اس مرض کو عوام اپنی زبان میں سفید داغ، پھلبہری، چٹاک وغیرہ بھی کہتے ہیں۔ یہ سفید داغ جسم پر نمودار ہوا کرتے ہیں جسے طبی زبان میں برص کہا جاتا ہے۔ رفتارِ زمانہ کے ساتھ اس مرض میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دیہاتیوں کی نسبت شہر میں رہنے والے کچھ زیادہ ہی اس کے گھیرے میں آ رہے ہیں۔ اس مرض کا خاص سبب تو عصبی خرابی ہے۔ جگر کی خرابی اور کمزوری کے ساتھ معدہ کی فاسد رطوبتیں بھی اس مرض میں اضافہ کا موجب بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ جدید تہذیب کی کچھ خاص رسمیں اور عادات بھی اس میں اضافہ کر رہی ہیں۔ مثلاً شہروں میں دودھ دہی کی دکان پر آپ کھڑے ہیں اور دودھ پینے کی خواہش پیدا ہوئی۔ دودھ والے نے فورًا کھولتے دودھ میں برف ملا کر ٹھنڈا کر کے آپ کی خدمت میں پیش کر دیا اور آپ نے کھڑے کھڑے پی لیا۔ ایک تو کھڑا ہو کر پینے سے جگر میں کمزوری پیدا ہوئی، پھر دودھ میں وہ تازہ ہوا یا آکسیجن جذب نہ ہو سکی جو قدرتی طور پر عام ہوا میں رکھنے سے ہو سکتی تھی۔ چنانچہ ایسا دودھ لازمی بلغم کی کثرت کا باعث بنے گا۔ چنانچہ تمام بازاری آئس کریم اور قلفیوں کا یا دودھ کی مصنوعات کا یہی حال ہے۔ اس سے جو بلغم پیدا ہو گا اس میں خون بننے کی صلاحیت نہیں ہوا کرتی (کچی بلغم تقریباً سارا خون ہی ہوا کرتا ہے)۔
ہمارے جسم میں قدرت نے بہت سی قوتیں پیدا کی ہیں، ان میں سے ایک قوت کا نام قوتِ ممیزہ ہے، یہی قوت بلغم سے خون بناتی ہے مگر وہ بلغم اپنی تعریف پر پورا اترتا ہو۔ ایسے خواتین و حضرات جن کا جگر اور معدہ اکثر خراب رہتا ہو اور مزاج بھی بلغمی ہو تو ان میں اس مرض کو قبول کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رہتی۔ اس کے علاوہ زیادہ سرد غذائیں، چاول، بادی اشیاء اور کئی کئی دنوں کی پکی ہوئی غذا جسے فریج میں رکھ دیا گیا ہو کھانے سے بھی یہ مرض پیدا ہو سکتا ہے۔ یا پھر ایسی غذا جس میں بلی، چوہا، چھپکلی منہ مار جائے، یا پیتل تانبے کے برتن میں کھانا کھانا جبکہ اسے قلعی نہ کرائی گئی ہو۔ گوشت کھا کر اوپر سے دودھ پینا، گلی سڑی باسی مچھلی کھانا، مٹھائی یا فروٹ کھا کر پانی پینا اور پہلی غذا پوری طرح ہضم نہ ہو اوپر سے اور ٹھونس لینا، یہ تمام اسباب اس مرض کو دعوت دیتے ہیں۔ مخلوقِ خدا کی بہتری کے لیے حکماء متقدمین نے ایک نصیحت فرمائی ہے ؎
جب بھوک لگے تب کھاؤ
کچھ بھوک رہے ہٹ جاؤ
اور یہ نصیحت علاج کے ساتھ سونے پر سہاگہ کا کام دیتی ہے۔ شروع میں باریک باریک دانے نکلتے ہیں جو پھیل کر سفید داغ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک مرض اور بھی ہے جسے بہق ابیض کہتے ہیں۔ مگر برص میں رنگت سفید اور جلد چکنی ہو گی۔ بعض دفعہ یہ مرض جلد سے ہوتا ہوا ہڈی تک چلا جاتا ہے۔ وہاں کا بال بھی سفید ہو جاتا ہے اور سوئی چبھونے سے خون کی بجائے زردی مائل پانی نکلتا ہے۔ اب علاج ذرا دیر سے ہو گا۔ یاد رکھیں کہ طبِ یونانی اور اسلامی میں دس دس سال کے مریض شفایاب ہوئے ہیں۔
علاج
سب سے پہلے بسیار خوری اور نازک مزاجی کو ختم کر کے صبح شام سیر کریں اور کوشش کریں کہ کام کاج سے پسینہ خوب خارج ہو کیونکہ ؎
اچھی نہیں نزاکتِ احساس اس قدر
شیشہ اگر بنو گے تو پتھر بھی آئے گا
قابض اور تمام بادی اشیاء سے پرہیز اور تمام ایسی اشیاء جن کی رنگت سفید ہو بالکل بند کر دیں۔ احقر نے اس اصول کے تحت کامیاب علاج کیا ہے:
(۱) کھانے کے بعد صبح شام چھ ماشہ جوارش جالینوس ہمراہ تازہ پانی یا عرق بادیان۔ جگر کی اصلاح کے لیے کسی بھی دواخانہ کی کوئی سی دوا کھائی جا سکتی ہے۔
(۲) اجمود تازہ چار ماشہ صبح نہار منہ تازہ پانی سے کھائیں اور روزانہ سوا ماشہ اضافہ کرتے کرتے آٹھ ماشہ تک کریں۔ اب آٹھ ماشہ ایک ماہ تک کھائیں۔ ان شاء اللہ برص بیخ و بن سے اکھڑ جائے گا، برف کا قطعی پرہیز ہونا چاہیئے۔