مسلمانوں کا ایمانی جذبہ بالآخر رنگ لایا اور ہالینڈ (نیدرلینڈز) کی حکومت نے گستاخانہ خاکوں کے ان مجوزہ نمائشی مقابلوں کو منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا جو دس نومبر کو وہاں کی پارلیمنٹ میں منعقد کرائے جانے والے تھے۔ نیدرلینڈز پارلیمنٹ کے اپوزیشن لیڈر اور پارٹی فار فریڈم کے سربراہ گرٹ ولڈرز (Geert Wilders) کی طرف سے اس مجوزہ نمائش کی منسوخی کی اطلاع سے یہ وقتی مسئلہ تو ختم ہو گیا ہے جس پر اس کے خلاف احتجاجی مہم میں حصہ لینے والے تمام شخصیات، ادارے، حکومتیں اور جماعتیں مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مگر اصل مسئلہ ابھی باقی ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین کو بین الاقوامی سطح پر جرم قرار دلوانے کے لیے قانون سازی ضروری ہے جو ظاہر ہے کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کے ماحول میں ہی ہوگی اور اس کے لیے اسلامی تعاون تنظیم (آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن) کو اساسی کردار ادا کرنا ہوگا۔
وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر ایوانِ بالا میں خطاب کرتے ہوئے گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کو ناقابل برداشت قرار دیا اور معاملہ کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں مغربی ذہنیت کو جانتا ہوں، وہاں کے عوام کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی، عوام کی بڑی تعداد کو اندازہ ہی نہیں کہ ہمارے دلوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کتنا پیار ہے، انہیں نہیں پتا کہ وہ ہمیں کس قدر تکلیف دیتے ہیں، اور وہ آزادیٔ اظہار کے نام پر اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ دنیا کو بتانا چاہیے کہ جیسے ہولوکاسٹ سے ان کو تکلیف ہوتی ہے، گستاخانہ خاکوں سے وہ ہمیں اس سے کہیں زیادہ تکلیف دیتے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ اس معاشرے میں فتنہ اور جذبات بھڑکانا بہت آسان ہے، مغرب میں وہ لوگ جو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں، ان کے لیے یہ بہت آسان بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی حکومت میں یہ کوشش کریں گے کہ او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن) کو اس پر متفق کریں، اس چیز کا بار بار ہونا مجموعی طور پر مسلمانوں کی ناکامی ہے، گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر او آئی سی کو متحرک ہونا ہوگا اور اور اسے اس معاملے میں کوئی پالیسی بنانی چاہیے۔ یہ دنیا کی ناکامی ہے، مغرب میں لوگوں کو اس معاملہ کی حساسیت کا اندازہ نہیں، لہٰذا مسلم دنیا ایک چیز پر اکٹھی ہو اور پھر مغرب کو بتائیں کہ ایسی حرکتوں سے ہمیں کتنی تکلیف ہوتی ہے۔
جہاں تک ایمانی جذبات کے اظہار کا تعلق ہے وہ تو بحمد اللہ تعالیٰ مسلسل بڑھ رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں ہالینڈ کے بعض ناعاقبت اندیشوں کی اس مذموم حرکت پر ناراضگی اور شدید غصے کی لہر ابھرتی دکھائی دے رہی ہے۔ مگر ہمارے خیال میں محض جذبات اور غم و غصہ کا اظہار کافی نہیں ہے بلکہ اصل فورم پر یہ جنگ لڑنے کی ضرورت ہے جس کا وزیر اعظم عمران خان نے تذکرہ کیا ہے، جبکہ ہم ایک عرصہ سے مسلسل گزارش کر رہے ہیں کہ (۱) ناموس رسالتؐ (۲) تحفظ ختم نبوت (۳) اور پاکستان کی اسلامی شناخت کے معاملات پر حقیقی معرکہ آرائی بین الاقوامی اداروں اور لابیوں میں ہو رہی ہے مگر وہاں ہمارا یعنی دینی حلقوں کا کوئی مورچہ موجود نہیں ہے۔ سیکولر حلقے اور منکرین ختم نبوت بین الاقوامی معاہدات کے ہتھیاروں کے ساتھ عالمی اداروں اور حلقوں میں دین، اہل دین اور پاکستان کے خلاف محاذ گرم کیے ہوئے ہیں مگر ہم سوشل میڈیا، مساجد اور سڑکوں پر اپنے جذبات کا اظہار کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ فرض ادا ہوگیا ہے۔ مجھے سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں اس مہم کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں ہے بلکہ میں خود اپنی استطاعت کے مطابق اس میں شریک رہتا ہوں لیکن بین الاقوامی اداروں اور لابیوں کا وسیع تر اور مؤثر محاذ ہماری نمائندگی سے خالی ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔
ہمارے ہاں کی عمومی صورتحال یہ ہے کہ سیکولر حلقوں نے ابھی تک پاکستان کے دستور کو سنجیدگی سے نہیں لیا جبکہ دینی حلقوں کی بین الاقوامی معاہدات کے بارے میں یہی صورتحال ہے۔ حالانکہ بین الاقوامی معاہدات اور دستور پاکستان دونوں زندہ حقیقتیں ہیں جن سے صرفِ نظر کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ سیکولر حلقوں کا خیال ہے کہ دستور پاکستان محض ایک نمائشی اور کاغذی دستاویز ہے جسے پس پشت ڈال کر پاکستان میں وہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکتے ہیں جبکہ دینی حلقوں کے نزدیک بین الاقوامی معاہدات کی کم و بیش یہی حیثیت ہے۔ دونوں کو اپنے اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنا ہوگی اور زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا ورنہ قوم اسی طرح ذہنی اور فکری خلفشار کا شکار رہے گی اور دونوں طرف کے مہم جو گروہ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔
ہمارے نزدیک اس کا حل وہی ہے جو وزیراعظم عمران خان نے بتایا ہے بلکہ اس سے قبل ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد اقوام متحدہ کی پچاس سالہ تقریبات کے موقع پر، جبکہ وہ خود او آئی سی کے صدر تھے، یہ تجویز دے چکے ہیں کہ مسلم امہ کو متحد ہو کر اقوام متحدہ سے دو مسئلوں پر بات کرنا ہوگی۔ ایک یہ کہ بین الاقوامی معاہدات پر مسلم امہ کے دینی و تہذیبی تحفظات کے حوالہ سے نظرثانی کی ضرورت ہے اور دوسرا یہ کہ اقوام متحدہ کے پالیسی ساز ادارہ سلامتی کونسل میں مسلم امہ کی نمائندگی متوازن نہیں ہے اور وہ ویٹو پاور کی فیصلہ کن اتھارٹی کے دائرہ سے باہر ہے۔ مغربی دنیا اور عالم اسلام کے درمیان موجودہ بے اعتمادی بلکہ کشمکش کی بڑی وجہ یہی ہے اس لیے اقوام متحدہ کے ساتھ اجتماعی طور پر دوٹوک بات کرنا ان کے نزدیک ضروری ہے۔ ہمارے خیال میں حکومت پاکستان کو اس سلسلہ میں ڈاکٹر مہاتیر محمد اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ بھی مشاورت کا اہتمام کرنا چاہیے، بلکہ مسلم دنیا کے ان مشترکہ مسائل کے حل کے لیے اگر سعودی عرب کے شاہ سلیمان، ترکی کے رجب اردگان، ملائیشیا کے ڈاکٹر مہاتیر محمد، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور ایران کے صدر حسن روحانی باہمی مشاورت کے ساتھ پیشرفت کریں تو وہ یقیناً بے نتیجہ نہیں ہوگی۔ خدا کرے کہ ایسا ہو جائے، آمین یا رب العالمین۔