اور ریاستی امور سے متعلق ہیں، وہ محفوظ ہیں۔ نبوت کے معیار کے مطابق خلفاء راشدینؓ کی طرزِ حکومت کا نمونہ تقلید کے لیے دستیاب ہے۔ ایسے عظیم الشان دستورِ حیات اور قابلِ عمل تعلیمات کے ہوتے ہوئے یہ امت ہرگز اس بات کی محتاج نہیں کہ وہ اِدھر اُدھر نظر دوڑائے، دوسری اقوام کی طرف دیکھے، ان کے نظریات سے متاثر اور مرعوب ہو، ان کی تقلید کرنے پر اتر آئے۔ مگر اس کو بدنصیبی یا بدبختی ہی کہا جائے کہ آج یہ امت مسلمہ بھی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی دائروں میں اقوامِ غیر کی نقالی کرنے پر چل پڑی ہے۔ وہ اپنے دینِ برحق اور اپنے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مقابلے میں ان سیاسی اور معاشی نظاموں پر جان چھڑکتی ہے جو ان کے نظریات اور ایمان کے عین ضد ہیں۔
اسی جمہوریت کو ہی لے لیجئے کہ یہ سیاسی نظام مذہب اور سیاست کی جدائی پر منتج ہوتا ہے، جبکہ اسلام میں سیاست مذہب کا جزو لاینفک ہے۔ اسلام میں حاکمیتِ اعلٰی عوام کی بجائے خدا کو حاصل ہے اور سپر قوت عوام نہیں بلکہ ذاتِ ذوالجلال والاکرام ہے۔ قوانین سازی عوام کی مرضی پر نہیں خدا اور رسول کے ضابطوں کے مطابق ہوتی ہے۔ حکومت سازی میں عوام کی آراء کو گِنا نہیں، تولا جاتا ہے۔ جن کے لیے زیادہ ہاتھ کھڑے ہو گئے ان کو نہیں بلکہ اہل رائے کی تائید سے متقی اور باصلاحیت قیادت کو آگے لایا جاتا ہے۔ یہاں شخصی آمریت کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ نظریہ کی حکمرانی ہوتی ہے۔ سربراہِ مملکت کے لیے بھی نظریہ کی اطاعت کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ حکومتی عہدیداروں کو عدالت کے سامنے عام انسانوں کے برابر سمجھا گیا ہے۔ سربراہ کو رعایا میں سے ایک عام آدمی بلاک روک ٹوک احتساب کر سکتا ہے۔ اس عام آدمی کے اطمینان کے بعد ہی وہ حکومت کرنے کا اہل سمجھا جائے گا۔
اسلام میں انسانوں کی آزادی کا وہ تصور نہیں جیسا کہ مغرب میں دیا جاتا ہے جو کہ دراصل انسانوں کی آزادی ہیں بلکہ ان کا استحصال ہے۔ اسلام میں کسی فرد یا کسی اجتماع کی غلامی کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ اسلامی نظامِ سیاست میں انسان کو فقط خداوند قدوس کا عبد قرار دیا گیا ہے، اس کے علاوہ وہ کسی کا بندہ نہیں ہے۔ حکومتی سربراہ کو عام زندگی میں کچھ بھی امتیازی اختیارات حاصل نہیں، وہ بھی عام رعایا کی طرح قانون میں برابر ہے اور اس کو عام انسانوں کی طرح اپنے شب و روز بسر کرنے چاہئیں۔ وہ اگر ریاستی وسائل سے کچھ زیادہ اختیارات استعمال کرتا ہے یا اپنی ذاتی زندگی کا معیار عام رعایا سے زیادہ رکھتا ہے تو وہ عادل سربراہ نہیں ہو گا اور عام مسلمان اس کو معزول کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
ان حقائق کے پیشِ نظر اسلام کا اپنا ایک مستقل سیاسی نظام ہے جس کو نہ جمہوریت کہا جائے گا نہ اس پر اسلامی جمہوریت جیسی لغو اصطلاح استعمال کی جائے گی۔ اسلام کے معاشی تصورات پر سوشلزم کا اطلاق یا ان کو اسلامی سوشلزم سے تعبیر کرنا بھی جہالت اور منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ عالمِ اسلام ایک طویل عرصہ سے اپنے سیاسی اور معاشی نظریات کو بھول چکا ہے۔ وہ بادشاہوں، آمروں اور ڈکٹیٹروں کو خلفاء کے نام سے پکارتا رہا اور تاریخ میں اسے اسی طرح یاد کرتا رہا۔ وسائلِ رزق پر حکمران خاندانوں کا تسلط رہا، وہی لوگ جاگیردار اور سرمایہ دار بنتے گئے اور ہم نے ذاتی ملکیت کے نام پر ان کو تحفظ دیا۔ اب یہ بات اسلام کے سر تھوپی جا رہی ہے کہ اسلام میں مطلق العنان حکمرانوں کا جواز بھی ہے اور اسلام جاگیرداروں کا بھی تحفظ کرتا ہے۔ مگر معاملہ قطعی طور پر اس کے برعکس ہے۔ اسلام کا معاشی اور سیاسی سسٹم فقط وہی ہے جو اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے اور جس کا عملی نمونہ خلفاء راشدینؓ کے دورِ حکومت میں ظاہر ہوا۔ اس کے بعد بنو امیہ، بنو عباس، فاطمیہ، سلجوقیہ، صفوی، عثمانی، غزنوی، غوری، مغل وغیرہ وغیرہ حکمرانوں کے ادوار میں جو کچھ ہوا وہ (سب کا سب) ہرگز اسلام نہیں ہے اور نہ ہی اسلام اس (سب) کا ذمہ دار ہے۔ یہ ’’مسلم‘‘ حکمرانوں کی عیاشیوں، بدمستیوں، فضول خرچیوں، اقتدار کی ہوس کے لیے قتل و غارت گری اور جنگ و جدل کا دور ہے، یہ پوری تاریخ حقیقی اسلام سے انحراف کی تاریخ ہے، الّا ما شاء اللہ۔
امت مسلمہ کالونیز دور سے گزر کر اب ایک نئے دور کا آغاز کر چکی ہے۔ اب اس دنیا میں نظریات کی جنگ ہے، دنیا نظریات کے تغلب سے فتوحات کرتی جا رہی ہے۔ اس وقت ہمیں اپنے فطری نظریہ ’’اسلام‘‘ کی طرف پورے شعور اور استقامت کے ساتھ آنا ہو گا۔ اس نظریہ کے ساتھ کامل وابستگی اختیار کرنی ہو گی۔ اس کے ساتھ اقوامِ غیر کے مسلط شدہ سیاسی نظاموں سے نجات حاصل کرنی ہو گی۔ مغرب کی سیاست، مغرب کی ثقافت اور مغرب کے فکر و فلسفہ کو مسترد کرنا ہو گا۔ کفر کے سیاسی غلبہ سے نجات کی یہی راہ ہے کہ ہمیں کفر کی سیاست اپنانے کی بجائے کفر کی سیاست سے برأۃ کا اعلان کرنا ہو گا۔ اب ہمیں کھل کر یہ کہنا ہو گا اور یہ بات ایمان کی علامت میں شمار ہو گی کہ ہم جمہوریت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ ہم سرمایہ دارانہ معاشی نظام کو انسانیت کے لیے قاتل نظام تصور کرتے ہیں۔ ہم کمیونزم کو انسانی شرف و عزت کی توہین سمجھتے ہیں، ہم آمریت اور ڈکٹیٹرشپ سے کلی طور پر بیزار ہیں۔