عمران خان صاحب کی نئی حکومت میں احمدی ماہرِاقتصادیات عاطف میاں کے اقتصادی مشاورتی کونسل کے مشیر مقرر کیے جانے اور پھر مسلم مذہبی حلقوں کی طرف سے اس پر ردِّعمل کے نتیجے میں مذکورہ عہدے سے ہٹائے جانے کے تناظر میں علمی حلقوں میں احمدی مسئلے کے حوالے سے ایک دفعہ پھر بحث شروع ہو گئی ہے۔اس بحث سے جڑے اہم سوال یہ ہیں:
- احمدیوں سے عام اقلیتوں سے مختلف رویہ اپنایا جانا چاہیے یا عام اقلیتوں جیسا؟ اسی سوال سے جڑا ایک اور سوال یہ ہے کہ اقلیت کی حیثیت سےاحمدیوں کو اہم اعلی عہدوں پر فائز کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟
- حمدی خود کو غیر مسلم اقلیت نہ مان کر آئین سےبغاوت کر رہے ہیں یا نہیں؟
- آئینی اعتبار سے کسی کے مذہب کا فیصلہ کیا بھی جا سکتا ہے یا نہیں؟
- کیا احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوا لینا کافی تھا یا ان کے حوالے سے مزید سخت آئینی اقدامات کی ضرورت ہے؟
ذیل میں ہم ہر سوال سے متعلق پائے جانے والے نمایاں نقطہ ہائے نظر (بشمول عمومی مسلم و قادیانی موقف) کا خلاصہ عرض کرنے کے بعد ان پر اپنی کچھ گزارشات پیش کریں گے۔ ان سوالات پر اپنی گزارشات کے بعد ہم ایک ایسے مسئلے پر مختصر گفتگو کریں گے، جس کی طرف احمدی اور مسلمان دونوں ہی بالعموم توجہ نہیں دیتے:
پہلے سوال سے متعلق صورت ِ حال یہ ہے کہ پاکستانی سماج اور علما کی اکثریت اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ احمدیوں کے ساتھ عام اقلیتوں جیساسلوک روا رکھا جائے۔اس کا عمومی موقف یہ ہے کہ دیگر اقلیتیں خود کو غیر مسلم تسلیم کرتی ہیں ، جس کی بنا پر ان کے ساتھ رویے میں سماج اور علما کی اس اکثریت کا رویہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔مثلاً کسی ہندو کے چیف جسٹس آف پاکستان بننے پر کبھی اس طرح کا ردعمل سامنے نہیں آیا، جیسا عاطف میاں کے اقتصادی مشاورتی کونسل کے مشیر بننے پر آیا! اس موقف کے حاملین کا خیال ہے کہ احمدی غدار ِ دین و طن وآئین ہیں، ان سے عام اقلیتوں جیسا سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے اسلام ، مسلمانوں
اور پاکستانیوں کو پہلے بھی نقصان پہنچایا اور آیندہ بھی پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں؛ مرزا قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کر کے اسلام سے غداری کی؛ رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچائی ،یہی کا م اس کے پیروکار اسے نبی مان کر کررہے ہیں؛وہ اپنے ارادوں کی تکمیل کے لیے مختلف طریقوں سے اہم عہدوں پر فائز ہو کر احمدیت پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔وہ پاکستان میں وہی کردار حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو یہودیوں نے امریکہ میں حاصل کر رکھا ہے۔ اس طرح کے کوئی عزائم و جرائم دیگر اقلیتوں کے حوالے سے محسوس و مشاہد نہیں ،لہذا دینی و قومی ہر دو اعتبار سے احمدیوں کے ساتھ دیگر اقلیتوں سے مختلف سلوک ہونا چاہیے۔ دوسری طرف بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ احمدی بھی چونکہ ایک اقلیت ہیں، لہٰذا ان کے ساتھ عام اقلیتوں جیسا معاملہ ہونا چاہیے۔آئین اس حوالے سے اقلیتوں میں کوئی تفریق نہیں کرتا کہ ان کا تعلق کس مذہب سے ہے! وہ بس تمام اقلیتوں کے حقوق اقلیتوں کے حقوق کی حیثیت سے متعین کرتا ہے۔ زیرِ بحث تناظر میں عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کونسل کا مشیر بنائے جانے میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں ہے۔