عیسائی اور یہودی نظریۂ الہام

محمد اسلم رانا

کہنہ مشق اور پرجوش عیسائی مبلغ پادری برکت اے خان ایک ریٹائرڈ سکول ماسٹر ہیں۔ دورانِ ملازمت سے ہی تبلیغی سرگرمیوں میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان کی اکثر و بیشتر تحاریر کے مخاطبین مسلمان ہوتے ہیں۔ چند برس پیشتر انہیں اعزازی طور پر پادری بنا دیا گیا۔ رسمِ تقدیس سیالکوٹ چھاؤنی کے قدیم وسیع اور خوبصورت ہولی ٹرنٹی کیتھیڈرل نامی گرجاگھر میں منعقد ہوئی۔ راقم بھی اس تقریب میں شامل تھا۔

مؤقر جریدہ ’’الشریعۃ‘‘ بابت اپریل ۱۹۹۰ء (صفحہ ۴۰ کالم اول) میں حافظ محمد عمار خان ناصر نے پادری مذکور کی کتاب ’’اصولِ تنزیل الکتاب‘‘ (صفحات ۵، ۶) کے مندرجہ ذیل الفاظ نقل کیے ہیں:

’’آسمان پر الہامی کتابوں کی موجودگی اور ان کی آیات کے لفظ بلفظ کسی خاص زمان میں نزول کا جو عقیدہ اہلِ اسلام کے درمیان مروّج ہے، کتابِ مقدس کے صحائف کے متعلق نہ یہودیوں میں اور نہ مسیحیوں میں ایسا عقیدہ کبھی مروّج ہوا ہے۔‘‘

عیسائیوں کی کتاب مقدس، بائبل، رومن کیتھولک عیسائیوں کے نزدیک ۷۲ اور (پادری صاحب کے) پروٹسٹنٹ فرقہ کے ہاں ۶۶ کتابوں پر مشتمل ہے۔ متنازعہ فیہ کتابوں کو اپوکریفہ کہتے ہیں۔ بائبل کی اکثر و بیشتر کتابوں کے مصنفین سن و مقام تحریر اور مخاطبین کا تحقیق کچھ پتہ نہیں۔ بس کتابوں کے مندرجات اور تاریخ کی مدد سے اندھیرے میں کچھ تیر چلائے جاتے ہیں۔

عیسائی نظریۂ الہام

سیدھے سادے چند الفاظ میں عیسائی نظریۂ الہام یہ ہے کہ عیسائی علماء کی کمیٹی جس کتاب کو قبول کر لے وہ الہامی، مقدس، مستند، خدا کا کلام اور مدارِ نجات ہے۔ بائبل کی مخصوص مسیحی کتابیں اسی طرح مسیحی علماء کی مختلف کونسلوں، کمیٹیوں اور مجلسوں نے پاس کی تھیں۔ اور یہ انتخاب بھی کوئی حتمی شے اور یقینی امر نہیں ہے۔ افریقن مشنری نہلز ایسی مجالس کا ذکر کر کے لکھتے ہیں:

’’ہم بھی ان سے اتفاق یا اختلاف کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔‘‘ (Christians Answer Muslims - By Gerhard Nehls - 1980, p 118)

یعنی فی زمانہ بھی مسیحی علماء کی کوئی کونسل بائبل کی کسی کتاب کو غیر مستند قرار دینے اور اس مجموعہ سے نکال باہر کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ چند آراء پیشِ خدمت ہیں:

’’اراسمس کے خیالات پاک نوشتوں کے الہام اور مجموعے کے متعلق بالکل آزادانہ تھے۔ وہ مقدس یوحنا کے مکاشفہ (بائبل کی آخری کتاب۔ اسلم) کے الہامی ہونے سے منکر تھا۔‘‘

’’لوتھر بائبل کے صحیفوں پر اپنی ہی تمیز کے مطابق حکم لگاتا تھا۔ چنانچہ وہ مقدس ’’یعقوب کے خط‘‘ کے حق میں کہتا تھا کہ وہ تو ’’کوڑا یا بھوسہ‘‘ ہے کیونکہ یہ خط اس کے اس خیال سے کہ آدمی فقط ایمان کے ذریعے سے راست باز ٹھہرتا ہے اختلاف کرتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اس کے نزدیک بائبل کے تمام صحیفے یکساں قدر و قیمت نہیں رکھتے۔ پولوس کی تحریرات کو وہ سب سے افضل سمجھتا تھا۔ اگرچہ اس کے بعض دلائل کی نکتہ چینی کرنے سے بھی نہیں جھجھکتا۔‘‘ (بائبل کا الہام ۔ مصنفہ ڈاکٹر جے پیٹرسن سمائتھ ڈی ڈی ۔ مطبوعہ ۱۹۵۲ء ص ۱۸، ۸۲)

یہودی نظریہ

یہودیوں کی کتابوں کو بھی ۹۰ء میں فلسطین کے مقام حمبنیا میں علماء یہود کی ایک کونسل نے مقدس قرار دیا تھا (میزان الحق ۔ مصنفہ پادری سی جی فانڈر ڈی ڈی ص ۹۶)۔ راقم الحروف کے محدود سے مطالعہ کے مطابق یہودی اپنی کتاب مقدسہ کے مصنفین اور الہام وغیرہ کے چکر میں نہیں پڑتے۔ البتہ تورات بارے ان کا نظریہ خاص ہے۔ ڈاکٹر سمائتھ لکھتے ہیں:

’’یہودیوں کے ربی (علماء۔ اسلم) لوگ موسوسی تحریروں (تورات کی مروجہ پانچ کتابوں۔ اسلم) کی ایسی عزت کرنے لگے کہ آخر کار یہ کہہ اٹھے کہ خدا نے خود آسمان سے یہ کتابیں لکھی ہوئی موسٰیؑ کے حوالہ کی تھیں۔ نہیں بلکہ یہ کتاب ایسی کامل اور ایسی صفات سے موصوف تھی کہ خود یہودا، خدائے قادر اس کے مطالعہ میں ہر روز تین گھنٹے صرف کیا کرتا تھا۔‘‘ (ایضًا ص ۵۰)

مطالعۂ بائبل کے ایک امریکی پروفیسر مارون اردلسن لکھتے ہیں:

’’بنیاد پرست یہودی فی زمانہ بھی یہی تعلیم دیتے ہیں کہ خدا نے کوہ سینا پر بالکل بنفس نفیس ظاہر ہو کر شریعت دی اس لیے تورات کے الفاظ خدائی ہیں اور مکمل طور پر قطعی ہیں۔‘‘ (A Lion Hand Book: The World's Religions: 1982 - p 292 col 1)

پادری گیرڈ نر تورات بارے یہودی عقیدہ بیان کرتے ہیں کہ

’’ہر لفظ اور ہر حرف میں یکساں الہام ہے۔‘‘ (الہام ۔ مصنفہ پادری کینن ڈبلیو ایچ ٹی گیرڈنر بی اے ۔ مطبوعہ ۱۹۵۸ء ص ۱۵)

عیسائی اختلاف

اب قارئین کرام فاضل پادری صاحب کے اس فرمودہ پر غور فرمائیں:

’’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ موسٰیؑ پر توریت شریف ایک کتاب کی صورت میں آسمان سے نازل ہوئی تھی ان کی یہ بات خداوند کی کتاب مقدس کے اصول الہام کے سراسر خلاف ہے کیونکہ آسمان پر پہلے سے توریت کی کتاب کی موجودگی کو تسلیم کرنے کے بعد ہی اس توریت کی کتاب کے بزرگ موسٰیؑ پر آسمان سے نزول کا سوال پیدا ہوتا ہے۔‘‘

معزز پادری صاحب کی جانے بلا کہ مسلمانوں کے نظریۂ الہام پر حملہ کرتے کرتے انہوں نے یہودیوں کے منہ آجانا تھا جو کہ لکھی لکھائی تورات کا نزول ہی نہیں مانتے بلکہ اس کے بھی قائل ہیں کہ اللہ پاک روزانہ تین گھنٹے اس کی تلاوت کیا کرتا تھا۔ یاد رہے کہ تورات یہودی کتب مقدسہ (عیسائی بائبل کے پہلے حصہ) کی اصل الاصول ہے، یہودیوں کا سرمایۂ افتخار ہے، ان کی زندگی ہے۔ شریعتِ موسوی اسے ہی کہا جاتا ہے۔ اس کے اصل اور اولین ماننے والے یہودی ہیں۔ عیسائیوں کی تورات سے دلچسپی اور اس کا تقدس محضزبانی جمعخرچ تک ہی محدود ہے۔ عیسائی اس پر ہزار لعنت بھیجتے ہیں (گلتیوں ۳:۱۳)۔ موجودہ عیسائیت (دراصل پولوسیت) کی تو تعمیر ہی تورات کے قبرستان میں ہوئی ہے۔ یہودی تورات کی عظمت اور الہام بارے جو نظریہ جی چاہے رکھیں، عیسائیوں کو اسے چیلنج کرنے اور ان پر اپنا نظریہ ٹھونسنے کا کیا حق حاصل ہے؟

عیسائی اور لفظی الہام

یہودیوں کی تقلید کبھی عیسائی بھی لفظی الہام کا عقیدہ رکھتے تھے۔ ڈاکٹر سمائتھ کے الفاظ میں:

’’ہم نے بھی بائبل کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے۔ ہم بھی قریباً اس کے حق میں بھی یہی سب باتیں کہہ گزرے ہیں۔ ہم موسٰی اور متی اور پولوس کے واسطے وہ حقوق طلب کرتے ہیں جو شاید کبھی ان کے وہم و خیال میں بھی نہیں آئے تھے۔ شاید ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان باتوں کو ان سے بہتر سمجھتے ہیں۔ مگر اس قسم کے باطل توہمات کے ذریعے ہم نے اس کتاب کی فطرتی حسن و خوبی کو گنوا دیا ہے اور ہم نے اس کتاب کو اپنی حماقت سے دشمنوں کے حملوں کے لیے نشانہ بنا دیا ہے کہ بچہ بچہ بھی اگر چاہے تو اس پر ملحدانہ حملہ کرنے کے لیے میدان کھلا پاتا ہے۔‘‘ (ص ۵۰)

قارئین کرام نوٹ فرمائیں کہ پادری صاحب کے دعوٰی کے قطعی برعکس ہم نے یہودیوں اور عیسائیوں دونوں اقوام میں لفظی الہام کا عقیدہ انہی کی زبان ثابت کر دیا ہے۔ اسے کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ آئیں عیسائیوں کے نظریۂ الہام جسے پادری صاحب ’’خداوند کی کتاب مقدس کا اصول الہام‘‘ کہتے نہیں تھکتے، کی اصل ڈاکٹر سمائتھ ہی کے قلم سے معلوم کریں۔ موصوف لکھتے ہیں:

’’الہام کا خیال فقط یہودیوں اور مسیحیوں میں ہی محدود نہیں ہے۔ قدیم یونانی و رومی مصنف بھی اکثر ’’الٰہی جنون، یا ۔۔، یا خدا سے اٹھائے جانے، یا خدا سے الہام کیے جانے اور پھونکے جانے‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ فنونِ شریفہ مثلاً سنگ تراشی یا مصوری اور شاعری کی لیاقت، پیشگوئی کی قدرت، عشق و محبت کا جوش اور لڑائی کا تہور، یہ سب باتیں ان فنون کے دیوتاؤں کی طرف منسوب کی جاتی تھیں جو اس وقت اس شخص پر قابو پائے ہوئے سمجھے جاتے تھے۔ یہی الفاظ اور خیالات بعد ازاں مسیحیوں کی مذہبی اصطلاحات میں بھی داخل ہو گئے اور لازمی طور پر ابتدائی کلیسیا کے تصوراتِ الہام پر بھی کسی درجہ تک اپنا اثر ڈالا۔‘‘ (ص ۹۵)

لیجئے ہمارے لیے عیسائی نظریہ سمجھنا آسان ہو گیا کہ

’’الہام کے معنی ہیں روح القدس کا نفخ یا پھونکنا تاکہ زیادہ روحانی کیفیت یا حالت یا زیادہ گرم جوشی اور گہری محبت پیدا کر دے اور خدا کے مقاصد و منشاء کا گہرا علم و فہم حاصل ہو یا دیگر قابلیتوں کو جن کے استعمال کی الہامی شخص کو اپنے منصبی کام کے سرانجام کرنے کے لیے ضرورت تھی زیادہ تیز اور طاقت ور کر دے۔‘‘ (ص ۹۰)

اب جس مجموعہ کتب کا کوئی سر منہ نہ ہو، اس میں عجیب و غریب اور ناقابلِ یقین و ایمان باتیں لکھی ہوں، اس کی   کتابیں انفرادی صوابدید کی زد میں ہوں، انہیں الہامی ماننے سے انکار کیا جا رہا ہو، ان کتابوں کے لفظی الہام کو کون مانے گا؟ ذرا ایک حوالہ مطالعہ فرمائیں۔ بائبل کی کتاب ایوب میں لکھا ہے:

’’اس کا ایوبؑ پر غصہ بھڑکا اس لیے کہ اس نے اپنے آپ کو خدا سے زیادہ صادق ٹھہرایا تھا اور اس کا غصہ تینوں دوستوں پر بھی بھڑکا اس لیے کہ ان کے پاس جواب نہ تھا اور انہوں نے خدا کو مجرم ٹھہرایا تھا‘‘۔ (ایوب ۳۳: ۲، ۳۔ رومن کیتھولک اردو ترجمہ بائبل۔ کلام مقدس مطبوعہ سوسائٹی آف سینٹ پال روما ۱۹۵۸ء)

چنانچہ عیسائیوں کو لفظی الہام کا نظریہ مجبورًا چھوڑنا پڑا کہ وہ بائبل کو ڈوبے لیے جا رہا تھا۔ ڈاکٹر سمائتھ بصد حسرت و یاس لکھ گئے:

’’پاک نوشتوں (بائبل کی کتابوں۔ اسلم) کے ہر ایک طرح کے تفصیلی امور میں کامل طور پر بے خطا ہونے پر اصرار کرنا فقط ایک غیر ضروری اور بے سند بات ہی نہیں ہے بلکہ اس کا ماننا الہام کے عقیدہ کو سخت معرض خطر میں ڈالتا ہے۔ بھلا بتاؤ تو ۔۔۔ فرانس کے مشہور مصنف اور فصیح البیان رینان کو کس چیز نے ملحد بنا دیا؟ یہی بات کہ الہام کے عقیدۂ سہو و خطا سے بریت کے عقیدہ کے ساتھ جکڑا ہوا تھا۔ چارلس بریڈلا کو کس چیز نے بائبل کا دشمن بنا دیا؟ یہ کہ پادری جس نے اسے مستقیم ہونے کے لیے تیار کیا اس نے اس ذی فہم لڑکے کے سوالات کو جو وہ الہام کے مسئلہ پر کرتا تھا اپنی تنگ خیالی کی وجہ سے زجر و توبیخ کے ساتھ رد کر دیا اور ان کا کچھ تسلی بخش جواب نہ دیا۔

ناظرین! آپ بھی کئی لوگوں سے واقف ہوں گے جن کا ایمان اسی قسم کی تعلیمات کے سبب سے زائل ہو گیا ہے۔ چند ماہ ہوئے خود میرے ذاتی تجربے میں بھی یہ امر آیا اور میں نے دیکھا کہ میرے ایک بڑے گاڑھے دوست کے ایمان پر اسی قسم کی غلط تعلیم نے پانی پھیر دیا۔ یقین جانو وہ لوگ بائبل کے نادان دوست ہیں جو الہام کو اس قسم کے سوالات کے ساتھ وابستہ کر رہے ہیں۔ جب مذہبی معلموں کی جماعت میں ایسے اشخاص موجود ہوں جو یہ کہیں کہ ایک ذرا سی غلطی کے ثابت ہونے سے بائبل کا الہامی ہونا مردود ٹھہرے گا جبکہ لفظوں کے صاف صاف معنوں کو کھینچ تان کر ذرا ذرا سے اختلافات کو تطبیق دینے کی کوشش کی جاتی ہے یا اس کے علمی امور کے متعلقہ باتوں کو زمانۂ حال کی تحقیقات اور دریافتوں سے ملایا جاتا ہے تو اس سے بائبل کو کچھ نفع حاصل نہیں ہوتا بلکہ الٹا اس کی جان عذاب میں پھنستی ہے۔ ایسی کتابوں کو پڑھ کر خواہ مخواہ یہ خیال پیدا ہو گا کہ گویا ہماری نجات کا مدار اسرائیلیوں کی ادنٰی علمی واقفیت کی صحت پر ہے یا یہ کہ ہمارا مذہب معرض خطر میں ہے۔‘‘ (صفحات ۱۴۶ ۔ ۱۴۷)

عیسائی نظریۂ الہام کی تشریح کی جا چکی ہے کہ عیسائی علماء کی کونسلوں کا مرہونِ منت ہے۔ پادری صاحبان جس کتاب کو مناسب سمجھیں ’’الہام‘‘ کا سرٹیفکیٹ عنایت فرما دیں۔ عملی صورت یہی ہے، باقی سب لفاظی ہے، آئیں بائیں شائیں کرنا اور حجتیں کاٹنا ہے۔ عیسائی اتنا اتراتے جو پھرتے ہیں کیا کوئی مائی کا لال عیسائیوں کا تسلیم شدہ ’’خداوند کی کتابِ مقدس کا اصولِ الہام‘‘ خداوند کی کتاب مقدس میں سے دکھا سکے گا؟ صاحبو! سجے سجائے ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر ’’خداوند کی کتابِ مقدس کے اصولِ الہام‘‘ کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دینا اور بات ہے جبکہ آب و گل کی اس بستی رستی دنیا میں ’’خداوند کی کتابِ مقدس کے اصولِ الہام‘‘ کو نباہنا اور ثابت کرنا اور بات۔

لگے ہاتھوں عیسائی بھائی یہ بھی بتا دیں کہ اگر انہوں نے نظریات کی بے آب و گیاہ وادیوں میں یونہی دھکے کھانے اور ٹامک ٹوئیاں مارتے پھرنا ہے تو پھر تثلیثِ اقدس کے دوسرے اقنوم مسیح خداوند کے اس قول کہ ’’دیکھو میں دنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں‘‘ (انجیل متی آیت آخر) اور تیسرے اقنوم روح القدس خداوند کا مسیحیوں کو تعلیم دینے اور رہنمائی کرنے کا مطلب کیا ہے؟ (مسیحی علم الٰہی کی تعلیم ۔ مصنفہ پادری لوئیس برک ہاف وکلف اے سنگھ ۔ مطبوعہ ۱۹۸۲ء ص ۱۳۶)۔ یارو! کچھ تو بولو، سانپ ہی کیا سونگھ گیا؟ جو کچھ تم نے بولنا ہے روح القدس تمہیں بتاتا کیوں نہیں  ہے؟ (مرقس ۳: ۱۱)



مئی کے شمارہ میں پادری فنڈر کو کیتھولک لکھا گیا ہے حالانکہ پادری صاحب پروٹسٹنٹ فرقہ سے متعلق تھے۔ اپوکریفہ کی بحث میں بقلم خود لکھتے ہیں ’’ہم پروٹسٹنٹ مسیحی عہدِ عتیق کی عبرانی کتبِ دین کو مانتے ہیں‘‘ (میزان الحق ص ۱۴۴)۔ امید ہے کہ یہ چند حروف بغرضِ تصحیح کافی رہیں گے۔‘‘


مذاہب عالم

(جولائی ۱۹۹۰ء)

جولائی ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۷

شریعت بل اور تحریک نفاذ شریعت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

انسانی اجتماعیت اور آبادی کا محور
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

خبرِ واحد کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

تعوذ اور قرآن مجید
مولانا سراج نعمانی

’’شریعت بل‘‘ پر مختلف حلقوں کے اعتراضات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

عیسائی اور یہودی نظریۂ الہام
محمد اسلم رانا

نسخ و تحریف پر مولانا کیرانویؒ اور ڈاکٹر فنڈر کا مناظرہ
محمد عمار خان ناصر

’’جمہوریت‘‘ — ماہنامہ الفجر کا فکر انگیز اداریہ
ادارہ

ہمارے دینی مدارس — مقاصد، جدوجہد اور نتائج
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قرآنِ کریم اور سود
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

آپ نے پوچھا
ادارہ

برص ۔ انسانی حسن کو زائل کرنے والا مرض
حکیم محمد عمران مغل

عمل کا معجزہ حق ہے سکوت و ضبط باطل ہے
سرور میواتی

تعلیم کے دو طریقے
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

دینی و عصری تعلیم کے امتزاج کیلئے چند تجاویز
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

تلاش

Flag Counter