دہشت گرد تنظیموں کی فکری بنیادیں: نقائص و نتائج

مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی

(دہشت گرد تنظیموں کی فکری بنیادیں: نقائص و نتائج ’’الحق المبین فی الرد علی من تلاعب بالدین‘‘ کے حوالے سے۔)


 جتنے بھی مسلم فرقے ہیں سب اپنا رشتہ قرآن و سنت سے جوڑتے ہیں اور سب کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کا عقیدہ و منہج قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ لیکن احقاق حق او ر ابطال باطل کی غرض سے اسلاف کے فراہم کردہ اصول و معیارپرایسے تمام فرقوں کے افکار و مفاہیم کا تجزیہ کرنا ایک دینی ذمے داری ہے اور علمی امانت داری بھی۔

 جامعہ ازہر عالم اسلام کی وہ عظیم دانش گاہ ہے جس نے دین و ملت کی خدمت میں اپنی زندگی کے پورے ایک ہزار سال گزارے ہیں۔اس نے ہر زمانے میں باطل افکار وخیالات کو اسلاف کے عطا کردہ اصولوں پر پرکھ کر گمراہ فرقوں کو آئینہ دکھایاہے اور قرآن وسنت سے ان کے گہرے رشتوں کے دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ۔اسی دانش کدے کے پروردہ شیخ اسامہ السید محمود ازہری (ولادت:۱۹۷۶ء) بھی ہیں، جن کا لائف ٹائم مشن ہی یہ ہے کہ ازہرکے علمی منہج کا احیا کیاجائے،اسلام کی صحیح، معتدل، متوازن اور پُرامن متوارث تفہیم کو عام کیاجائے اور ہر اس تفہیم کو مسترد کر دیاجائے جس میں دین اسلام کو ایک پُر تشدد، غیر معتدل اورناموس عقل و فطرت سے بر سر پیکار دین کے طور پر پیش کیاگیاہو۔

 شیخ موصوف کی کتاب ’’الحق المبین فی الرد علی من تلاعب بالدین‘‘ ایسی ہی ایک علمی وتجزیاتی کاوش ہے، جس میں اخوان المسلمین سے لے کر داعش تک دین کے نام پرجذبات کا استحصال کرنے والی دہشت و خوں ریزی کی سودا گر تنظیموں کو اسلاف کے رہنما اصول اور علمی معیار کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا گیا ہے اور دین اسلام جو اپنے نصوص و مفاہیم کے ساتھ متوارث و متواتر ہے ،اس کی عدالت میں ان کے افکار کامقدمہ رکھ کر انصاف کی فریاد کی گئی ہے۔ 

 اس کتاب میں اسلاف کے جن اصول ومعیار پران منحرف تنظیموں کے افکار کوپرکھاگیا ہے اس کے نمائندے کے طور پر ازہر کے اس علمی منہج کو پیش کیاگیاہے جس میں ہزار سالہ تجربہ اور ہزار ہا علمائے ربانیین کا توارث شامل ہے۔ 

مؤلف نے تشدد کی علم برداراُن جماعتوں کی فکری اساس کی تلاش و جستجو میں جن افکار کو محوری قراردیا ہے وہ درج ذیل ہیں:

(۱)غیراللہ کی حاکمیت قبول کرنے کا مسئلہ (۲)جاہلیت کامفہوم(۳)دارالاسلام اور دارالکفر کا مفہوم (۴)فتح ونصرت کے وعدے صرف جہادیوں کے لیے (۵) جہاد کا مفہوم (۶)تمکین کا مفہوم (۷) وطن کا مفہوم (۸) اسلامی غلبے کے پروجیکٹ کا مفہوم۔ 

ان افکار کے صحیح و غلط پہلو اور پھر ان کے سنگین نتائج پر شریعت اسلامی اور منہج اسلاف یعنی منہج ازہری کی روشنی میں تفصیلی بحث کے بعد ان قواعدکا تذکرہ کیا گیا ہے جن کو بروئے کار نہ لانے کی وجہ سے مذکورہ بالا عناوین کے صحیح و متوارث مفاہیم تک ان تحریکوں کی رسائی نہیں ہو سکی۔ 

آنے والی سطور میں درج بالاعناوین کے مفاہیم پر مؤلف کی گفتگو کا خلاصہ پیش کیا جاتاہے:

[۱]حاکمیت

متشددجماعتوں کا نظریہ ہے کہ مسلمانوں نے ربانی نظام کی حاکمیت کو چھوڑ کردوسرے قوانین کی حاکمیت قبول کرلی ہے اور یہ شرک ہے۔ مؤلف کے مطابق یہ سب سے اساسی فکر ہے اور اسی پر دوسرے تمام غلط افکار کا دارومدار ہے۔اس فکر سے سید قطب اور ان کے بھائی کے یہاں شرک حاکمیت اور توحید حاکمیت کی فکر پیدا ہوئی اور پھر یہیں سے مومنانہ جہادی گروہ کی ضرورت اورپھر ان کے لیے نصرت و تمکین کے وعدۂ الٰہی کی فکرکاظہور ہوا اور اسی فکر کی بناپر عام مسلمانوں کی حالت کو جاہلیت کی حالت قرار دیا گیااور ان مسلمانوں کی تکفیرکی گئی ۔یہیں سے یہ فکر سامنے آئی کہ ان کے مزعومہ ،مومنانہ جہادی گروہ کو جاہلیت میں مبتلا مسلمانوں پر غلبہ ہوناچاہیے اور یہ خیال بھی عام ہوا کہ ایسے مسلمانوں سے ٹکراؤ ضروری ہے تاکہ خلافت الٰہیہ قائم کی جاسکے- حاکمیت کی فکر کہاں سے پیدا ہوئی اور پھر اس فکر سے دوسری فکری کج رویاں کیسے سامنے آئیں؟ اس حوالے سے مؤلف کا یہ کہنا ہے کہ اس طرح کے تمام افکار و خیالات کا سرچشمہ سید قطب کی کتاب ’’فی ظلال القرآن‘‘ ہے اور اُن کی جودوسری کتابیں ہیں، دراصل وہ فی ’’ظلال القرآن‘‘ میں مندرج افکار و خیالات کا ہی چربہ ہیں۔

ڈاکٹریوسف قرضاوی اپنے مذکرات میں لکھتے ہیں:موجودہ مسلمانوں کی تکفیر کی فکر صرف ’’معالم فی الطریق‘‘ میں نہیں ہے، بلکہ اس کی اصل ’’فی ظلال القرآن‘‘ اور’’ العدا لۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام‘‘ ہے۔ (ابن القریۃ والکتاب،ملامح وسیرۃ،۳/۶۹، دار الشروق، قاہرہ، ۲۰۰۸ء) 

سید قطب نے یہ فکر اصلاًابوالاعلیٰ مودود ی سے لے کر اس کو مزید ترقی دی اور اپنی زوربیانی سے اسے ایک مکمل نظریہ بنادیا اور پھر یہ نظریہ ایسا ناسور بن گیا جس سے تکفیر کا مواد رسنے لگا- ابوالاعلیٰ اور سید قطب نے اس فکر کی بنا قرآن کریم کی اس آیت کریمہ پر رکھی جس میں اللہ تعالی ٰکا ارشاد ہے: 

وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰئکَ ہُمُ الْکَافِرُونَ۔ (المائدۃ:۴۴) (جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کو اپنا حاکم نہ بنائیں وہ کافر ہیں۔ )

اس آیت کریمہ سے سید قطب نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر کوئی شخص شرعی احکام کا نفاذ نہیں کرتا تو وہ ان احکام کی حقانیت کا عقیدہ رکھنے والا ہی کیوں نہ ہو اور ان احکام کے عدم نفاذ کی وجہ کوئی عذر ہی کیوں نہ ہو، پھربھی وہ کافر ہے۔

