سانحہ کربلا اور اس کا درست تاریخی تناظر

محمد عمار خان ناصر

سانحہ کربلا میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے موقف اور کردار سے متعلق بنیادی طور پر تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں:

پہلا نقطہ نظر یہ ہے کہ سیدنا حسین کو دین کی اساسات کے مٹا دیے جانے جیسی صورت حال کا سامنا تھا جو ان سے، ایک دینی فریضے کے طور پر، جہاد کا تقاضا کر رہی تھی۔ انھوں نے، اور صرف انھوں نے، عزیمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اس دینی تقاضے پر لبیک کہا اور اپنی اور اپنے خانوادے کی قربانی پیش کر دی۔ باقی تمام امت، بشمول اکابر صحابہ، پست ہمتی، رخصت اور مصلحت وغیرہ کے تحت ان کا ساتھ نہ دے سکی اور یوں ایک عظیم کوتاہی کی مرتکب ہوئی۔

یہ اصولاً اہل تشیع کا موقف ہے اور تعبیرات والفاظ کی کسی قدر احتیاط کے ساتھ ہمارے ہاں مولانا مودودی وغیرہ نے اسی کی ترجمانی کی ہے۔ چنانچہ مولانا سے منسوب ایک روایت کے مطابق ان سے پوچھا گیا کہ جب جمہور صحابہ نے خروج نہیں کیا تو سیدنا حسین نے کیوں کیا؟ مولانا نے فرمایا کہ یہ غلط سوال ہے۔ درست سوال یہ ہے کہ جب سیدنا حسین نے خروج کیا تو باقی صحابہ نے کیوں ان کا ساتھ نہیں دیا؟

ہمارے نزدیک یہ موقف واقعاتی اعتبار سے بھی غلط ہے اور اس میں جمہور صحابہ کے نقطہ نظر کی بھی بالکل غلط توجیہ کی گئی ہے، بلکہ سرے سے اس کو سمجھنے ہی کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ اہل تشیع کے تاریخی بیانیے میں تو بالکل فٹ بیٹھتا ہے، لیکن اہل سنت کے مجموعی موقف اور مزاج سے ہرگز مناسبت نہیں رکھتا۔

دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ سیدنا حسین نے خروج کا راستہ اختیار کر کے ایک غلط اقدام کیا جو دین وشریعت کی ہدایات کے برعکس تھا اور نتیجے کے اعتبار سے امت میں خوں ریزی، فساد اور تفرقے کو بڑھانے کا موجب بنا۔ اسی وجہ سے جمہور صحابہ نے ان کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ انھیں روکنے کی کوشش کی۔

اس موقف کے قائل بعض حضرات سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو اصولاً ان شرعی وعیدات کا محل قرار دیتے ہیں جو احادیث میں خروج کے حوالے سے بیان ہوئی ہیں اور صرف ان کی شخصیت اور نسبت کا لحاظ رکھتے ہوئے ایک “اجتہادی” گنجائش تسلیم کرتے ہیں، جبکہ بعض دوسرے حضرات کے ہاں اس پہلو کو بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔

ہمارے نزدیک یہ تجزیہ بھی اس دور کی تاریخی صورت حال کے یک رخے مطالعے پر مبنی ہے اور اس میں شرعی اصولوں کا بھی زیادہ گہرا فہم نہیں پایا جاتا۔ اس کا بنیادی مفروضہ یزید کے اقتدار کو بالکل برحق اور اختلاف ونزاع سے ماورا اور شرعی وسیاسی اعتبار سے گویا طے شدہ ماننا ہے، جبکہ سیدنا حسین کے موقف کی تکییف کرتے ہوئے صورت حال کی پیچیدگی اور پس منظر کے واقعات کو اس موقف میں کلی طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ فکری محرک کے لحاظ سے اس موقف میں اہل تشیع کےموقف کا رد عمل نمایاں ہے، اور جمہور صحابہ کے موقف کی بنیادوں کو پورا وزن دیتے ہوئے معاملے کے ان پہلووں کو وقعت نہیں دی گئی جو سیدنا حسین کے موقف اور اس کی بنیاد کی تفہیم میں مدد دیتے ہیں۔

تیسرے موقف کی وضاحت کے لیے، جو ہماری رائے میں مبنی بر اعتدال اور درست موقف ہے، ضروری ہے کہ اس معاملے کے تینوں فریقوں کی پوزیشن کو ان کے اپنے زاویہ نظر سے سمجھا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ کس کی بات میں کتنا وزن تھا اور اس پورے تناظر میں، سیدنا حسین کے اقدام کی تکییف کیا بنتی ہے ۔ یہ تین فریق حسب ذیل ہیں:

