قرآنِ کریم میں خلافتِ الٰہیہ کے قیام سے مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک ایسی قوت پیدا کی جائے جس سے اموال اور حکمت، علم و دانش دونوں کو لوگوں میں صرف کیا جائے اور پھیلایا جائے۔ اب سودی لین دین اس کے بالکل منافی اور مناقض ہے۔ قرآن کریم کی قائم کی ہوئی خلافت میں ربوٰا (سود) کا تعامل کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ اس کا جواز بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ نور و ظلمت کا اجتماع۔ ربوٰا(سود) سود خواروں کے نفوس میں ایک خاص قسم کی خباثت پیدا کر دیتا ہے جس سے یہ ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اگر یہ خرچ کرتے ہیں تو ان کے سامنے اس کا ’’اضعافًا مضاعفًا‘‘ نفع حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں سود کی وجہ سے اقتصادیات میں جو فساد اور اخلاقِ فاضلہ کی تباہی اور بربادی اور فطرتِ انسانیہ میں بگاڑ اور لوگوں پر ضیق و تنگی پیدا ہوتی ہے، یہ اس قدر ظاہر باتیں ہیں جن کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے قرآنِ عظیم نے سود کو روئے زمین سے مٹانے کا اعلان کیا ہے اور انسانیت کو اس کے لینے دینے والوں کے شر و ظلم سے چھڑانے کا اعلان کیا ہے۔
سب سے پہلے مواعظِ حسنہ کے ذریعے سودی کاروبار سے منع کیا ہے۔ اگر اس سے باز نہ آئیں اور متنبہ نہ ہو تو ان کے ساتھ سخت لڑائی کا اعلان کیا ہے اور ایسے لوگوں کو سطحِ ارضی سے مٹانے کا چیلنج کیا ہے۔ اور قرآن کریم میں اس کی اساسی تعلیم بڑے محکم طریق پر دی ہے۔ ربوٰا سے منع کیا گیا ہے، سود خواروں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے، لیکن پوری طرح رشد و ہدایت کے واضح ہونے کے بعد اور اس کی مضرتوں کو پوری طرح کھول کر بیان کر دینے کے بعد جو کرے، یہ رشد و ہدایت کے یقیناً منافی ہے۔ اب اس کے خلاف جنگ یا کارروائی کرنا اکراہ نہیں ہو گا بلکہ عین انصاف کا تقاضا ہو گا۔ اسی طرح ایسی بڑی بڑی حکومتوں کو مٹانا اور منہدم کرنا ہے جو اس کے لیے منظم کی جاتی ہیں کہ سودی کاروبار کے ذریعے اموال کمائیں، ان کے خلاف خدا اور رسولؐ کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے۔
(الہام الرحمٰن)