احمدیوں اور دیگر غیر مسلموں کے مابین فرق پر ایک مکالمہ

محمد عمار خان ناصر

احمدیوں کی مذہبی وشرعی حیثیت کے ضمن میں ایک سوال اہل علم اور خاص طور اہل فقہ وافتاء کی توجہ متقاضی ہے، اور وہ یہ کہ احمدیوں کو ہم نے ایک آئینی فیصلے کے تحت غیر مسلم تو قرار دے دیا ہے، تاہم یہ معلوم ہے کہ ان کی حیثیت مسلمانوں ہی کے (اور ان سے نکلنے یا نکالے جانے والے) ایک مذہبی فرقے کی ہے۔ ہم ایک بنیادی عقیدے میں اختلاف کی بنیاد پر ان پر مسلمانوں کے احکام جاری نہیں کرتے، لیکن مذاہب کی تقسیم کے عام اصول کے تحت، کم سے کم غیر مسلموں کے نقطہ نظر سے وہ مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ شمار ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ گروہ بھی اسلام کے ساتھ اپنی نسبت اور پیغمبر اسلام کا امتی ہونے کے دعوے سے دستبردار نہیں ہوا، بلکہ اپنی نئی نبوت کو اسی کا تسلسل شمار کرتا ہے۔

اس سے ایک فقہی سوال پیدا ہوتا ہے، جس کے سیاسی وعملی مضمرات بہت اہم ہیں، کہ مسلمانوں اور احمدیوں کے باہمی تعلق میں انھیں غیر مسلم شمار کرتے ہوئے، اگر کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو جائے جس میں احمدیوں اور دیگر غیر مسلموں کا تقابل ہو رہا ہو تو ہمارا زاویہ نظر کیا ہوگا؟ مثال کے طور پر کسی جگہ احمدیوں اور ہندووں یا کسی دوسرے مذاہب کے ماننے والوں میں جنگ ہو رہی ہو اور مسلمانوں کو مذہبی ہمدردی کے اصول پر کسی کی تائید کرنی ہو تو انھیں کس کی تائید کرنی چاہیے؟ اسی طرح مثلا غیر مسلم ممالک میں کسی مسئلے میں احمدی کمیونٹی کو کسی مذہبی مشکل کا سامنا ہو تو کیا مسلمانوں کو ان کی سپورٹ کرنی چاہیے یا غیر جانب دار رہنا چاہیے؟ یا یہ کہ مسلمانوں کی کسی مشکل میں احمدی، مذہبی تعلق کے ناتے سے ان کو سپورٹ کرنا چاہیں تو انھیں اپنی صفوں میں شامل کرنا چاہیے یا نہیں؟

سوال پر فقہ وشریعت کے اصولوں اور نظائر کی روشنی میں غور کے ساتھ ساتھ دو جید علماء کے رجحان پر بھی اگر گفتگو ہو جائے تو تنقیح مسئلہ میں آسانی ہوگی۔ مولانا شبیر احمد عثمانی علیہ الرحمہ نے جب مسلم لیگ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو جمعیۃ علماء ہند کے راہ نماوں کی طرف سے ان کے سامنے ایک اعتراض یہ پیش کیا گیا کہ مسلم لیگ میں تو قادیانی بھی شامل ہیں جو مرتد ہیں، اس لیے ایسی جماعت کو کیسے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت سمجھا جا سکتا ہے؟

مولانا عثمانی نے اس کے جواب میں ایک تو یہ کہا کہ مسلم لیگ کی تشکیل میں ہم بنیادی طور پر شامل نہیں تھے، اور یہ پالیسی ہم سے پہلے بن چکی تھی۔ دوسرے یہ کہ مسلم لیگ میں قادیانیوں اور کمیونسٹوں وغیرہ کی تعداد اور اثر بہت کم ہے اور وہ فیصلہ کن حیثیت نہیں رکھتے۔ اس کے بعد انھوں نے قادیانیوں کی مذہبی حیثیت کے حوالے سے جو نکتہ اٹھایا ہے، وہ بہت اہم اور قابل توجہ ہے۔  مولانا فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالی ٰ کی ہزاراں ہزار رحمت امام محمد بن الحسن الشیبانی پر کہ انھوں نے یہ مشکل میں ڈالنے والا مسئلہ پہلے سے صاف کر دیا اور تصریح کر دی کہ اہل حق مسلمان خوارج کے ساتھ ہو کر مشرکین سے لڑیں تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ جنگ دفع فتنہ کفر اور اظہار اسلام کے لیے ہوگی اور اس میں اعلاء کلمۃ اللہ اور اثبات اصل طریق ہے۔ (دیکھو شرح السیر الکبیر للسرخسی ج ۳ ص ۲۴۱)

اس سے شیعہ اور دوسرے فرق باطلہ کا قصہ تو صاف ہو گیا، کیونکہ کسی فرقے کے متعلق اتنی واضح اور اس قدر کثرت سے نصوص صریحہ موجود نہیں جس قدر خوارج کے بارے میں وارد ہوئی ہیں، جن کے متعلق یہ ارشاد ہوا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’میں نے ان کو پایا تو عاد وثمود کی طرح ان کو تباہ کر دوں گا۔’’

اب رہ گیا کلمہ گو مرتدین کا معاملہ، ان کی تعداد لیگ میں لا یعبا بہ (کسی شمار میں نہیں) ہے جن کے غلبہ کی کوئی صورت نہیں اور خدا نکردہ آئندہ ایسا ہو تو اس وقت جو حکم ہوگا، اس پر عمل کیا جائے گا۔ اب الیکشن کے موقع پر اگر مرزا محمود وغیرہ نے بدون لیگ میں شرکت کے، لیگ کی تائید کا اعلان کر دیا تو یہ ان کا فعل ہے جو ہمارے لیے مضر نہیں اور لیگ کی کامیابی کو احمدیت کی کامیابی بتلانا اس کا سودائے خام ہے۔

ایک چیز اور بھی ملحوظ خاطر رہے کہ یہ مرتدین وملحدین اس طرح کے نہیں جو نفس کلمہ اسلام ہی سے اعلانیہ بیزار ہوں۔ وہ بھی بزعم خود مشرکین سے اسی نام پر لڑتے ہیں کہ مشرکین کے غلبہ وتسلط سے مسلم قوم کو بچایا جائے اور کلمہ اسلام کو ان کے مقابلے میں پست نہ ہونے دیا جائے اور مسلمانوں کے قومی وملی استقلال کی حفاظت ہو، گو حقیقۃ وباطنا وہ کلمہ اسلام سے بالکل دور جا پڑے ہوں، جیسا کہ بہت سے علماء نے خوارج کے متعلق بھی ظواہر احادیث کی شہادت کی بناء پر یہ حکم لگایا ہے۔ اس اعتبار سے جو علت خوارج اور مشرکین کے مسئلے میں اوپر بیان ہوئی، وہ یہاں بھی موجود ہے جو قدرے توسیع مسئلہ مبحوث عنہا میں پیدا کر دیتی ہے۔ شاید ۱۹۳۶ء میں ہمارے بعض اکابر علماء جمعیت نے شد ومد کے ساتھ مسلم لیگ میں شرکت کرتے وقت اس نکتے پر نظر کی ہو، ورنہ سر ظفر اللہ قادیانی کی رکنیت کے باوجود اس میں ایک لمحے کے لیے بھی کیسے شرکت گوارا کی!’’(خطبات عثمانی، مرتبہ پروفیسر انوار الحسن شیر کوٹی، صفحہ ۱۴۳، ۱۴۴، نذر سنز لاہور، اشاعت اول ۱۹۷۲)

اس پر حاشیے میں مولانا مفتی محمد شفیع صاحب علیہ الرحمہ نے جو مختصر نوٹ لکھا ہے، وہ بھی انتہائی اہم ہے۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں:

’’مرتدین کی اس قسم کو فقہا کی اصطلاح میں زنادقہ یا ملاحدہ یا باطنیہ وغیرہ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان کا ارتداد گو بعض حیثیات سے اشد ہو، لیکن اگر یہ لوگ کفار مجاہرین سے بزعم خود اعلاء کلمہ اسلام کے لیے قتال کریں تو ان کے مقابلے میں کفار مجاہرین کی اعانت گوارا نہیں کی جا سکتی۔’’ (صفحہ ۱۴۴)

جناب زاہد صدیق مغل کے ساتھ مکالمہ

زاہد صدیق مغل: آپ کے نزدیک قادیانی "مسلمانوں" کا ایک فرقہ ہے؟ یعنی یہ سمجھا جائے کہ مسیلمہ کذاب اور اس کا گروہ بھی مسلمانوں سے نکالا گیا ایک فرقہ تھا؟

عمار ناصر:   مسیلمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حق اقتدار کو چیلنج کر کے متوازی نبوت کا اعلان کیا تھا اور اسی پر جنگ چھیڑی تھی۔ وہ آپ کا امتی اور مطیع ہونے کا دعوی نہیں رکھتا تھا۔ مذہبی خطابت نے مسیلمہ کے واقعے سے استدلال کو اتنا عام کر دیا ہے کہ فہیم لوگ بھی اس کی نوعیت پر توجہ نہیں دے پاتے۔ دو جید علماء اگر قادیانیوں کے لیے مسیلمہ کے بجائے خوارج کے حکم سے استدلال کر رہے ہیں تو کوئی تو بات ہے۔ غور فرمانے کی ضرورت ہے۔

زاہد صدیق مغل: سوال یہ ہے کہ جھگڑے کی بنیاد اقتدار پر دعوے کا اعلان تھا یا اعلان نبوت؟

عمار ناصر:  دونوں۔ صرف اعلان نبوت ہوتا تو بھی ارتداد کا قانون جاری ہوتا۔ یہ زیر بحث نہیں۔ عرض یہ کیا جا رہا ہے کہ قادیانیوں کو مرتد قرار دینے کے باوجود مولانا عثمانی اور مفتی محمد شفیع انھیں دیگر کفار سے الگ دیکھ رہے ہیں اور اس کی وجہ ان کے دعوائے اسلام کو قرار دے رہے ہیں۔ اس کے جواب میں مسیلمہ کے واقعے سے استدلال نہیں بنتا۔ یہ سیاق بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ بات مسلمانوں اور قادیانیوں کے باہمی معاملے کی نہیں، بلکہ قادیانیوں اور دیگر کفار کے تقابل کی ہو رہی ہے۔

زاہد صدیق مغل: اولا تو میں ان دونوں علماء کے اس بیان کی توجیہ بیان کرنے کا پابند نہیں۔ دوسرا یہ کہ یہ بیان ایک ایسی سیاسی جدوجہد کے اخلاقی جواز کے لئے لکھا گیا تھا جس میں قادیانی وغیرہ بطور آلہ استعمال ہورہے تھے۔ تحریک پاکستان کی تاریخ میں شاید سکھوں نے بھی ساتھ دیا ہوگا اور اگر مولانا سے یہ سوال پوچھا جاتا تو وہ اس کے لئے بھی ایسی کوئی توجیہ بیان کردیتے کہ اگر کفار مسلمانوں کی مدد کررہے ہوں تو وہ لڑنے والوں سے اولی ہوں گے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ تحریک پاکستان میں شامل قادیانیوں سے متعلق ان علماء کو کوئی خوش فہمی ہو۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد ظفر اللہ خان کے رویے اور قادیانیوں کے فلسطین کے مسئلے میں خود کو مسلمانوں سے الگ کرنے سے شاید سب کی آنکھیں کھل گئیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اس مسئلے کو تاریخی عمل میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کو یونہی کسی جذباتی رو میں بہہ کر کافر نہیں کہا گیا تھا بلکہ ہر طرح کی فکری و قانونی تسلی کی گئی تھی۔

عمار ناصر:  آپ توجیہ کے پابند نہیں، اس کی غلطی تو بتا سکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جو توجیہ آپ ان کے موقف کی کر رہے ہیں، وہ بنتی نہیں۔ مسلم لیگ کا ساتھ دینے کے جواز کے لیے پہلے دو نکتے کافی تھے۔ پھر بھی وہ ایک مذہبی وفقہی اصول کا حوالہ دے رہے ہیں۔ اور انھیں   کوئی غلط فہمی نہیں تھی۔ مولانا عثمانی قادیانیوں کے مرتد اور واجب القتل ہونے پر مستقل کتاب لکھ چکے تھے۔

زاہد صدیق مغل: حاشیہ خود بتا رہا ہے کہ یہ توجیہ سیاسی نوعیت کی ہے، ان کے الفاظ دیکھ لیجئے۔

عمار ناصر: صرف سیاسی نہیں، سیاست شرعیہ کے اصول پر مبنی ہے۔ مفتی صاحب کہہ رہے ہیں کہ کھلے کافروں کی مدد ان کے خلاف گوارا نہیں کی جا سکتی جو کسی گمراہی کا شکار ہو کر دائرہ اسلام سے باہر جا پڑے ہیں۔

 زاہد صدیق مغل: یہ ایک سٹریٹیجک چیز ہے۔ میرے حساب سے تو قادیانیوں کے معاملے میں اس کا برعکس ہی بہتر ہے۔ جنہیں ہم ختم نہ کرسکے، اگر کسی اور کے ہاتھوں یہ ہوجائے تو کیا ہی خوب!

عمار ناصر:  بس یہ واضح موقف ہے۔ دیکھتے ہیں دیگر اہل علم کی کیا رائے بنتی ہے۔ اتنا تو بہرحال ماننا چاہیے کہ معاملہ ذو الوجہین ہے۔ مجھے ذاتی طور پر مولانا عثمانی کے زاویہ نظر میں بہت وزن دکھائی دیتا ہے۔ واللہ اعلم

زاہد صدیق مغل: ذو الوجہین نہیں ہے، بڑا سیدھا ہے۔ قادیانیوں کی اصل حیثیت تو خود مولانا نے لکھ دی کہ وہ واجب القتل ہیں۔ اس کے بعد دوسرا پہلو کیا رہا؟ ہر مسئلے میں قدم بقدم تنزیل ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اصولا الف صورت میں حکم کیا ہے، اگر الف ممکن نہ ہو تو ب میں کیا ہے وغیرہ۔ اب یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ میں د کیفیت پر پوچھے جانے والے سوال کے جواب کو لے کر "اصل" مسئلے میں تین چار اور پانچ پہلو نکال لوں۔ تو آپ کو بھی اس مسئلے پر اسی منطقی ترتیب سے اپنی رائے دینی چاہیے کہ اصولا آپ کے نزدیک قادیانیوں کی شرعی حیثیت کیا ہے، اس کے بعد پھر بالترتیب چلئے۔

عمار ناصر:  اس وضاحت کی اگرچہ ضرورت نہیں ، لیکن میں بیان کر دیتا ہوں۔

اولا، ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ ان کے ساتھ معاملات میں غیر مسلموں کے احکام جاری ہوں گے۔

ثانیا، ان کے دعوائے اسلام کا فی الجملہ اثر باقی رہے گا جو اس صورت میں ظاہر ہوگا جب ان کا تقابل دوسرے غیر مسلم گروہوں سے کیا جائے۔

زاہد صدیق مغل: ان دو باتوں کے درمیان اس سوال کا جواب بھی دے دیجئے کہ آپ نے نزدیک "اصولا" وہ واجب القتل ہیں یا نہیں؟

عمار ناصر:  میں ارتداد کی سزا کو ایک تو اتمام حجت کے اصول سے متعلق سمجھتا ہوں جس کے تحقق میں عہد نبوت کے قرب اور بعد سے بہت جوہری فرق واقع ہوتا ہے۔ پھر جو گروہ یا افراد کھلے ارتداد کے بجائے کسی عقیدہ یا عمل کی وجہ سے خارج از اسلام شمار کیے جائیں، انھیں اتمام حجت والے اصول کی زیادہ رعایت ملنی چاہیے۔ پس ایسے گروہ میری رائے میں واجب القتل، بلکہ مباح القتل نہیں ہیں۔ ان پر دنیوی احکام میں غیر مسلموں کے احکام جاری کر کے آخرت کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دینا چاہیے۔

زاہد صدیق مغل: تو اس رائے کے بعد پھر اس مسئلے میں ذوالوجہین کی بنیاد وہ قاعدہ نہیں جو آپ نے ان علماء کی تحریر سے نکال کر لگایا ہے بلکہ آپ کی یہ منفرد رائے ہے جس کے تحت آپ روایتی علماء کی تحریروں سے سپورٹنگ evidence اکٹھے کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

عمار ناصر:  جی، یہ نکتہ الگ ہے۔ لیکن کفار مجاہرین اور اسلام سے خارج شمار کیے گئے گروہوں میں فرق کا نکتہ مشترک ہے۔

زاہد صدیق مغل: ممکن ہے یہ اشتراک ہو، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اشتراک نفس مسئلہ کو حل کیسے کرتا ہے؟ نیز کیا اس وقت کسی ملک میں کہیں کوئی ایسی جنگ لگی ہوئی ہے جس میں قادیانی "اسلام کی سربلندی" کے لئے کفار سے لڑ رہے ہوں کہ ہمیں اس مسئلے سے استدلال کی ضرورت ہو؟

عمار ناصر:  اس وقت نہ ہو، یہ کوئی غیر ممکن مفروضہ تو نہیں۔ موجودہ بحث میں اس کا یہ اصولی پہلو واضح ہونا بھی بہت اہم ہے کہ کھلے کافروں اور گمراہ گروہوں کی حیثیت مختلف ہے۔  اور جنگ کی مثال تو صرف توضیح کے لیے ہے۔ عام سیاسی معاملات پر بھی اسی اصول کا اطلاق ہوگا، جیسا کہ ان علماء نے قیام پاکستان کی جدوجہد پر کیا ہے۔

زاہد صدیق مغل: قیام پاکستان کی جدوجہد کے لئے وضع کردہ علم کلام کو اسلامی کلام کا معیار بنا کر پیش کرنا درست نہیں۔

عمار ناصر:  اصل میں یہ کلاسیکی علم کلام ہی کا اصول ہے جس کا ان علماء نے انطباق کیا ہے۔

زاہد صدیق مغل: اس قسم کی ذیلی تقسیم تو ان کے درمیان بھی موجود ہے جنہیں آپ "کھلے کافر"کہہ رہے اور اس کا بیان تو قرآن میں بھی ہے جب صحابہ کو اہل کتاب کی شکست پر غم ہوا تھا۔ اس چیز کو "مخالف کا تبدیل ہوجانا" کہتے ہیں۔ لیکن میرا سوال پھر بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ اس سے مسئلہ حل کیسے ہوا کیونکہ فی الوقت بحث قادیانی اور کھلے کافر کی نہیں بلکہ مسلمان اور قادیانی کی ہے۔ 

عمار ناصر:  مسلمان اور قادیانی کی بحث تو اپنی جگہ حل شدہ ہے۔ یہ پہلو تو معاملے کی مجموعی نوعیت کو واضح کرنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ اور  جس کو آپ مخالف کا تبدیل ہونا کہہ رہے ہیں، وہ بھی اس اصول کے بغیر قابل فہم نہیں ہو سکتا۔ اگر اہل کتاب اور مجوس کے کفر کی نوعیت میں فرق نہ ہوتا تو مسلمان کیوں اہل کتاب سے ہمدردی محسوس کرتے؟ یہ "اصل میں اشتراک" کی رعایت کا اصول ہے۔ اگر مسلمان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے انکار کے باوجود سلسلہ انبیاء سے وابستگی کی وجہ سے ایسا کر سکتے ہیں تو نبوت محمدی سے نسبت کو ماننے والوں کے ساتھ کیوں نہیں کر سکتے؟

زاہد صدیق مغل: اس لئے کہ شارع نے موخر الذکر کےلئے قتل کی سزا لازم قرار دی ہے، اب میں خلاف نص اپنی طرف سے اسے کسی دوسرے گروہ پر قیاس کرکے ان کے لئے زیادہ رعایت کیسے نکال لوں؟

عمار ناصر:  لیکن قتال کا حکم تو اہل کتاب کے بارے میں بھی ہے، پھر بھی ان کے ساتھ ہم دوسروں کے تقابل میں ہمدردی رکھتے ہیں۔ سوال فریق ثانی کا ہے کہ وہ کون ہے۔ اگر مسلمان ہیں تو حکم الگ ہے، اگر دوسرے غیر مسلم ہیں تو الگ۔

زاہد صدیق مغل: اگر میں بات کو مختصر رکھتے ہوئے کہوں تو معاملہ یوں ہے کہ ہمارے حساب سے قادیانی مملکت پاکستان میں چپکے چپکے مسلمانوں کے خلاف واردات کی کوشش کرتے ہیں لہذا ایسی صورت میں ان پر اس قدر بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا جس قدر کسی عیسائی یا ہندو پر، کیونکہ اس کا کفر واضح ہے اور ہم اس سے ہوشیار ہیں جبکہ یہ چھپی ہوئی دشمنی کی صورت واردات کرتے ہیں۔ میرے حساب سے تو قادیانیوں کو "حقوق کے نام پر" ہر سطح پر پنپنے دینے کی رعایت دینا ان کے واجب القتل ہونے کے مقدمے ہی کے خلاف ہے۔

قادیانیوں کے ساتھ قتال کی بنیاد ہی یہ ہے کہ یہ "قادیانی" ہے۔ یہی فرق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر تو کوئی شخص اسلام کے باہر کسی نئے خدا کو تخلیق کرکے اس کی پوجا کرنا چاہتا ہے یا کسی کو نبی کہہ کر اس کی اتباع کرنا چاہتا ہے اور اپنے مذہب کا نام مثلا "چمچم یا گلاب جامن" رکھتا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن کوئی شخص اسلام کے اندر سے اٹھ کر محمدﷺ کے بعد کسی کو نبی بنا کر اسے اسلام کا نمائندہ بتاتا ہے، تو یہ عام کفر نہیں بلکہ "اسلام کے متوازی" ایک امت کھڑی کرنے کا دعوی ہے۔ یہ شخص کسی بھی طرح قابل معافی نہیں۔

عمار ناصر:  شاید مواقف کی کافی اور مناسب تنقیح ہو گئی ہے۔ جو بات زیادہ درست ہے، اللہ ہمیں اس کا فہم اور اتباع نصیب فرمائے، آمین۔

مشاہدات و تاثرات

(ستمبر و اکتوبر ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter