مولانا جلال الدین حقانیؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا جلال الدین حقانیؒ کی وفات کی خبر دینی حلقوں کے ساتھ ساتھ میرے لیے بھی گہرے صدمہ کا باعث بنی ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون، اور اس کے ساتھ ہی جہادِ افغانستان کے مختلف مراحل نگاہوں کے سامنے گھوم گئے ہیں۔ مولانا جلال الدین حقانیؒ جہاد افغانستان کے ان معماروں میں سے تھے جنہوں نے انتہائی صبر و حوصلہ اور عزم و استقامت کے ساتھ نہ صرف افغان قوم کو سوویت یونین کی مسلح جارحیت کے خلاف صف آرا کیا بلکہ دنیا کے مختلف حصوں سے افغان جہاد میں شرکت کے لیے آنے والے نوجوانوں اور مجاہدین کی سرپرستی کی اور انہیں تربیت و حوصلہ کے ساتھ بہرہ ور کر کے عالم اسلام میں جذبۂ جہاد کی نئی روح پھونک دی۔ ان کا وہ دور ہمیں یاد ہے جب وہ انتہائی بے سروسامانی اور کسمپرسی کے عالم میں سوویت یونین کی مسلح فوجوں کے خلاف نبرد آزما تھے اور سوویت یونین کے مخالفین ابھی صرف تماشہ ہی دیکھ رہے تھے، انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ خدا مست لوگ آخر کس طرح دنیا کی ایک بڑی فوجی قوت کے خلاف اپنی مزاحمت کو جاری رکھ سکیں گے۔ مگر مولوی جلال الدین حقانی، پروفیسر صبغت اللہ مجددی، سید احمد گیلانی، مولوی محمد نبی محمدی ، مولوی محمد یونس خالص، مولوی ارسلان رحمانی، کمانڈر احمد شاہ مسعود، انجینئر حکمت یار رحمہم اللہ تعالٰی اور ان جیسے دیگر باہمت لوگوں نے صبر و استقامت اور ایثار و قربانی کی وہ روایات زندہ کر دیں جن کے تذکرے ہم اسلامی تاریخ کی کتابوں میں پڑھا کرتے تھے۔

سالہا سال تک یہ کیفیت رہی کہ پرانے ہتھیاروں اور خود ساختہ دیسی بموں کے ساتھ وہ روسی فوجوں کا مقابلہ کرتے رہے، بوتلوں میں خاص قسم کے محلول بھر کر انہیں بموں کے طور پر روسی ٹینکوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا اور گوریلا جنگ میں ان مجاہدین نے افغانستان کے دیہی علاقوں میں روسی افواج کو بے بس کر کے رکھ دیا۔ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ شیرانوالہ لاہور میں ہمارے ایک بزرگ مولانا حمید الرحمان عباسیؒ کا مستقل کام یہ تھا کہ اصحابِ خیر کو توجہ دلا کر ان مجاہدین کے لیے خوراک اور دیگر ضروریات جمع کرتے رہتے اور جب ایک ٹرک کے لگ بھگ سامان جمع ہو جاتا تو خوست کے محاذ پر سپلائی کر دیا کرتے تھے، اسی طرح پاکستان کے بہت سے شہروں کے علماء اور مخیر حضرات مجاہدینِ افغانستان کی امداد کیا کرتے تھے۔ اس دور میں خوست کے محاذ پر جانے والے چند نوجوانوں نے ہمیں بتایا کہ کئی کئی روز تک سادہ روٹی گڑ اور پیاز کے ساتھ کھانے کو ملتی تھی اور فقر و فاقہ کے ماحول میں وہ مصروف جہاد رہتے تھے۔ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں یہ دیکھ کر بہت بعد میں اس طرف متوجہ ہوئیں کہ افغانستان کا ایک بڑا حصہ ان مجاہدین کے مختلف گروپوں کے زیر تسلط آگیا ہے اور روسی فوجوں کی پشت پناہی کے باوجود کابل حکومت کا کنٹرول چند بڑے شہروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ چنانچہ جب مغربی ملکوں کو ان مجاہدین کی مسلح مزاحمت کی سنجیدگی کا اندازہ ہوا تو وہ اس میں اپنا حصہ ڈالنے بلکہ ہمارے خیال میں اپنا ’’لچ‘‘ تلنے کے لیے میدان میں کود پڑے۔ پھر اسلحہ، دولت اور وسائل کی ریل پیل ہوگئی اور اسی گہماگہمی میں امریکی کیمپ نے افغان جہاد کو ہائی جیک کر کے اپنے کھاتے میں ڈال لیا۔ ہم نے دونوں دور آنکھوں سے دیکھے ہیں، وہ دور بھی جب فقر و فاقہ اور خدا مستی کا ماحول تھا اور وہ دور بھی جب وسائل اور اسباب کی فراوانی تھی، دونوں میں بڑا فرق تھا مگر خدا شاہد ہے کہ جن حضرات نے اس فرق سے ذرہ بھر اثر نہیں لیا اور جن کے خلوص و جذبہ میں دولت و اسباب کی فراوانی کوئی تبدیلی نہ لا سکی ان میں مولانا جلال الدین حقانیؒ سرفہرست تھے۔

جہاد افغانستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جب تک اس کا رخ سوویت یونین کی طرف تھا اور یہ لوگ امریکہ بہادر کے عالمی حریف کے خلاف نبرد آزما تھے، وہ مجاہدین کہلاتے تھے، وائٹ ہاؤس ان کا خیرمقدم کرتا تھا اور امریکی کیمپ کے مسلم ممالک بھی ان کی راہوں میں دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے تھے۔ لیکن جونہی انہوں نے سوویت یونین کی فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان کے دینی تشخص کی بحالی اور نظامِ شریعت کے نفاذ کو اپنی منزل قرار دیا تو وہ دہشت گرد قرار پائے اور ان کا سب سے بڑا جرم یہ بتایا گیا کہ وہ افغانستان کو ہر قسم کی غیر ملکی مداخلت سے پاک ایک خودمختار ریاست بنانے کی بات کر رہے ہیں، افغانستان کی قومی و تہذیبی روایات کے تحفظ کی بات کر رہے ہیں اور اپنے ملک میں شریعت کے نظام کے نفاذ کی بات کر رہے ہیں۔ یہ تینوں باتیں آج کی دنیا میں کسی بھی مسلمان ملک کے لیے جرائم کا درجہ رکھتی ہیں، خود ہمارے ہاں پاکستان میں ان تینوں باتوں پر اصرار کرنے والے لوگ دہشت گرد یا کم از کم شدت پسند کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔

مولانا جلال الدین حقانیؒ کا یہ بھی ’’قصور‘‘ تھا کہ انہوں نے جس طرح افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی جارحیت کو افغانستان کی آزادی پر حملہ تصور کر کے اس کے خلاف مزاحمت کی اور روسی کمیونزم کے نفوذ کو افغانستان کے اسلامی تشخص اور تہذیبی شناخت کے منافی قرار دے کر اسے مسترد کر دیا، اسی طرح وہ افغانستان میں امریکی اتحاد کی افواج کی موجودگی اور مغربی فلسفہ و نظام کے تسلط کو بھی افغانستان کی آزادی اور خودمختاری کے خلاف سمجھتے تھے، اس لیے وہ سوویت یونین کی فوجوں کی طرح امریکی اتحاد کی فوجوں کے خلاف بھی صف آرا ہو گئے اور اپنے اس موقف پر آخر دم تک قائم رہے۔ انہوں نے امارت اسلامی افغانستان کا ساتھ دیا اور اس کے لیے مسلسل محنت کی، آج ان کی محنت اور جدوجہد کا ثمرہ ہے کہ امریکہ افغان طالبان سے مذاکرات کی میز پر آنے کا مطالبہ کر رہا ہے اور اس کے لیے ہر جتن کر رہا ہے مگر افغان طالبان جن کے پاس خود امریکی حلقوں کی رپورٹوں کے مطابق افغانستان کے بیشتر علاقوں کا کنٹرول ہے، مذاکرات کی میز سجانے سے پہلے افغانستان سے امریکہ کے مکمل انخلا کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ افغانستان کی آج کی معروضی صورتحال اور زمینی حقائق اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ افغانستان کی مکمل خودمختاری، غیر ملکی مداخلت سے نجات اور نفاذ شریعت کی جنگ لڑنے والے اس جنگ کی طوالت سے خوفزدہ نہیں ہیں کیونکہ جنگیں ان لوگوں کی سرشت میں داخل ہیں، البتہ اس فیصلہ کن مرحلہ میں مولانا جلال الدین حقانیؒ ان سے جدا ہو گئے ہیں جو بلاشبہ بہت بڑا صدمہ ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور افغان قوم کو ان کے مشن اور جذبات کے مطابق مکمل خودمختاری سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

اس کے ساتھ ایک اور خبر ہمارے خاندان اور متعلقہ دینی حلقوں کے لیے صدمہ کا باعث بنی ہے کہ جمیعۃ علماء برطانیہ کے راہنما اور جامع مسجد برنلی مانچسٹر کے خطیب مولانا عزیز الحق ہزاروی گزشتہ روز راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ ہماری بڑی ہمشیرہ کے داماد اور جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل تھے۔ قارئین سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ رب العزت مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور اہل خاندان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

اخبار و آثار

(ستمبر و اکتوبر ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter