(شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۲۸۔۲۹ مارچ ۱۹۳۷ء کو علی گڑھ میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی پچاس سالہ جوبلی کے موقع پر شعبہ مدارس اسلامیہ سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دینی مدارس کے طلبہ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اپنے خطبۂ صدارت میں مندرجہ ذیل تجاویز پیش فرمائیں جو نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود اپنی افادیت و اہمیت کے لحاظ سے سنجیدہ توجہ کی متقاضی ہیں — ادارہ)
(۱) کچھ کچھ معتد بہ وظائف ان طلبہ کے لیے مقرر کیے جائیں جو عربی سے فراغت حاصل کرنے کے بعد انگریزی پڑھنا چاہیں۔ اور علٰی ہذا القیاس انگریزی مدارس کے ان فارغ شدہ طلبہ کے لیے بھی، جو عربی پڑھنا چاہیں، ان کے لیے بھی وہ وظائف امدادیہ جاری کیے جائیں۔
(۲) جس طرح مولوی فاضل وغیرہ کے سند یافتہ صرف زبانِ انگریزی میں گورنمنٹی امتحانات میں شرکت حاصل کر کے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں، اسی طرح مسلم یونیورسٹی اپنے یہاں ایسے قوانین بنائے جن کے رو سے عربی مدارس کے فارغ شدہ طلبہ صرف انگریزی زبان کے امتحان میں شامل ہو سکیں۔ ان کے لیے تعلیم کا مستند انتظام کیا جائے کہ ایف اے کے بعد وہ بی اے کا امتحان دے سکیں۔
(۳) عربی مدارس کے طلبہ کے لیے ریلوے وغیرہ سے وہ تمام مراعاتیں ملنی چاہئیں جو انگریزی مدارس کے طلبہ یا ایڈگرفتہ مدارس کے طلبہ کو ملتی ہیں۔ ایجوکیشنل کانفرنس مستند مدارس عربیہ کی ایک فہرست تیار کرے جس کو گورنمنٹ بھی تسلیم کرے۔
(۴) قانون کے امتحانوں میں انگریزی زبان دانی کی شرط نہ رکھی جائے۔ امتحانات ملکی زبانوں میں ہوں۔ علمی استعداد شرط کی جائے مگر حسبٍِ مراتب جن امتحانوں کے لیے میٹرک، انڈر گریجویٹ یا گریجویٹ کی شرط ہے وہ رکھی جائے۔ اور اسی درجہ کے عربی استادوں کو بھی کافی سمجھا جائے۔ عربی نصاب میں اس کے لیے مدارج قائم ہو سکتے ہیں اور بعض ضروری چیزوں کا نصاب میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
(۵) کورٹ کی لینگوئج بدل دی جائے۔ اگر فورًا ہائیکورٹ کی زبان بدلی نہ جا سکے تو وہ انگریزی ہی رہنے دی جائے لیکن دوسرے تمام کورٹوں کی زبان لازمی طور پر بدل دی جائے۔
(۶) رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ میں عربی کی اسناد کو بھی ملازمت کے لیے کافی سمجھا جائے۔
(۷) اوقاف کے تمام ذمہ دار عہدوں کے لیے عربی اور مذہبی تعلیم کی تکمیل ضروری سمجھی جائے اور شرط کر دی جائے۔
(۸) محکمہ منصفی اور ججی (صدارتِ اعلٰی) کے لیے، جس میں قضاء شرعی اور تقسیمِ وراثت وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہے، مذہبی تعلیم کی سند ضروری قرار دی جائے۔
(۹) مسلمانوں کو محکمہ قضاء حسبِ طلب عطا کیا جائے جس کا مطالبہ عرصہ دراز سے مسلمان کر رہے ہیں۔
(۱۰) آرٹ اور صنعت کی تعلیم میں عربی تعلیم کے سند یافتوں کو شرکت کا موقع دیا جائے۔
(۱۱) محکمہ ہائے انہار، زراعت، تجارت کی تعلیمات میں عربی تعلیم یافتوں کو شریک کیا جائے۔
(۱۲) یونیورسٹیوں کے وہ طلبہ جو عربی پڑھتے ہیں تھوڑے تھوڑے دنوں کے لیے کسی عربی دینی مدرسہ میں جا کر قیام کیا کریں اور عربی کی اعلٰی تعلیم سے استفادہ کریں۔