اس فکر اور نظریے میں بڑی شدت اور بڑی تنگی ہے ،اس میں تکفیرکے لیے عجلت پسندی اور توسیع ہے ، اس فکر کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مسئلہ حاکمیت کو اصول ایمان سے سمجھ لیا گیا، اس طرح عقیدے کے باب میں ایک امر کا اضافہ ہوا اور پھر اس کے فقدان کی صورت میں مسلمانوں کی تکفیر کر دی گئی۔ یہی بعینہ خوارج کا مذہب ہے،جب کہ صحابہ کے زمانے سے لے کر بعد کے ادوار تک مسلم علما کا مذہب اس کے خلاف ہے اورمذکورہ بالاآیت کریمہ کی توجیہ و تفہیم میں متعدد اقوال ذکر کیے گئے ہیں ۔ان میں راجح ترین قول یہ ہے کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کی حاکمیت کو اس طور پر قبول نہیں کیاکہ وہ وحی الٰہی ہے اور برحق ہے تو بلا شبہ یہ کفر ہے ،لیکن اگراس کا نفاذکسی وجہ سے مشکل ہو تو وہ شخص کافر نہیں ہے۔ امام رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:

قال عکرمۃ : وقولہ تعالیٰ: ومن لم یحکم بما انزل اللہ إنما یتناول من انکر بقلبہ و جحد بلسانہ، اما من عرف بقلبہ کونہ حکم اللہ واقر بلسانہ کونہ حکم اللہ إلا انہ اتی بما یضادہ فھو حاکم بما انزل اللہ ولکنہ تارک لہ، فلا یلزم دخولہ تحت ھذہ الآیۃ وھذا ھوالجواب الصحیح۔(تفسیر کبیر، ۶/۳۵، دار الغد العربی، قاہرہ، ۱۴۱۲ھ) 

حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ کافر ہونے کا حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کے نازل کردہ احکام کی حاکمیت کی دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار نہ کریں، چناں چہ جو شخص حکم الٰہی کی دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کرتاہو لیکن اس کا عمل اس کے بر خلاف ہو تو وہ احکام الٰہی کی حاکمیت قبول کرنے والا ہے اگرچہ ترک عمل میں گرفتار ہے ،ترک عمل کی بنا پر وہ اس کے حکم کے تحت یقیناًداخل نہیں ہوگا، یہی صحیح جواب ہے۔

آیت کریمہ کی یہی توضیح امام غزالی نے ’’المستصفی‘‘ میں اور امام ابن عطیہ اندلسی نے ’’المحرر الوجیز‘‘میں کی ہے۔ کلام ائمہ کی چھان بین سے معلوم ہوتاہے کہ ابن مسعود ،ابن عباس ،براء بن عازب ،حذیفہ بن الیمان، ابراہیم نخعی،سدی، ضحاک، ابو صالح، عکرمہ، قتادہ، عامر ، شعبی، عطاء، طاؤوس ، طبری، قرطبی، ابن جوزی، ابو حیان، ابن کثیر ، آلوسی، طاہر بن عاشور اور شیخ شعراوی جیسے تمام ائمہ اعلام نے آیت کریمہ کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ 

ان تمام ائمہ کے بالمقابل سید قطب ہیں، جنھوں نے بیک جنبش قلم ان تمام ائمہ کی تفہیم کوتحریف قرار دے دیا۔ اس فکر میں خوارج کے سوا ان کا کوئی پیش رو نہیں ہے، چناں چہ حضرت سعید بن جبیر سے آیت کریمہ ’’وَاُخَرُمُتَشٰبِھٰت‘‘ کے تحت مروی ہے کہ خوارج کے لیے آیت کریمہ ’’وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰئکَ ہُمُ الْکَافِرُونَ‘‘ متشابہ ہوگئی ہے کیوں کہ وہ لوگ جب کسی امام کو غیر حق کے مطابق فیصلہ کرتے دیکھتے ہیں تو وہ اسے کافر قرار دے دیتے ہیں اور کفر کرنے والے کو رب کا مقابل وحریف قرر دے کرپوری اُمت کو مشرک قرار دے دیتے ہیں۔ 

سید قطب اس طرح کی فاش غلطی کا شکار اسی بنا پر ہوئے کہ انھوں نے فہم وحی کے سلسلے میں علمائے اسلام کے تجربے سے روگردانی کی اور ان کے مناہج فہم کی پیروی نہیں کی، بلکہ ملت اسلامیہ کے پورے فکری سرمایے کو جاہلی ثقافت قرار دے دیا اور فہم وحی کے سلسلے میں خود اپنے حس و حدس اور اپنے تصورات پر بھروسہ کیا، جب کہ اللہ تعالیٰ نے علمائے اسلام کے استنباطات کی صحت کی گواہی دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَلَوْ رَدُّوہُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلٰی اُولِی الْاَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِینَ یَسْتَنْبِطُوْنَہُ مِنْہُمْ.(النساء: ۸۳) 

ہرزمانے کے خوارج کا یہ طریقہ رہا ہے کہ انھوں نے مذکورہ بالا آیت کریمہ کی فاسد تاویل پر اصرار کیا اور علمائے اسلا م کی تاویل کو تحریف قرار دیا، چناں چہ اس سلسلے میں خطیب بغدادی نے ’’تاریخ بغداد‘‘ میں ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک خارجی کو مامون کے پاس لایا گیا، اس سے مامون نے کہا کہ تم نے ہماری مخالفت کیوں کی؟ اس نے جواب دیا کہ قرآن کریم کی آیت کی وجہ سے۔ مامون نے اس سے پوچھا: کیا تم کواس بات کا یقین ہے کہ یہ وحی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں! یقین ہے۔ مامون نے پوچھا: اس پر کیا دلیل ہے؟ اس نے کہا: اجماع امت ہے۔ مامون نے کہا کہ جب قرآن کے مُنزل ہونے کے سلسلے میں اجماع کو مانتے ہو تو پھر آیت کریمہ کی تاویل کے سلسلے میں جو ان کا اجماع ہے اس کو بھی مانو۔ (تاریخ بغداد، ۱۰ ؍ ۱۸۶، دار الفکر، بیروت، ۱۹۹۵ء) 

ان خوارج نے مسلمانوں پر کفر و شرک کی تہمت لگائی، جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کو شرک کے خوف سے مامون قرار دیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: وَإِنِّی لَسْتُ اَخْشٰی عَلَیْکُمْ اَنْ تُشْرِکُوْا، وَلٰکِنْ اَخْشٰی عَلَیْکُمُ الدُّنْیَا اَنْ تَنَافَسُوہَا. (بخاری،باب غزوۃ احد،حدیث:۴۰۴۲) 

ابن عبدالبر نے تمہید میں فرمایا کہ جو امت محمدیہ پر ایسے اندیشے کا اظہار کرے جس کا ان کے نبی نے اظہار نہیں کیا تو یہ سراسر تشدد ہے۔ (۲؍۱۲۱)

اس گفتگو سے واضح ہو گیا کہ فہم قرآن میں ان لوگوں کی عقلیں انحراف و ضلالت کا شکار ہوگئیں اور اس کی وجہ یہ رہی کہ انہوں نے فہم وحی کے سلسلے میں اسلاف کرام کے منہج کی پیروی نہیں کی۔ 

تکفیری گروہ کی پہچان اور حدیث رسول اللہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس تکفیری منہج سے اپنی امت کو ڈرایاہے، چناں چہ حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

إن ما اتخوف علیکم رجل قرا القرآن حتی رئیت بھجتہ علیہ وکان ردئا للاسلام، غیّرہ إلی ما شاء اللہ، فانسلخ منہ و نبذہ وراء ظھرہ، و سعی علی جارہ بالسیف ورماہ بالشرک، قال: قلت یانبی اللہ! ایھما اولی بالشرک المرمی او الرامی قال بل الرامی ۔(صحیح ابن حبان، ابن کثیر نے فرمایا کہ اس کی سند جید ہے)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: مجھے سب سے زیادہ اس شخص سے خوف ہے جو قرآن پڑھنے والا ہو گا، قرآن کا نور بھی اس کوحاصل ہوگا، اسلام کا حامی اور اس کا دفاع کرنے والا ہو گا ،مگر وہ قرآن کو بدل دے گا۔ایسا کر کے وہ قرآن سے جدا ہوجائے گا اور اسے پس پشت ڈال دے گا، اپنے پڑوسی پر تلوار اٹھائے گا ،اوراس پر شرک کی تہمت لگائے گا۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ! ان دونوں میں شرک سے کون زیادہ قریب ہوگا؟ شرک کی تہمت جس پر لگائی گئی ہے وہ یا جس نے تہمت لگائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! بلکہ تہمت لگانے والا۔

اس حدیث کی روشنی میں تکفیری متشدد گروہ کی درج ذیل علامتیں سامنے آتی ہیں: 

یہ گروہ قرآن سے گہرا تعلق رکھنے والا اور اس کی خدمت کرنے والا ہوگا اور اس کی وجہ سے لوگوں کو ان سے حسن ظن ہوگا۔

اس کو قرآن کی نورانیت سے کچھ حصہ حاصل ہوگا، اس کی وجہ سے لوگوں کو اور زیادہ ان سے خوش گمانی ہوگی۔

دین کے لیے بڑا جوش وجذبہ رکھنے والا، اس کی حمایت اور دفاع کرنے والا ہوگا۔

(۴) ان سب کے باوجود اس کے اندر ایک عجیب وغریب تبدیلی رونما ہوگی جس کی وجہ سے لوگوں میں ایک اضطراب پیدا ہو جائے گا، وہ تبدیلی یہ ہوگی وہ قرآن کے متوارث معانی سے منحرف ہو کر جداگانہ باطل تاویل کرے گا؛ کیوں کہ وہ طرق استنباط سے ناواقف ہوگا۔ 

(۵) چناں چہ وہ اپنے پڑوسی کو کافرو مشرک قرار دے گا۔ 

(۶) صرف اسی پر اکتفا نہیں کرے گا بلکہ وہ اس کے خلاف قتال کے لیے ہتھیار اٹھائے گا اور خوں ریزی کرے گا۔ 

شدت مردود ہے

مذکورہ بالا حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین دار نظر آنے والے شخص کی دین کے نام پر جس شدت اور اس کی جن تباہ کاریوں پر خوف کا اظہار کیا ہے وہ بالکل بجا ہے؛ کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عام صورت حال میں شدت بالکل ہی پسند نہیں فرماتے تھے۔ حضرت معاذ بن جبل نے جوش عبادت میں اپنی امامت کے وقت فجر کی نماز میں طویل قراء ت شروع کردی، یہ صحابہ پر شاق گزرا جس کی وجہ سے لوگ جماعت سے دور رہنے لگے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی سخت الفاظ میں تادیب فرمائی اور تین مرتبہ فرمایا: فتّان، فتّان، فتّان ۔ (یعنی کیاتم لوگوں کو آزمائش میں ڈال دینا چاہتے ہو) (بخاری،باب اذا طول الامام،حدیث:۷۰۱)

اس واقعے سے پتا چلتا ہے کہ عبادت میں تھوڑی شدت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس قدر فکرمند ہوگئے تو آپ کو اس تکفیری شخص کے فتنے سے کتنا زیادہ اپنی امت پر خوف محسوس ہوا ہوگا۔

بدعملی کی بنا پر تکفیر نہیں

ایسا دینی جوش جس میں بدعملی کی بنا پر تکفیر کی جائے، خصوصا امرا وحکام کے خلاف ہتھیار اٹھالیا جائے، یہ درست نہیں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

کچھ ایسے امرا وحکام ہوں گے تم ان کو پہچان جاؤ گے اور ان پر انکار کروگے، جو ان کو پہچان لے وہ بری ہے اور جو ان پر انکار کرے وہ سلامتی میں ہے، سوائے اس شخص کے جو ان سے راضی ہو اور ان کی پیروی کرے، صحابہ نے عرض کیا: یارسو ل اللہ! ہم ان سے قتال نہیں کریں گے، آپ نے فرمایا کہ جب تک وہ نماز پڑھ رہے ہیں ان سے قتال نہیں کریں گے ۔ (مسلم،کتاب الامارۃ،باب وجوب الانکار علی الامراء) 

اس کے علاوہ امام باقلانی، ابن حزم، ابوالفتح قشیری، غزالی، ابن وزیر یمنی اور جمہور علمائے اسلام کا مذہب یہی ہے کہ جہاں تک ہوسکے تکفیر سے گریز کیا جائے اور جب تک اجماع نہ ہوجائے اس وقت تک تکفیر نہ کی جائے؛ کیوں کہ توحید کا اقرار کرنے والوں کے خون کو مباح قرار دینا خطا ہے، اور ایک ہزار کافر کو چھوڑنے کی خطا ایک مسلم کی خون ریزی کی غلطی سے چھوٹی ہے۔

حضرت ابن عباس کا خوارج سے مناظرہ اور اس کی عصری معنویت

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ تقریباً چھ ہزار خوارج اپنے ٹھکانے پر جمع تھے، میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے عرض کی کہ اے امیر المومنین! جلدی سے ظہر کی نماز ادا کرلیں تاکہ میں ان خوارج سے جاکر ملاقات کروں۔ حضرت علی نے فرمایا کہ مجھے تمہاری جان کا خوف ہے۔ میں نے کہا کہ بالکل خوف نہ کریں۔ چناں چہ میں خوب صورت ترین یمنی لباس پہن کر نکلا، ان کے پاس پہنچا۔ جب ان لوگوں نے مجھے دیکھا تو مجھے مرحبا کہا، پھر کہا: اے ابن عباس! یہ کیسا لباس ہے؟ میں نے کہا کہ تمھیں اس لباس پر کیا اعتراض ہے؟ میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر عمدہ ترین لباس دیکھے ہیں، پھر میں نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی: قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِینَۃَ اللَّہِ الَّتِی اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ۔ (الاعراف:۳۲) یعنی آپ فرمادیں کہ جو زینت اللہ نے اپنے بندوں کے لیے رکھی اسے کس نے حرام کردیا ہے!

دریافت کیا: کیسے آنا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں امیر المومنین، اصحاب رسول، مہاجرین وانصار کے پاس سے آرہا ہوں، لیکن ایسے لوگ تمہاری جماعت میں نظر نہیں آرہے ہیں، جب کہ انھی کی موجودگی میں قرآن کریم نازل ہوااور وہ قرآن کریم کے مفہوم کو تم سے زیادہ جاننے والے ہیں، ایسے لوگ تمہاری صف میں نہیں ہیں۔ تم لوگوں کو رسول اللہ کے ابن عم اور ان کے داماد سے کیا شکوہ ہے؟

یہ سن کر وہ لوگ کہنے لگے کہ ان سے بحث نہ کرو، ان لوگوں کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے: بَلْ ہُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ۔ (زخرف:۵۸) بعض لوگوں نے کہا کہ ہمیں گفتگو کرنے میں کیا پریشانی ہے؟ ابن عباس رسول اللہ کے چچا زاد ہیں اور ہمیں کتاب اللہ کی دعوت بھی دے رہے ہیں۔ پھر خوارج نے کہا: حضرت علی سے ہمیں تین شکایتیں ہیں:

انھوں نے اللہ کے معاملے میں انسان کو حَکَم بنالیا۔

(۲) انھوں نے قتال کیا تو مخالفین کی عورتوں کو باندیاں نہیں بنایا اور غنیمت نہیں لوٹا، اگر ان سے قتال حلال تھا تو ان کی عورتوں کو باندی بنانا بھی حلال تھا اور اگر باندی بنانا حلال نہیں تھا تو گویا ان سے قتال بھی درست نہیں تھا۔

(۳) انھوں نے اپنے نام سے امیر المومنین کیوں ہٹادیا، اگر وہ امیر المومنین نہیں ہیں تو امیر المشرکین ہیں۔

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: میں نے ان سے کہا کہ کوئی اور شکایت؟ کہا: نہیں! میں نے ان سے کہا: اگر میں تمہارے یہ شکوے کتاب وسنت سے دور کردوں تو رجوع کرلو گے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں؟ تب میں نے کہا کہ جہاں تک حکم بنانے کا معاملہ ہے تو اللہ نے خود فرمایا ہے: یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ (المائدہ:۹۵) (دو عادل لوگ حَکم بن جائیں) اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا فَابْعَثُوا حَکَمًا مِنْ اَہْلِہٖ وَحَکَمًا مِنْ اَہْلِہَا إِنْ یُرِیدَا إِصْلَاحًا یُوَفِّقِ اللَّہُ بَیْنَہُمَا. (النساء: ۳۵) (تمھیں آپس میں اختلاف کا خوف ہو تو ایک حکم مرد کی طرف سے اور ایک حکم عورت کی طرف سے بھیجو، اگر تم دونوں اصلاح چاہتے ہو۔ اللہ تعالیٰ تم دونوں کے مابین اتفاق واتحاد قائم فرمادے گا) پھر میں نے کہا: بتاؤ میں کتاب اللہ سے باہر نکلا؟ جواب آیا: نہیں!

میں نے کہا کہ جہاں تک جنگ کے بعد عورتوں کو باندی بنانے کی بات ہے تو حضرت علی نے ام المومنین حضرت عائشہ سے جنگ کی تھی اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاَزْوَاجُہُ اُمَّہَاتُہُمْ. (الاحزاب: ۶) (نبی کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں) اگر تم ان کو اپنی ماں نہیں مانتے توکافر ہوجاؤ گے اور اگر ماں مانتے ہو تو ان کو باندی بنانا کیسے درست ہوگا؟ تم دو گمراہیوں میں گرفتار ہو، بتاؤ کیا میں قرآن کریم سے باہر ہوگیا؟ جواب آیا: نہیں!

میں نے کہا کہ جہاں تک اپنے نام سے امیر المومنین ہٹانے کی بات ہے تو تم کو معلوم نہیں ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نام سے لفظ ’’رسول اللہ‘‘ ہٹا دیا تھا، اس کی وجہ سے آپ کی رسالت ختم نہیں ہوئی تو علی کی امارت کیسے ختم ہوجائے گی؟ بتاؤ کیا میں سنت سے باہر نکلا؟ جواب آیا: نہیں!(مستدرک حاکم، ۴؍۲۰۲، دارالکتب العلمیہ،بیروت،۱۴۱۱ھ)

اس مناظرے کے کچھ اہم نکتوں پر غورکرنے کی ضرورت ہے۔

حضرت ابن عباس خود ان کے پاس گئے اور بطور سائل ان کے آنے کا انتظار نہیں کیا۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ اہل حق میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں جو باطل افکار کے تجزیے میں پیش قدمی کرنے والے ہوں اور پھر یہ تجزیے ان تک پہنچائے بھی جائیں۔

(۲) آپ شاندار لباس پہن کرگئے۔ یہ ان کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور جذبہ سوال کو مہمیز کرنے کے لیے تھا۔ 

(۳) آپ نے گفتگو کی شروعات میں ہی اپنے منہج کی خوبی اور ان کے منہج کا نقص واضح کردیا کہ میرے پاس تو اصحاب رسول کی مختلف جماعتیں ہیں، لیکن ان کے ساتھ ایسی کوئی جماعت نہیں، جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ ہی دین کو بہتر سمجھ سکتے ہیں۔

(۴) سب سے پہلے آپ نے ان کے تمام اعتراضات کو سناتا کہ گفتگو میں آسانی ہو۔

(۵) وہاں بھی سب سے پہلا مسئلہ حاکمیت کا تھا اور آج بھی دہشت پسند جماعتوں کا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے۔

(۶) وہ جس طرح کے دلائل سے قائل ہوسکتے تھے انھی کو ان کے سامنے پیش کیا۔

اللہ تعالیٰ ترجمان قرآن حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے کہ انھوں نے آئندہ نسلوں کے لیے باطل گمراہ فرقوں سے گفتگو کے رہنما خطوط پیش فرمادیے ہیں اور آج اسی منہج کے مطابق مناقشے کی حاجت ہے۔

جاہلیت کا مفہوم

متشدد جماعتوں کا نظریہ ہے کہ موجودہ مسلم معاشرہ بھی عہد نبوی سے قبل والا جاہلی معاشرہ ہے اور اس معاشرے کے خاتمے اور نئے اسلامی (مزعومہ) معاشرے کی تشکیل کے لیے موجودہ جاہلی معاشرے اور ایسی حکومتوں سے ٹکر لینا، ان کے خلاف بغاوت کرنا اور ہتھیار اٹھانا ناگزیر ہے۔

موجودہ دور کی تکفیری جماعتوں تک یہ نظریہ بھی سید قطب کے ذریعے پہنچا ہے۔ انھوں نے اس نظریے پر بڑا زور دیا ہے اور اس کو اتنا دہرایا ہے کہ ان کی کتاب ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں یہ لفظ۱۷۴۰؍ مرتبہ آیا ہے۔ در اصل جاہلیت کے مفہوم کو سمجھنے میں سید قطب نے سخت ٹھوکر کھائی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے یہ اعتقاد کہ اللہ تعالیٰ ہی بندوں کا حاکم ہے اور اسی کا حکم نافذ ہونا چاہیے اور پھر عملی طور پر اس کے نفاذ اور اس میں ہونے والی عملی کوتاہی کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی اور نفاذ احکام کی کوتاہی کو عقیدے کا مسئلہ بنا کر ایسے لوگوں کی تکفیر کردی جب کہ اجرائے احکام کے لیے کچھ اسباب، شروط اور موانع ہیں جن کی بنا پر احکام کا نفاذ متاثر ہوسکتا ہے۔ 

اس طرح وہ اصول ایمان میں فروع کو داخل کرکے خوارج کی ڈگر پر چل پڑے، جنھوں نے عمل کو ایمان کا جز قرار دے دیا، اسے عقیدے کا مرتبہ عطا کردیا اور پھر گناہوں کی بنا پر لوگوں کی تکفیر کی۔

سید قطب کے اس خارجی منہج کی بنا پر بہت سے غلط مفاہیم سامنے آئے:

اعتقاد و فروع میں اختلاط

’’فی ظلال القرآن‘‘ میں انھوں نے ایک مقام پر لکھا کہ عقیدے کا دائرہ زندگی کے ہر گوشے کو محیط ہے، حاکمیت کا مسئلہ اپنے تمام فروع کے ساتھ عقیدے کا مسئلہ ہے، یوں ہی اخلاق کا تعلق بھی عقیدے سے ہے۔ (جلد: ۴، ص: ۲۱۱۴، دار الشروق، قاہرہ، ۱۴۳۴ھ)

اصول دین میں اضافہ

’’فی ظلال القرآن‘‘ میں انھوں نے اس بات کو بار بار دہرایا ہے کہ فقہ و عمل کا تعلق بھی عقیدے سے ہے۔ عمل کے ہر شعبے کا تعلق عقیدے سے ایسے ہی ہے جیسے خود اصول کا عقائد سے ہے، اور ان میں کسی سے بھی انحراف درحقیقت دین سے انحراف ہے بلکہ ایسے لوگ بت پرستوں کے برابر ہیں۔ (دیکھیے: جلد:۳ کے مختلف مقامات)

جاہلیت کا نظریہ

سید قطب کے نزدیک زمانہ جاہلیت کوئی گزرا ہوا زمانہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک منہج حیات ہے جو قبل اسلام سے تاہنوز جاری ہے، اس کا ماحصل یہ ہے کہ آج مسلمانان عالم اسلام کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی جاہلیت اولیٰ جس میں کفرو شرک سب شامل ہے، کی طرف پلٹ چکے ہیں، جب کہ عام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اہل اسلام کبھی بھی کفر کی طرف نہیں پلٹیں گے اور ان کے طرز وعمل میں جو شریعت کی مخالفت پائی جاتی ہے اس کا تعلق معصیت و گناہ سے ہے کفر وارتداد سے نہیں ہے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماسبق کی ایک حدیث میں اس کی صراحت کردی ہے۔

سید قطب کا یہ موقف ہے کہ ملت اسلامیہ کفر وشرک اور زمانہ جاہلیت کی طرف پلٹ چکی ہے، ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں انہوں نے اس نظریے کا بار بار اعادہ کیا ہے۔ ان کے اس نظریے کا حاصل یہ ہے کہ دنیا سے دین اسلام ختم ہوچکا ہے اور اللہ کی روئے زمین پرصرف شرک وکفر پھیلا ہوا ہے، اس بات کا ذکر بھی انھوں نے ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں متعدد مقامات پر کیا ہے۔ (جلد:۲،ص: ۹۰۴۔ ۹۹۰، اور متعدد مقامات) 

دین ختم ہوچکا

جاہلیت کا غلط مفہوم ومعنی سمجھنے کی وجہ سے وہ اس نتیجے تک پہنچے کہ روئے زمین پر دین اسلام نام کی کوئی شئی باقی نہیں ہے، پوری امت مرتد ہوچکی ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’فی ظلال القرآن‘‘، ’’العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام‘‘ اور ’’معالم فی الطریق‘‘ میں اس کی صراحت کی ہے۔ (جلد: ۲، ص:۱۰۱۷، اور دوسرے مقامات) 

دنیا سے ٹکراؤ ناگزیر

چوں کہ سید قطب یہ نظریہ قائم کرچکے تھے کہ امت اسلامیہ مرتد ہوچکی ہے تو اس سے انھوں نے ایک دوسرا نظریہ بنالیا کہ پوری دنیا کے لوگوں سے ٹکراؤ ناگزیر ہے؛ کیوں کہ ہر طرف جاہلی لیڈر شپ کا دور دورہ ہے اس کو کسی بھی طور پر قبول کرنا شرک ہے، لہٰذا الٰہ واحد کی ربوبیت و حاکمیت کے اعلان اور اس کے قیام کی جدو جہد کے لیے دنیا والوں سے ٹکراؤ حتمی ہے۔ (جلد:۲، ص:۱۰۶۱)

کافروں سے رواداری اور مسلمانوں سے قتال

بڑے تعجب کی بات ہے کہ سید قطب اختلاف ادیان رکھنے والوں سے تو عفو و در گذر کی بات کرتے ہیں، لیکن مسلمانو ں سے رواداری کو درست نہیں سمجھتے؛ کیوں کہ یہ مرتد ہیں اور مرتد کافر سے بھی بُرا ہے۔ (جلد: ۲، ص: ۷۳۲) 

یہی نظریہ داعش تک پہنچتے پہنچتے یہاں تک پہنچ گیا کہ کافر ہو یا مومن سب کی گردن مارنا ضروری ہے۔ 

یہ سارے مفاہیم دین کے متوارث مفاہیم کے مطابق سراسر غلط ہیں، بلکہ اس خیر امت پر تہمت اورخود اسلام اور پیغمبر اسلام کی دینی وتبلیغی کاوشوں کی تحقیر وتذلیل ہے۔ یہ دین آخری دین ہے اور یہ امت آخری امت ہے، شرک وکفر پر کبھی جمع نہیں ہوسکتی۔ 

دارالکفر اور دارالاسلام کا مفہوم:

قدیم مسلم فقہانے احکام شرعیہ کے اجرا اور اس کے استثنائی احکام کے لحاظ سے دنیا کودو حصوں میں تقسیم کیا:

(۱)دار الاسلام (۲) دار الکفر۔ 

اس تقسیم کا مقصد یہ تھا کہ ایک مسلمان مختلف علاقوں کا سفر کرے گا تو کن احوال میں اس پر عمومی احکام جاری ہوں گے اور کن احوال میں استثنائی احکام نافذ ہوں گے اس کا فیصلہ کیا جاسکے، غیر مسلم علاقوں میں خرید و فروخت، نکاح و میراث کے احکام کیا ہوں گے، اس کو متعین کیا جاسکے، اس تقسیم کا مطلوب یہ تھا کہ مختلف احوال میں زندگی کیسے گزاری جائے اس کے طرق و احکام کو تلاش کیا جاسکے، اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ دنیا کے ایک خطے کو دار الکفر کہہ کر ان سے جنگ وقتال اور خون ریزی کا بازار گرم کیا جائے، لیکن بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مسئلے کو مثبت پہلو سے جدا کر کے ایک منفی پہلو دے دیا گیا اور اس کی بنا پر یہ مسئلہ دنیامیں مسلمانوں اور انسانوں کی تباہی و بربادی کا ذریعہ بن گیا اور لوگ مسلم فقہا اور خود مسلمانوں سے بدگمان ہوگئے۔ سید قطب اور ان سے متاثر افراد مثلا صالح سریہ ،شکری مصطفی، محمد عبد السلام فرج اور پھر داعش کے نزدیک یہ ایک جداگانہ اور خون ریز فکر بن کر رہ گئی ہے۔ 

سید قطب اپنی کتاب فی ’’ظلال القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اسلام کی نظر میں دنیا کی دو قسمیں ہیں : پہلا دار الاسلام اور دوسرا دار الحرب، تیسری کوئی قسم نہیں۔ دار الاسلام سے مراد وہ ملک اور وہ علاقہ ہے جہاں اسلامی احکام نافذ ہوں خواہ وہاں کے باشندے سارے مسلمان ہوں یا کچھ مسلمان اور کچھ ذمی، یا سب ذمی ہوں لیکن حکام مسلمان ہوں جنھوں نے وہاں شرعی احکام نافذ کر رکھا ہو، گویا دار الاسلام ہونے کا دار ومدار احکام شریعت کے نفاذ پر ہے۔ 

دار الحرب سے مراد وہ تمام ممالک اور علاقے ہیں جہاں اسلامی احکام نافذ نہ ہوں خواہ وہاں کے باشندے مسلمان ہوں یا کتابی یا کافر، گویا ہر وہ علاقہ دار الحرب ہے جہاں اسلامی احکام نافذ نہیں اگرچہ وہاں کے حکام وعوام مسلمان ہوں، چناں چہ جہاں اسلامی احکام نافذ ہوں گے وہاں کے لوگوں کا جان و مال محفوظ ہوگا لیکن جہاں ایسا نہیں ہوگا اُن کے جان و مال مباح ہوں گے، ان کے جان ومال کی اسلام کی نظر میں کوئی قیمت نہیں ہوگی، وہ احکام شریعت کو نافذ کرنے والے حاکم سے صلح و معاہدہ کریں ورنہ ان سے قتال کیا جائے گا۔ (فی ظلال القرآن، ۲؍۸۷۳) 

گویا سید قطب کے نزدیک دنیا کی تیسری کوئی حالت نہیں ہے، جس میں احکام شرعیہ کے عدم نفاذ کے باوجود ان سے جنگ و قتال کی صورت حال نہ پیدا ہو، بلکہ انسانی بنیادوں پر ایک معاہدے کے تحت امن و شانتی کی زندگی گزاری جائے، یوں ہی ان کی اس گفتگو سے اور ماسبق میں مذکور نظریات سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ موجودہ عہد کے عام مسلم ممالک ان کے نزدیک دار الکفر میں شامل ہیں؛ کیوں کہ جمہوری نظام قائم کر کے اور اسلامی احکام کو پس پشت ڈال کر وہ سب مرتد ہوگئے اور ان سب کا حکم زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا ہے۔

دار الاسلام اور دار الکفر کا یہ مفہوم جس میں مسلم ممالک اور خود مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی نوبت آجائے، احادیث رسول کے خلاف ہے۔ فرمان نبوی ہے:

ومن خرج علی امتی یضرب برھا وفاجرھا ولایتحاشی من مومنھا ولایفی لذی عہد عہدہ فلیس منی ولست منہ۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب الامر بلزوم الجماعۃ۔۔۔)

جو شخص میری امت کے خلاف کھڑا ہو کر ہرنیک و بد کی گردن زنی میں لگ جائے، مومنوں کوقتل کرنے سے گریز نہ کرے اور کسی عہد والے کا عہد نہ پورا کرے تو نہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ 

جب مومنوں کو قتل کرنے پر اتنی وعید ہے تو جو مومنوں کی تکفیر و تشریک میں لگ جائے، اس کے لیے کتنی وعیدیں ہوں گی؟

سید قطب اوراُن کے ہمنواوں نے ’’فی ظلال القرآن‘‘ اور ’’الفریضۃ الغائبۃ‘‘ جیسی دوسری مختلف کتابوں میں دار الاسلام، دار الکفر اور ان کے احکام کے حوالے سے انہی باتوں کا اعادہ کیا ہے جن کا ذکر گزر چکا ہے ۔ 

سید قطب کی اس فکر میں اور ہمارے اسلاف کے بتائے ہوئے اس مفہوم میں جس سے اسلام کے رافت و رحمت کاپہلو سامنے آتا ہے، جو فکر مقاصد شریعت پر مبنی ہے، دونوں میں ذرا سی بھی ہم آہنگی نہیں۔ 

فقہائے اسلام کی جانب سے پیش کی گئی دار الاسلام اور دار الکفر کی تعبیر کی حیثیت اُس زمانے کے لحاظ سے وہی ہے جو آج بین الاقوامی تعلقات کے قوانین کی ہے اور جس کے نتیجے میں آج انٹرنیشنل لا سامنے آیا ہے۔ امام محمد شیبانی کی ’’کتاب السیر الکبیر‘‘ کے مطالعے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ کتاب بین الاقوامی تعلقات کے اصول وضوابط کو بیان کرنے والی قانون کی پہلی کتاب ہے۔ قدیم فقہا سے استفادہ کرتے ہوئے اور دار الکفر اور دار الاسلام کی اصطلاح سے ان فقہاکی مراد کی گہرائی تک پہنچنے کے بعد ’’المعہد العالمی للفکر الاسلامی‘‘ نے ایک انسائیکلو پیڈیا شائع کیا ہے، جسے ’’موسوعۃ العلاقات الدولیۃ فی الاسلام‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ آج دار الاسلام اور دار الکفر کی اصطلاح میں ایک تکملے کی حاجت ہے اور ان دونوں اصطلاحوں کے علاوہ ایک اور اصطلاح دار العہد کے اضافے کی ضرورت ہے تاکہ دین اسلام کی آفاقیت و وسعت واضح ہو، لوگوں کو محاسن اسلام کا ادراک ہو اور ہدایت و اخلاق عام ہو۔ 

ابن تیمیہ کا ایک فتویٰ اور اس کا غلط استعمال

شیخ ابن تیمیہ نے اپنے عہد میں اس امکان پر غور وفکر کیا کہ دار الکفر اور دار الاسلام کی اصطلاح سے ہٹ کر ایک ایسے دارکا بھی امکان موجود ہے جسے دار مختلطہ یا دار مشتبہ کا نام دیا جائے اور جس پر نہ دار الاسلام کی تعریف صادق آتی ہو اور نہ دار الحرب کی مثلا کوئی ایسا علاقہ ہو جہاں لوگ مسلمان ہوں لیکن حاکم غیر مسلم ہو مثلا تاتاری حکومت جو ملک شام پر مسلط ہوگئی تھی۔ 

 اس فتوے میں ایسے ممالک یا علاقے کے بارے میں یہ کہا گیا کہ:

یعامل فیھا المسلم بما یستحقّہ ویقاتل فیھا الخارج عن الشریعۃ بما یستحقہ.

ایسے ممالک میں مسلمانوں سے ان کے استحقاق کے مطابق معاملہ کیا جائے گا اور شریعت سے خارج لوگوں کے ساتھ قتال کیاجائے گا جس کے وہ مستحق ہیں۔ 

اس عبارت میں لفظ ’’یقاتل‘‘ سے جہادی تکفیری گروہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ جو بھی خارج شریعت ہوخواہ دین کا انکار کرکے اور خواہ دین پر عمل سے دور رہ کر، دونوں سے قتال کیا جائے گا۔ محمد عبد السلام فرج نے اپنی کتاب ’’الفریضۃ الغائبۃ‘‘ میں اپنے اسی تکفیری دہشت گردانہ موقف کا اظہار کیا، اور پھر شیخ عطیہ صقر مصری نے اس کا عالمانہ رد لکھا، بعد میں علمائے زمانہ خود اس فتوی کی گہرائی تک پہنچنے کے لیے اس فتوے کی اصل تلاش کرنے میں لگ گئے، تحقیق کے بعد پتا چلا کہ ابن مفلح جو مذہب حنبلی کے معتبر و ثقہ ناقل ہیں انھوں نے بھی اس فتویٰ کو نقل کیا ہے لیکن اس میں کلمہ ’’یقاتل‘‘ کے بجائے ’’یعامل‘‘ ہے اور ظاہر ہے کہ دونوں کے مفہوم میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ یہ فتوی مجلہ ’’المنار‘‘ میں بھی کلمہ ’’یعامل‘‘ کے ساتھ شائع ہوا تھا۔ در اصل یہ تحریف پہلی بار ۱۳۲۷ھ میں فتاوی ابن تیمیہ کی پہلی طباعت میں ہوئی، جس کے محقق فرج اللہ کردی تھے، پھر عبد الرحمن القاسم نے بھی اسی طباعت کی تقلید کی اور پھر یہی فتوی مشہور و متداول ہو ا اور اسی نسخے کے انگریزی اور فرانسیسی زبان میں ترجمے بھی ہوئے، ایک بارپھر شیخ عبد اللہ بن بیہ نے مکتبہ ظاہریہ دمشق میں موجود اس فتوے کے مخطوطے تک رسائی حاصل کی اور تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہاں بھی ’’یقاتل‘‘ کے بجائے اصل لفظ ’’یعامل‘‘ ہی ہے اور اس طرح تحریف کاروں کی تحریف کا پردہ فاش ہوا۔ 

