خدا کے بارے میں غزالی کے خیالات
اگر ہم ابن عربیؒ کی پیروی کریں جو غزالیؒ کے کئی صدیوں بعد ہوئے ہیں تو ہم دیکھیں گے کہ ان کے استدلال میں محبت رحمت کا نتیجہ ہے لیکن اس سے مشابہ نہیں۔ رحمت عالمگیر اور بنیادی منبع ہے۔ غزالی کے ہاں الوہی محبت اور الوہی صفات کے بارے میں بہت کچھ تفصیل ہے۔ چنانچہ انہوں نے خدا کے افعال اور اس کی صفات میں فرق کیا۔ صفات کے سلسلہ میں ان کے ذہن میں وہ بنیادی صفات ہیں جو اضافی ہیں۔ یہ ہیں:
زندگی، علم، قوت، قوت ارادی، سماعت، بصارت اور گویائی جیسی صفات۔ خدا کے اعمال تخلیقی اعمال تھے: انہوں نے واقعات اور چیزوں کو وقوع پذیر کیا۔ یہ واقعات اس کی مخصوص نسبتی صفات کا نتیجہ تھے، جیسا کہ خالق، عطا کرنے والا، ہدایت دینے والا وغیرہ۔ اگرچہ ان معاملات پر مسلم جدلیاتی ماہرینِ الہٰیات کے درمیان ہونے والی بحثیں خشک مذہبی بحثیں ہیں، لیکن غزالی جیسے متکلم اپنے نقطہ نظر میں زیادہ صوفیانہ تھے۔
خدا کے فرمانبردار ہونے کے تجربے میں بھی متعدد درجات ہیں جن کے ذریعہ خدا کا کشف اولیاء کو ہوتا ہے۔ غزالی کے خیال میں، خدا بغیر عمل کرنے والے انسان کا حصہ بنے اس کے اندر ہے۔ سالکین کا ہدف یہ رہا ہے کہ وہ دوسری تمام چیزوں یعنی غیرِ خدا کے لیے فنا ہو جائیں یہاں تک کہ صرف خدا ان کے شعور میں زندہ رہ جائے۔ خدا ولی یا ولیہ کے شعور میں زندہ رہتا ہے، ولی اپنے وجدان میں خدا کے وجود کا تجربہ کرتا ہے۔یہاں تک کہ سالک اس کے علاوہ کسی شیئی کے وجود کا احساس نہیں کرتا۔ خدا محبت، غور و فکر اور عبادت کی شیئی ہے۔ سالک کے لیے فنا کا متبال ایک وجدانی شعور ہے جس میں اس کو خدا کے سِوا کسی چیز کے وجود کا احساس ہی نہیں ہوتا25۔علمی اور فلسفیانہ سطح پر غزالی نے یہ بھی کہا کہ خدا بے مثال ہے اس کو جانا نہیں جا سکتا۔ تاہم، جیسا کہ اسکالر فضل شہادی نے اشارہ کیا:
"خدا کے غزالی والے تصور کو یا مسلم تصور کو محض کسی مذہبی ضرورت کے نقطہ نظر سے تشریح کرنے کی کوئی بھی کوشش اس طاقت ور بصیرت کو کھو دیتی ہے جو اسلام کی خصوصیت ہے۔ شہادی یوں خدا کے منفرد ہونے کے تصور جو اسلامی روایت کا نمایاں حصہ ہے، کے غیاب پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ شہادی بتاتے ہیں کہ خدا کو پیش کرنے کے اسلامی تصورات، خدا کو اپنی خاطر دیکھنے کا اور اس کے بارے میں سوچنے کا ایک طریقہ ہیں یوں کہ گویا کوئی اور چیز موجود ہی نہیں ہے۔ اگر مذہب بنیادی طور پر انسان اور اللہ کے درمیان تعلق کا نام ہے، تو اسلام میں یہ نقطہ نظر مذہب کے دائرہ کار کو وسیع کرتا ہے کہ وہ اللہ کے لیے اس فکر کو یوں شامل کریں گویا انسان تصویر میں نہیں تھا۔ لیکن مذہبی آفاق فکر کی سب سے گہری وسعت خود خدا کے بارے میں مذہب کا یہ تصور ہے کہ اس کے سِوا گویا کوئی اور چیز موجود ہی نہیں ہے خاص کر انسانی منظر یا جسمانی دنیا کے سلسلے میں۔ خدا نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ وہ انسان کا خیال رکھتا ہے۔ لیکن اس کے باوصف خدا تخلیق سے اوپر ہے، ربوبیت سے بالا اور ہر رشتہ سے جدا ہے۔ اس خدا کی بنائی ہوئی انسانی کائنات اس کے لیے کچھ نہیں۔ کتنی لامحدود کھلی، کتنی بے کراں وسیع، کتنی بے جان پراسرار دنیا ہے جہاں خدا تعالی ٰکسی بھی کنبے سے پرے، کسی بھی رشتے سے بالاتر ("مقدسین" سے بالادست مقدس) اور شاندار و عظیم ہے27۔
شہادی کے خدا کی ضرورت، تخلیق اور دنیا سے بالاتر ہونے کے نکتہ کو بہت پسند کیا گیا ہے۔ مسلم مذہبی عقائد کا ایک مضبوط بیانیہ مسلم الٰہیات کو مستحکم کرنے کے لیے سیاسی دباؤ کا مقابلہ کرے گا۔ یہودیت، عیسائیت، اور اسلام کے درمیان مذہبی تعامل میں، اکثر فاتح کے مفاد میں خصوصیت اور فرق کو نظر انداز کرنے کا سطحی رجحان آجاتا ہے، لیکن اکثر تینوں روایات کے درمیان ابراہیمی مشترکات کے لیے بہت کم احترام ہوتا ہے۔
مسلم الٰہیات کا کوئی بھی قاری اس حقیقت سے ناواقف نہیں رہ سکتا کہ اسلام درحقیقت خدا کے ماوراء ہونے پر زور دیتا ہے۔ غزالی کی تصنیفات میں بھی دیا گیا ہے۔ غزالی کے نزدیک کوئی بھی لفظ کسی بھی پہلو کے تحت خدا کی فطرت کو مناسب طور پر بیان نہیں کر سکتا، جس میں انسانوں اور دنیا سے خدا کا تعلق بھی شامل ہے28۔ پھر بھی جب غزالی انسانوں کے لیے خدا کی تصویر بناتے ہیں تو وہ مثبت صفات اور پیشین گوئی کی قابل رسائی زبان استعمال کرتے ہیں۔ غزالی کہتے ہیں کہ اللہ کوئی معلوماتی وضاحتی فنکشن نہیں رکھتا۔ بلکہ اللہ انسانوں کے مقابلے میں ایک عملی ہدایت کا فنکشن رکھتا ہے29۔ دوسرے الفاظ میں، خدا کی صفات کی مثبت تعبیر خدا کی انسانی زبان کی تصویر ہے۔ خدا کی ذات کا مابعد الطبیعاتی تصور یہ ہے خدا متحیز نہیں نہ ہی خدا کائنات کا حصہ ہے اور نہ ہی کائنات سے باہر، نہ اس سے جڑا ہوا ہے اور نہ ہی اس سے منقطع ہے30۔ پھر بھی، خدا کی ہستی مومنوں کے دلوں میں بسی ہوئی ہے، کیونکہ ان کے دل اس کی یاد سے آباد ہیں۔ خْدا کی یاد ہی ان کا حاصلِ زندگی ہے31۔
؎ میرا ہی دل ہے وہ جہاں تو سما سکے
انسان خدا سے کیسے ملتا ہے؟ مسلم عمل میں اللہ سے سب سے قریبی تعلق خدائی اخلاق اختیار کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے۔ انسانوں کو وحی کے ذریعے بتائے گئے منابع کے ذریعے خدا کی خصوصیات کو اپنانا چاہیے۔ جس کا حکم ’’تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ سے دیا گیا ہے۔ جس میں دین کے عمل اور نبی محمدﷺ کی مثالی تعلیمات کی پیروی شامل ہے۔ ان طریقوں میں لازمی رسومات کے ساتھ ساتھ غور و فکر کے عمل جیسے یاد کرنا، عبادت کرنا اور خدا سے محبت کا اظہار کرنا شامل ہیں۔ لہٰذا عقیدتی اعمال جو خدا کی سراسر انفرادیت اور خدا کو نہ جان سکنے کو سنجیدگی سے لیتے ہیں وہ خدا کی ذات کی تشریح کرنے والے نہیں ہو سکتے بلکہ انہیں عملی ہونا چاہیے.
کارکردگی کی سطح پر خدا کی ہستی زمین پر خدا کے "مسکن" یعنی عبادت گزاروں کے دلوں تک پہنچتی ہے۔ لہٰذا، مسلم الہیات میں یہ کہنا بالکل قابل قبول ہے کہ انسانوں پر خدا کا انکشاف اس زبان میں ہو جسے وہ سمجھتے ہیں۔ لیکن کسی نہ کسی سطح پر یہ ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔
غزالی کو جس مسئلہ کا سامنا کرنا پڑا، جسے شہادی نے اسے اتنی فصاحت کے ساتھ بیان کیا، وہ یہ ہے کہ ان کی الہیات مندرجہ ذیل سوال کی طرف لے جاتی ہے: آدمی خدا کے بارے میں کیسے یوں کہے کہ مثلاً وہ عادل اور رحم کرنے والا ہے؟ کیونکہ اسی لمحے جب کوئی ایسا کہتا ہے تو فوراً یہ کہہ کر اس کی نفی کرنی پڑتی ہے کہ خدا درحقیقت اتنا ہی نہیں ہے۔ مطلب، خدا اس سے کہیں زیادہ انصاف کرنے والا یا رحم کرنے والا ہے جتنا کہ انسان کبھی بھی محسوس کر سکتے ہیں، دوسرے لفظوں میں، کم از کم غزالی کے لاہوتی فریم ورک میں، انسان ایک ایسی انسانی زبان کے ذریعے خدا کی عبادت کر رہا ہے جو کہ خدا کے بارے میں وضاحتی طور پر قابل اطلاق یا ناکافی ہے۔ انسانوں سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی عبادت کریں، گویا وہ خدا کو دیکھ رہے ہیں، اس علم کے ساتھ کہ یہ ادراک حقیقت سے کم ہے۔ یوں انسان علمیاتی طور پر اللہ کو سمجھ تو سکتا ہے لیکن اس کی ذات انسان کے ادراک سے پرے ہے۔ یعنی ایسا ڈھانچہ اس خیال سے بھی مطابقت رکھتا ہے کہ خدا اپنی ذات اور فطرت میں بالکل منفرد ہے اور اس کی حقیقت کو جانا نہیں جا سکتا ہے۔
اگر ہم اس نکتے کو قبول کرتے ہیں تو یہ وحی کے بارے میں اصل سوال پیدا کرتا ہے: کیا یہ بھی ناقص معیار کا شکار ہے؟ اس کا جواب ہے، ہاں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ وحی خدا کی مرضی کو ظاہر کرتی ہے، خدا کی فطرت کو نہیں۔ وحی کا مقصد انسانوں کی زندگیوں کو اس زبان میں رہنمائی کرنا ہے جسے وہ سمجھ سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، عقیدہ مستند وحی کے ذریعے محفوظ ہوتا ہے۔ یہ اسلام اور شاید دوسری توحید پرست روایات کے درمیان اہم فرق ہے جہاں وحی الوہی کلام کے ایک خاص ذوق کے ذریعہ رہنمائی فراہم کرتی ہے نہ کہ خود اللہ کی ذات کی وضاحت32۔
رہنمائی کا سوال اصولوں اور معیارات کے سوال کو سامنے لاتا ہے۔ درحقیقت، مسلم الٰہیاتی نظریہ اس بات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے کہ ہم خدا کی مرضی کو کس طرح جان سکتے ہیں، اور یہ کہ خدا کی مرضی کس طرح مستند ذریعہ سے جانی جا سکتی ہے۔ اس طرح وجودیاتی سوال علمی سوال سے بہت قریب سے جڑ جاتا ہے۔
محبت پر غزالی کے خیالات
جب غزالی محبت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہیں تو اپنی شہ کار کتاب احیاء علوم الدین کی فصل ”کتاب الحب و الشوق و الانس والرضا (عشق، آرزو، قربت اور قناعت) میں وہ انسان کے مختلف مسائل کا سامنا کرتے ہیں جیسے کہ اللہ کے ساتھ ملاقات وغیرہ۔ فی الحال میں اس بحث کے لیے چند منتخب موضوعات پر کلام کروں گا۔
محبت، قربت اور قناعت کی تمہید میں غزالی خوبصورت اور وضاحتی انداز میں لکھتے ہیں:33
”خدا اپنے اولیاء کے دلوں کو بلند کرتا ہے، ان کے باطن کو دنیاوی خلفشار سے پاک کرتا ہے اور صرف اولیاء کے دلوں میں اپنی موجودگی (حضرۃ) کو مرکوز رکھتا ہے"۔34 غزالی پھر اس الہٰی عظمت کی جھلکیوں پر روشنی ڈالتے ہیں جو ولی کو عشق الٰہی کی آگ میں جلا سکتی ہیں۔ یا پھر سالک کی عقل و مشاہدہ پر ایک خاص قسم کی دھول پڑ جاتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی وجاہت کا ادرک نہیں کر پاتا۔ ایسی حالت سے دوچار ہونے پر عابد یا سالک کو صبر کی تلقین کی جائے گی۔ غزالی کے بقول: ”سالکین کے دل خدا کا سامنا کرنے میں، انکار اور قبولیت کے درمیان معلق رہے اور حصول و تردد کے درمیان معلق رہے۔ کبھی وہ خدا کی معرفت کے اتھاہ سمندر میں غوطہ زن ہوئے اور کبھی اس کی محبت کی آگ میں جھلس گئے“35۔
اور دل کے عجائبات کی کتاب (عجائب القلوب) میں اپنی تحریر کا ایک حصہ غزالی نے توحید پرستانہ عقیدت، معرفت کے کشف، ذات الٰہی سے پرجوش محبت، تحیر پیچیدگی، اور تضاد جیسے موضوعات پر صرف کیا ہے۔
محبت ان تمام موضوعات کو اپناتی ہے۔ اس کے مشاہدہ کے ذریعہ خدا کی معرفت کا حصول محبت کے آداب (Economy of Love) میں سے ہے۔ خدا کی یہ معرفت درحقیقت اس دنیا میں انسانوں کی "خوبصورتی، کمال اور جلال" کی بنیاد ہے۔ انسان کا اخلاقی اور سیاسی وجود الوہیت کا تجربہ کرتا ہے۔ جیسے جیسے اللہ کی معرفت قوی ہوتی جاتی ہے محبت کے آداب میں بھی شائستگی آتی جاتی ہے۔ انسان اس کی ایک قابل تفہیم تعریف تک پہنچ جاتا ہے لیکن کبھی بھی پوری طرح سے ذہنی گرفت میں نہیں لا سکتا۔ بہرحال وہ اس سے پورے طور پر متاثر ضرور ہوتا ہے- بڑی صراحت کے ساتھ تاہم، غزالی نے واضح کیا ہے کہ:
"بغیر معرفت اور ادراک کے محبت کا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ انسان محبت نہیں کرتا سوائے اس کے جسے وہ جانتا ہو“ 36۔
نامعلوم خدا کے بارے میں اپنے تصور سے بالکل مطابقت رکھتے ہوئے، غزالی محبت کو بے خودی اور اضطراب کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ الٰہی قربت کا گہرا علم محبت کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ پھر بھی، محبت کے مخمصے اور الجھنوں کا حل نہیں ہوتا بلکہ تخلیقی تناؤ میں برقرار رہتا ہے۔ یہاں محبت کی آگ ہے اور مصائب کے شعلے ہیں۔ دلیل کے ساتھ ساتھ یقین کے بیابان میں ہچکچاہٹ؛ عقل کا تحیر میں ڈوب جانا اور محبت کے شعلے میں جلنا۔ پردہ اور نقاب کشائی. مختصر یہ کہ محبت کا محال ہونا ہی اس کے امکان کو وجود دیتا ہے۔ یہاں تک کہ جب یہ نور روشن ہوتا ہے تو اپنے اطراف کو تابناک کرتا ہے اور دوسری طرف اس نور کی چوکاچوند چیزوں کو ناقابل مشاہدہ بھی بنا دیتی ہے۔
غزالی نے واضح طور پر کہا ہے کہ خدا اور اس کے رسول سے محبت ایک فرض ہے37۔ لیکن پھر وہ پوچھتے ہیں: تم کسی چیز کو فرض کیسے کر سکتے ہو جب وہ چیز یعنی محبت موجود ہی نہ ہو؟ وہ پوچھتے ہیں کہ اگر محبت کو اطاعت کی زائدہ مان لیا جائے تو پھر اس کو اطاعت کے ہم معنی کیسے مانا جا سکتا ہے؟ غزالی کے پرجوش بیانات اور قرآنی اور حدیث کی تعلیمات کے حوالوں میں بہ ظاہر یوں لگ سکتا ہے کہ محبت ہر چیز پر مقدم ہے کیونکہ وحی مومنوں کی صفت یہ بتاتی ہے کہ کہ یہ وہ لوگ ہیں جن سے خدا محبت کرتا ہے اور بدلے میں وہ خدا سے محبت کرتے ہیں" (قرآن 5:54) غزالی قرآن کا حوالہ دیتے ہیں:
”اور جو لوگ ایمان لائے وہ خدا کی محبت میں زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔" (قرآن2:165) ایک حدیث نبوی میں ہے: ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہ ہو جب تک کہ تم اللہ اور اس کے رسول سے ہر چیز سے زیادہ محبت نہ کرو۔"38
اس کے بعد انہوں نے متعدد مراجع سے متعدد روایات بیان کیں جن میں حضرت محمد ﷺکے ارشادات شامل ہیں۔ اولیائے کرام اور صوفیاء کے بیانات ہیں۔ یہ سب محبت کی عظمت کو تقویت دیتے ہیں۔ لہٰذا، غزالی جن دو چیزوں کو اٹھاتے اور جن کا تقابل کرتے ہیں وہ ہیں خدا سے محبت کی دعوت اور اس کی اطاعت کا فرض۔ ان دونوں تصورات کے درمیان ظاہری طور پر تناؤ ہے۔ لہٰذا، سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ غزالی محبت کو کس طرح متصور کرتے ہیں:
’’محبت مسرت آگیں چیز کی طرف کسی کے میلان کا نام ہے۔ جب یہ رجحان شدت اختیار کرتا ہے تو اسے عشق کہا جاتا ہے۔‘‘39
وہ چیزیں جو انسان کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہوں وہ محبوب ہوتی ہیں اور جو اس سے مطابقت نہیں رکھتیں وہ ناپسند ہوتی ہیں۔ نفرت کسی چیز سے لاتعلقی بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن محبت کا تصور اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس سے پہلے معرفت اور ادراک کی ایک شکل نہ ہو، وہ یہ مثل نقل کرتے ہیں:
”انسان محبت نہیں کر سکتا سوائے اس کے جسے وہ جانتا ہو“40۔
مختصر یہ کہ غزالی کی محبت کے مظاہر (Phinominology of love) تجرباتی ہیں۔ لیکن یہ تجربہ بھی معرفت و ادراک پر منحصر ہے۔ اس سے میرا مطلب ہے کہ یہ کچھ چیزوں پر منحصر ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہمارے شعور اور تجربات کا دارومدار ادراک، حسی ادراک کی شکلوں، سوچ کے انداز یا جستجو پر ہے۔ محبت کی اساس کے بارے میں یہ کہنا شاید کوئی بعید از قیاس نہ ہو کہ اگر آگسٹین محبت کو ایک قسم کی خواہش سمجھتا تھا تو غزالی کے لیے محبت معرفت، ادراک اور حقیقت کی تلاش کی ایک شکل تھی۔ معرفت اور ادراک کے اس مظہر کی ساخت بیرونی محرکات کو حاصل کرنے والے پانچ حواس سے الگ تو نہیں ہے تاہم محبت کا اصل سرچشمہ اندرونی ہے۔ اس باطنی حس کو عقل، نور، قلب یا بصیرت کہتے ہیں۔ اس کے بعد غزالی انسانی تجربات سے اخذ کردہ محبت کے کئی مظاہر کو واضح کرتے ہیں:
وہ لکھتے ہیں:
”یہ کوئی راز نہیں ہے کہ انسان اپنے آپ سے محبت کرتا ہے۔ ظاہر ہے کوئی شخص اپنے فائدے کے لیے بھی کسی دوسرے سے محبت کر سکتا ہے۔ لیکن کیا کوئی شخص اپنے علاوہ کسی دوسرے سے اسی دوسرے شخص کی خاطر بھی محبت کر سکتا ہے جبکہ اس کا اپنا کوئی فائدہ نہ ہو؟ کمزور ذہنوں کے لیے یہ ایک مشکل سوال ہے، کیونکہ ان کے خیال میں یہ بات ناقابل تصور ہے کہ وہ اپنے علاوہ دوسروں کی خاطر کسی اور سے محبت کرے جب تک کہ عاشق کو اس سے محض ادراک کے علاوہ کوئی فائدہ حاصل نہ ہو۔ لیکن حقیقت میں یہ نہ صرف قابل فہم ہے، بلکہ حقیقت میں ایسا ہوتا ہے۔ اس کے بعد غزالی انسانی تجربات سے اخذ کر کے محبت کے مظاہر کی وضاحت کرتے ہیں۔‘‘41
غزالی رقم فرماتے ہیں کہ بعض اوقات کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے بے لوث محبت کرتا ہے صرف اسی شخص کی خاطر، بغیر اپنے کسی فائدہ کے۔ وہ پوچھتے ہیں: "کیا یہ قابل فہم ہے کہ ایک انسان دوسرے سے محبت کرے اُسی کے لیے نہ کہ اپنے نفس کی خاطر؟"۔ پھر وہ جواب دیتے ہیں:
”درحقیقت تمام جانداروں میں سب سے پہلا محبوب خود انسان کی ذات ہے۔ اور اس خود پسندی کا مقصد اس حقیقت سے پیدا ہوتا ہے کہ آدمی کے کردار میں اپنے وجود و بقا کا رجحان پیوست ہے اور فنا ہو جانے اور برباد ہونے سے انسان کو نفرت ہوتی ہے۔ اس لیے انسان اپنی بقا (وجود) کو دائمی رکھنا پسند کرتے ہیں اور موت اور تباہی سے نفرت کرتے ہیں۔ الا یہ کہ زندگی میں کچھ اذیتیں پیش آجائیں“42
غزالی بتاتے ہیں، جسے میں محبت کا مجرد مظاہرہ کہوں گا، کہ ہم کس طرح دنیا میں محبت کا تجربہ کرتے ہیں اور اس کی شکلوں اور حقیقت پر غور کرتے ہیں جو انسانوں کے درمیان محبت کے اپنے مشاہدات پر مبنی ہے۔ بالکل یہی معاملہ انسان اور خدا کے مابین محبت کے رشتے کی بنیاد بن جاتا ہے۔
سب سے پہلے غزالی بتاتے ہیں کہ انسان اپنے آپ سے کیسے پیار کرتا ہے کہ کسی کے وجود کو برقرار رکھنا محبت کی تقریباً ابتدائی تحریک پر مبنی ہے جس کا انسان تجربہ کرتا ہے۔ کچھ لوگ اسے خود پسندی یا اپنے آپ سے محبت کے طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ غزالی محبت کو حقیقت کے ایک اظہار، انکشاف کی شکلوں اور محبت اور محبت کرنے والے کے مابین رشتوں اور مختلف انسانوں کے درمیان رشتوں کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ اس طرح، کسی کے جسم اور اعضاء سے محبت، اولاد، خاندان، اور دوست احباب سب محبت کے دائرے کا حصہ ہیں کیونکہ یہ کسی کے وجود کو برقرار رکھتے اور بڑھاتے ہیں اور اسے مکمل کرتے ہیں۔
محبت کی دوسری شکل وہ ہے جب کسی محبت کرنے والے میں احساس ِمحبت پروان چڑھتا ہے۔ یعنی محبت کی اس دوسری قسم میں کوئی شخص دوسرے آدمی پر کوئی احسان کرے یا اس کے ساتھ حسن سلوک کرے تو جس پر احسان کیا جاتا ہے اس کے اندر اپنے محسن کے لیے تشکر و امتنان کے یہی جذبات محبت میں بدل جاتے ہیں۔ یہ ایک جذباتی ردعمل بھی ہو سکتا ہے جسے ہم محبت کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ دونوں یعنی وصول کنندہ (عاشق) اور احسان کرنے والا (محبوب) قیمتی چیز کا تبادلہ کرتے ہیں۔ یہ تقریباً ایک تحفہ وصول کرنے جیسا ہو سکتا ہے۔ اس کو ہم ایک آلہ کار یا فائدہ مند محبت کی مفید شکل کے طور پر بھی بیان کر سکتے ہیں کہ انسان اس سے محبت کرتا ہے جو اسے فائدہ دے اس پر احسان کرے۔ اگرچہ احسان کرنے والا اجنبی ہی کیوں نہ ہو۔ احسان ایک اہم زمرہ ہے کیونکہ یہ ایک انسان کا عمل ہے جو دوسرے انسان کے سلسلے میں انجام دیا جاتا ہے۔ توجہ، نیت اور عمل جو وصول کنندہ تک پہنچتا ہے وہ محسن کو محبوب شخص یا محبت کا سامان بنا دیتا ہے43۔
تیسری صورت یہ ہے کہ کسی سے اس کی بھلائی یا نیکی کی وجہ سے محبت کرنا۔ محبت کی یہ شکل خالصتاً نیکی کے لیے وقف ہے۔ یہ نیکی کی اندرونی فطرت سے محبت ہے۔ انسانوں میں اچھی خوبیاں اور خصلتیں انسان کو پسند ہیں، لیکن غزالی دو خوبیوں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں جو اس دائرہ کو تشکیل دیتی ہیں: علم اور قدرت/صلاحیت۔ اس میں ہمارا تعلق ایسے رہنماؤں اور پڑھے لکھے لوگوں سے ہوتا ہے جن کو ہماری حمایت اور تعریف حاصل ہوتی ہے چاہے ہم ان سے کبھی نہ ملے ہوں اور نہ ہی ہم ایسے لوگوں کے ہم عصر رہے ہوں۔ پھر بھی ہم ایسے لوگوں کے لیے پیار اور محبت کے گہرے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
محبت کی چوتھی شکل وہ ہے جب خوبصورتی اور اچھائی کو خود خوبصورتی اور اچھائی کی خاطر چاہا جائے۔ ہم خوبصورتی اور اچھائی کا مشاہدہ کرتے ہیں، اور پھر وہ ہمارے حواس کو بیرونی طور پر متاثر کرتی ہیں۔ اندرونی طور پر یا اثر انگیز طور پر، خوبصورتی اور اچھائی کا تجربہ دل میں جذباتی ادراک کے طور پر ہوتا ہے جس کو ایسے نتیجہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو محبت کے مترادف ہے۔ اسے یوں بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ اچھائی اور خوبصورتی محبت کا ذریعہ ہیں۔ محبت کے اعلی ترین اظہار کے طور پر جمالیات ذہن میں آتی ہے۔ غزالی لکھتے ہیں:
"اس کی ایک واضح مثال انبیاء علیہم السلام اور اہل علم سے محبت ہے، نیز بلند خصلتوں اور خوشنما کرداروں سے محبت حالانکہ یہ ممکن ہے کہ ان کے چہرے اچھے نہ ہوں جسم میں کوئی خرابی ہو پھر بھی ان سے محبت ہو تو یہ قابل فہم ہے۔ باطن کی خوبصورتی سے یہی مراد ہے“44۔
عشق کی پانچویں شکل وہ ہے جسے غزالی نے عاشق اور معشوق کے درمیان ”پوشیدہ وابستگی“ کہا ہے۔ محبت روحانی وابستگی کے اظہار کے طور پر دو روحوں کے درمیان شدت اختیار کرتی ہے۔ یہاں محبت ایک ماورائی رشتے کے ذریعے موجود ہے جہاں روحیں باہم جڑی ہوتی ہیں۔
غزالی نے محبت کی شکلوں میں سب سے زیادہ جس شکل سے بحث کی ہے وہ، وہ محبت ہے جو اپنے آپ میں خود ایک مقصود ہو۔
غزالی لکھتے ہیں:
”کسی چیز سے محبت اس کی اپنی حقیقت (جوہر) کی بنا پر ضروری ہے، نہ کہ اس حقیقت سے ماوراء کسی فائدے کی وجہ سے۔ حقیقت کا تجربہ کرنا اپنے آپ میں مقصود ہے۔ یہ گہری اور مستند محبت ہے جو بڑھنے کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ یہ حسن اور جمال سے محبت کی طرح شاندار ہے۔ خوبصورتی کی ہر چیز اس انسان کو محبوب ہے جو خوبصورتی کی حقیقت (essance) کے لیے خوبصورتی کو سمجھتا ہے۔ خوبصورتی کا ادراک لذت کی حقیقت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اور لذت کو خود اس کی حقیقت کے لیے پسند کیا جاتا ہے اس کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے نہیں45۔"
عشق کے غزالی والے مظاہر میں یہاں دو اہم باتوں کا ذکر ضروری ہے۔ سب سے پہلے، محبت کا آلہ وجود اور عمل کے درمیان ایک رکاوٹ یا وقفہ پیدا نہیں کرتا ہے۔ مسلم الٰہیات میں خدا کی ذات وجود اور عمل کے درمیان منقطع نہیں ہے، جیسا کہ عیسائیت میں خدا کے سہ رخی تصور کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ہوا، جہاں خدا اپنے وجود اور مادہ کے حوالے سے تو ایک ہی مانا جاتا ہے لیکن "اس کو ایک Oikonomia کے اندر آپریٹ کرنا ہے تو وہ مختلف ہو جاتا ہے یعنی جس طریقے سے وہ اپنے گھر، زندگی اور اپنی تخلیق کردہ دنیا کو چلاتا ہے۔ وہ اس لحاظ سے سہ رخی ہو جاتا ہے۔ (اقانیم ثلاثہ)46۔
دوسرا غزالی کی محبت پر بحث کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ محبت کو اخلاقی عمل اور کارکردگی سے جوڑتے ہیں۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اطاعت کے طریقوں میں تمام نیک اعمال (محاسن الدین) اور اعلیٰ صفات (مکارم الاخلاق) غزالی کے لفظوں میں محبت کے نتائج (ثمرۃ الحب) میں داخل ہیں47۔
اس کے پیش نظر یہ بیان یہ تاثر دے سکتا ہے کہ غزالی محبت کو عبادت کا مرکز اور بنیادی سورس قرار دے رہے ہیں۔ اور اس عام بیانیہ سے کامن ورڈ کے مصنفین کے دعووں کی سطحی تصدیق محسوس ہو سکتی ہے۔ تاہم، اس نتیجے پر کوئی صرف اسی صورت میں پہنچ سکتا ہے جب وہ دین کے لیے اپنے عہدِ اطاعت کو نظر انداز کر دے۔ غزالی کے خاکے میں رحمت کا اہم مقام ہے جو اطاعت کے ایسے رشتے کی آبیاری کرتا ہے کہ جو پھر خدا اور فرمانبردار مخلوق کے درمیان محبت پیدا کرتا ہے۔ یاد کریں کہ غزالی نے پہلے تو حیرانی سے پوچھا تھا کہ اطاعت محبت کی زائدہ کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر انہوں نے جواب دیا تھا کہ کس طرح اطاعت کے عمل سے جسم اور روح میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ کہنا مناسب ہو سکتا ہے کہ محبت اور اطاعت دونوں ہم آہنگ ہیں۔ محبت اور فرمانبرداری کے تعلق پر اس سوال کا جواب خود غزالی متعدد طریقوں سے دیتے ہیں۔
غزالی کے نزدیک کچھ علماء یہ مانتے ہیں کہ محبت ایک ہی جیسی ہستیوں اور انواع کے درمیان ممکن ہے۔ لہٰذا ان کے نزدیک خدا اور انسانوں کے درمیان (دونوں میں) مطلق فرق کی وجہ سے کوئی محبت نہیں ہو سکتی ہے48۔ تاہم یہ واضح ہے کہ غزالی اس استدلال کو قبول نہیں کرتے کیونکہ مسلم روایت میں خدا اور بندے کے درمیان محبت کے رشتہ کی دعوت اور تاکید کے کافی ثبوت موجود ہیں۔
یہاں غزالی کا سب سے زیادہ قائل کر دینے والا جواب محبت کے لیے علمیاتی سہاروں کو تخلیق کرنا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ محبت کا تصور معرفت اور ادراک سے پہلے نہیں کیا جا سکتا۔ خدا اور بندے کے رشتے میں محبت خود بخود قائم نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے کچھ اور ہوتا ہے۔ محبت سے پہلے معرفت اور ادراک کا ایک خاص مظہر ہوتا ہے۔ یہ وہی معرفت اور ادراک ہے جو سب سے پہلے اطاعت کو واجب کرتا ہے۔ اس مظہر یا معرفت کے نظام کو سمجھے بغیر محبت قابل فہم یا قابل تجربہ نہیں ہے۔ غزالی وضاحت کرتے ہیں کہ صرف انسانوں یا حساس مخلوقات کو ہی یہ ادراک حاصل ہوتا ہے49۔ غزالی کے ہاں محبت کا معرفت اور ادراک کے مظاہر سے گہرا تعلق ہے جو کہ اخلاقی فلسفہ پر اور اصول الفقہ پر ان کی سب تحریروں میں جلوہ گر ہے۔ اور اسی طرح ان کی تصنیف احیاء علوم الدین میں بھی 50۔ ان کے مطابق انسان ان چیزوں کو ترجیح دیتا اور پسند کرتا ہے جو اس کی فطرت کے مطابق ہوتی ہیں اور ان چیزوں سے نفرت کرتا ہے جو اس کے لیے ناخوشی اور تکلیف کا باعث بنتی ہیں۔
"ہر وہ ادراک جس میں لذت اور سکون ہو، دیکھنے والے کو محبوب ہے۔ اور ہر وہ ادراک جس میں درد ہوا سے اچھا نہیں لگتا“ غزالی نے لکھا51۔ یعنی آدمی ان تصورات سے لاتعلق ہوتا ہے جو نہ تو خوشی کا سبب بنتے ہیں اور نہ ہی درد کا۔
کونسا عامل کسی کو علم اور ادراک کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور کرتا ہے؟ خدا سے محبت اور اس کے نبی سے محبت پر مقدم کیا چیز ہے؟ ان تمام پر جو چیز مقدم ہے وہ سمع و اطاعت یعنی دین کی دعوت کو سننے اور سنجیدگی سے لینے کی صلاحیت ہے۔ محبت اس کلامی نظام اور دائرہ کے اندر پروان چڑھتی ہے۔
تو اب امید ہے کہ یہ بات واضح ہو جائے گی جب میں یہ کہوں کہ غزالی کا دعویٰ ہے کہ محبت اخلاقی عمل کا بیج اور ذیلی شاخ ہے۔ محبت کی جڑ بنیاد معرفت و ادراک کے اوپر رکھی گئی ہے یا یوں کہیں کہ اس کی تہ میں معرفت و ادراک اور اطاعت موجود ہے۔ اس طرح، محبت روایت کے ذریعہ فراہم کردہ علم، ادراک اور اطاعت کی ایک مخصوص شکل کی پیداوار ہے۔ لیکن اطاعت اور اخلاقی عمل خود بخود محبت کے مماثل نہیں ہیں۔ اگر مثال کے طور پر آپ محبت کا اقرار کرتے ہیں لیکن آپ کے اندر فرمانبرداری اور اخلاقی عمل غائب ہیں تو یہ محبت کا اقرار جھوٹا اور منافقانہ دعویٰ ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اطاعت کے عمل میں روایت کی پابندی کی جائے۔ غزالی کی نظر میں جو کچھ بھی اطاعت کے بیج سے نہیں اُگا وہ سفلی خواہش اور اخلاقی پستی کی پیداوار ہے۔ محبت شریعت سے رہائی کا بہانہ نہیں بنتی بلکہ اس کے برعکس ہے۔ دوسرے لفظوں میں محبت کو اخلاقی وجود میں تحمل یا اطاعت پیدا کرنی چاہیے۔ خدا کی فرمانبرداری، جسے بائیبل کی اصطلاح میں ناموس (nomos) کہا جاتا ہے، محبت کا ایک عمل ہے۔
غزالی کے یہاں محبت کے مظاہر خدا اور انسانوں کے درمیان تعلق کی وضاحت ہیں۔ ان مظاہر میں شامل یہ خیال ہے کہ خود شناسی کا تعلق معرفت نفس یا معرفت ِذات کی اس معروف تعلیم سے ہے کہ ”جو اپنے آپ کو جانتا ہے، وہ اپنے رب کو بھی جانتا ہے۔“ من عرف نفسہ فقدعرف ربہ 52۔ انسان خدا پر منحصر ہیں۔ خود شناسی کا فقدان خدا اور دنیا کے خالق سے جہالت کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا، محبت کو سمجھنے کے لیے نہ صرف خود علم ضروری ہے، بلکہ علم ہمیشہ انسانی صلاحیت اور طاقت سے جڑا ہوتا ہے۔
غزالی نے واضح طور پر کہا ہے: عشق الٰہی معرفتِ الٰہی کا ثمر ہے، محبت بکھر جاتی ہے جب خدا کی معرفت ختم ہو جائے۔ معرفت کے کمزور ہونے کے ساتھ ہی اس کی محبت بھی کمزور ہو جاتی ہے۔ خدا کے علم اور محبت کو خدا کے علم کی مضبوطی سے تقویت ملتی ہے53۔ اگر یہ کچھ بتاتا ہے تو یہ بتاتا ہے کہ محبت معرفت اور ادراک پر کتنی منحصر ہے۔ تو اس سے محبت کے اسلام اور عیسائیت کے مشترک ہونے کے سطحی دعوے کا بطلان ثابت ہوتا ہے، جب کہ حقیقت میں یہ دونوں ہی مذہبی روایات کو مجروح کرتا ہے۔ اسلامی کلامیات اور عمل میں محبت کا مقام متعدد عیسائی فرقوں کی کلامیات میں اس کے مقام سے بہت مختلف ہے۔
غزالی محبت اور خوبصورتی کے درمیان اور ساتھ ہی ساتھ خواہش اور جمالیات کے درمیان گہرا رشتہ کھینچتے ہیں۔ خوبصورتی سے محبت اپنے آپ میں خاص ہے۔ اس حد تک کہ ان کا اصرار ہے کہ یہ محبت "فطرت میں پیوست ہے“54۔ جسمانی آنکھ سے نظر آنے والی خوبصورتی اس کی بیرونی شکل ہے جبکہ "دل کی آنکھ" سے جو نظر آئے وہ اس کی اندرونی شکل ہے. مؤخر الذکر اعلیٰ اور انتہائی قابل قدر ہے۔
تجرباتی سطح پر وہ حسن و جمال جو دل کی بصیرت دیکھتی ہے اُس کا پتہ ہماری اُس محبت سے چلتا ہے جو ہمیں پیغمبروں سے، علماء و صلحاء سے اور اعلیٰ اخلاق کے حاملین سے ہوتی ہے۔ جب ہم کسی نثر پارے، کسی نظم، کسی تصویر یا کسی عمارت کے حسن کی تعریف کرتے ہیں تو غزالی بتاتے ہیں، کہ ہماری مدح و ثنا اس حقیقت کی وجہ سے ہوتی ہے کہ آرٹ کے یہ نمونے ہمارے سامنے اپنے حسن کی داخلی خصوصیات آشکارا کر دیتے ہیں۔ اور آرٹ کے ان نمونوں کا حسن دیکھنے والے کے سامنے اس لیے ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ سب ”علم و صلاحیت کی جستجو“ سے بہت قریب سے جڑے ہوتے ہیں۔ جس کا ان نمونوں کے خالق اور مصنف کو وافر حصہ ملا ہوتا ہے۔ لہٰذا جب بھی کوئی معلوم حسن و جمال میں رفیع و کامل ہو گا تو اس کا علم بھی کامل اور خوب رو ہو گا۔ اسی طرح کوئی قوت اپنے رتبہ میں شاندار اور عظیم ہو گی تو اس قوت کا مظاہرہ جس سے ہو گا وہ بھی مکرم اور باوقار ہو گا55۔
جب لوگ کسی سے پیار کرتے ہیں اور پورے خلوصِ دل سے تعریف کرتے ہیں تو دراصل وہ ممدوح کی اچھی صفات کی تعریف کرتے ہیں۔ امام غزالی ایک طرف تو حسن و جمال اور محبت کی شناخت کے لیے علم اور قدرت کو ضروری گردانتے ہیں دوسری طرف برے کاموں اور فساد انگیز چیزوں سے اجتناب کو بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔ یہ دونوں زاویے ایک دوسرے کا جزء ہیں الگ نہیں۔ الہام کا ایک مرجع خدا تعالیٰ، اس کے پیغمبر، اس کی نازل کردہ کتابیں اس کے احکامات اور اس کے فرشتے ہیں۔ دوسرا منبع لوگوں کا اپنے آپ کو اور دوسروں کو خدا کی رہنمائی کے مطابق ڈھالنا ہے۔ اپنے نفس اور دوسروں کو شرع کا پابند بنانا بُرے اعمال سے اپنے آپ کو روکنا اور نظم و ضبط و ڈسپلن کا مظاہرہ کرنا ہے 56۔ جو لوگ یہ عالی صفات حاصل کر لیتے ہیں وہ پیغمبروں سے محبت رکھتے، علماء کا احترام کرتے اور عدل کرنے والے اور سخی لوگوں کی مدح کرتے ہیں۔ خاص کر ان حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں کی جو ان معیاروں پر پورے اترتے ہیں۔ تاہم علم، قوت اور اعلیٰ مدارج کا حصول انسان میں محدود ہوتا ہے اور خدا کی ذات اِن صفات سے اکمل انداز میں متصف ہوتی ہے، انسان کا اس میں خدا تعالیٰ کا کوئی مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ صفات اس کے اندر کامل تر، عمیق تر اور بے نظیر معیار پر ہوتی ہیں57۔
_________________
حواشی و تعلیقات
(25) Shehadi, Ghazali's Unique and Unknowable God, 33.
(26) Ibid. (Franz Rosenzweig in The Star of Redemption (Notre Dame: Notre Dame Press, 1985), 238-239 and adherents of immanentism in dominant modes of Jewish thought, often critique Muslim theology for the aloofness of the Muslim God. Rosenzweig, for example, found it unthinkable that God did not have a "need" for humans in Islam).
فرانزروزینزویگ اوریہودی فکرمیں خداکی حلولیت کے دوسرے قائلین اکثرمسلم علم کلام پر یوں تنقیدکرتے ہیں کہ اس میں خدااتنابے نیازہے کہ اس کوانسانوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
(27) Ibid
(28) ابراہیم موسیٰ، غزالی اور تخیل کی شعریات دیکھیں۔
Moosa, Ghazali and the Poetics of Imagination.
(29) شہادی، غزالی کا منفرد اور نامعلوم خدا، 62۔
(30) الغزالی، میزان العمل، 164۔
(31) ابو حامد الغزالی، "کتاب شرح عجائب القلب"، 3:14 خاص طور پر۔ fn 4۔
(32) Moosa, Allegory of the Rule (Hukm): Law as Simulacrum in Islam?.
(33) الغزالی، "کتاب المحبۃوالشوق و الانس و الرضا"ص 1. 34 الغزالی ارمسبی، محبت، آرزو، قربت اور قناعت، 1. 35۔
(34) Al-Ghazali and Ormsby, Love, Longing, Intimacy and Contentment,1
(35) Ibid
(36) الغزالی،کتاب المحبۃ 259:4
(37) Ibid 4,:257
(38) Ibid-38 4:258.
(39) Ibid-39، 4:259.
(40) Ibid
(41) الغزالی اور ارمسبی محبت، آرزو، قربت اور قناعت 12-13۔ میں نے ارمسبی کا ترجمہ بھی کچھ ترمیم کے ساتھ استعمال کیا ہے۔
(42) الغزالی،کتاب المحبۃوالشوق و الانس و الرضا4:260؛ الغزالی اور ارمسبی محبت، آرزو، قربت اور قناعت، 13۔
(43) Lingis- 11;subjectification, اگمبین، ایک اپریٹس کیا ہے؟
(44) الغزالی، کتاب المحبۃوالشوق 4:265؛ الغزالی اور ارمسبی محبت، آرزو، قربت اور قناعت، 30۔Al-Ghazali and Ormsby Love, Longing) Intimacy and Contentment)
(45) الغزالی، کتاب المحبۃوالشوق 4:261؛ الغزالی اور ارمسبی محبت، آرزو، قربت اور قناعت، 16۔
(46) Agamben, What Is an Apparatus?, 9-10.
(47) الغزالی،کتاب المحبۃ 4:295; Al-Ghazali and Ormsby Love, Longing, Intimacy and
(48) Contentment, 130. ۔ایضاص:4:257
(49) ایضاص:4:259
(50) ایضا ص167-178.
(51) ایضا ص 4:259
(52) ایضا ص 4:263.
(53) ایضا
(54) ایضا ص 4:265.
(55) ایضا
(56) ایضا ص 4:266.
(57) ایضا ص 4:265