خطبہ حجۃ الوداع کی روایات

ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

نوٹ: روایات کا انتخاب اور تخریج درج ذیل دو سی ڈیز کی مدد سے کی گئی ہے:

۱۔  موسوعۃ الحدیث الشریف (الکتب التسعۃ) ، شرکۃ البرامج الاسلامیۃ الدولیۃ، الاصدار الثانی

۲۔  المکتبۃ الالفیۃ للسنۃ النبویۃ ، مرکز التراث لابحاث الحاسب الآلی، الاصدار 1.5



یوم عرفہ (۹ ذی الحجہ) سے متعلق روایات

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ: غدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من منی حین صلی الصبح صبیحۃ یوم عرفۃ حتی اتی عرفۃ فنزل بنمرۃ وہی منزل الامام الذی ینزل بہ بعرفۃ حتی اذا کان عند صلاۃ الظہر راح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہجرا فجمع بین الظہر والعصر ثم خطب الناس ۔ (ابو داؤد، رقم ۱۶۳۴)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یوم عرفہ (۹ ذو الحجہ) کو صبح کی نماز ادا کر لی تو آپ منیٰ سے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ میدان عرفات میں پہنچ گئے۔ آپ نے نمرہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا جو عرفہ میں امام کے قیام کرنے کی جگہ ہے۔ جب ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے ذرا جلدی روانہ ہوئے، ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی ادا کی اور پھر لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا۔‘‘

نبیط بن شریط رضی اللہ عنہ:  رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخطب علی جمل احمر بعرفۃ قبل الصلاۃ۔  (نسائی، ۲۹۵۷)

’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ عرفہ میں نماز سے قبل ایک سرخ اونٹ پر سوار خطبہ دے رہے تھے۔‘‘

خالد بن العذاء بن ہوذۃ رضی اللہ عنہ: رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخطب الناس یوم عرفۃ علی بعیر قائم فی الرکابین۔  (ابو داؤد، ۱۶۳۸)

’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ یوم عرفہ کو ایک اونٹ پر اس کی دونوں رکابوں میں پاؤں جما کر کھڑے تھے اور خطبہ دے رہے تھے۔‘‘

عبادۃ بن عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ:  قال کان ربیعۃ بن امیۃ بن خلف الجمحی ہو الذی یصرخ یوم عرفۃ تحت لبۃ ناقۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصرخ وکان صیتا ۔ (المعجم الکبیر، ۴۶۰۳)  

’’یوم عرفہ کو ربیعہ بن امیہ بن خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے سینے کے نیچے کھڑے (آپ کے کلمات کو) بلند آواز سے دہرا رہے تھے۔ ان کی آواز بہت بلند تھی اور آپ نے ان سے کہا تھا کہ اونچی آواز سے (یہ کلمات) کہو (جو میں کہہ رہا ہوں)‘‘۔

 یقول لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قل یا ایہا الناس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ....۔  (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ ۶/۱۰)

’’آپ ربیعہ سے کہتے کہ کہو: اے لوگو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ...‘‘۔

[ ابن عباس (المعجم الکبیر، ۱۱۳۹۹۔ صحیح ابن خزیمہ، ۲۹۲۷) ]

 محمد بن قیس بن مخرمۃ: خطب یوم عرفۃ فقال ہذا یوم الحج الاکبر۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۳۰۴)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے روزہ خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ یہ حج اکبر کا دن ہے۔‘‘

[مرۃ الطیب عن رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم (مسند احمد، ۱۵۳۲۲)]

عبد العزیز بن عبد اللہ بن خالد بن اسید:  قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم عرفۃ: الیوم الذی یعرف الناس فیہ۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۶۰۹۔ سنن الدارقطنی، ۲/۲۲۳)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے دن فرمایا کہ آج وہ دن ہے جس میں لوگ عرفات میں ٹھہریں گے۔‘‘

زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہو بعرفۃ یقرا ہذہ الآیۃ شہد اللہ انہ لا الہ الا ہو والملئکۃ واولو العلم قائما بالقسط لا الہ الا ہو العزیز الحکیم وانا علی ذلک من الشاہدین۔ (مسند احمد، ۱۳۴۷)

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفہ میں یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: شہد اللہ انہ لا الہ الا ہو والملئکۃ واولو العلم قائما بالقسط لا الہ الا ہو العزیز الحکیم (اللہ بھی گواہی دیتا ہے اور فرشتے اور اہل علم بھی کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ انصاف پر قائم ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ غالب اور حکمت والا ہے) رسول اللہ نے فرمایا کہ میں بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں۔‘‘

عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما:  ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطب بعرفات فلما قال لبیک اللہم لبیک قال انما الخیر خیر الآخرۃ ۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۸۸۱۶)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں خطبہ دیا۔ جب آپ ’لبیک اللہم لبیک‘ کہہ چکے تو فرمایا کہ اصل بھلائی تو آخرت ہی کی بھلائی  ہے۔‘‘

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ:  یا ایہا الناس خذوا مناسککم فانی لا ادری لعلی غیر حاج بعد عامی ہذا۔  (طبرانی، المعجم الاوسط، ۱۹۲۹) 

’’اے لوگو! حج کے مناسک سیکھ لو، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ اس سال کے بعد مجھے حج کرنے کا موقع ملے گا یا نہیں۔‘‘

مسور بن مخرمۃ رضی اللہ عنہ:  [خطبنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعرفۃ فحمد اللہ واثنی علیہ ثم قال اما بعد] ان اہل الجاہلیۃ کانوا یدفعون من عرفۃ حین تکون الشمس کانہا  عمائم الرجال فی وجوہہم قبل ان تغرب ومن المزدلفۃ بعد ان تطلع الشمس حین تکون کانہا عمائم الرجال فی وجوہہم وانا لا ندفع من عرفۃ حتی تغرب الشمس وندفع من المزدلفۃ قبل ان تطلع الشمس ہدینا مخالف لہدی اہل الاوثان والشرک ۔ (مسند الشافعی، ۱/۳۶۹۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۳۰۴)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں میدان عرفات میں خطبہ دیا اور اللہ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اہل جاہلیت عرفہ سے سورج کے غروب ہونے سے قبل اس وقت روانہ ہو جاتے تھے جب سورج اس طرح نمایاں ہوتا جیسے مردوں (کے سروں پر ان) کی پگڑیاں ہوتی ہیں، اور مزدلفہ سے سورج کے طلوع ہونے سے پہلے اس وقت روانہ ہو جاتے تھے جب سورج طلوع ہو کر اس طرح نمایاں ہوچکا ہوتا جیسے مردوں (کے سروں پر ان) کی پگڑیاں ہوتی ہیں، لیکن ہم عرفہ سے اس وقت تک روانہ نہیں ہوں گے جب تک سورج غروب نہ ہو جائے، اور مزدلفہ سے سورج کے طلوع ہونے سے قبل روانہ ہو جائیں گے۔ ہمارا طریقہ بت پرستوں اور اہل شرک کے طریقے کے خلاف ہے۔‘‘

عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ:  قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم عرفۃ ایہا الناس ان اللہ تطول علیکم فی ہذا الیوم فیغفر لکم الا التبعات فی ما بینکم ووہب مسیئکم لمحسنکم واعطی محسنکم ما سال اندفعوا بسم اللہ۔  (مصنف عبد الرزاق، ۸۸۳۱)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے دن فرمایا کہ اے لوگو! آج کے دن اللہ تعالیٰ نے تم پر خاص عنایت فرمائی ہے اور تمھارے گناہ بخش دیے ہیں، سوائے ان حق تلفیوں کے جو تم نے آپس میں ایک دوسرے کی کی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ تم میں سے خطا کاروں کو تم میں سے نیکو کاروں کے حوالے کر دیا ہے اور نیکو کاروں نے جو مانگا ہے، وہ انھیں عطا کر دیا ہے۔ اللہ کا نام لے کر روانہ ہو جاؤ۔‘‘

ام الحصین رضی اللہ عنہا:  سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعرفات یخطب یقول غفر اللہ للمحلقین ثلاث مرار قالوا والمقصرین فقال والمقصرین فی الرابعۃ۔ (مسند احمد، ۲۶۰۰۳)

’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے سنا۔ آپ فرما رہے تھے کہ اللہ سر منڈوانے والوں کی مغفرت فرمائے۔ آپ نے یہ دعا تین مرتبہ مانگی۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ، بال کٹوانے والوں کے لیے بھی دعا کیجیے۔ آپ نے چوتھی مرتبہ کہا کہ یا اللہ، بال کٹوانے والوں کی بھی مغفرت فرما۔‘‘

ابن عباس رضی اللہ عنہ: سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب بعرفات من لم یجد النعلین فلیلبس الخفین ومن لم یجد ازارا فلیلبس سراویل للمحرم۔  (بخاری، ۱۷۱۰)

’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ حالت احرام میں جسے چپل نہ میسر ہوں، وہ موزے پہن لے اور جس کے پاس تہ بند نہ ہو، وہ سلی ہوئی شلوار پہن سکتا ہے۔‘‘

ام الفضل رضی اللہ عنہا: انہم شکوا فی صوم النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم عرفۃ فارسلت الیہ بلبن فشرب وہو یخطب الناس بعرفۃ علی بعیرہ۔ (مسند احمد، ۲۵۶۴۷۔ مسند اسحاق بن راہویہ (۴۔۵)  ۱/۲۶۷)

’’لوگوں کو عرفہ کے دن شک ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہیں یا نہیں، تو ام الفضل نے آپ کے لیے دودھ بھیجا جسے آپ نے نوش فرمایا جبکہ آپ اپنے اونٹ پر سوار میدان عرفات میں لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے۔‘‘

نبیشۃ بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ:  نادی رجل وہو بمنی فقال یا رسول اللہ انا کنا نعتر عتیرۃ فی الجاہلیۃ فی رجب فما تامرنا یا رسول اللہ قال اذبحوا فی ای شہر ما کان وبروا اللہ عزوجل واطعموا قال انا کنا نفرع فرعا فما تامرنا قال فی کل سائمۃ فرع تغذوہ ماشیتک حتی اذا استحمل ذبحتہ وتصدقت بلحمہ۔  (نسائی، السنن الصغریٰ، ۴۱۵۶)

’’ایک شخص نے منیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارا اور کہا یا رسول اللہ! ہم جاہلیت کے زمانے میں رجب کے مہینے میں ایک جانور قربان کیا کرتے تھے، پس اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جس مہینے میں چاہو، قربانی کرو اور اللہ کے ساتھ وفاداری کا اظہار کر و اور (قربانی کا گوشت) لوگوں کو کھلاؤ۔ اس نے کہا کہ ہم اونٹنی کے پہلے بچے کو بھی ذبح کیا کرتے تھے، تو اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: (صرف اونٹنی میں نہیں، بلکہ) ہر چرنے والے جانور کے پہلے بچے کو (اللہ کے نام پر) ذبح کرنا درست ہے، (لیکن اسے پیدا ہوتے ہی ذبح نہ کرو، بلکہ) تمھارے مواشی اس کو دودھ پلائیں، یہاں تک کہ جب وہ سواری کے قابل ہو جائے تو تم اسے ذبح کرو اور اس کا گوشت صدقہ کر دو۔‘‘

زید بن اسلم عن رجل عن ابیہ او عمہ:  شہدت النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعرفۃ وسئل عن العقیقۃ فقال لا احب العقوق ومن ولد لہ ولد واحب ان ینسک عنہ فلینسک  وسئل عن العتیرۃ فقال حق وسئل عن الفرع فقال حق ولیس ہو ان تذبحہ غراۃ من الغراء  ولکن تمکنہ من مالک حتی اذا کان بن لبون او بن مخاض زخربا یعنی ذبحتہ وذلک خیر من ان تکفا اناء ک وتولہ ناقتک وتذبحہ یختلط لحمہ بشعرہ۔  (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۱۹۱۲۵)

’’میں میدان عرفات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا۔ آپ سے عقیقہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں ’عقوق‘ کو پسند نہیں کرتا۔ جس کے ہاں بچے کی ولادت ہو اور وہ اس کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ آپ سے عتیرہ (رجب میں کی جانے والی قربانی) کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ یہ درست ہے۔ آپ سے فرع (یعنی اونٹنی کے پہلے بچے کو ذبح کرنے) کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ یہ بھی درست ہے، لیکن اس کا طریقہ یہ نہیں کہ تم اسے (پیدا ہوتے ہی) ذبح کر دو جبکہ اس کی ماں کا دل اس کے ساتھ بندھا ہوا ہے، بلکہ تم اسے اپنے مال میں سے کھلاؤ پلاؤ یہاں تک کہ جب وہ ایک سال یا دو سال کا ہو جائے اور خوب پل جائے تو پھر اسے ذبح کرو۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ تم اپنے برتن کو انڈیل دو، اپنی اونٹنی کو (بچے کی جدائی کے غم میں) باؤلا کر دو اور بچے کو اس طرح ذبح کرو کہ اس کا گوشت اور اس کے بال آپس میں چپکے ہوئے ہوں۔‘‘

حارث بن عمرو رضی اللہ عنہا: انہ لقی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی حجۃ الوداع وہو علی ناقتہ العضباء [وہو بمنی او بعرفات ویجئ الاعراب فاذا راوا وجہہ قالوا ہذا وجہ مبارک] [وکان الحارث رجلا جسیما فنزل الیہ الحارث فدنا منہ حتی حاذی وجہہ برکبۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاہوی نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمسح وجہ الحارث فما زال نضرۃ علی وجہ الحارث حتی ہلک] فاتیتہ من احد شقیہ فقلت یا رسول اللہ بابی انت وامی استغفر لی فقال غفر اللہ لکم ثم اتیتہ من الشق الآخر ارجو ان یخصنی دونہم فقلت یا رسول اللہ استغفر لی فقال بیدہ غفر اللہ لکم [فذہب یبزق فقال بیدہ فاخذ بہا بزاقہ فمسح بہ نعلہ کرہ ان یصیب احدا ممن حولہ]  فقال رجل من الناس یا رسول اللہ العتائر والفرائع قال من شاء عتر ومن شاء لم یعتر ومن شاء فرع ومن شاء لم یفرع، فی الغنم اضحیتہا وقبض اصابعہ الا واحدۃ [وفی روایۃ: وقال باصبع کفہ الیمنی فقبضہا کانہ یعقد عشرۃ ثم عطف الابہام علی مفصل الاصبع الوسطی ومد اصبعہ السبابۃ وعطف طرفہا یسرا یسرا]۔ (نسائی، ۴۱۵۴۔ مسند احمد، ۱۵۴۰۵۔ طبرانی، المعجم الکبیر، ۳۳۵۱، ۳۳۵۲۔ الآحاد والمثانی، ۱۲۵۷)

’’حجۃ الوداع کے موقع پر حارث بن عمرو کی ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی اور آپ اپنی اونٹنی عضباء پر سوار تھے۔ آپ منیٰ یا عرفات میں تھے اور بدو لوگ آتے اور جب آپ کا چہرہ دیکھتے تو کہتے کہ یہ تو بہت مبارک چہرہ ہے۔ حارث بھاری جسم کے آدمی تھے، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گئے، یہاں تک کہ ان کا چہرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے کے برابر آ گیا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جھک کر حارث کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور اس کی برکت سے وفات تک حارث کے چہرے پر تروتازگی قائم رہی۔ حارث کہتے ہیں کہ میں ایک طرف سے آپ کے پاس آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میرے لیے مغفرت کی دعا کیجیے۔آپ نے فرمایا: اللہ تم سب کی مغفرت کرے۔ پھر میں اس امید پر دوسری طرف سے آیا کہ آپ خاص طور پر میرے لیے دعا کریں۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میرے لیے مغفرت کی دعا کیجیے۔ آپ نے فرمایا: اللہ تم سب کی مغفرت کرے۔ آپ نے تھوک پھینکنا چاہی تو اس خدشے سے کہ اردگرد موجود لوگوں میں سے کسی پر جا پڑے گی، آپ نے اپنے ہاتھ میں تھوک پھینک کر اسے اپنے جوتوں کے ساتھ صاف کر دیا۔ ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! عتیرہ اور فرع کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا جو چاہے، عتیرہ کی قربانی کرے اور جو چاہے نہ کرے۔ اور جو چاہے، اونٹنی کے پہلے بچے کو قربان کرے اور جو چاہے نہ کرے۔ بکریوں میں بس ایک (عید الاضحیٰ) کی قربانی ہی لازم ہے۔ آپ نے ایک انگلی کے علاوہ ہاتھ کی باقی انگلیاں بند کر لیں۔ [ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کی ایک انگلی کو یوں بند کر لیا جیسے دس کا عدد بنا رہے ہوں۔ پھر انگوٹھے کو درمیانی انگلی کے جوڑ پر رکھ دیا اور شہادت کی انگلی کو کھڑا کر کے اس کے کنارے کو تھوڑا سا ٹیڑھا کر لیا۔]‘‘

حبیب بن مخنف رضی اللہ عنہ:  انتہیت الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم عرفۃ قال وہو یقول ہل تعرفونہا قال فما ادری ما رجعوا علیہ قال فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی کل بیت ان یذبحوا شاۃ فی کل رجب وکل اضحی شاۃ  (مسند احمد، ۱۹۸۰۴۔ مصنف عبد الرزاق، ۸۱۵۹)

’’میں عرفہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو آپ فرما رہے تھے کیا تم اس کو جانتے ہو؟ مجھے نہیں معلوم کہ لوگوں نے کیا جواب دیا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر اہل خانہ پر لازم ہے کہ وہ رجب کے مہینے میں ایک بکری ذبح کریں، اور ہر قربانی ایک بکری کی ہونی چاہیے۔‘‘

مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس علی کل اہل بیت فی کل عام اضحیۃ وعتیرۃ ہل تدرون ما العتیرۃ ہی التی تسمونہا الرجبیۃ۔ (ترمذی، ۱۴۳۸)

’’اے لوگو! ہر اہل خانہ پر ہر سال ایک قربانی اور ایک عتیرہ لازم ہے۔ (راوی کہتا ہے کہ) کیا تم جانتے ہو کہ عتیرہ کیا ہے؟ یہ وہی ہے جس کو تم رجب کی قربانی کہتے ہو۔‘‘

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ:  ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم سئل عنہا یوم عرفۃ فقال ہی حق یعنی العتیرۃ۔ (المعجم الاوسط، ۶۲۳۰)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرفہ کے دن عتیرہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ حق ہے۔‘‘

حرملۃ بن عمرو رضی اللہ عنہ: حججت حجۃ الوداع مردفی عمی سنان بن سنۃ قال فلما وقفنا بعرفات رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واضعا احدی اصبعیہ علی الاخری فقلت لعمی ماذا یقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال یقول ارموا الجمرۃ بمثل حصی الخذف۔  (مسند احمد، ۱۸۲۴۳)

’’میں حجۃ الوداع میں شریک تھا اور میرے چچا سنان بن سنۃ نے مجھے (سواری پر) اپنے پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ جب میں عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اپنی ایک انگلی دوسری انگلی پر رکھی ہوئی ہے۔ میں نے اپنے چچا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ آپ فرما رہے ہیں کہ جمرات پر اتنے چھوٹے کنکروں سے رمی کرو جو دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکے جا سکیں۔‘‘

عبد الرحمن بن معاذ التیمی رضی اللہ عنہ: نحن بمنی قال ففتحت اسماعنا حتی ان کنا لنسمع ما یقول ونحن فی منازلنا قال فطفق یعلمہم مناسکہم حتی بلغ الجمار فقال بحصی الخذف ووضع اصبعیہ السبابتین احداہما علی الاخری۔  (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ۲/۱۸۵)

’’ہم منیٰ میں تھے کہ ہماری شنوائی تیز ہو گئی، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ جو فرما رہے تھے، ہم اپنے اپنے ٹھکانوں میں بیٹھے اس کو سن رہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوںکو حج کے مناسک کی تعلیم دینے لگے، یہاں تک کہ جب آپ جمرات تک پہنچے تو فرمایا کہ اتنے چھوٹے کنکروں سے رمی کرو جو دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکے جا سکیں۔ آپ نے (چھوٹے کنکر کا حجم بتانے کے لیے) اپنی دوانگلیوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھا۔‘‘

حبشی بن جنادۃ السلولی رضی اللہ عنہ: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی حجۃ الوداع بعرفۃ واتاہ اعرابی فاخذ بطرف رداء ہ فسالہ ایاہ فاعطاہ فعند ذلک حرمت المسالۃ وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان المسالۃ لا تحل لغنی ولا لذی مرۃ سوی الا لذی فقر مدقع او غرم مفظع ومن سال الناس لیشتری مالہ کان خموشا فی وجہہ یوم القیامۃ ورضفا یاکلہ من جہنم فمن شاء فلیقل ومن شاء فلیکثر۔  (الآحاد والمثانی، ۱۵۱۲)

’’میں نے حجۃ الوداع کے موقع پر عرفہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا، ایک اعرابی آیا اور اس نے آپ کی چادر کا کنارہ پکڑا اور آپ سے سوال کیا۔ آپ نے اس کو کچھ دے دیا۔ اس موقع پر سوال کرنا ممنوع قرار دیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سوال کرنا نہ کسی مال دار کے لیے حلال ہے اور نہ کسی تنومند اور صحت مند شخص کے لیے۔ ہاں شدید غربت زدہ یا قرض کے بھاری بوجھ تلے دبا ہوا شخص سوال کر سکتا ہے۔ اور جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرے گا، اس کا مانگنا قیامت کے دن اس کے چہرے پر زخموں کی صورت میں نمایاں ہوگا اور اسے جہنم کے گرم اور تپتے ہوئے پتھر کھانے پڑیں گے۔ پس جو چاہے کم سوال کرے اور جو چاہے زیادہ۔‘‘

یوم النحر (۱۰ ذی الحجہ) سے متعلق روایات

رافع بن عمرو المزنی رضی اللہ عنہ:  ونبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخطب الناس علی بغلۃ شہباء وعلی یعبر عنہ یوم النحر حتی ارتفع الضحی بمنی۔  (نسائی، السنن الکبریٰ، ۴۰۹۴۔ الآحاد والمثانی، ۱۰۹۶۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۴۰۰)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم النحر (۱۰ ذو الحجہ) کو منیٰ میں ایک سفید خچر پر سوار لوگوں کو خطاب کر رہے تھے اور علی رضی اللہ عنہ آپ کی بات کو لوگوں تک پہنچا رہے تھے، یہاں تک کہ دن خوب چڑھ گیا۔ ‘‘

عم ابی حرۃ الرقاشی رضی اللہ عنہ: کنت آخذا بزمام ناقۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی اوسط ایام التشریق اذود عنہ الناس۔ (مسند احمد، ۱۹۷۷۴)

’’ایام التشریق کے وسط میں (یعنی ۱۰ ذو الحجہ کو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی نکیل تھام رکھتی تھی اور میں لوگوں کو آپ سے پرے ہٹا رہا تھا۔‘‘

ابو کاہل عبد اللہ بن مالک رضی اللہ عنہ: رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخطب علی ناقۃ آخذ بخطامہا عبد حبشی۔  (نسائی، السنن الکبریٰ، ۴۰۹۶)

’’میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹنی پر سوار لوگوں کو خطبہ دے رہے ہیں اور اونٹنی کی نکیل ایک حبشی غلام نے پکڑ رکھی ہے۔‘‘

سلمۃ بن نبیط الاشجعی رضی اللہ عنہ: ان اباہ قد ادرک النبی صلی اللہ علیہ وسلم وکان ردفا خلف ابیہ فی حجۃ الوداع قال فقلت یا ابت ارنی النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال قم فخذ بواسطۃ الرحل قال فقمت فاخذت بواسطۃ الرحل فقال انظر الی صاحب الجمل الاحمر الذی یؤمی بیدہ فی یدہ القضیب۔  (مسند احمد، ۱۷۹۷۶)

’’نبیط اشجعی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ حجۃ الوداع میں اپنے والد کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اے ابا جان، مجھے دکھائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون سے ہیں؟ والد نے کہا کہ اٹھ کر پالا ن کے اگلے حصے کو پکڑ لو۔ پس میں اٹھا اور میں نے پالان کے اگلے حصے کو پکڑ لیا۔ پھر انھوں نے کہا کہ اس شخص کو دیکھو جو سرخ اونٹ پر سوار ہے اور اس کے ہاتھ میں چھڑ ی پکڑی ہوئی ہے اور وہ ہاتھ کے اشارے سے (گفتگو کر) رہا ہے۔‘‘

ام الحصین رضی اللہ عنہا: رمی جمرۃ العقبۃ ثم انصرف فوقف الناس وقد جعل ثوبہ من تحت ابطہ الایمن علی عاتقہ الایسر قال فرایت تحت غضروفہ الایمن کہیئۃ جمع  [فانا انظر الی عضلۃ عضدہ ترتج]۔ (صحیح ابن حبان، ۴۵۶۴۔ ترمذی، ۱۶۲۸)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ پررمی کی، پھر واپس آئے اور لوگوں کوروک لیا۔ آپ نے اپنی چادر اپنی دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر اپنے بائیں کندھے پر ڈال رکھی تھی۔ پس میں نے دیکھا کہ آپ کے دائیں (کندھے کی) نرم ہڈی کے نیچے مٹھی کی طرح (گوشت کا) ایک ابھار ہے، اور میں دیکھ رہی تھی کہ آپ کے بازو کے عضلات (حرکت کی وجہ سے) پھڑک رہے ہیں۔‘‘

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: وہو علی ناقتہ الجدعاء قد ادخل رجلیہ فی الغرز ووضع احدی یدیہ علی مقدم الرحل والاخری علی موخرہ یتطاول بذلک۔ (المعجم الکبیر، ۷۶۷۶۔ مسند احمد، ۲۱۱۴۰) 

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی، جدعا پر سوار تھے، آپ نے دونوں پاؤں رکاب میں جما رکھے تھے اور آپ کا ایک ہاتھ پالان کے اگلے حصے پر جبکہ دوسرا اس کے پچھلے حصے پر رکھا ہوا تھا۔ اس طرح آپ (اونچے ہو کر) لوگوں کو نمایاں دکھائی دینے کی کوشش کر رہے تھے۔‘‘

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: لما کان فی حجۃ الوداع قام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہو یومئذ مردف الفضل بن عباس علی جمل آدم۔ (مسند احمد، ۲۱۲۵۹۔ المعجم الکبیر، ۷۸۹۸)

’’حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ کے لیے) ایک گندمی رنگ کے اونٹ پر کھڑے ہوئے اور آپ کے پیچھے فضل بن عباس بیٹھے ہوئے تھے۔‘‘

جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لہ فی حجۃ الوداع استنصت الناس۔  (بخاری، ۱۱۸، ۴۰۵۳)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر جریر بن عبد اللہ سے کہا کہ لوگوں کو چپ کراؤ۔‘‘

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ:  قال یا ایہا الناس انصتوا فانکم لعلکم لا ترونی بعد عامکم ہذا۔  (المعجم الکبیر، ۷۶۷۶)  

’’آپ نے فرمایا کہ لوگو، خاموش ہو جاؤ، کیونکہ ہو سکتا ہے اس سال کے بعد تم مجھے نہ دیکھ سکو۔‘‘

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: کان اول ما تفوہ بہ ان قال ان اللہ عزوجل یوصیکم بامہاتکم ثم حمد اللہ عزوجل ثم قال ما شاء اللہ ان یقول۔ (المعجم الکبیر، ۷۶۴۷)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلی بات جو فرمائی، وہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی ماؤں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے ہیں۔ پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور اس کے بعد جو ارشاد فرمانا چاہا، فرمایا۔‘‘

سلمۃ بن قیس الاشجعی رضی اللہ عنہ:   الا انما ہن اربع ان لا تشرکوا باللہ شیئا ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق ولا تزنوا ولا تسرقوا۔ (مسند احمد، ۱۸۲۲۰)

’’آگاہ رہو! ان چار باتوں سے بچنا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، خدا کی حرام کردہ کسی جان کو ناحق قتل نہ کرنا، زنا نہ کرنا اور چوری نہ کرنا۔‘‘

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: ایہا الناس لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم فاعبدوا ربکم وصلوا خمسکم وصوموا شہرکم وادوا زکاۃ اموالکم طیبۃ بہا انفسکم واطیعوا ولاۃ امرکم تدخلوا جنۃ ربکم۔ (مسند الشامیین، ۵۴۳۔ الآحاد والمثانی، ۲۷۷۹)

’’اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمھارے بعد کوئی امت نہیں۔ پس اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ وقت کی نماز ادا کرو، رمضان کے مہینے کے روزے رکھو، پوری خوش دلی سے اپنے مالوں کی زکاۃ ادا کرو اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو۔ ایسا کرو گے تو جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘

[ابو قتیلۃ  (طبرانی، مسند الشامیین، ۱۱۷۳۔ ابوبکر الشیبانی، الآحاد والمثانی، ۲۷۷۹)]

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: الا لعلکم لا ترونی بعد عامکم ہذا الا لعلکم لا ترونی بعد عامکم ہذا الا لعلکم لا ترونی بعد عامکم ہذا فقام رجل طویل کانہ من رجال شنوء ۃ فقال یا نبی اللہ فما الذی نفعل فقال اعبدوا ربکم [وفی روایۃ: اتقوا اللہ ربکم] وصلوا خمسکم وصوموا شہرکم وحجوا بیتکم وادوا زکاۃ اموالکم طیبۃ بہا انفسکم [واطیعوا ذا امرکم]  تدخلوا جنۃ ربکم عز وجل۔  (مسند احمد، ۲۱۲۳۰۔ ترمذی، ۵۵۹)

’’سنو! ممکن ہے اس سال کے بعد تم مجھے نہ دیکھ سکو۔ سنو! ممکن ہے اس سال کے بعد تم مجھے نہ دیکھ سکو۔ سنو! ممکن ہے اس سال کے بعد تم مجھے نہ دیکھ سکو۔ ایک لمبے قد کا شخص، جو قبیلہ شنوء ۃ کا فرد لگتا تھا، کھڑا ہوا اور اس نے کہا، اے اللہ کے نبی، پس ہم کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: اپنے رب کی عبادت کرو (ایک روایت میں ہے کہ اپنے رب سے ڈرتے رہو)، پانچ وقت کی نماز ادا کرو، رمضان کے مہینے کے روزے رکھو، بیت اللہ کا حج کرو، پوری خوش دلی سے اپنے مالوں کی زکاۃ ادا کرو اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو۔ ایسا کرو گے تو جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس ان ربکم واحد وان اباکم واحد الا لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمر علی اسود ولا اسود علی احمد الا بالتقوی ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم۔ (بیہقی، شعب الایمان، ۵۱۳۷، ج ۴، ص ۲۸۹۔ ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء ۳/۱۰۰۔ مسند احمد، ۲۲۳۹۱)

’’اے لوگو! بے شک تمھارا رب بھی ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک۔ آگاہ رہو! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر اور کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت کا مستحق وہ ہے جو زیادہ حدود کا پابند ہے۔ ‘‘

عداء بن عمرو بن عامر رضی اللہ عنہ:  ان اللہ عزوجل یقول یا ایہا الناس انا خلقناکم من ذکر وانثی وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم فلیس لعربی علی عجمی فضل ولا لعجمی علی عربی فضل ولا لاسود علی ابیض ولا لابیض علی اسود فضل الا بالتقوی۔ (المعجم الکبیر، ۱۸/۱۲، رقم ۱۶)

’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمھیں قوموں او رقبیلوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ یہ باہم تمھاری پہچان کا ذریعہ ہو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت کا مستحق وہ ہے جو زیادہ حدود کا پابند ہے۔ اس لیے کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر اور کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔‘‘

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ:  الا کل شئ من امر الجاہلیۃ تحت قدمی موضوع۔  (مسلم، ۲۱۳۷)

’’آگاہ رہو! جاہلیت کا ہر کام میں اپنے ان دونوں قدموں کے نیچے دفن کر رہا ہوں۔‘‘

عم ابی حرۃ الرقاشی رضی اللہ عنہ:  الا وان کل دم ومال وماثرۃ کانت فی الجاہلیۃ تحت قدمی ہذہ الی یوم القیامۃ۔  (مسند احمد، ۱۹۷۷۴)

’’آگاہ رہو! جاہلیت کے دور کا ہر خون، (سود کی قسم کا) ہر مال اور فخر ومباہات کی ہر بات قیامت تک کے لیے میرے ان دو قدموں کے نیچے دفن کر دی گئی ہے۔‘‘

عمرو بن الاحوص رضی اللہ عنہ:  الا وان کل دم کان فی الجاہلیۃ موضوع واول دم وضع من دماء الجاہلیۃ دم الحارث بن عبد المطلب کان مسترضعا فی بنی لیث فقتلتہ ہذیل۔ (ترمذی، ۳۰۱۲)

’’آگاہ رہو! جاہلیت کے زمانے کا ہر خون معاف کیا جاتا ہے، اور زمانہ جاہلیت کے خونوں میں سے پہلا خون جس کو معاف کیا جاتا ہے، وہ حارث بن عبد المطلب کا خون ہے۔ (راوی بتاتے ہیں کہ) حارث کو دودھ پلانے کے لیے بنو لیث کے ہاں بھیجا گیا تھا جہاں اسے بنو ہذیل نے قتل کر دیا۔‘‘

[جابر بن عبد اللہ (مسلم، ۲۱۳۷)  عم ابی حرۃ الرقاشی (مسند احمد، ۱۹۷۷۴)  عبد اللہ ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶)]

عمرو بن الاحوص رضی اللہ عنہ:  الا وان کل ربا فی الجاہلیۃ موضوع لکم رؤوس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون غیر ربا العباس بن عبد المطلب فانہ موضوع کلہ ۔  (ترمذی، ۳۰۱۲)

’’آگاہ رہو! زمانہ جاہلیت کا ہر سود کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ تم صرف اپنے اصل مال کے حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ ہاں عباس بن عبد المطلب کا لوگوں کے ذمے جو سودی قرض ہے، وہ سارے کا سارا معاف کیا جاتا ہے۔‘‘

[جابر بن عبد اللہ (مسلم، ۲۱۳۷)  عم ابی حرۃ الرقاشی (مسند احمد، ۱۹۷۷۴)  ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶)]

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ: ایہا الناس ان النسئ زیادۃ فی الکفر یضل بہ الذین کفروا یحلونہ عاما ویحرمونہ عاما لیواطئوا عدۃ ما حرم اللہ فیحلوا ما حرم اللہ ویحرموا ما احل اللہ ان الزمان قد استدار فہو الیوم کہیئتہ یوم خلق اللہ السموات والارض وان عدۃ الشہور عند اللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السماوات والارض  منہا اربعۃ حرم رجب مضر بین جمادی وشعبان وذو القعدۃ وذو الحجۃ والمحرم وان النسئ زیادہ فی الکفر یضل بہ الذین کفروا یحلونہ عاما ویحرمونہ عاما لیوطئوا عدۃ ما حرم اللہ ۔  (مسند عبد بن حمید، ۸۵۸)

’’اے لوگو! حرام مہینوں کو آگے پیچھے کرنا کفر میں مزید آگے بڑھنا ہے جس کے ذریعے سے اہل کفر (لوگوں کو) گمراہ کرتے ہیں۔ وہ اللہ کے حرام کردہ مہینوں کی گنتی کو پورا رکھنے کے لیے ایک سال کسی مہینے کو حلال قرار دیتے ہیں اور ایک سال حرام، اور اس طرح اللہ کے حرام کردہ مہینے کو حلال اور اللہ کے حلال کردہ مہینے کو حرام کر دیتے ہیں۔ زمانہ آج پھر اسی ترتیب کے مطابق ہو چکا ہے جو اللہ نے زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت مقرر کی تھی۔ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے، جو اس دن سے اس کی کتاب میں درج ہے جب اس نے زمین وآسمان کو پیداکیا۔ ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ ایک رجب کا مہینہ جو جمادیٰ اخریٰ اور شعبان کے درمیان آتا ہے، اور ذو القعدہ، ذو الحجۃ اور محرم۔ حرام مہینوں کی ترتیب کو آگے پیچھے کرنا کفر میں مزید آگے بڑھنا ہے جس کے ذریعے سے اہل کفر (لوگوں کو) گمراہ کرتے ہیں۔ وہ اللہ کے حرام کردہ مہینوں کی گنتی کو پورا رکھنے کے لیے ایک سال کسی مہینے کو حلال قرار دیتے ہیں اور ایک سال حرام۔‘‘

عم ابی حرۃ الرقاشی رضی اللہ عنہ:  الا وان الزمان قد استدار کہیئتہ یوم خلق اللہ السموات والارض ثم قرا ان عدۃ الشہور عند اللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السموات والارض منہا اربعۃ حرم ذلک الدین القیم فلا تظلموا فیہن انفسکم ۔  (مسند احمد، ۱۹۷۷۴)  [ابوبکرہ (بخاری ۴۰۵۴)  ابو ہریرہ (تفسیر الطبری، ۱۰/۱۲۵۔ بزار، مجمع الزوائد ۳/۲۶۸)  ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۹]

’’آگاہ رہو! زمانہ آج پھر اسی ترتیب پر واپس آ  چکا ہے جو اللہ نے زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت مقرر کی تھی۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’ان عدۃ الشہور عند اللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السموات والارض منہا اربعۃ حرم ذلک الدین القیم فلا تظلموا فیہن انفسکم‘۔ (اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے، جو اس دن سے اس کی کتاب میں درج ہے جب اس نے زمین وآسمان کو پیداکیا۔ ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ یہی صحیح اور راست دین ہے، اس لیے ان مہینوں میں (حدود سے تجاوز کر کے) اپنی جانوں پر ظلم نہ ڈھاؤ۔‘‘

ایہا الناس ان الزمان قد استدار کہیئتہ یوم خلق السماوات والارض فلا شہر ینسی ولا عدۃ تحصی الا وان الحج فی ذی الحجۃ الی یوم القیامۃ  (مسند الربیع بن حبیب البصری، ۴۲۲)

’’اے لوگو! زمانہ آج پھر اسی ترتیب پر واپس آ چکا ہے جو اللہ نے زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت مقرر کی تھی۔ اب نہ کوئی مہینہ بھلایا جائے گا اور نہ مہینوں کی گنتی رکھنا پڑے گی۔ آگاہ رہو! اب قیامت تک حج ذو الحجہ کے مہینے میں ہی ادا کیا جائے گا۔‘‘

ابوبکرۃ نفیع بن الحارث رضی اللہ عنہ:  ای شہر ہذا؟ قلنا اللہ ورسولہ اعلم فسکت حتی ظننا انہ سیسمیہ بغیر اسمہ، قال الیس ذو الحجۃ؟ قلنا بلی، قال فای بلد ہذا؟ قلنا اللہ ورسولہ اعلم فسکت حتی ظننا انہ سیسمیہ بغیر اسمہ، قال الیس البلدۃ؟ قلنا بلی، قال فای یوم ہذا؟ قلنا اللہ ورسولہ اعلم، فسکت حتی ظننا انہ سیسمیہ بغیر اسمہ، قال الیس یوم النحر؟ قلنا بلی، قال فان دماء کم واموالکم قال محمد واحسبہ قال واعراضکم [وابشارکم] علیکم حرام کحرمۃ یومکم ہذا فی بلدکم ہذا فی شہرکم ہذا۔  (بخاری، ۴۰۵۴، ۶۵۵۱)

’’(لوگو) یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ آپ اس مہینے کا نام کچھ اور رکھ دیں گے۔ آپ نے فرمایا: کیا یہ ذو الحجہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا، جی ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ آپ اس کا نام کچھ اور رکھ دیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا یہ بلد حرام نہیں ہے؟ ہم نے کہا، جی ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ آپ اس کا نام کچھ اور رکھ دیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا یہ یوم النحر نہیں ہے؟ ہم نے کہا، جی ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ تمھاری جانیں، تمھارے مال، تمھاری آبروئیں اور تمھارے چمڑے تم پر (آپس میں) اسی طرح حرام ہیں جیسے اس شہر اور اس مہینے میں تمھارے اس دن کی حرمت ہے۔‘‘

[عبد اللہ بن عمر (بخاری، ۶۲۸۷)  عبد اللہ ابن عباس (بخاری، ۱۶۲۳)  ابو سعید (ابن ماجہ، ۳۹۲۱۔ مسند احمد، ۲۲۳۹۱۔ بیہقی، شعب الایمان، ۵۱۳۷، ج ۴، ص ۲۸۹)  جابر بن عبد اللہ (مسلم، ۲۱۳۷۔ مسند احمد، ۱۴۴۶۱)  نبیط بن شریط (مسند احمد، ۱۷۹۷۳۔ الآحاد والمثانی، ۱۲۹۸)  حذیم السعدی (مسند احمد، ۱۸۱۹۸۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۴۰۰۲)  عبد اللہ بن مسعود (ابن ماجہ، ۳۰۴۸)  عداء بن خالد الکلابی (مسند احمد، ۱۹۴۴۷)  عمرو بن الاحوص (ترمذی، ۲۰۸۵، ۳۰۱۲)  مرۃ عن رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم (مسند احمد، ۲۲۳۹۹۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۴۰۹۹)  عم ابی حرۃ الرقاشی  (مسند احمد، ۱۹۷۷۴)  جبیر بن مطعم (دارمی، ۲۲۹)  ابو مالک اشعری (طبرانی، مسند الشامیین، ۱۶۶۷)  عمار بن یاسر (طبرانی فی الکبیر والاوسط، مجمع الزوائد ۳/۲۶۹)  حارث بن عمرو (طبرانی، المعجم الکبیر، ۳۳۵۱)  وابصۃ بن معبد الجہنی (طبرانی، المعجم الاوسط، ۴۱۵۶)  عبد اللہ بن الزبیر (طبرانی فی الاوسط والکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۰)  عبادۃ بن عبد اللہ بن الزبیر (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۰)  حجیر (مسند الحارث (زوائد الہیثمی)، ۲۷۔ الآحاد والمثانی، ۱۶۸۲)  ابو امامۃ صدی بن عجلان الباہلی  (طبرانی، المعجم الکبیر، ۷۶۳۲۔ مسند الشامیین، ۱۲۴۲)  براء بن عازب وزید بن ارقم  (طبرانی فی الکبیر والاوسط، مجمع الزوائد ۳/۲۷۱)  کعب بن عاصم الاشعری (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۲)  عبد الاعلیٰ بن عبد اللہ (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۳)  سراء بنت نبہان (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۴۶۳۔ طبرانی، المعجم الاوسط، ۲۴۳۰)  جمرۃ بنت قحافۃ (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۳) ابو غادیۃ (ابن سعد ۲/۱۸۴) سفیان بن وہب الخولانی(مسند احمد، ۱۶۸۷۷) ]

فضالۃ بن عبید رضی اللہ عنہ:  فدماؤکم واموالکم واعراضکم علیکم حرام مثل ہذا الیوم وہذہ البلدۃ الی یوم تلقونہ وحتی دفعۃ دفعہا مسلم مسلما یرید بہ سوء ا حراما۔  (مسند البزار، ۳۷۵۲) 

’’تمھارے خون اور مال اور آبروئیں تم پر اس دن اور اس شہر کے مانند حرام ہیں، اس دن تک جب تم اپنے رب کے سامنے پیش ہوگے، حتیٰ کہ اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو ناجائز طور پر اذیت پہنچانے کے لیے دھکا بھی دیتا ہے تو وہ بھی حرام ہے۔‘‘

ابو مالک کعب بن عاصم الاشعری رضی اللہ عنہ:  المومن حرام علی المومن کحرمۃ ہذا الیوم لحمہ علیہ حرام ان یاکلہ بالغیب ویغتابہ وعرضہ علیہ حرام ان یخرقہ ووجہہ علیہ حرام ان یلطمہ ودمہ علیہ حرام ان یسفکہ ومالہ علیہ حرام ان یظلمہ واذاہ علیہ حرام وہو علیہ حرام ان یدفعہ دفعا۔  (طبرانی، مسند الشامیین، ۱۶۶۷) 

’’مسلمان کی حرمت مسلمان کے لیے اسی طرح ہے جیسے آج کے دن کی۔ ایک مسلمان کے لیے دوسری مسلمان کی غیبت کرتے ہوئے اس کا گوشت کھانا حرام ہے۔ اس کی عزت کو پامال کرنا حرام ہے۔ اس کے چہرے پر تھپڑ مارنا حرام ہے۔ اس کا خون بہانا حرام ہے۔ ظلم کرتے ہوئے اس کا مال لے لینا حرام ہے۔ اس کو اذیت دینا حرام ہے اور اس کو دھکا تک دینا حرام ہے۔‘‘

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ:  فاتقوا اللہ فی النساء فانکم اخذتموہن بامان اللہ واستحللتم فروجہن بکلمۃ اللہ ولکم علیہن ان لا یوطئن فرشکم احدا تکرہونہ فان فعلن ذلک فاضربوہن ضربا غیر مبرح ولہن علیکم رزقہن وکسوتہن بالمعروف۔  (مسلم، ۲۱۳۷)

’’پس عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو، کیونکہ تم نے انھیں اللہ کی امان کے تحت اپنے نکاح میں لیا ہے اور خدا کی اجازت کے تحت ان کی شرم گاہوں سے فائدہ اٹھانا تمھارے لیے حلال ہے۔ تمھارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ کسی کو تمھارے بستر پامال نہ کرنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ پھر اگر وہ ایسا کریں تو تم انھیں اتنا مار سکتے ہو کہ چوٹ کا نشان نہ پڑے۔ اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم معروف کے مطابق ان کا رزق اور پوشاک انھیں مہیا کرو۔‘‘

[عم ابی حرۃ الرقاشی (مسند احمد، ۱۹۷۷۴) ]

عمرو بن الاحوص رضی اللہ عنہ:  الا واستوصوا بالنساء خیرا فانما ہن عوان عندکم لیس تملکون منہن شیئا غیر ذلک الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ فان فعلن فاہجروہن فی المضاجع واضربوہن ضربا غیر مبرح فان اطعنکم فلا تبغوا علیہن سبیلا الا ان لکم علی نساء کم حقا ولنساء کم علیکم حقا فاما حقکم علی نساء کم فلا یوطئن فرشکم من تکرہون ولا یاذن فی بیوتکم لمن تکرہون الا وان حقہن علیکم ان تحسنوا الیہن فی کسوتہن وطعامہن۔  (ترمذی، ۳۰۱۲)

’’سنو، عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو۔ وہ تمھارے پاس امانت ہیں اور تم اس کے علاوہ ان پر کسی قسم کا حق نہیں رکھتے، سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوں۔ اگر وہ ایسا کریں تو انھیں ان کے بستروں میں الگ کر دو اور انھیں اتنا مار سکتے ہو کہ چوٹ کا نشان نہ پڑے۔ پھر اگر وہ تمھاری اطاعت کریں تو ان پر (زیادتی کی) راہ نہ ڈھونڈو۔ آگاہ رہو! تمھارے بھی تمھاری عورتوں پر حقوق ہیں اور تمھاری عورتوں کے بھی تم پر حقوق ہیں۔ تمھارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ کسی شخص کو تمھارے بستر پامال نہ کرنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو اور نہ تمھارے پسندیدہ افراد کو تمھارے گھروں میں آنے کی اجازت دیں۔ اور سنو، ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم دستور کے مطابق ان کا رزق اور پوشاک انھیں مہیا کرنے میں بہترین طریقہ اختیار کرو۔‘‘

[عبد اللہ ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶) ]

یزید بن جاریۃ رضی اللہ عنہ:  ارقاء کم ارقاء کم ارقاء کم اطعموہم مما تاکلون واکسوہم مما تلبسون فان جاء وا بذنب لا تریدون ان تغفروہ فبیعوا عباد اللہ ولا تعذبوہم۔  (مسند احمد، ۱۵۸۱۳۔ مصنف عبد الرزاق، ۱۷۹۳۵)

’’اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ جو تم خود کھاتے ہو، انھیں بھی کھلاؤ۔ جو تم خود پہنتے ہو، انھیں بھی پہناؤ۔ اگر ان سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہو جائے جسے تم معاف نہیں کرنا چاہتے تو اللہ کے ان بندوں کو بیچ دو لیکن انھیں عذاب نہ دو۔‘‘

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ:  اوصیکم بالجار فاکثر حتی قلت انہ سیورثہ ۔ (طبرانی، مسند الشامیین، ۸۲۳)

’’میں تمھیں پڑوسی کا خیال رکھنے کی تاکید کرتا ہوں۔ (ابو امامہ کہتے ہیں کہ) آپ نے یہ بات اتنی مرتبہ کہی کہ مجھے خیال ہوا کہ آپ پڑوسی کو وراثت میں بھی حق دار قرار دیں گے۔‘‘

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: لا تنفق امراۃ شیئا من بیت زوجہا الا باذن زوجہا قیل یا رسول اللہ ولا الطعام قال ذاک افضل اموالنا۔  (ترمذی، ۶۰۶، ۲۰۴۶)

’’کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر سے کوئی چیز اس کی اجازت کے بغیر خرچ نہ کرے۔ کہا گیا کہ یا رسول اللہ، کھانا بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ وہ تو ہمارا سب سے بہترین مال ہے (اس لیے اس کو خرچ کرنے کی بھی اجازت نہیں)۔‘‘

[انس بن مالک  (المقدسی، الاحادیث المختارۃ، ۲۱۴۷)]

فضالۃ بن عبید رضی اللہ عنہ: الا اخبرکم بالمومن من امنہ الناس علی اموالہم وانفسہم والمسلم من سلم الناس من لسانہ ویدہ والمجاہد من جاہد نفسہ فی طاعۃ اللہ والمہاجر من ہجر الخطایا والذنوب ۔ (مسند احمد، ۲۲۸۳۳۔ صحیح ابن حبان، ۴۸۶۲)

’’کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کہ مومن کون ہے؟ وہ جس سے لوگ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو محفوظ سمجھیں۔ اور مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے لوگ بچے رہیں۔ اور مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے۔ اور مہاجر وہ ہے جو گناہوں اور غلطیوں کو ترک کر دے۔‘‘

[ابو مالک الاشعری  (طبرانی، مسند الشامیین، ۱۶۶۷) ]

حارث بن عمرو رضی اللہ عنہ:  وامر بالصدقۃ فقال تصدقوا فانی لا ادری لعلکم لا ترونی بعد یومی ہذا۔  (طبرانی، المعجم الکبیر، ۳۳۵۱) 

’’آپ نے صدقہ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ صدقہ کرو، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ تم آج کے بعد مجھے دیکھ سکو گے یا نہیں۔‘‘

سلیم بن اسود عن رجل من بنی یربوع:  ید المعطی العلیا امک واباک واختک واخاک ثم ادناک فادناک۔  (مسند احمد، ۱۶۰۱۸)

’’دینے والے کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے۔ پہلے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر خرچ کرو، پھر درجہ بدرجہ اپنے قریبی رشتہ داروں پر۔‘‘

[اسامۃ بن شریک(المعجم الکبیر، ۴۸۴۔ حجۃ الوداع، ۱۹۱، ۱/۲۱۵۔ معجم الشیوخ، ۳۱)]

جمرۃ بنت قحافۃ رضی اللہ عنہا:  سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول فی حجۃ الوداع تصدقن ولو من حلیکن فانکن اکثر اہل النار فاتت زینب فقالت یا رسول اللہ ان زوجی محتاج فہل یجوز لی ان اعود علیہ قال نعم لک اجران۔  (المعجم الکبیر، ۲۴/۲۱۰، رقم ۵۳۸)

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں فرماتے سنا کہ اے خواتین، صدقہ کرو، چاہے اپنے زیورات ہی اتار کر دے دو، کیونکہ اہل جہنم میں تمھاری تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پس (عبد اللہ بن مسعود کی اہلیہ) زینب آئیں اور کہا کہ یا رسول اللہ، میرا شوہر ضرورت مند ہے، تو کیا میرے لیے اس کو صدقہ دینا جائز ہے؟ آپ نے فرمایا، ہاں۔ تمھیں دوہرا اجر ملے گا۔‘‘

[کتب حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد اور زینب رضی اللہ عنہا کے استفسار کا محل ورود حجۃ الوداع کے بجائے مدینہ منورہ بیان ہوا ہے، جبکہ حجۃ الوداع کے موقع پر اس ہدایت کی تصریح ہمیں صرف مذکورہ روایت میں ملی ہے۔]

عمرو بن الاحوص رضی اللہ عنہ:  الا لا یجنی جان الا علی نفسہ الا لا یجنی والد علی ولدہ ولا ولد علی والدہ۔  (ترمذی، ۳۰۱۲)

’’خبردار! کوئی بھی زیادتی کرنے والا اس کا خمیازہ خود ہی بھگتے گا۔ سنو، نہ باپ کی زیادتی کا بدلہ اس کے بیٹے سے لیا جائے اور نہ بیٹے کی زیادتی کا بدلہ اس کے باپ سے۔‘‘

حذیفۃ بن الیمان رضی اللہ عنہ:  لا یؤخذ الرجل بجریرۃ اخیہ ولا بجریرۃ ابیہ۔  (المعجم الاوسط، ۴۱۶۶) 

’’کسی شخص کو اس کے بھائی یا باپ کے جرم میں نہ پکڑا جائے۔‘‘

[عبد اللہ بن مسعود  (رواہ البزار، مجمع الزوائد ۶/۲۸۳)  اسود بن ثعلبۃ الیربوعی (الاستیعاب، ۱/۹۰) ]

سلیم بن اسود عن رجل من بنی یربوع:  قال رجل یا رسول اللہ ہولاء بنو ثعلبۃ الذین اصابوا فلانا قال فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الا لا تجنی نفس علی اخری۔  (مسند احمد، ۱۶۰۱۸)

’’ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ! یہ بنو ثعلبہ ہیں جنھوں نے فلاں شخص کو قتل کر دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! کسی شخص کی زیادتی کا بدلہ دوسرے شخص سے نہ لیا جائے۔‘‘

[اسامۃ بن شریک (طبرانی، المعجم الکبیر، ۴۸۴۔ الصیداوی، معجم الشیوخ، ۳۱۔ ابن حزم، حجۃ الوداع، ۱/۲۱۵]

عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ:  ان کل مسلم اخ المسلم المسلمون اخوۃ ولا یحل لامرئ من مال اخیہ الا ما اعطاہ عن طیب نفس ولا تظلموا۔ (مستدرک حاکم، ۳۱۸)

’’ہر مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی کے مال میں سے کچھ لے، مگر وہی جو وہ اپنے دل کی خوشی سے دے دے۔ اور ظلم نہ کرو۔‘‘

عم ابی حرۃ الرقاشی رضی اللہ عنہ:  اسمعوا منی تعیشوا، الا لا تظلموا، الا لا تظلموا، الا لا تظلموا، انہ لا یحل مال امرئ الا بطیب نفس منہ۔  (مسند احمد، ۱۹۷۷۴)

’’میری بات سنو، زندگی پا جاؤ گے۔ سنو، ظلم نہ کرو۔ سنو، ظلم نہ کرو۔ سنو، ظلم نہ کرو۔ کسی شخص کا مال اس کے دل کی خوشی کے بغیر لینا حلال نہیں۔‘‘

[عبد اللہ ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، ۱۱۳۰۶)  عمرو بن الاحوص (ترمذی، ۳۰۱۲]

 عمرو بن یثربی الضمری: ولا یحل لاحد من مال اخیہ الا ما طابت بہ نفسہ فلما سمعہ قال ذلک قال یا رسول اللہ ارایت لو لقیت غنم ابن عمی فاخذت منہا شاۃ فاجتززتہا فعلی فی ذلک شئ؟ قال ان لقیتہا نعجۃ تحمل شفرۃ وزنادا بخبت الجمیش فلا تمسہا۔  (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۱۱۳۰۵)

’’کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی کے مال میں سے کچھ لے، مگر وہی جس پر وہ دل سے راضی ہو۔ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اگر مجھے اپنے چچا زاد بھائی کی بکریوں کا ریوڑ دکھائی دے اور میں ان میں سے ایک بکری لے کر اس کو ذبح کر لوں تو کیا مجھے اس کا گناہ ہوگا؟ آپ نے فرمایا، اگر تمھیں کوئی بکری وادی حمیش میں اس حال میں ملے کہ چھری اور (آگ جلانے کے لیے) پتھر بھی اس نے ساتھ اٹھا رکھے ہوں، تب بھی تم اس کو ہاتھ مت لگانا۔‘‘ 

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ:  العاریۃ موداۃ والمنحۃ مردودۃ والدین مقضی والزعیم غارم۔  (ترمذی، ۲۰۴۶)

’’عاریتاً لی ہوئی چیز واپس کی جائے۔ دودھ پینے کے لیے جو جانور کسی نے دیا ہو، اسے لوٹایا جائے۔ لیا ہوا قرض ادا کیا جائے اور جس شخص (قرض کی واپسی کا) ضامن بنا ہو، وہ (مقروض کی طرف سے ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں) ذمہ دار ہوگا۔‘‘

[انس بن مالک  (المقدسی، الاحادیث المختارۃ، ۲۱۴۷)]

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ:  یا ایہا الناس من کانت عندہ ودیعۃ فلیردہا الی من ائتمنہ علیہا۔  (مسند الرویانی، ۱۴۱۶۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، ۱۱۳۰۶)

’’اے لوگو! جس کے پاس کسی کی امانت رکھی ہو، وہ اسے اس کو واپس کر دے جس نے اس کے پاس اسے امانت رکھا ہے۔‘‘

محمد بن مہران عن ابیہ: یا معشر التجار انی ارمی بہا بین اکتافکم لا تلقوا الرکبان لا یبع حاضر لباد۔  (ابن حجر، الاصابہ، ۸۶۳۸، ۶/۳۸۵)

’’اے تاجروں کے گروہ! میں یہ بات تمھیں علی الاعلان کہتا ہوں کہ (بازار کے نرخ سے کم قیمت پر مال خریدنے کے لیے) تم تجارتی قافلوں (کے شہر میں آنے سے پہلے ہی ان) سے مال نہ خرید لو۔ کوئی شہری کسی دیہاتی کا دلال نہ بنے۔‘‘

[کتب حدیث کی عام روایات میں یہ ارشاد حجۃ الوداع کے حوالے کے بغیر نقل کیا گیا ہے، جبکہ حجۃ الوداع کی تصریح ہمیں صرف اس روایت میں ملی ہے۔]

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ:  ان اللہ قد اعطی لکل ذی حق حقہ فلا وصیۃ لوارث۔  (ترمذی، ۲۰۴۶)

’’اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، اس لیے اب کسی وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی۔‘‘

[انس بن مالک (الاحادیث المختارۃ، ۲۱۴۷)  عمرو بن خارجۃ  (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۱۱)  (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ۲/۱۸۳)]

عمرو بن خارجۃ رضی اللہ عنہ:  الولد للفراش وللعاہر الحجر ومن ادعی الی غیر ابیہ او تولی غیر موالیہ فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین لا یقبل اللہ منہ صرفا ولا عدلا۔   (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۱۱۔ ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ۲/۱۸۳)

’’بچے کا نسب اسی سے ثابت ہوگا جس کے نکاح میں عورت ہوگی، جبکہ بدکاری کرنے والے کا بچے پر کوئی حق نہیں، اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔ جو شخص اپنی نسبت اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اور جو غلام اپنی نسبت اپنے آقاؤں کے علاوہ کسی اور کی طرف کرے گا، اس پر اللہ اور فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے کوئی معاوضہ یا تاوان قبول نہیں کریں گے۔‘‘

[ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ (ترمذی، ۲۰۴۶)  انس بن مالک (الاحادیث المختارۃ، ۲۱۴۷)]

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ:  لا تالوا علی اللہ فانہ من تالی علی اللہ اکذبہ اللہ۔  (المعجم الکبیر، ۷۸۹۸)  

’’قسم کھا کر اللہ پر کوئی بات لازم نہ کرو، کیونکہ جو ایسا کرے گا، اللہ اس کو جھوٹا کر دکھائے گا۔‘‘

جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ: لا یزال ہذا الدین ظاہرا علی من ناواہ لا یضرہ مخالف ولا مفارق حتی یمضی من امتی اثنا عشر امیر ا ....کلہم من قریش ۔  (مسند احمد، ۱۹۸۸۷)

’’یہ دین ان لوگوں کے مقابلے میں غالب رہے گا جو اس کی مخالف میں اٹھیں گے۔ نہ اس کو کوئی مخالف نقصان پہنچا سکے گا اور اس سے جدا ہونے والا، یہاں تک کہ میری امت میں بارہ امیر حکومت کر چکیں جو سب کے سب قریش میں سے ہوں گے۔‘‘

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ:  ذکر المسیح الدجال فاطنب فی ذکرہ وقال ما بعث اللہ من نبی الا انذر امتہ انذرہ نوح والنبیون من بعدہ وانہ یخرج فیکم فما خفی علیکم من شانہ فلیس یخفی علیکم ان ربکم لیس علی ما یخفی علیکم ثلاثا ان ربکم لیس باعور وانہ اعور عین الیمنی کانہ عینہ عنبۃ طافیۃ۔  (بخاری، ۴۰۵۱۔ مسند احمد، ۵۹۰۹)

’’آ پ نے مسیح دجال کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا اور فرمایا کہ اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا ہے، اس نے اپنی امت کو دجال سے خبردار کیا ہے۔ نوح علیہ السلام نے بھی اور ان کے بعد آنے والے سب نبیوں نے اس سے آگاہ کیا۔ اور دجال کا خروج تمھارے اندر ہوگا۔ پس اس کی اور باتوں اگر تم پر مخفی رہیں تو یہ بات تم پر چھپی ہوئی نہیں ہے کہ تمھارے رب کی صفات تم پر پوشیدہ نہیں ہیں۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ کہی۔ تمھارا رب کانا نہیں ہے، جبکہ دجال دائیں آنکھ سے کانا ہوگا، یوں جیسے اس کی آنکھ انگور کا کوئی پھٹا ہوا دانہ ہو۔‘‘

ام الحصین رضی اللہ عنہ:   ان امر علیکم عبد مجدع حسبتہا قالت اسود یقودکم بکتاب اللہ تعالیٰ فاسمعوا لہ واطیعوا۔  (مسلم، ۲۲۸۷)

’’اگر کسی کٹے ہوئے کان والے سیاہ فام غلام کو بھی تم پر امیر مقرر کیا جائے جو کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔‘‘

ابو الزوائد رضی اللہ عنہ:  یا ایہا الناس خذو العطاء ما کان عطاء فاذا تجاحفت قریش علی الملک وکان عن دین احدکم فدعوہ ۔ (ابو داؤد، ۲۵۶۹، ۲۵۷۰)

’’اے لوگو! جب تک (حکمرانوں کی طرف سے ملنے والا) عطیہ، عطیہ رہے، تب تک لیتے رہو۔ پھر جب قریش بادشاہت پر آپس میں جنگ وجدال کرنے لگیں اور عطیہ تمھارے دین وایمان کی قیمت پر ملے تو اسے لینا چھوڑ دو۔‘‘

ابو الزوائد رضی اللہ عنہ:  خذوا العطاء ما کان عطاء فاذا تجاحفت قریش الملک فی ما بینہا وکان العطاء رشوۃ علی دینکم فلا تاخذوہ۔  (ابوبکر الشیبانی، الآحاد والمثانی، ۲۶۴۶) 

’’جب تک عطیہ، عطیہ رہے، تب تک لیتے رہو۔ پھر جب قریش بادشاہت پر آپس میں جنگ وجدال کرنے لگیں اور عطیہ دین وایمان کے معاملے میں رشوت کے طور پر ملے تو مت لو۔‘‘

سفیان بن وہب الخولانی: روحۃ فی سبیل اللہ خیر من الدنیا وما علیہا وغدوۃ فی سبیل اللہ خیر من الدنیا وما علیہا۔  (مسند احمد، ۱۶۸۷۷)

’’اللہ کے راستے میں ایک شام گزارنا دنیا اور جو کچھ اس میں پایا جاتا ہے، سب سے بہتر ہے، اور اللہ کے راستے میں ایک صبح گزارنا دنیا اور جو کچھ اس میں پایا جاتا ہے، سب سے بہتر ہے۔‘‘

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ:  من اسلم من اہل الکتابین فلہ اجرہ مرتین ولہ مثل الذی لنا وعلیہ مثل الذی علینا ومن اسلم من المشرکین فلہ اجرہ ولہ مثل الذی لنا وعلیہ مثل الذی علینا۔  (طبری، جامع البیان، ۲۷/۲۴۴)

’’اہل کتاب، یہود ونصاریٰ میں سے جو اسلام لائے گا، اس کو دوہرا اجر ملے گا۔ اس کے وہی حقوق ہوں گے جو ہمارے ہیں اور وہی ذمہ داریاں ہوں گی جو ہماری ہیں۔ اور مشرکین میں سے جو اسلام قبول کرے گا، اس کو بھی اس کا اجر ملے گا اور اس کے حقوق اور فرائض بھی وہی ہوں گے جو ہمارے ہیں۔‘‘

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس خذوا من العلم قبل ان یقبض العلم وقبل ان یرقع العلم وقد کان انزل اللہ عزوجل یا ایہا الذین آمنوا لا تسالوا عن اشیاء ان تبدلکم تسؤکم وان تسالوا عنہا حین ینزل القرآن تبد لکم عفا اللہ عنہا واللہ غفور حلیم قال فکنا قد کرہنا کثیرا من مسالتہ واتقینا ذاک حین انزل اللہ علی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فاتینا اعرابیا فرشوناہ برداء قال فاعتم بہ حتی رایت حاشیۃ البرد خارجۃ من حاجبہ الایمن قال ثم قلنا لہ سل النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال فقال لہ یا نبی اللہ کیف یرفع العلم منا وبین اظہرنا المصاحف وقد تعلمنا ما فیہا وعلمنا نساء نا وذرارینا وخدمنا قال فرفع النبی صلی اللہ علیہ وسلم راسہ وقد علت وجہہ حمرۃ من الغضب قال فقال ای ثکلتک امک ہذہ الیہود والنصاری بین اظہرہم المصاحف لم یصبحوا یتعلقوا بحرف مما جاء تہم بہ انبیاؤہم الا وان من ذہاب العلم ان یذہب حملتہ ثلاث مرار ۔ (مسند احمد، ۲۱۲۵۹)

’’اے لوگو! علم حاصل کر لو اس سے قبل کہ علم کو قبض کر لیا جائے اور اٹھا لیا جائے۔ (ابو امامہ کہتے ہیں کہ) اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل کر رکھا تھا کہ اے ایمان والو، ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو اگر تمھارے لیے ظاہر کر دی گئیں تو تمھیں نقصان دیں گی اور اگر تم ان کے بارے میں پوچھو گے تو جب تک قرآن نازل ہو رہا ہے، وہ تمھیں بتائی جاتی رہیں گی۔ اللہ نے خود ہی ان کو بیان نہیں کیا اور اللہ معاف کرنے والا بردبار ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت اتاری تو اس کے بعد ہم آپ سے بہت سی باتیں پوچھنے سے گریز کرنے لگے۔ (جب آپ نے یہ فرمایا کہ علم حاصل کر لو اس سے قبل کہ علم کو قبض کر لیا جائے تو) ہم ایک بدو کے پاس گئے اور اسے ایک چادر کی رشوت دی۔ اس نے اس چادر کا عمامہ سر پر باندھ لیا ، یہاں تک کہ مجھے چادر کا کنارہ اس کی دائیں ابرو کی طرف سے نکلا ہوا دکھائی دیا۔ پھر ہم نے اس سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو۔ اس نے کہا کہ اے اللہ کے نبی، ہمارے اندر سے علم کیسے اٹھا لیا جائے گا جبکہ قرآن مجید کے مصحف ہمارے مابین ہوں گے اور ہم نے ان کو سیکھ رکھا ہوگا اور اپنی عورتوں اور بچوں اور اپنے خادموں کو بھی اس کی تعلیم دے رکھی ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور آپ کے چہرے پر غصے کی وجہ سے سرخی نمایاں تھی۔ آپ نے فرمایا، تمھاری ماں تم سے محروم ہو جائے، یہود ونصاریٰ کو دیکھو، ان کے مصاحف ان کے پاس موجود ہیں لیکن ان کے انبیا جو تعلیمات لائے تھے، وہ ان میں سے کسی بات پر بھی قائم نہیں رہے۔ سنو، علم کے چلے جانے کی صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ علم کے حامل رخصت ہو جائیں۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمائی۔‘‘

حارث بن عمرو رضی اللہ عنہ:  ووقت یلملم لاہل الیمن ان یہلوا منہا وذات عرق لاہل العراق او قال لاہل المشرق۔ (طبرانی، المعجم الکبیر، ۳۳۵۱) 

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف سے آنے والوں کے لیے یلملم کو اور عراق کی طرف سے آنے والوں کے لیے ذات عرق کو میقات مقرر کیا کہ وہ وہاں سے احرام باندھ لیں۔‘‘

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ:  ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم بینا ہو یخطب یوم النحر فقام الیہ رجل فقال کنت احسب یا رسول اللہ ان کذا وکذا قبل کذا وکذا ثم قام آخر فقال کنت احسب یا رسول اللہ ان کذا وکذا قبل کذا وکذا لہولاء الثلاث فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم افعل ولا حرج۔  (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۳۹۳)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم النحر کو خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آپ کے پا س آیا اور کہا کہ یارسول اللہ، میں سمجھا کہ حج کا فلاں عمل فلاں عمل سے پہلے کرنا ہے۔ پھر ایک اور شخص اٹھا اور اس نے بھی کہا کہ یا رسول اللہ، میں سمجھا کہ حج کا فلاں عمل فلاں عمل سے پہلے کرنا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔‘‘

اسامۃ بن شریک:  سالہ رجل نسی ان یرمی الجمار فقال ارم ولا حرج ثم اتاہ آخر فقال یا رسول اللہ نسیت الطواف فقال طف ولا حرج ثم اتاہ آخر حلق قبل ان یذبح فقال اذبح ولا حرج [ان اللہ عز وجل وضع الحرج الا من اقترض امرا مسلما ظلما او قال بظلم فذلک حرج وہلک] ۔ (صحیح ابن خزیمہ، ۲۲۹۵۔ المعجم الکبیر، ۴۸۲، ۴۸۴۔ حجۃ الوداع، ۱۹۱، ۱/۲۱۵)

’’ایک شخص نے جو جمرات پر رمی کرنا بھول گیا تھا، آپ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ اب رمی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ، میں طواف کرنا بھول گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔ پھر ایک اور شخص آیا جس نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈوا لیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اب قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں حرج اور گناہ نہیں رکھا، ہاں جو شخص کسی مسلمان پر زیادتی کرتے ہوئے اس کی عزت کو پامال کرے گا، حقیقت میں وہی حرج میں پڑے گا اور برباد ہوگا۔‘‘

[عبد اللہ ابن عباس  (ابو داؤد، ۱۷۲۲) ]

قرۃ بن دعموص رضی اللہ عنہ: قال الفینا النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی حجۃ الوداع فقلنا یا رسول اللہ ما تعہد الینا قال اعہد الیکم ان تقیموا الصلاۃ وتؤتو ا الزکاۃ وتحجوا البیت الحرام وتصوموا رمضان فان فیہ لیلۃ خیر من الف شہر وتحرموا دم المسلم ومالہ والمعاہد الا بحقہ وتعتصموا باللہ والطاعۃ ۔  (بیہقی، شعب الایمان، ۵۳۳۳۔ ابن حجر، الاصابہ، ۵/۴۳۵)

’’حجۃ الوداع کے موقع پر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تو ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ، آپ ہمیں کس چیز کی تاکید فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا، میں تمھیں اس بات کی تاکید کرتا ہوں کہ تم نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، بیت الحرام کا حج کرو، رمضان کے روزے رکھو کیونکہ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اور تم مسلمان اور معاہدہ کافر کی جان اور اس کے مال کو حرام سمجھو، الا یہ کہ کسی حق کے تحت اس سے تعرض کیا جائے، اور تم اللہ کی فرماں برداری اور اس کی اطاعت پر قائم رہو۔‘‘

عمیر بن قتادۃ:  ان رجلا سالہ فقال یا رسول اللہ ما الکبائر فقال ہو تسع: الشرک باللہ وقتل نفس مومن بغیر حق وفرار یوم الزحف واکل مال الیتیم واکل الربا وقذف المحصنۃ وعقوق الوالدین المسلمین واستحلال البیت الحرام قبلتکم احیاء وامواتا۔ (مستدرک حاکم، ۱۹۷)

’’ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ، کبیرہ گناہ کون سے ہیں؟ آپ نے فرمایا کبیرہ گناہ نو ہیں: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، کسی مومن کو ناحق قتل کرنا، میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا، یتیم کا مال کھانا، سود کھانا، کسی پاک دامن خاتون پر الزام لگانا، مسلمان والدین کی نافرمانی کرنا، اور بیت الحرام کی، جو تمھارا قبلہ ہے، زندگی یا موت کی حالت میں بے حرمتی کرنا۔‘‘

اسامۃ بن شریک:   قالوا یا رسول اللہ انتداوی من کذا وکذا مرتین قال نعم تداووا فان اللہ عز وجل لم ینزل داء الا انزل لہ شفاء غیر داء واحد الہرم۔  (المعجم الکبیر، ۴۸۲، ۴۸۴)

’’لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا ہم فلاں فلاں چیز کو دوا کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں؟ دو مرتبہ یہ سوال کیا۔ آپ نے فرمایا، ہاں، دوا استعمال کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی بیماری نازل کی ہے، اس کی شفا بھی اتاری ہے، سوائے ایک بیماری یعنی بڑھاپے کے۔‘‘

اسامۃ بن شریک:   قالوا یا رسول اللہ ما خیر ما اعطی الناس قال خلق حسن۔  (المعجم الکبیر، ۴۸۲)

’’لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ، لوگوں کو ملنے والی چیزوں میں سے بہترین چیز کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا: اچھا اخلاق۔‘‘

عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ:  لاقتلن العمالقۃ فی کتیبۃ فقال لہ جبریل علیہ السلام او علی قال او علی بن ابی طالب۔   (مستدرک حاکم، ۴۶۳۶۔ طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۱۰۸۸) 

’’میں ایک لشکر لے کر عمالقہ (یعنی خوارج) کو قتل کر دوں گا۔ جبریل علیہ السلام نے آپ سے کہا کہ یا پھر علی۔ آپ نے فرمایا:  یا پھر علی بن ابی طالب۔‘‘

[امام ذہبی فرماتے ہیں کہ اس روایت کا راوی سلمہ بن کہیل بے حد ضعیف ہے اور امام حاکم کا مذکورہ روایت کو مستدرک میں قوی قرار دینا درست نہیں۔ (میزان الاعتدال، ۷/۱۸۵)]

عم ابی حرۃ الرقاشی رضی اللہ عنہ:  الا ان الشیطان قد ایس ان یعبدہ المصلون ولکنہ فی التحریش بینہم۔  (مسند احمد، ۱۹۷۷۴) 

’’سنو! شیطان اس سے تو مایوس ہو چکا ہے کہ عبادت گزار اس کی عبادت کریں، لیکن وہ اہل ایمان کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی پوری کوشش کرے گا۔‘‘

عمرو بن الاحوص رضی اللہ عنہ:  الا وان الشیطان قد ایس من ان یعبد فی بلادکم ہذہ ابدا ولکن ستکون لہ طاعۃ فی ما تحتقرون من اعمالکم فسیرضی بہ ۔  (ترمذی، ۲۰۸۵)

’’آگاہ رہو! شیطان اس سے تو مایوس ہو چکا ہے کہ تمھارے اس علاقے میں اس کی دوبارہ کبھی عبادت کی جائے۔ ہاں ان اعمال میں ضرور اس کی اطاعت کی جائے گی جنھیں تم حقیر خیال کرتے ہو، اور وہ اسی پر خوش رہے گا۔‘‘

[عبد اللہ ابن عباس (مستدرک حاکم، ۳۱۸)  عبد اللہ ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶) ]

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ:  ایہا الناس ان الشیطان قد یئس ان یعبد فی بلدکم ہذا آخر الزمان وقد رضی منکم بمحقرات الاعمال فاحذروہ فی دینکم محقرات الاعمال۔  (مسند عبد بن حمید، ۸۵۸)

’’اے لوگو! شیطان اس سے تو مایوس ہو چکا ہے کہ تمھارے اس علاقے میں قیامت تک کبھی اس کی دوبارہ عبادت کی جائے۔ ہاں وہ تمھارے ایسے اعمال پر خوش ہوتا رہے گا جنھیں تم حقیر خیال کرتے ہو، اس لیے اپنے دین کے معاملے میں ان اعمال سے خبردار رہو جنھیں حقیر اور معمولی سمجھا جاتا ہے۔‘‘

عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ:  یا ایہا الناس انی قد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہ فلن تضلوا ابدا کتاب اللہ وسنۃ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم۔  (مستدرک حاکم، ۳۱۸)

’’اے لوگو! میں تم میں وہ چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جب تک تم ان کا دامن تھامے رکھو گے، کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔‘‘

[ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۱۰]

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ:  یا ایہا الناس انی قد ترکت فیکم ما ان اخذتم بہ لن تضلوا کتاب اللہ وعترتی اہل بیتی۔  (ترمذی، ۳۷۱۸)

’’اے لوگو! میں تم میں وہ چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جب تک تم ان کا دامن تھامے رکھو گے، کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اللہ کی کتاب اور میرے اہل بیت۔‘‘

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ:  وقد ترکت فیکم ما لن تضلوا بعدہ ان اعتصمتم بہ کتاب اللہ۔  (مسلم، ۲۱۳۷)

’میں تم میں وہ چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کو تھامے رکھنے کی صورت میں تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے، یعنی اللہ کی کتاب۔‘‘

[عبد اللہ ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶) ]

ابوبکرۃ نفیع بن الحارث رضی اللہ عنہ:  وستلقون ربکم فیسالکم عن اعمالکم الا فلا ترجعوا بعدی ضلالا یضرب بعضکم رقاب بعض۔  (بخاری ۴۰۵۴)

’’اور جلد ہی تمھاری اپنے رب سے ملاقات ہوگی اور وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ آگاہ رہو! میرے بعد دوبارہ گمراہی کی طرف نہ پلٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارتے رہو۔‘‘

[جریر بن عبد اللہ (بخاری، ۱۱۸)  ابن عباس (بخاری، ۱۶۲۳)  ابن عمر (بخاری، ۳۰۵۱)  عداء بن خالد الکلابی (مسند احمد، ۱۹۴۴۷)  عبد الاعلیٰ بن عبد اللہ (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۳)  حذیفۃ بن الیمان (المعجم الاوسط، ۴۱۶۶)  عبد اللہ بن مسعود (بزار ورجالہ رجال الصحیح، مجمع الزوائد ۶/۲۸۳)  حجیر (مسند الحارث (زوائد الہیثمی)، ۲۷۔ الآحاد والمثانی، ۱۶۸۲)  ابو غادیۃ (ابن سعد ۲/۱۸۴)]

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ:  الا ان کل نبی قد مضت دعوتہ الا دعوتی فانی قد ادخرتہا عند ربی الی یوم القیامۃ ۔ (طبرانی المعجم الکبیر، ۷۶۳۲۔ مسند الشامیین، ۱۲۴۲)  

’’سنو! ہر نبی نے اپنی مخصوص دعا (دنیا ہی میں) مانگ لی ہے، جبکہ میں نے اپنی خاص دعا مانگنے کا حق قیامت کے دن تک کے لیے اپنے رب کے پاس محفوظ رکھا ہوا ہے۔‘‘

جریر بن الارقط رضی اللہ عنہ:  رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی حجۃ الوداع فسمعتہ یقول اعطیت الشفاعۃ۔ (ابن حجر، الاصابۃ، ۱۱۳۶۔ وقال: رواہ بن مندۃ من طریق یعلی بن الاشدق وہو متروک عنہ)

’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں یہ فرماتے سنا کہ مجھے (اپنی امت کے لیے) شفاعت کا حق دیا گیا ہے۔‘‘

[حجۃ الوداع کے موقع کی تصریح کے بغیر یہ روایت ’اعطیت الشفاعۃ وہی نائلۃ من لا یشرک باللہ شیئا‘ کے الفاظ سے ابو جعفر سے مصنف ابن ابی شیبہ (رقم ۳۱۷۴۲) میں اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ابن ابی عاصم کی ’السنۃ‘ (رقم ۸۰۳) میں مروی ہے۔]

مرۃ عن رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم:  الا وانی فرطکم علی الحوض انظرکم وانی مکاثر بکم الامم فلا تسودوا وجہی الا وقد رایتمونی وسمعتم منی وستسالون عنی فمن کذب علی فلیتبوا مقعدہ من النار الا وانی مستنقذ رجالا او اناثا ومستنقذ منی آخرون فاقول یا رب اصحابی فیقال انک لا تدری ما احدثوا بعدک۔  (مسند احمد، ۲۲۳۹۹۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۴۰۹۹)

’’آگاہ رہو! میں تم سب سے پہلے حوض پر پہنچ کر تمھارا منتظر ہوں گا۔ اور میں تمھارے ذریعے سے دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت ظاہر کروں گا، اس لیے مجھے رسوا نہ کرنا۔ سنو، تم نے مجھے دیکھا بھی ہے اور میری باتیں بھی سنی ہیں۔ اور تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا۔ پس جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا، اس نے اپنا ٹھکانہ آگ میں بنا لیا۔ سنو، (قیامت کے دن) کچھ لوگوں کو میں (اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے) بچا لوں گا لیکن کچھ لوگوں کو مجھ سے چھین لیا جائے گا۔ میں کہوں گا کہ یا اللہ، یہ میرے ساتھی ہیں تو کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انھوں نے کیسی کیسی بد اعمالیاں انجام دیں۔‘‘

[عبد اللہ بن مسعود  (ابن ماجہ، ۳۰۴۸)  ابو امامہ باہلی  (مسند الشامیین، ۱۲۴۲۔ المعجم الکبیر، ۷۶۳۲) ]

عداء بن خالد بن عمرو رضی اللہ عنہ:  یا معشر قریش لا تجیئونی بالدنیا تحملونہا علی اعناقکم ویجئ الناس بالآخرۃ فانی لا اغنی عنکم من اللہ شیئا۔  (المعجم الکبیر، ۱۸/۱۲، رقم ۱۶)  

’’اے گروہ قریش! ایسا نہ ہو کہ (قیامت کے دن) تم اپنی گردنوں پر دنیا کو اٹھائے ہوئے آؤ اور دوسرے لوگ آخرت کا سامان لے کر آئیں، کیونکہ میں اللہ کی پکڑ کے مقابلے میں تمھارے کچھ کام نہ آؤں گا۔‘‘

  عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ:  الا لیبلغ شاہدکم غائبکم لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم ۔  (مسند الرویانی، ۱۴۱۶، ۲/۴۱۲۔ مسند عبد بن حمید، ۸۵۸، ۱/۲۷۰)

’’تم میں سے جو موجود ہیں، وہ یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو موجود نہیں۔ نہ میرے بعد کوئی نبی ہے اور نہ تمھارے بعد کوئی امت۔‘‘

ابوبکرۃ نفیع بن الحارث رضی اللہ عنہ:  الا لیبلغ الشاہد الغائب فلعل بعض من یبلغہ ان یکون اوعی لہ من بعض من سمعہ۔  (بخاری، ۴۰۵۴)

’’سنو، جو موجود ہیں، وہ یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو موجود نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جن کو یہ باتیں پہنچیں، ان میں سے کچھ ان کی بہ نسبت ان کو زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والوں ہوں جنھوں نے براہ راست مجھ سے سنی ہیں۔‘‘

[عبد اللہ ابن عباس (بخاری، ۱۶۲۳)  ابو سعید (مسند احمد، ۲۲۳۹۱۔ بیہقی، شعب الایمان، ۵۱۳۷، ج ۴، ص ۲۸۹)  عم ابی حرۃ الرقاشی (مسند احمد، ۱۹۷۷۴)  حارث بن عمرو (طبرانی فی الکبیر والاوسط، مجمع الزوائد ۳/۲۶۹)  وابصۃ بن معبد الجہنی (طبرانی فی الاوسط وابو یعلی، مجمع الزوائد ۳/۲۶۹)  حجیر (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۰)  حجیر (مسند الحارث (زوائد الہیثمی)، ۲۷۔ الآحاد والمثانی، ۱۶۸۲)  سراء بنت نبہان (المعجم الاوسط، ۲۴۳۰) ]

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ:  ایہا الناس انی واللہ لا ادری لعلی لا القاکم بعد یومی ہذا بمکانی ہذا فرحم اللہ من سمع مقالتی الیوم فوعاہا فرب حامل فقہ ولا فقہ لہ ورب حامل فقہ الی من ہو افقہ منہ ۔ (دارمی، ۲۲۹۔ مسند ابی یعلیٰ، ۷۴۱۳۔ مستدرک حاکم، ۲۹۴)

’’اے لوگو! بخدا مجھے معلوم نہیں کہ آج کے بعد میں ا س جگہ تم سے مل سکوں گا یا نہیں۔ پس اللہ اس شخص پر رحمت کرے جس نے آج کے دن میری باتیں سنیں اور انھیں یاد کیا، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنھیں سمجھ داری کی باتیں یاد ہوتی ہیں لیکن انھیں ان کی سمجھ حاصل نہیں ہوتی۔ اور بہت سے لوگ سمجھ داری کی باتوں کو یاد کر کے ایسے لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں۔‘‘

[عبد اللہ ابن عمر (مسند الشامیین، ۵۰۸۔ الکفایۃ فی علم الروایۃ، ۱/۱۹۰)  ابو سعید الخدری (رواہ البزار، مجمع الزوائد۱/۱۳۷۔ الترغیب والترہیب ۱/۲۳)  انس بن مالک (المعجم الاوسط، ۹۴۴۴)  ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۸]

ابو موسیٰ مالک بن عبادۃ الغافقی رضی اللہ عنہ: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قام خطیبا فی حجۃ الوداع فقال علیکم بالقرآن وسترجعون الی اقوام یشتہون الحدیث عنی فمن عقل عنی شیئا فلیحدث بہ ومن قال علی ما لم اقل فلیتبوا مقعدہ جہنم۔ (الآحاد والمثانی، ۲۶۲۶۔ مسند احمد، ۱۸۱۸۲۔ المحدث الفاصل، ۱/۱۷۲)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ تم قرآن کو لازم پکڑے رکھنا، اور تم لوٹ کر ایسے لوگوں کے پاس جاؤ گے جو میری باتیں سننے کے خواہش مند ہوں گے، پس جس نے میری کوئی بات اچھی طرح سمجھ کر یاد کی ہو، وہ اس کو بیان کر دے، اور جس نے میری طرف ایسی بات کی نسبت کی جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ:  وانتم تسالون عنی فما انتم قائلون؟ قالوا نشہد انک قد بلعت وادیت ونصحت فقال باصعبہ السبابۃ یرفعہا الی السماء وینکتہا الی الناس اللہم اشہد اللہم اشہد ثلاث مرات۔ (مسلم، ۲۱۳۷)

’’تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا، پس تم کیا کہو گے؟ لوگوں نے کہا، ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے پیغام پہنچا دیا اور پوری خیر خواہی کے ساتھ ذمہ داری ادا کر دی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور اس کے ساتھ لوگوں کی طرف اشارہ کر کے کہا: اے اللہ، گواہ رہنا۔ اے اللہ گواہ رہنا۔ اے اللہ گواہ رہنا۔‘‘

[ابوبکرۃ (بخاری ۴۰۵۴)  ابو سعید (ابن ماجہ، ۳۹۲۱۔ مسند احمد، ۱۱۳۳۸)  ابن عمر (بخاری، ۳۰۵۱)  ابن عباس (بخاری، ۱۶۲۳)  جابر بن عبد اللہ (مسند احمد، ۱۴۴۶۱)  نبیط بن شریط(مسند احمد، ۱۷۹۷۳۔ الآحاد والمثانی، ۱۲۹۸)  عداء بن خالد الکلابی(مسند احمد، ۱۹۴۴۷)  عمرو بن الاحوص (ابن ماجہ، ۳۰۴۶)  سفیان بن وہب الخولانی(مسند احمد، ۱۶۸۷۷)  عم ابی حرۃ الرقاشی (مسند احمد، ۱۹۷۷۴)  حارث بن عمرو (المعجم الکبیر، ۳۳۵۰)  وابصۃ بن معبد الجہنی (المعجم الاوسط، ۴۱۵۶)  ابو الزوائد (ابو داؤد، ۲۵۷۰)  ابو غادیۃ (ابن سعد ۲/۱۸۴)]


حدیث و سنت / علوم الحدیث

(الشریعہ — جون ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — جون ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۶

تلاش

Flag Counter