چنانچہ اس حوالے سے مسلم مذہبی طبقوں کا ردِّعمل اور حکومت پر دباؤ بے جا ، غیر آئینی اور پاکستان میں مذہبی طبقوں کی جانب سے اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کی کوششوں کا عکاس ہے، جس سے عالمی برادری میں اقلیتوں سے سلوک کے ضمن میں پاکستان کا پہلے سے خراب شدہ امیج اور خراب ہو گا۔ اس حوالے سے بعض لوگوں کی طرف سے یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ قادیانی خود کو غیر مسلم مانیں یا نہ مانیں انھیں اقلیت ہی سمجھا جانا چاہیے، کیوں کہ آئین نے انھیں اقلیت قرار دیا، اور آئین نے بطور خاص ان کو اقلیت قرار ہی اس لیے دیا کہ وہ خود کو مسلم کہتے ہیں ، ورنہ تو آئینی طور پر اقلیت قرار دینے کی ضرورت ہی نہ تھی کہ آئین نے باقی اقلیتوں کے بارے میں ایسا کچھ بھی قرار نہیں دیا۔
جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے ، اس سے متعلق بھی اکثریت کی رائے یہی ہے کہ احمدی خود کو غیر مسلم اقلیت نہ مان کر آئین سے بغاوت کر رہے ہیں۔ جب کوئی گروہ آئین کو نہیں مانتا، اور دھڑلے سے اس کے مخالف پروپگنڈہ کرتا ہے، اسے کیسے ریاست اور آئین کا وفادار قرار دیا جا سکتا ہے! دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ احمدی خود کو مسلمان ظاہر کر کے آئین سے بغاوت نہیں کر رہے، بلکہ آئین کی اس شق سے اختلاف کر رہے ہیں، جو احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیتی ہے ،اور آئین کی کسی شق سے اختلاف کرنا اور اس میں ترمیم کی کوشش کرنا بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا۔
تیسرے سوال سے متعلق بھی اکثریت کی رائے مثبت ہے ۔ اس کا موقف ہے کہ اصولی اعتبار سے ظاہر ی عقائد و اعمال کی روشنی میں اہلِ علم یہ طے کر سکتے ہیں کہ کوئی مخصوص شخص یا گروہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو گیا ہے۔ احمدیوں سے متعلق مسلم اہلِ علم نے محکم دلائل سے ثابت کیا تھا کہ احمدی اسلام کے دائرے سے نکل چکے ہیں۔ جب کہ دوسرا موقف یہ ہے کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے پیچھے کوئی مضبوط مذہبی بنیاد نہیں ہے،بات فقط اتنی ہے کہ بھٹو حکومت نے ملاؤں کے دباؤ میں آکر یہ اقدام کیا۔
آخر ی سوال کے حوالے سے مسلم مذہبی حلقوں کے کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ احمدیوں کو صرف غیر مسلم قرار دلوانا کافی نہیں تھا۔ یہ اس وقت کے حالات میں ایک کمپرومائز تھا ، جس پر علما زیادہ بڑے مفاسد سے بچنے کی حکمتِ عملی کے تحت رضا مند ہو گئے تھے۔ ان سے متعلق صحیح بات یہ ہے کہ یہ مرتد ہیں ، انھیں توبہ کر کے اسلام میں واپس آنے کا کہا جائے اور واپس نہ آئیں تو قتل کر دیا جائے۔ دوسری رائے جس میں مذکورہ سوال کے تناظر میں نرمی اختیار کی گئی ہے ، یہ ہے کہ انھیں آئینی طور پر دیگر اقلیتوں سے الگ قرار دلوا کر کلیدی عہدوں وغیرہ پر فائز نہ کرنے سے متعلق قانون سازی کی جائے ۔
اب آتے ہیں ان سوالات پر بحث کے ضمن میں ہمارے زاویۂ نظر کی طرف :
پہلے سوال سے متعلق ہماری گزارش یہ ہے کہ زمینی حقائق کے مطابق احمدیوں سے کلیدی عہدوں کے حوالے سے عام اقلیتوں جیسا معاملہ روا رکھنا محال ہے۔یہ دلیل کہ آئین نے انھیں اقلیت قرار ہی اس لیے دیا کہ وہ خود کو غیر مسلم نہیں مانتے، لہٰذا وہ خود کو جو بھی کہیں ، دوسری اقلیتوں جیسے ہی سمجھے جانے چاہییں ، الٹا اس نظریے کے حق میں جاتی ہے ، کہ ان سے دیگر اقلیتوں جیسا سلوک نہیں کیا جا سکتا، اور وہ اس طرح کہ قادیانیوں کا چونکہ معاملہ ہی دیگر اقلیتوں سے مختلف ہے ، اس لیے ان کو دیگر اقلیتوں کی طرح سمجھا بھی نہیں جانا چاہیے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جس طرح انھیں غیر مسلم قرار دلوانے کا موجب یہ بنا کہ ان کے حوالے سے علما اور عوام کی اکثریت نے اس پر صاد کیا، اسی طرح آج علما اور عوام کی اکثریت کا فیصلہ یہی ہے کہ انھیں اعلی عہدوں پر فائز نہ کیا جائے۔