جمہور صحابہ وتابعین، جو بنو امیہ کے خلاف خروج کے حامی نہیں تھے،

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ، جنھوں نے خروج کا فیصلہ کیا،

اور بنو امیہ، جو اس وقت حکمران تھے۔

آئیے، اسی ترتیب سے ان تینوں کی پوزیشن کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جمہور صحابہ وتابعین کا موقف

جمہور صحابہ وتابعین نے سیدنا حسین کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ انھیں اس سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ ان کی پوزیشن کسی خوف یا مداہنت یا مصلحت کوشی پر نہیں، بلکہ سیاسی صورت حال کے ایک بڑے واضح اور گہرے ادراک پر مبنی تھی۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ امت مسلمہ یعنی ’الجماعۃ’ کی سیاسی قیادت کے لیے قریش کے دو بڑے خاندانوں یعنی بنو ہاشم اور بنو امیہ میں جو کشمکش سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شروع ہوئی تھی، اس میں اس وقت تک (یعنی سیدنا معاویہ کی وفات کے بعد تک) کی پیش رفت میں سیاسی طاقت کا پلڑا بنو امیہ کے حق میں فیصلہ کن انداز میں جھک چکا ہے۔ الجماعۃ کی قیادت اور امت کی اجتماعی وحدت اور استحکام کے لیے حکمران طبقے میں جو سیاسی عصبیت اور انتظامی صلاحیت بنیادی شرط کی حیثیت رکھتی ہے، وہ بنو امیہ نہ صرف بہم پہنچا چکے ہیں بلکہ عملاً اس کا ثبوت بھی دے چکے ہیں اور سیدنا حسن کا، سیدنا معاویہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو جانا اس پر آخری مہر تصدیق ثبت کر چکا ہے۔ یہاں سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کے طرز سیاست کا تقابل کسی بھی رنگ میں زیر بحث نہیں اور نہ دونوں کو میسر موافق یا مخالف عوامل کا تجزیہ مقصود ہے۔ مقصد اس واقعی صورت حال کی طرف متوجہ کرنا ہے جو اس سارے تاریخی عمل کے نتیجے میں بالفعل پیدا ہو چکی تھی۔ مزید  یہ کہ سیدنا عثمان کی شہادت کے بعد اٹھنے والے دور فتن کے اثرات ابھی تک مسلمان جماعت کے ذہنوں اور نفسیات میں تازہ تھے۔ ہماری رائے میں یہ دو بنیادی عوامل (یعنی بنو امیہ کو حاصل سیاسی عصبیت اور خروج کی صورت میں امت میں دوبارہ افتراق کا خوف) تھے جن کی روشنی میں جمہور صحابہ وتابعین نے ایک بڑا واضح اور دوٹوک سیاسی موقف اختیار کیا اور بنو امیہ کے طرز سیاست سے متعلق ہر قسم کے تحفظات کے باجود سیاسی اصولوں، شرعی مصالح اور امت کے اجتماعی مفاد کی بنیاد پر بنو امیہ کے اقتدار کو چیلنج کرنے کے فیصلے سے خود کو بالکل الگ رکھا۔

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا موقف

سیدنا حسین اس تنازع کے اہم ترین فریق ہیں اور دراصل انھی کا موقف ہے جس کی درست تفہیم کے لیے حد سے زیادہ احتیاط اور باریک ترین نزاکتوں کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے جن پر توجہ نہ دینے سے ان کے موقف کی تکییف میں عموماً افراط یا تفریط کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

اس ضمن میں سب سے اہم پہلو جسے کسی بھی وجہ سے، عموماً نظرانداز کیا جاتا ہے، یہ ہے کہ ان کے موقف کا باعث استخلاف یزید کے وقت یا سیدنا معاویہ کی وفات کے بعد پیدا ہونے والی، صورت حال کی کوئی تبدیلی (مثلاً یزید کا فسق وفجور یا غیرشرعی انداز حکومت وغیرہ) نہیں تھی، بلکہ وہ بہت پیچھے سے چلی آنے والی ایک غیر حل شدہ کشاکش کا تسلسل تھا۔ اس کا سبب وقتی نوعیت کی کسی وجہ کو قرار دینا تاریخی لحاظ سے بھی ان کے موقف کی غلط ترجمانی ہے اور ازروئے عقل ومنطق بھی، ان کے موقف کا وزن واضح کرنے کے بجائے اسے کمزور بناتا ہے، خاص طور پر اہل سنت کے زاویہ نظر سے جمہور صحابہ کی اس پہلو سے بے خبری یا بے توجہی فرض کرنا بہت مشکل ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں کی سیاسی قیادت کا داعیہ اور خواہش رکھنے والوں میں جہاں مہاجرین کے علاوہ انصار شامل تھے، وہاں خود مہاجرین میں اہل بیت بھی اپنے لیے سیاست واقتدار میں ایک خصوصی کردار اور استحقاق کا تصور رکھتے تھے۔ (سردست اس بحث سے صرف نظر کر لیجیے کہ وہ اسے شرعی طور پر کوئی منصوص حق سمجھتے تھے یا اس کی بنیاد اہلیت وصلاحیت، اسلام کے لیے قربانیوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت جیسے اوصاف پر تھی)۔ خلفائے ثلاثہ، اور خاص طور پر خلیفہ اول وثانی کے مقابلے میں، اہل بیت نے اپنا حق نہیں جتلایا، بلکہ ان کے شخصی احترام اور مقام ومرتبہ کے اعتراف کے ساتھ ہر اعتبار سے ان کی موافقت ومعاونت کا طریقہ اختیار کیا، لیکن سیدنا عثمان کے بعد امیر معاویہ کے مقابلے میں سیدنا علی کے سیاسی موقف میں اس کا بالکل واضح اظہار ملتا ہے، اور وہ خاص طور پر عہد نبوی میں اسلام اور کفر کی کشمکش میں بنو امیہ کے تاریخی کردار کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے مقابلے میں اپنے ’احق بالامر’ (یعنی حکومت کا زیادہ حق دار) ہونے کا بار بار حوالہ دیتے ہیں۔

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اس کشمکش کے سارے مرحلے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے اور گو سیدنا علی اور سیدنا حسن کی موجودگی میں وہ کوئی بنیادی کردار ادا نہیں کر سکتے تھے، لیکن بنو امیہ کے اقتدار سے متعلق ان کی بے لچک پوزیشن ہر ہر مرحلے پر تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے۔ یہاں تک کہ سیدنا معاویہ کے مقابلے میں خلافت سے دستبرداری کے فیصلے پر بھی انھوں نے سیدنا حسن کے سامنے سخت رد عمل  ظاہر کیا تھا اور سیدنا حسن نے اس فیصلے کو ان کی ناراضی مول لے کر بلکہ بڑے بھائی کی حیثیت سے انھیں سخت سست کہہ کر عملی جامہ پہنایا تھا۔

اس کے ساتھ اس مزید پیش رفت کو سامنے رکھیے جو استخلاف یزید کی صورت میں ہوئی۔ سیدنا حسن کے ساتھ معاہدہ صلح میں واضح طور پر فریقین میں یہ طے پایا تھا کہ سیدنا معاویہ کے حق میں دستبرداری صرف ان کی شخصیت تک اور ان کی زندگی تک محدود ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو ازسرنو یہ طے کرنے کا اختیار ہوگا کہ وہ کس کو اپنا حکمران بنانا چاہتے ہیں۔ تاہم سیدنا معاویہ نے آخری عمر میں، یزید کو ولی عہد مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا محرک پدری محبت کو مانا جائے، یا خاندانی اقتدار کا تسلسل قائم رکھنے کی خواہش کو یا امت کی وحدت کو محفوظ رکھنے کے جذبے کو یا ان تینوں کو، اہل بیت کے نقطہ نظر سے یہ بہرحال معاہدے سے انحراف تھا اور اس کے لیے پیدا کیے جانے والے سیاسی اتفاق رائے کو، امت کے مستند اتفاق رائے کے طور پر تسلیم کرنا ان کے لیے ناممکن تھا۔ چنانچہ چند دیگر سرکردہ افراد کے علاوہ سیدنا حسین نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا اور یزید کی بیعت نہیں کی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اس سارے عمل کے شرعی، اخلاقی یا قانونی جواز کو قبول نہیں کرتے تھے۔

یہ وہ پس منظر ہے جس میں ہمارے نزدیک سیدنا حسین کے اس طرز فکر کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کا اظہار ان کے ہاں سیدنا معاویہ کی وفات کے بعد ہوتا ہے۔ ان کے زاویہ نظر سے ان کا سامنا ایک ایسی حکومت سے تھا جو سیاسی معاہدے سے انحراف کے بعد جبر کے زور پر قائم تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ حکومت واقتدار کی شرعی اخلاقیات کی بھی پابند نہیں تھی۔ مزید یہ کہ حکومت کی طرف سے سیدنا حسین پر مسلسل دباو ڈالا جا رہا تھا کہ وہ یزید کی بیعت کر لیں، ورنہ داروگیر کے لیے تیار رہیں۔ گویا انھیں اپنے سیاسی اختلاف کو برقرار رکھتے ہوئے پرسکون زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ اس سب کے ساتھ جب سیدنا حسین کو اہل کوفہ کی طرف سے مسلسل اور پراصرار دعوت ملنے لگی کہ وہ وہاں جا کر اپنی حکومت قائم کر لیں تو ان کا اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جانا عین فطری تھا۔ معلوم نہیں کہ حکومت کی طرف سے بیعت کا دباو نہ ڈالے جانے پر یا اہل کوفہ کی طرف سے دعوت نہ ملنے پر وہ کیا روش اختیار کرتے، لیکن تاریخی واقعہ یہی ہے کہ انھوں نے خروج کا فیصلہ اسی تناظر میں کیا۔ گویا حالات وواقعات کی عملی صورت نے ان کے برسوں سے چلے آنے والے سیاسی موقف کے ساتھ مل کر وہ ماحول پیدا کر دیا جس میں انھیں ایک طرح سے حالات کے جبر کے تحت یہ قدم اٹھانا پڑا اور اس کے نتیجے میں وہ سانحہ رونما ہو گیا جو آج تک امت کی فکر، نفسیات اور جذبات کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔

اموی حکومت کی پوزیشن

حکمران اموی خاندان اس بحث کا تیسرا بنیادی فریق ہے اور اس کی پوزیشن پر بات کیے بغیر، بات مکمل نہیں ہو سکتی۔ہمارے نزدیک زیر بحث صورت حال میں ان کی بنیادی غلطیاں دو ہیں: ایک، سیدنا حسین کی نسبت کے احترام کو ملحوظ نہ رکھنا، اور دوسرے، سیاسی لچک اور حکمت کو بالائے طاق رکھ دینا جو اس سے پہلے سیدنا معاویہ کے طرز حکومت کا طرہ امتیاز تصور کی جاتی تھی۔

حق حکومت سے متعلق اصولی ونظریاتی بحثوں اور اقتدار کی کشمکش میں گزشتہ تاریخی مراحل سے صرف نظر کر لیا جائے تو بطور ایک واقعی حقیقت کے، یہ بات ناقابل انکار ہے کہ بنو امیہ مضبوط سیاسی عصبیت کو منظم کر لینے کی بدولت اقتدار کی کشمکش میں سب سے طاقتور فریق بن چکے تھے اور سیدنا معاویہ نے اپنے طویل دور اقتدار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام ممکنہ مخالفین کو عملاً میدان سے باہر کر دیا تھا۔ یزید کی ولی عہدی کے لیے بھی سیاسی عملیت کے اصولوں کے تحت پورا جواز نکلتا ہے، بلکہ ابن خلدون جیسا مورخ اس سارے معاملے کو بجا طور پر سیاسی عصبیت کی تشکیل وحفاظت ہی کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ مضبوط سیاسی عصبیت رکھنے والا حکمران طبقہ خود امت کی ضرورت تھا، اس لیے استخلاف یزید میں سیدنا معاویہ کی پدری محبت کو کارفرما مانتے ہوئے بھی اسے اجتماعی سیاسی مصلحت سے ہم آہنگ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اتنے بڑے حجم کی سلطنت میں سیاسی استحکام کا تسلسل قائم رکھنے کی کوئی اور صورت اس تمدن میں، ملوکیت کے علاوہ متصور نہیں تھی اور خلافت سے ملوکیت کی طرف انتقال اصلاً کسی سیاسی انحراف کا ظہور نہیں تھا (جیسا کہ مولانا مودودی کا انتہائی کمزور اور خطیبانہ قسم کا تجزیہ ہے) بلکہ اس دور کی تمدنی وسیاسی حرکیات کا رو بہ عمل ہونا تھا اور جلد یا بدیر حالات کو اسی رخ پر جانا تھا۔ سیدنا حسن کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی پر بھی ایک تاویل بنو امیہ کے حق میں کی جا سکتی ہے کہ وہ اس معاہدے کو سیدنا حسن کی ذات تک محدود سمجھتے تھے، اور ان کی وفات کے بعد ایک فریق کے موجود نہ رہنے کی وجہ سے معاہدے کو کالعدم تصور کرتے تھے۔

ان سب باتوں کا اپنی جگہ  وزن ہے، لیکن یہ پہلو کسی حال میں نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں تھا کہ مدمقابل فریق کون ہے اور اس کی شخصی وجاہت اور خاندانی نسبت کس درجے کی ہے۔ سیدنا حسین کو بیعت کے لیے مجبور کرنے کی سیاسی طور پر کوئی ضرورت نہیں تھی، اور ان کی سرگرمیوں کو محدود کر دینا اور اہل کوفہ کے ساتھ روابط پر نظر رکھنا کافی تھا۔ یہ محض حکمران خاندان کی نفسیاتی کمزوری کا اظہار تھا کہ سیدنا حسین کی شخصیت سے خوف محسوس کیا گیا اور انھیں عدم تحفظ کا احساس دلا کر ایک طرح سے مجبور کر دیا گیا کہ وہ لازمی طور پر کسی غیر معمولی اقدام کے بارے میں سوچیں۔ پھر کوفے کی صورت حال واضح ہونے پر جب انھوں نے اپنے اقدام سے رجوع کا ارادہ کر لیا تو اب تو ایک فی صد بھی اس سخت گیر پالیسی کا جواز نہیں تھا جو موقع پر موجود کارپردازان نے اختیار کی اور سنگ دلی اور بے رحمی کے اس آخری درجے کا اظہار کر دیا جو انسانی تصور میں آ سکتی ہے۔ تف ہے ان بدبختوں کی نام نہاد طاقت پر، اور کروڑوں سلام خانوادہ نبوت کی ناتوانی پر جس نے اپنے سیاسی موقف میں جائز حد تک لچک دکھانے کے بعد شخصی وخاندانی تذلیل قبول نہیں کی اور اپنی آبرو پر اپنی جانیں قربان کر دینے کو ترجیح دی۔

اللھم صل علی محمد النبی الامی وعلی آلہ واھل بیتہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔



مذکورہ تحریر پر جناب ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب نے جو اضافہ کیا، وہ انھی کے الفاظ میں یہاں پیش کیا جا رہا ہے:

“ایک توضیح اور دو تحفظات کے ساتھ اتفاق ہے۔

توضیح یہ ہے کہ خلافت، ملوکیت اور جمہوریت کی بحث الگ تفصیل کی متقاضی ہے اور اس سیاق میں اس پر بحث غیر متعلق تفاصیل میں جانے کا خدشہ ہے۔

تحفظ یہ ہے کہ یزید سے ایک تیسری غلطی بھی ہوئی جو آپ کی ذکر کردہ دونوں غلطیوں پر بھاری تھی ۔ جس طرح کا وحشیانہ سلوک اس کی فوج نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیا، وہ حکومت کے کسی عام مخالف ، حتی کہ باغی، کے ساتھ بھی ناجائز ہوتا (اور عام قواعد کی رو سے اسے سیاسۃ ظالمۃ ہی کہا جاتا) لیکن بالخصوص جب یہ سارا کچھ رسول اللہ ﷺ کے جگر گوشے اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہوا، تو یہ ظلم کی بدترین مثال بن گئی۔ یزید کی فوج یزید کی شہ کے بغیر اس حد تک نہیں جاسکتی تھی (ان السفیہ اذا لم یُنہَ مامور)، اور اگر گئی تو اس کے بعد اس کے خلاف جس طرح کی کارروائی ضروری تھی، اس کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا، بلکہ ان کو ایک طرح کی blanket immunity حاصل رہی۔ اسی لیے وہ ردعمل پیدا ہوا جس کے نتیجے میں یزید سمیت بعد کے خلفاے بنی امیہ کبھی چین سے بیٹھ نہیں سکے اور آج تک امت اس ظلم عظیم کے نتائج بھگت رہی ہے۔

یہیں سے دوسرے تحفظ پر بات آسان ہوجاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ نے ما شاء اللہ بہت عمدہ تجزیہ کیا ہے جس سے تقریباً مکمل اتفاق کیا ہے، لیکن یہ تجزیہ ادھورا ہے جب تک اس کے نتیجے میں یہ ذکر نہ کیا جائے کہ کربلا میں جو کچھ ہوا، وہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ ظلم عظیم تھا اور اس ظلم کےلیے صرف مباشرین ہی تنہا ذمہ دار نہیں تھے بلکہ superior responsibility کے اصول کے تحت یزید بھی کلی طور پر ذمہ دار تھا۔

آپ شاید یہ کہیں کہ یہ تو قانونی مباحث ہیں اور صرف تاریخی تجزیہ کرنا چاہتے تھے، لیکن اس موضوع کا ہر تاریخی تجزیہ بالآخر قانونی نتائج پر ہی منتج ہوتا ہے اور یہاں بھی کمنٹس میں دیکھیے تو سبھی کو ان قانونی نتائج ہی کی فکر ہے۔و اللہ اعلم۔

اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین اجر دے۔ آمین”

سیرت و تاریخ

(ستمبر و اکتوبر ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter