استاد گرامی حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب مدظلہ کے فرزندِ گرامی مولانا ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی ذہانت اور کئی خوبیوں سے نوازا ہے۔ علمی، فکری حلقوں میں ان کا ایک بڑا نام ہے۔ ان کی علمی و تحقیقی تصانیف بھی اہل علم و دانش سے خراجِ تحسین وصول کر چکی ہیں۔ ان کی باقاعدہ پہلی تصنیف ’’امام اعظم ابوحنیفہؒ اور عمل بالحدیث‘‘ تھی جو ۱۹۹۶ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے شائع ہوئی جبکہ ڈاکٹر عمار صاحب اس وقت اسی ادارے میں مدرس بھی تھے۔ کتاب کا موضوع اور سبب تالیف استاد گرامی مدظلہ نے اپنے پیش لفظ میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
’’اجتہاد اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے جس کا مقصد قرآن کریم کی صورت میں وحئ الٰہی کے مکمل ہو جانے کے بعد قیامت تک پیش آنے والے نئے حالات و مسائل کا وحئ الٰہی کے ساتھ ربط قائم رکھنا اور قرآن و سنت کی روشنی میں مسائل و مشکلات کا حل تلاش کرنا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اجتہاد کی اہمیت بیان فرمائی ہے بلکہ دیانت و اہمیت کے ساتھ اجتہاد کرنے والے مجتہد کو خطا کی صورت میں بھی اجر و ثواب کا مستحق ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ دورِ نبویؐ کے بعد ضروریات و مسائل کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہونے کے ساتھ ساتھ اجتہاد کا دامن بھی اس کے ساتھ ہی پھیلتا چلا گیا۔ اور بیسیوں اربابِ علم و دانش نے اس جولان گاہ میں رہوارِ فکر دوڑائے، جن میں امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعی، امام احمد بن حنبلؒ اور ظواہر کے اجتہادی اصولوں اور طریق کار کو اہل سنت والجماعت میں درجہ بدرجہ قبولیت حاصل ہوئی اور ان کی بنیاد پر مستقل فقہی مکاتبِ فکر وجود میں آ گئے۔
ان میں سے امام اعظم ابوحنیفہؒ کے فقہی اصولوں اور اجتہادی مکتبِ فکر کو امتِ مسلمہ میں سب سے زیادہ پذیرائی ملی۔ چنانچہ آج بھی امت کی سب سے بڑی تعداد فقہ حنفی کی پیروکار ہے۔ اس کی وجہ عام طور پر یہ بیان کی جاتی ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد امام ابویوسفؒ کے عباسی خلافت میں قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز ہونے سے فقہ حنفی کو اقتدار کا سایہ حاصل ہو گیا اور اس کے ذریعے اسے دنیا کے طول و عرض میں تعارف و ترویج کا موقع ملا۔ یہ بات درست ہے کہ فقہ حنفی طویل عرصہ تک برسراقتدار رہی ہے حتیٰ کہ مسلم ممالک میں استعماری قوتوں کے تسلط سے قبل دنیا کی دو بڑی مسلم سلطنتوں خلافتِ عثمانیہ اور مغل بادشاہت میں فقہ حنفی بطور قانون نافذ تھی، لیکن ہمارے نزدیک اسے قبولیت کی وجہ قرار دینے کی بجائے اس کا نتیجہ تسلیم کرنا زیادہ قرینِ انصاف ہو گا، کیونکہ اہلِ علم و دانش کے ہاں فقہ حنفی کی قبولیت اور پذیرائی کی اصل وجہ دو امور ہیں:
(۱) فقہ حنفی رائے اور عقل کے صحیح استعمال اور روایت و درایت کے توازن پر مبنی ہے۔
(۲) امام ابوحنیفہؒ نے مسائل کے استنباط و استخراج میں اہلِ علم و فن کی باہمی مشاورت اور اجتماعی بحث و مباحثہ کا طریق کار اختیار کیا۔
یہی دو اصول ہیں جنہوں نے امام ابوحنیفہؒ کو اپنے معاصرین میں سب سے نمایاں حیثیت دی اور امامِ اعظمؒ کے لقب سے سرفراز کیا ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود وہ ایک مجتہد تھے، اور مجتہد کے اجتہادات میں صواب اور خطا دونوں کا احتمال ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اسی بنیاد پر امام صاحبؒ سے بہت سے مسائل میں ان کے معاصرین حتیٰ کہ ان کے تلامذہ نے بھی اختلاف کیا ہے اور یہ اختلاف اجتہاد کا ایک مسلّمہ اصول اور اہلِ علم کا جائز حق ہے۔
مختلف مسائل میں امام صاحبؒ سے اختلاف کرنے والوں میں تیسری صدی کے نامور محدث الحافظ ابوبکر ابن ابی شیبہؒ بھی ہیں جو محدثین میں ممتاز حیثیت کے حامل اور امام بخاریؒ، امام مسلمؒ، امام ابوداؤدؒ، اور امام ابن ماجہؒ جیسے جلیل القدر محدثین کے استاذ ہیں۔ ان کی روایت کردہ احادیث کا عظیم الشان ذخیرہ ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ کے نام سے معروف ہے جس سے اہلِ علم ہر دور میں استفادہ کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ انہوں نے اس کتاب کے ایک مستقل باب میں ایک سو پچیس (۱۲۵) ایسے مسائل کا ذکر کیا ہے جن میں ان کے بقول امام ابوحنیفہؒ نے احادیثِ رسولؐ کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔ ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ کے اس باب میں مذکور اعتراضات کے جواب میں ممتاز اہلِ علم نے مختلف ادوار میں قلم اٹھایا ہے اور اس امر کی دلائل کے ساتھ وضاحت کی ہے کہ ان مسائل میں امام ابوحنیفہؒ نے احادیثِ رسولؐ کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان کے موقف کی بنیاد بھی بعض دوسری احادیثِ رسولؐ پر ہے جنہیں وہ اپنے اصولِ اجتہاد کے مطابق ترجیح دے رہے ہیں، اور یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ اعتراض کرنے والوں کی رسائی ان احادیث تک نہ ہو سکی ہو۔ لیکن اس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ اردو میں عام فہم انداز میں ان مسائل پر حضرت امام ابوحنیفہؒ کے موقف اور دلائل کی وضاحت کر دی جائے تاکہ امام صاحبؒ پر حدیثِ رسولؐ کی مخالفت کے بے جا الزام کی صفائی کے ساتھ ساتھ عام پڑھے لکھے حضرات بھی امام صاحبؒ کے اسلوبِ اجتہاد سے آگاہ ہو سکیں۔
چنانچہ اسی ضرورت کے پیش نظر عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلّمہ مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور الحافظ ابوبکر ابن ابی شیبہؒ کے ذکر کردہ ایک سو پچیس (۱۲۵) مسائل کا ترتیب وار ذکر کر کے ان کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ کے موقف اور دلائل کو عام فہم انداز میں واضح کر دیا ہے۔ جس سے امام ابوحنیفہؒ کے طرزِ اجتہاد اور روایت و درایت کے حوالہ سے فقہ حنفی کی خصوصیات کا بھی ایک حد اندازہ ہو جاتا ہے۔
یہ عزیزم عمار سلّمہ کی پہلی علمی کاوش ہے، اس لیے اہلِ علم سے گزارش ضروری سمجھتا ہوں کہ اسے اسی حیثیت سے دیکھا جائے اور اپنے ایک نووارد عزیز کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ جہاں کوئی کوتاہی یا غلطی محسوس ہو، اسے بزرگانہ شفقت کے ساتھ ضرور آگاہ فرمایا جائے تاکہ اگلا ایڈیشن زیادہ بہتر صورت میں پیش کیا جا سکے، نیز خصوصی دعا بھی فرمائیں۔ اللہ رب العزت عزیز موصوف کو اپنے عظیم اسلاف بالخصوص اپنے دادا محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے علوم و روایات کا صحیح امین و وارث بنائیں، آمین یا رب العالمین۔ابوعمار زاہدالراشدی
۲۲ اپریل ۱۹۹۶ء‘‘
دو سال قبل (۲۰۲۱ء میں) انڈیا کے ایک ادارے القاضی پبلشرز دہلی نے اس کتاب کو نئی کمپوزنگ کے ساتھ شائع کیا ہے جو انڈیا میں پہلا اور مجموعی طور پر دوسرا ایڈیشن ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور فقہ حنفی کے موضوع پر یہ ایک مثالی تحقیقی اور معلوماتی کتاب ہے جس کا ہر عالم دین کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر عمار صاحب اس پر نظرِثانی کے بعد پاکستان میں دوبارہ اشاعت کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اللہ کرے یہ کتاب جلد شائع ہو اور طالبانِ علم و تحقیق کی پیاس بجھائے۔ آمین