(بعض لوگ اس حوالے سے موقف اختیار کرتے ہیں کہ آپ علما اور عوام کی اکثریت کی بات کرتے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے نزدیک شرعاً ایسی کوئی پابندی نہیں ہے، یہ دلیل اس وجہ سے بے محل ہے کہ جب ہم اس کو درست قرار دے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہمارے نزدیک اس معاملے میں تقاضاے وقت کی رو سے شرعی و فقہی موقف یہی بنتا ہے، نہ یہ کہ محض علما کے دباؤ کی وجہ سے ایسا موقف اختیار کیا جانا ضروری ہے، اگر ہمارا نقطۂ نظر مختلف ہو تو اس کے اظہار میں ہمیں کوئی باک نہیں ہے) اپنے طور پر اس کو کوئی پسند کرے یا نہ کرے ، امر واقعہ یہی ہے کہ ان کے ساتھ عام اقلیتوں جیسا سلوک علما اور عوام کو سرِدست قبول نہیں، ہو سکتا ہے کل کلاں وہ اپنے رویوں سے علما اور عوام کو قائل کر لیں کہ ان سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے والا، تو ان کے حوالے سے موجودہ رویہ تبدیل ہو جائے۔(اور قادیانیوں کے مذہبی موقف کے تناظر میں فی الواقع یہ امرِ محال ہے) اس معاملے کو اسی حساسیت کے تناظر میں دیکھنا پڑے گا،جس تناظر میں تحریکِ ختم نبوت کے دوران ان کی مذہبی پوزیشن کو دیکھا گیا تھا۔
میرے خیال میں اس معاملے میں کوئی آئینی بندوبست کیے بغیر کوئی غیر سرکاری و غیر تحریری انتظام ایسا ہو کہ قادیانیوں کو جو اعلی عہدہ دینے کے حوالے سے مذکورہ نوعیت کی حساسیت پائی جائے ، وہ انھیں سپرد نہ کیا جائے ، یہ چیز حکمرانوں ، عوام، اور سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ خود قادیانیوں کے لیے بھی فائدے مند ہے، اور سوسائٹی کے امن کی ضامن ہے۔ اس ضمن میں زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے کوئی فلسفہ بگھارنا ہر گز دانش مندی نہیں۔ایک اور اہم چیز یہ ہے کہ قادیانیوں کو کلیدی عہدے نہ دینے کے مخالفین اپنے نقطۂ نظر کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ہمیشہ اسی بات کو سامنے رکھتے ہیں کہ مسلم مذہبی طبقے انتہا پسندی سے کام لے رہے ہیں؛ ایک اقلیت کو اس کے حقوق سے جبراً محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ اس معاملے میں( مسلم مذہبی طبقے کو انتہا پسند قرار دیا جائے تو بھی ) فریقِ مخالف میں انتہا پسندی زیادہ پائی جاتی ہے۔وہ (شناختی کارڈ وغیرہ کے خانے کے علاوہ )عملی طور پر یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ وہ اقلیت ہیں ، اور ان سے اقلیتوں جیسا سلوک روا رکھا جائے۔ وہ مسلسل اس کوشش میں رہتے ہیں کہ انھیں سوسائٹی میں اسی طرح قبول کیا جائے، جیسے عام مسلمانوں کو کیا جاتا ہے،بلکہ احمدیت کے رہنماؤں کے بیانات پر جایا جائے، تو ان کے نزدیک صرف احمدی ہی مسلمان ہیں ، باقی مسلمان مرزا قادیانی کو نہ مان کر کافر ہیں یا بعض ("تجدد پسندقادیانیوں") کی تاویل کے مطابق فاسق و فاجر ہیں۔ان کے رہنما باقاعدہ مسلمانوں کو احمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں اور اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ (بزعم خویش نام نہاد) مسلمانوں کو اپنے "سچے " مذہب پر لا سکیں۔بیرون ممالک (بالخصوص یورپ اور امریکہ ) میں ان کی سرگرمیاں جس قدر پھیلی ہوئی ہیں، ان سے ہر صاحب ِعلم واقف ہے۔ اس سلسلے میں ان کی کاوشوں کا اندازہ اسی سے کر لیجیے کہ (اطلاعات کے مطابق )عاطف میاں بھی ان کے مبلغین کی تبلیغ ہی سے دائرہ احمدیت میں داخل ہوئے تھے،اور اب وہ ان کے مذہبی پروپیگیٹر (Propagator)بھی ہیں۔مزید برآں ایک سادہ سے سادہ اور ان پڑھ مسلمان بھی دیگر مذاہب کے حوالے سے اس بات سے آگاہ ہوتا ہے کہ یہ مذہب ہمارے مذہب سے مختلف ہے،اور اس کو ماننا اپنے مذہب سے نکل جانا ہے، لیکن احمدیوں کے حوالے سے بہت سے مسلمانوں (بطورخاص مغربی اور غیر مسلم ممالک میں موجود مسلمانوں ) کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ غیر مسلم ہیں، اور ان کے مذہب کو قبول کر کے وہ دائرۂ اسلام سے نکل جائیں گے۔ قادیانی مبلغین انھیں یقین دلاتے ہیں کہ وہ نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ حقیقی مسلمان ہیں ہی وہی ، باقی کافر یہ کم ازکم گمراہ اور فاسق و فاجر ہیں۔
دوسرے سوال سے متعلق ہماری رائے میں دوسرا موقف درست ہے، بشرطیکہ جمہوری طریقے سے آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر آئین کی متعلقہ شق سے اختلاف کیا جائے۔اگرچہ اس حوالے سے یہ بات بھی وزن رکھتی ہے کہ ایک شرعی و آئینی تقاضے پورے کر کے غیر مسلم قرار دی گئی، ایک اقلیت خود کو مسلمان ظاہر کر کے اس بات کی تبلیغ کا حق شرعاً اور اخلاقا ً نہیں رکھتی کہ وہ اپنے مسلم ہونے کا ببانگِ دہل اعلان کرتے ہوئے ،لوگوں کو اپنے مذہب کی دعوت دے۔ تاہم اصولی طور پر ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جیسے بہت سے اہلِ علم وفہم آئین کی کسی ایک شق یا کئی شقوں سے اختلاف کرتے ہیں ، احمدی بھی اپنے متعلق شق سے اختلاف کر سکتے ہیں۔آئین میں ترمیم ہوتی رہتی ہے اور یہ اسی بنیاد پر ممکن ہوتی ہے کہ آئین کی کسی شق پر رائے عامہ ہموار ہو جاتی ہے کہ یہ مناسب نہیں ،اس میں ترمیم کرنی چاہیے۔سواحمدی بھی جمہوری و ائینی حدود کے اندر رہتے ہوئےاس شق سے اختلاف کریں اورہو سکے تو رائے عامہ کو ہموار کر کےاسمبلی سے اس شق کو ختم کرا لیں یا اس میں ترمیم کرا لیں۔( ختم ِنبوت سے متعلق اسلامی تعلیمات اتنی واضح ہیں کہ اس حوالے سے علما اور امت کا قادیانیوں کے مواقف کو تسلیم کر لینا محال ہے،تاہم ، جیسا کے اوپر واضح کیا گیا، انھیں اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے ،بشرطیکہ کے وہ آئین قانون کے دائرئے میں رہتے ہوئے اور جمہوری طریقے سے ایسا کریں ،مگر حقیقت اس معاملے میں اس کے برعکس ہے) احمدیوں کا یہ اعتراض بالکلیہ بے بنیاد ہے کہ وہ کیا کریں! ان کو بات کہنے ہی نہیں دی جاتی ! آج سوشل میڈیا کا دور ہے ، ہر آدمی اپنی رائے کے اظہار میں آزاد ہے۔ہم سوشل میڈیا پر عام دیکھتے ہیں کہ احمد ی لوگ اپنے موقف کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ وہ اپنے مخالف لکھی جانے والی تحریروں پرسخت تنقید اور اپنا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔(اگر کسی کو یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا پر ان کے مذہب کی تردید میں کوئی تحریر ڈال کر دیکھ لے،یہ اس کی "گوشمالی " کے لیے دوڑتے ہوئے آئیں گے) یہی نہیں بلکہ بہت دفعہ کئی مسلم اہلِ مذہب وصحافت بھی ایک خاص تناظر میں ان کے بعض مواقف کی حمایت میں بول رہے ہوتے ہیں۔ کیا عاطف میاں کی تقرری کے دفاع میں صرف قادیانیوں نے لکھا؟ ہر گز نہیں! بہت سے مسلمانوں نے بھی لکھا کہ انھیں اس عہدے پر برقرار رہنا چاہیے، اگرچہ اکثریت کی رائے اس کے خلاف تھی ، اور اکثریتی رائے پر ہی انھیں عہدے سے ہٹایا گیا۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ انھیں خود یا دیگر لوگوں کو ان کے موقف کے حق میں کچھ کہنے یا لکھنے کی آزادی نہیں۔سوشل میڈیا کے موجودہ دور میں یہ دعویٰ باطل ہی نہیں مضحکہ خیز بھی ہے۔
جہاں تک تیسرے سوال کا تعلق ہے، ہماری رائے میں یہ بات درست ہے کہ معتبر علما اور رائے عامہ کسی شخص یا گروہ کے واضح عقائد و اعمال کی روشنی میں ان کے دائرہ اسلام سے خروج کا فیصلہ کرے ، چاہے وہ خود کو مسلما ن ہی کہتا ہو۔آں جناب ﷺ کے خاتم النبیّٖن ہونے کے حوالے سے کتاب وسنت کی نصوص اتنی واضح ہیں کہ کوئی دوسرا موقف اختیار ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ ختم ِنبوت کے ہر منکر یا اپنی نبوت کا دعویٰ کر کے اس کی طرف دعوت دینے والے کو امت نے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ۔پھر اس معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ قادیانیوں کو علامہ اقبال کی تجویز پر علما نے اقلیت مان لیا، ورنہ عمومی فقہی رائے کی رو سے یہ ارتداد تھا، جس کی بنا پر انھیں توبہ کا کہا جاتا اور توبہ نہ کرنے پر قتل کیا جاتا۔ یہ شق احمدیوں کے لیے نقصان کی بجائے فائدے مند ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ شق نہ ہوتی تو ان کا جینا دوبھر ہوتا۔ پھر جب آئین نے ایک فیصلہ کر دیا تو، جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا، اس کو آئینی اعتبار سے درست نہ ماننے والوں کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں کہ وہ اس کو آئینی فریم ورک کے مطابق ہی ایڈریس کریں۔ ان کو چاہیےکہ وہ آئینی و جمہوری طریقے سے اپنے موقف کے حق میں رائے عامہ ہموار کر کے آئین میں ترمیم کرا لیں۔آئین اور رائے عامہ ہی کی رو سے مذکورہ فیصلہ معرضِ ظہور میں آیااور یہی یہ فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں کہ کسی کے مذہب کا فیصلہ آئین یا عوام کر سکتےہیں یا نہیں، ابھی تک کی پوزیشن تو یہی ہے کہ اس کا فیصلہ عوام اور آئین کر سکتے ہیں۔اس موضوع پر طویل بحث مباحثہ اور مکالمہ ہوا تھا اور اسمبلی میں احمدیوں کو اپنے موقف کو واضح کرنے کا پورا موقع دیا گیا تھا، مگر وہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے تھے کہ وہ مسلمان ہی ہیں ، اور فلاں فلاں دلائل کی بنا پران کا موقف ان کا موقف درست ہے۔یہ میدان ان کے لیے اب بھی کھلا ہے ، وہ اپنا موقف منوا سکتے ہیں ، لیکن وہ جمہوری و آئینی راہ اختیار کرنے کی بجائے دھاندلی کے درپے ہیں۔
آخری سوال سے متعلق ہماری رائے یہ ہے کہ احمدیوں کے کلیدی عہدوں پر فائز نہ ہو سکنے سے متعلق آئینی ترمیم یا قانون سازی غیر ضروری بھی ہے اور کم ازکم موجودہ عالمی تناظر میں خلافِ حکمت بھی ۔قادیانیوں سے متعلق جب تک مقبولِ عام تصور (Popular narrative) ویسا ہے ، جیسا ہمیں آج کل نظر آتا ہے، ان کا کلیدی عہدوں پر آنا ویسے ہی محال ہے۔ مجھے ایک ایسے ملک میں جس کی 95 فی صد سے بھی زیادہ آبادی مسلمان ہو، یہ آئینی بندوبست بھی غیر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ مثلاً اس ملک کا وزیر اعظم مسلمان ہونا چاہیے۔ اس صورت حال میں ویسے ہی کسی غیر مسلم کے وزیر اعظم بننے کا امکان نہیں ہوتا۔ تاہم اگر اس نوعیت کی ائینی ترمیم کی بعض لوگ ضرورت محسوس کرتے ہوں، تو بھی ، ہماری گزارش اس ضمن میں یہی ہو گی ،کہ موجودہ حالات میں یہ اقدام مناسب نہیں ۔ جدید دنیا میں عالمِ اسلام ، مسلمانوں اور بالخصوص پاکستان کا بوجوہ ایک ایسا امیج بنا دیا گیا ہے کہ ان کے یہاں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ (عالمی برادری کو سرِ دست یہ سمجھانا آسان نہیں کہ قادیانیوں کا معاملہ عام اقلیتوں سے مختلف ہے۔) نتیجتاً پاکستان کو عالمی سطح پر معاشی و سیاسی نقصان کا اندیشہ ہے۔
مذکورہ سوالات کے مختصر جوابات کے بعد مجھے یہاں اس سوال پر بحث کرنا ہے، جو عمومی طور پر زیر بحث نہیں آتا۔ میں نے "الشریعہ " اور دیگر مقامات پر شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون بعنوان"احمدی اور تصورِ ختم ِنبوت : ایک احمدی جوڑے سے گفت گو"میں اس تناظر کو واضح کرنے کی کوشش کی تھی ۔یہ بڑا ہی بنیادی اور اہم سوال ہے ،جس کی طرف احمدی بھی کوئی خاص توجہ نہیں دیتے اور مسلمان بھی۔ وہ یہ کے بھئی احمدیوں کا مرزا قادیانی کے بارے میں عقیدہ اصلاً کیا ہے؟ وہ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں یا نہیں ؟ بظاہر یہ سوال عام سا ہے، لیکن اسی کے درست جواب میں مسئلے کاحقیقی حل مضمر ہے:
اگراحمدی مرزا قادیانی کو نبی مانتے ہیں تو انھیں اس پر اصرار کیوں ہے کہ وہ مسلمان ہیں ؟ کیا وہ دنیا کے مذاہب اور ان کی تاریخ و مزاج سے واقف نہیں ہیں! ہر نبی کی امت الگ ہے، اور وہ دوسروں سے اپنی پہچان الگ ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ یہودی ، عیسائی ، سکھ، بدھ، ہندو وغیرہ سب مذہبی گروہ نہ صرف اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں، بلکہ کسی صورت دوسروں میں مدغم نہیں ہونا چاہتے۔(اس حوالے سے احمدی دلیل دیتے ہیں کہ حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ االسلام کے لیے معاون بنا کر بھیجا گیا تھا، حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا تعلق ایک ہی قوم و نسل سے تھا،لیکن یہ دلیل مرزا صاحب کے حوالے سے کام آنے والی نہیں ،اس ضمن میں واضح رہے کہ ایک تو اسلام سے پہلے کے مذاہب میں نبوت کا تصور اسلام سے کافی مختلف ہے،ان کے یہاں بھائی اور باپ بیٹے کی نبوت کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے، یہاں نبوت کا وہ تصور ہے اور نہ ہی مرزا صاحب کا حضور ﷺ کی ذات ِ گرامی سے اس نوعیت کا رشتہ۔ان بزرگوں کو مدد درکار تھی، اور مددگاروں نے واقعی مدد کی،یہاں حال یہ ہے کہ مرزا صاحب نے اسلام اور مسلمانوں میں خلفشار میں مدد کی۔ یہ دلیل دینے والے ذرا بتائیں تو حضورﷺ کی نبوت میں کون سی کمی رہ گئی تھی اور آپﷺ کو کس نوع کی مدد کی ضرورت تھی ، جس کے لئے مرزا صاحب کو بھیجے بغیر چارا نہ تھا۔یوں بلاضرورت ، بلا تعلق اور بے سبب مرزا صاحب کو چودہ سو سال کے بعد حضورﷺ کے مددگار کے طور پر پیش کر کے ان کی "نبوت " کا جواز تراشنا مضحکہ خیز ہے۔لہذا انھیں مرزا کو الگ نبی ہی ماننا پڑے گا ، جیسا کہ ان کے "راسخ العقیدہ" پیروکاروں کے عقائد وبیانات سے اس کی تصدیق ہوتی بھی ہے، جس کا کچھ تذکرہ آگے چل کر ہو گا۔) پھر احمدیوں کا عجیب مسئلہ ہے کہ الگ نبی بھی مانتے ہیں اور خود کو مسلمان بھی کہلانے پر اصرار کیے ہوئے ہیں! ان کو تو خود اپنی الگ پہچان پر اصرار کرنا چاہیے تھا، چہ جائیکہ مسلمان جدو جہد کر کے ان کو آئینی طور پر الگ پہچان دلواتے۔ مسلمانوں کا انھیں آئینی طور پر الگ گروہ قرار دلوانا ان پر کوئی ظلم و زیادتی نہیں، بلکہ ان پر احسان ہے۔ جو کام ان کو اپنی کوشش سے خودکرنا چاہیے تھا ، وہ مسلمانوں نے اپنی کوشش سے انھیں کر دیا۔اگر پھر بھی ان کا اصرار یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں ، تو اس اصرار کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بقیہ سارے مسلمان در حقیقت مسلمان نہیں (جیسا کہ مرزا قادیانی اور دیگر احمدی رہنماؤں کے غیر احمدیوں کے بارے میں بیانات اور تحریروں سے واضح ہے۔) اس صورت میں ہمت کر کے انھیں بقیہ سارے مسلمانوں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دلوانا ہو گا ،اور اس کے لیے ان کے راستے میں کسی نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی ہوئی ۔ خود احمدی عقیدے کے مطابق یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ مسلمان اور احمدی ایک ہی گروہ شمار ہوں۔اگر وہ ایک ہی گروہ شمار ہونا چاہتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کسی نئے مدعی ِ نبوت کےماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کو ماننے والا بھی مسلمان ہے، اور نہ ماننے والا بھی۔ مسلمانوں کی بات چھوڑیں ، خود احمدیوں سے پوچھ لیں ، انھیں یہ نظریہ قابلِ قبول ہے؟ سچ یہ ہے کہ انھیں خود یہ نظریہ قبول نہیں!
اور اگر حقیقت یہ ہے کہ احمدیوں کے نزدیک مرزا قادیانی نبی نہیں، تو پھر انھوں نے امت کو فتنے میں کیوں ڈال رکھا ہے! اگر مرزا کو نبی مانے بغیر بھی کوئی آدمی یا گروہ مسلمان رہ سکتا ہے ،تومرزا قادیانی کو نبی ماننے کی ضرورت کیا ہے! کون سی ایسی دینی یا دنیوی مصلحت و مفاد ہے، جو آں جناب ﷺ کے ہوتے ہوئے مرزا قادیانی کو نبی ماننے سے وابستہ ہے۔دینی مصالح اور مفادات تو الٹا مرزا کو نبی نہ ماننے سے وابستہ ہیں ۔مرزا کے دعویِٰ نبوت کے سبب امتِ مسلمہ ایک بہت بڑے بحران اور خلفشار کا شکار ہوئی ہے ۔ بنا بریں احمدیوں کو چاہیے کہ وہ مرزا کو نبی ماننے نہ ماننے کے مخمصے سے نکل کر دائرۂاسلام میں واپس آجائیں۔(یہاں میں یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مرزا قادیانی نے اگر جدید زمانے میں نبوت کا جواز ہی بنانا تھا تو کچھ نیا تو پیش کرتے ، جو روایتی اسلام سے مختلف ہوتا، لیکن انھوں نے نزول ِ عیسی ٰ وغیرہ چند مختلف تعبیرات کو چھوڑ کر،سواے دعویِ نبوت کے روایتی اسلام میں کسی نئی چیز کا اضافہ نہیں کیا۔ اگر نئے زمانے کے حالات میں دین کونیا بنانا ہی اس "نبوت " کا جواز تھا، تو مرزا صاحب کی بجائے سرسید احمد خاں اس کے زیادہ مستحق تھے کہ انھوں نے اسلام کو جدید زمانے کے مطابق ڈھالنے میں مرزا صاحب سے کہیں بڑھ کر نیا سوچا اور اسلام کی نئی تعبیرات پیش کیں۔) راقم الحروف نے اپنے محولہ مضمون میں ایک احمدی جوڑے سے گفت گو کے حوالے سے عرض کیا تھا کہ مرزا قادیانی کے نبی ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے خود احمدیوں میں عجیب تذبذب ہے۔ان کے بہت سے لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ مرزا قادیانی نے خود کو کہیں اس طرح نبی نہیں کہا، جیسے مسلمان عموماً سمجھتے یا قرار دیتے ہیں ! بعض احمدی اس کا انکار کرتے ہیں ، لیکن اگر یہ حقیقت نہ ہوتی تو احمدیوں میں مرزا کے سٹیٹس کے حوالے سے اختلاف پیدا نہ ہوتا، لاہوری گروہ کا وجود احمدیوں کے اسی تذبذب کا عکاس ہے،جس کا دعوی ٰ ہے کہ مرزا صاحب نبی نہیں بلکہ مجدد تھے۔یہ گروہ ظاہر ہے کہ مرزا کی تحریروں اور بیانات ہی سے ان کے مجدد ہونے کا نظریہ اخذ کرتا ہے۔اگر مرزا صاحب کی تحریروں میں تاویل نہ ہو سکتی، تو یہ گروہ اور اس کا مذکورہ دعویٰ سامنے آنا غیر ممکن تھا۔(میری یہ دلیل شائع ہوئی تو احمدیوں کی طرف سے اس کا جواب یہ دیا گیا کہ لاہوری تو قادیانیوں کا محض چار پانچ فی صد ہیں۔ آپ اندازہ کریں کتنی بودی دلیل ہے؟ بندہ پوچھے کہ کم یا زیادہ کی تو بات ہی نہیں ہو رہی ، بات تو یہ ہو رہی ہے کہ قادیانیت میں سے ایک گروہ نے مرزا صاحب کے دعووں کی تعبیر یہ کی وہ نبی نہیں بلکہ مجدد تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس گروہ نے مرزا کے دعووں کی مین سٹریم قادیانیت سے مختلف تعبیر کی یا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ کی! تو اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ ان کے دعووں میں یہ گنجائش موجود تھی، اس گروہ کو تھوڑا کَہ کر بے وقعت قرار دینا اس لیے بھی غلط ہے کہ اس میں قادیانیت کا سب سے ذہین اور فاضل شخص محمد علی لاہوری بھی پایا جاتا ہے۔) میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ احمدیوں میں گو مگو کی یہ کیفیت فی الواقع اس بنا پر پیدا ہوئی کہ خود مرزا صاحب اس معاملے میں کنفیوز تھے۔ احمدی جوڑے کو مخاطب کرتے ہوئے میں نے جو الفاظ اپنے مذکورہ مضمون میں عرض کیے تھے، یہاں ان کو بعینہٖ پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
دیکھیے:مرزا صاحب کا خود کو کھل کر نبی نہ کہنا یا اپنی نبوت کو حضورﷺ کی نبوت کے تابع قراردینا یا اپنی نبوت کی تعبیریں ظلی و بروزی نبوت وغیرہ سے کرنا، اور آپ لوگوں کا کھل کر مرزا صاحب کو نبی نہ کہنا اور اس کی مختلف تعبیریں کرنا، اس حقیقت کا عکاس ہے کہ مرزا صاحب کو اس بات کا یقینی علم تھا کہ اسلام کے اندر نئی نبوت کی کوئی گنجایش نہیں ، اگر انھوں نے کھل کر خود کو نبی کہا، تو وہ مسلمان ہوکر نہیں رہ سکیں گے، اور نہ اس معاملے میں ان کو کوئی مقبولیت مل سکتی ہے۔یعنی وہ مسلمانوں میں ختم ِنبوت کے واضح سٹیٹس کو جانتے تھے، جبھی تو وہ اس کی تاویلیں کرتے تھے، اور جبھی آپ لوگ اس کی تاویلیں کر رہے ہیں! مزید یہ کہ یہ جو بات کی گئی کہ خاتم النبیین کے قرآنی الفاظ ایسے ہی ہیں جیسے خاتم الاولیا یا خاتم المفسرین وغیرہ کے الفاظ ، تو اس سے ثابت تو یہ کیا جاتا ہے کہ نبوت ختم نہیں ہوئی اور آپ ﷺ کے بعد بھی نبی آ سکتا ہے، جیسا کہ خاتم الاولیا یا خاتم المفسرین کے بعد بھی ولی یا مفسر ہو سکتے ہیں ، لیکن دوسری طرف مرزاصاحب خود کو کھل کر نبی بھی نہیں کَہ رہے۔سوال یہ ہے کہ جب شرعاً نیا نبی آ سکتا ہے، تو اس میں شرمانے اور کان کو اِدھر اُدھر سے پکڑنے کی ضرورت کیا ہے! بلا کسی تاویل اور خوف و جھجک کے مرزا صاحب کو بھی کہنا چاہیے تھا کہ وہ نبی ہیں اور آپ لوگوں یا ان کے پیروکاروں کو بھی ڈنکے کی چوٹ پر کہنا چاہیے کہ وہ نبی ہیں! بہ الفاظِ دیگر مرزا صاحب اور ان کے پیروکاروں کا رویہ خود بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک خاتم النبیین کی مذکورہ تعبیر درست نہیں اوروہ جانتے ہیں کہ اسلام میں کسی نئے نبی کی کوئی گنجایش نہیں ، ورنہ نہ مرزا صاحب اپنے سٹیٹس کو یوں کنفیوز رکھتے اور نہ ان کے پیروکار ہمیشہ کے لیے کنفیوژن میں پڑے رہتے۔ (ماہنامہ "الشریعہ" فروری 2017ء)
جب راقم کا مذکورہ مضمون سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس اور رسائل میں شائع ہوا، تو متعدد احمدی حضرات نے نہ صرف اس پر کھل کرتنقید کی بلکہ مجھے جی بھر کر گالیاں بھی دیں ، نیز کئی طرح کے منفی خطابات سے "نوازا"۔(میرا محولہ مضمون ریکارڈ پر ہے، اور اس پر احمدی حضرات کی تنقیدیں اور کمنٹس بھی، میں نے کہیں بھی سخت اور ناشائستہ زبان استعمال نہیں کی۔اس سے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ "مظلومی " اور خود ترحمی میں اپنے اوپر ایک شائستہ تنقید پرجن لوگوں کا رویہ یہ ہے، انھیں اگر کھل کھیلنے کا موقع ملے، تو سوسائٹی کا امن غارت کرنے میں کیسے کوئی کسر اٹھا رکھیں گے!) بعض حضرات (جن میں مغربی ممالک میں بسنے والے احمدی حضرات نمایاں تھے) نے اس موقف کا اظہار کیا کہ ہم اس معاملے میں بالکل کنفیوز نہیں ہیں، بلکہ مرزا قادیانی کو نبی مانتے ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم کیوں اتنے ستم سہتے! کیوں خود کو اقلیت قرار دلواتے !وغیرہ وغیرہ۔ میرے خیال میں پکے احمدی یہی لوگ ہیں ، جو بلا کسی کنفیوژن کے مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں ۔اگر ان کے موقف کو درست مان لیا جائے (اور اصلاً انھی کے موقف کو درست مانا جانا چاہیے) تو ہمارا موقف ان کے حوالے سے یہی ہو گا کہ پھر ان کو الگ گروہ یا امت کہلوانے میں کون سا امر مانع ہے! ان کی سچائی کا تو امتحان ہی یہ ہے کہ وہ خود کو ایک الگ امت سمجھیں ،اور اسی حیثیت سےاپنی پہچان کروائیں۔ اس کے بعد بھی ان کا مسلمان کہلوانے پر اصرار خود احمدیت سے غداری ہے۔