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دار الکفر اور دار الاسلام کا وہ مفہوم نہیں، جو سید قطب اور ان کے ہم نواؤں نے سمجھا ہے بلکہ اس مفہوم کا تعلق دنیا کے مختلف خطوں سے رشتوں کی نوعیتوں کی وضاحت، ثقافتی تبادلے، علم و معرفت کے لین دین اور حیاتیاتی اختلاط وامتزاج سے ہے جس میں کبھی کبھی جنگیں بھی ہوتی ہیں، لیکن عمومی طور پر اس میں صرف جنگ کا معنی نہیں بلکہ اس کے ذریعے، تعارف وشناسائی اور استفادے کی راہ کھولی گئی ہے تاکہ لوگ اسلام کے پیغام کو سمجھ کر اسے اختیار کرسکیں۔ 

ربانی فتح و نصرت صرف جہادیوں کے لیے

مسئلہ حاکمیت کی بنا پر پوری سوسائٹی کی تکفیر و تشریک اور ان کو جاہلی قرار دینے سے ایک اور عجیب و غریب نظریہ سامنے آیا کہ سب لوگ کافر ہیں، صرف یہ جہادی گروہ ہی مومن ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی فتح و نصرت اور روئے زمین پر غلبہ و قدرت عطا کرنے کی بات کی ہے ان کا تعلق صرف جہادیوں سے ہے اور اس کے مخاطب وہی لوگ ہیں۔ اس نظریے کی بنا پر ان کے اندر اور سرکشی پیدا ہوگئی اور پھر اس کے نتیجے میں انھوں نے پورے زور وشور کے ساتھ پوری انسانیت خواہ مسلمان ہو یا کافر، کے خلاف ظلم وستم میں مصروف ہوگئے، شریعت اور اس کے مقاصد سے پوری طرح دور ہوگئے اور اس کو جہاد فی سبیل اللہ کا نام دے دیا گیا۔ سید قطب نے اس نظریے کا اعادہ بار بار ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں کیا ہے۔ (جلد: ۱، ص: ۲۵۲، اور متعدد مقامات) 

جہاد کا مفہوم

دہشت پسند جماعتوں کے نزدیک جہاد کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا کے لوگ چوں کہ غیر اللہ کی حاکمیت قبول کرچکے ہیں، مسلمان پھر سے زمانۂ جاہلیت کی جانب پلٹ چکے ہیں، اس طرح لوگ کفر وشرک کے مرتکب ہوگئے ہیں اور ایک طویل زمانے سے دنیا میں دین مٹ چکا ہے، ہر طرف کفری قوانین اور مشرکانہ دساتیر رائج ہیں، اس لیے ان تحریکوں نے مسلم حکام کی معزولی پھر ان کے اور مسلمانوں کے بے رحمانہ کشت وخون کا سلسلہ شروع کیا اور اپنا ٹارگیٹ صرف یہ بنالیا کہ کسی بھی طرح جہاں بھی ممکن ہو حکومت کی کمان چھینی جائے، متبادل سیاسی ڈھانچہ تیار کیا جائے؛ کیوں کہ دنیا کے لوگوں سے ٹکراؤ ضروری ہوگیا ہے، اسی کو انھوں نے جہاد کا نام دے دیا۔ 

صحیح بات یہ ہے کہ جہاد مشروع صرف قتال میں محدود نہیں بلکہ در حقیقت اسلام میں جہاد ایک وسیع ترقی یافتہ عمل ہے، جس کے مختلف مراحل ہیں اور اس کے عمدہ انسانی مقاصد ہیں، اور قتال تو جہاد کی صرف ایک صورت ہے اور اس قتال کا بھی مقصد یہ ہے کہ جرائم پسند اور فسادی عناصر کو ختم کرکے امن و شانتی کو لوگوں کے مابین عام کیا جائے، ہدایت ربانی سے لوگوں کو آشنا کیا جائے اور لوگوں کو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب زندگی سے ہم کنار کیا جائے، یہ مقصد نہیں کہ زندگی کا گلا دبا دیا جائے، پھر یہ جہاد بھی کسی حاکم کے زیر نگرانی اور گورننگ پاور کی ماتحتی میں انجام پائے گا، جس میں جہاد کرنے والوں پر یہ واجب ہوگا کہ وہ کسی درخت کو نہ کاٹیں، کسی بکری کو نہ ماریں، کسی راہب کو خوف زدہ نہ کریں وغیرہ، پھر اس جہاد کے بھی کچھ حدود وقوانین ہوں گے، اگر ان حدود وشروط کی رعایت نہیں ہوگی تو پھر یہ جہاد نہیں رہ جائے گا بلکہ ناانصافی، ظلم اور سرکشی میں تبدیل ہوجائے گا۔ 

دہشت گردوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے یہاں متعدد قسم کے مظالم پائے جاتے ہیں۔ قرآن وحدیث اور شریعت پر ظلم کہ انہوں نے پوری سوسائٹی کی تکفیر کردی، شریعت کی مختلف اصطلاحات، معانی ومفاہیم میں تحریف کی اور دین اسلام کو ظلم وبربریت اور شقاوت وقساوت کا دین بناکر رکھ دیا۔ 

جہاد کی اس تعبیر کا بھی ذکر سید قطب اور ان کے ہم نواؤں کے یہاں کھلے لفظوں میں ملتا ہے، صالح سریہ نے اپنی کتاب ’’الایمان‘‘ میں اپنے مزعومہ جہاد کو فرض عین قرار دیا ہے ۔ گویا جہاد کے مفہوم کے حوالے سے دنیا ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف تو جہاد کا متوارث اور وسیع شرعی مفہوم ہے اور دوسری طرف دہشت پسند تحریکوں کا اختراعی پُرتشدد مفہوم ہے اور دونوں مفاہیم کے کچھ بنیادی امتیازی نقطے یہ ہیں: 

(۱) علمائے امت کے مطابق جہاد مشروع کا مفہوم وسیع ہے یہ ایک عمدہ اور پُر نور عمل ہے جس کی متعدد صورتیں ہیں، چناں چہ جہاد قلب سے بھی ہوتا ہے، دعوت دین، اقامت حجت، بیان وتبیین، رائے وتدبیر کے ذریعے بھی جہاد ہوتا ہے، البتہ! کبھی ایسی ایمرجنسی کی صورت حال ہوتی ہے کہ جب شر وفساد کے خاتمے کے لیے قتال اور جنگ ناگزیر ہوتی ہے، ان کی تفصیلات کے لیے کتب فقہا کی جانب رجوع کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دہشت پسندوں کے نزدیک جہاد کا مفہوم قتال میں محدود ہے۔ 

(۲)اہل حق کے نزدیک جہاد ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے، مقصود لذاتہٖ نہیں اور شریعت میں وسائل ان اعمال کو کہا جاتا ہے جن کا مقصود دوسرے کسی غرض کی تحصیل ہو، گویا جہاد کو ہمیشہ قتال سے جوڑکر دیکھنا ضروری نہیں بلکہ مقصود ان اغراض کی تکمیل ہے جو قتال کے پس پشت ہیں، اسی وجہ سے کبھی کبھی مقاصد کی تحصیل کے لیے قتال نہ کرنا ضروری ہوتا ہے، اسی لیے امام رملی فرماتے ہیں کہ جہاد کبھی تو صرف قلعے اور خندقیں بنوانے سے بھی ہوجاتا ہے اور کبھی قتال کی ضرورت پڑتی ہے ۔ (نہایۃ المحتاج، ج:۸، ص:۴۶) 

دہشت پسندوں کے نزدیک قتال مقصود لذاتہٖ ہے، چناں چہ قرضاوی نے ذکر کیا ہے کہ سید قطب نے جہاد کے حوالے سے سب سے تنگ اور پر تشدد رائے قائم کر رکھی ہے اور وہ رائے بڑے بڑے فقہا ودعاۃ کے موقف کے خلاف ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں (ان کے ماننے والوں) کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو پوری دنیا سے جنگ کرنے کے لیے تیار کریں۔ (ابن القریۃ والکتاب، جلد: ۳، ص:۵۹) 

(۳) علمائے حق کے مطابق جہاد کا سب سے بڑا مقصد ہدایت ہے؛ کیوں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو خیبر کی طرف بھیجا تو آپ نے ارشاد فرمایا: لان یھدی اللہ بک رجلا واحد اخیر من حمر النعم. (صحیح بخاری، باب فضل من اسلم علی یدیہ رجل) (اللہ تمہاری ذات سے کسی ایک انسان کو بھی ہدایت عطا فرمائے تو یہ سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے )

میدان جنگ میں بھیجتے وقت حضور علیہ السلام کے اس فرمان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ قتال کا مقصود بھی ہدایت ہے، چناں چہ اگر یہ مقصود علم ومناظرہ اورازالہ شبہات کی کوششوں سے حاصل ہوجائے تو یہ افضل ہے اور اسی وجہ سے علما نے یہ فرمایا ہے کہ علما کے قلم کی روشنائی شہدا کے خون سے افضل ہے اور اگر یہ مقصود قتال کے علاوہ کسی اور طریقے سے حاصل نہ ہو تو اس وقت تک قتال کریں گے، جب تک کہ ان اہداف میں سے کوئی ہدف نہ حاصل ہوجائے یا تو ان کی ہدایت ہوجائے اور یہی سب سے اعلی مرتبہ ہے یا ان کے مقابلے میں شہادت ہوجائے یہ پہلے والے سے کمتر درجہ ہے، لیکن یہ ایک عمدہ مقصد ہے اورا س کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اپنی سب سے عزیز چیز کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنا ہے، لیکن یہ بھی مقصد حقیقی نہیں ہے بلکہ مقصود اعلائے کلمۃ الحق ہے ۔ امام عز الدین بن عبد السلام قواعد الاحکام (جلد: ،ص:۱۲۵)میں فرماتے ہیں کہ مقاصد کے سقوط کی صورت میں وسائل بھی ساقط ہوجاتے ہیں۔ دہشت پسندوں کے نزدیک ہدایت کی تحصیل میں جہاد وقتال کا کوئی کردار نہیں۔

(۴) علمائے حق کے مطابق جہاد ایک حکم شرعی ہے، صرف جوش اور جذباتیت کا نام نہیں ہے، لہٰذا یہ بھی احوال کے لحاظ سے کبھی واجب ہوگا کبھی مستحب اور کبھی حرام، یوں ہی کبھی صورتا تو جہاد صحیح ہوتا ہے لیکن حقیقتاً باطل ہوتا ہے؛ کیوں کہ وہ جہاد اپنے محل میں نہیں ہوتا اورا س میں شروط وضوابط کی پابندی نہیں ہوتی اور جب حدود وشروط کی پابندی نہیں ہوگی تو صورتا صحیح ہونے کے باوجود یہ سراسر ظلم وسرکشی ہوگا ۔ 

دہشت پسندوں کے نزدیک جہاد کا جو مفہوم ہے اس میں صرف ظلم وتعدی ہے اور دین ودانش کے خلاف ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگ دین اسلام سے بدظن ہوتے ہیں اور خود مسلمانوں میں دین بیزاری کا ماحول عام ہوجاتا ہے ۔ 

سید قطب اور ان کے ہم نواؤں کے مطابق جہاد پوری دنیا سے جنگ کا نام ہے یوں ہی وہ لوگ جہاد کے مسئلے میں اپنے زمانے کے جمہور علما پر ایک تو یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ لوگ احمق، غافل، کم علم اور کم فہم ہیں۔ دوسرا یہ کہ نفسیاتی اور اخلاقی طور پر یہ لوگ کمزور ہیں کیوں کہ ان کے اندر بزدلی اور موجودہ مغربی دنیا سے مرعوبیت پائی جاتی ہے ۔ (ابن القریۃ والکتاب، جلد:۳،ص:۶۱) 

’’تمکین فی الارض‘‘ کا مفہوم

اخوان اور ان سے نکلی ہوئی ہر تنظیم کی یہ محوری فکر ہے۔ تمکین کا مفہوم ان کے نزدیک یہ ہے کہ روئے زمین کفر وارتداد کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی ہے، اس لیے ان کے خلاف مسلح جد وجہد ضروری ہے، یوں ہی حکومت واقتدار پانے کے لیے مختلف قسم کی تدابیر، کوششوں اور اقدامات کی ضرورت ہے اور اقامت دین کا یہی واحد راستہ ہے۔ حکومت واقتدار کے حصول کی انہی کوششوں کو وہ تمکین فی الارض کی کوشش سے تعبیر کرتے ہیں۔ 

اس سلسلے میں ان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا نقل کرتے ہوئے ارشاد فرما یا : رَبِّ اجْعَلْنِی عَلَی خَزَاءِنِ الْاَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیْمٌ. (یوسف: ۵۵) (اے مولی! مجھے زمین کے خزانوں کا مالک بنادے، میں حفاظت کرنے والا اور علم والا ہوں )

ان کے مطابق یہ آیت کریمہ بتاتی ہے کہ حکومت وامارت کے حصول اور قیام کی کوشش ہونی چاہیے۔ سید قطب نے اس مسئلے پر تفصیلی گفتگو کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ در اصل حضرت یوسف علیہ السلام ایک جاہلی معاشرے میں زندگی گزار رہے تھے، اس لیے انھوں نے امارت وحکومت کی کوشش کی اور چوں کہ آج ہمارے زمانے میں بھی یہی صورت حال ہے اس لیے آج بھی تمکین فی الارض (غلبہ واقتدار) کے حصول کے لیے جد وجہد کی ضرورت ہے ۔ 

(فی ظلال القرآن، ۴؍۲۰۱۳، العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام۔ ص: ۱۸۳، دار الشروق، قاہرہ، ۱۴۱۵ھ) 

ان کی یہ ساری گفتگو بڑی خطرناک ہے؛ کیوں کہ اس گفتگو سے انھوں نے گویا یہ اعلان کردیا کہ اب دین منقطع ہوچکا ہے، احکام شریعت کا کہیں وجود نہیں رہ گیا اور یہ امت کفر وشرک کی علم بردار ہوگئی ہے جب کہ دین محمدی قیامت تک کے لیے ہے اور یہ دین قیامت تک بالکلیہ کبھی ختم نہیں ہوگا یوں ہی یہ خیر امت ہے جو شر پر جمع نہیں ہوگی ۔ 

دوسری بات یہ کہ مسلمانوں نے مکے میں تیرہ سال تک بالکلیہ مختلف ماحول میں زندگی گزاری۔ حبشہ میں الگ صورت حال سے نبرد آزما ہوئے اور مدینے میں مختلف ادوار میں الگ الگ حالات رہے تو کیا مغلوبیت واقلیت کے زمانے میں وہ دین پر قائم نہیں تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ انہی مختلف احوال سے تو مسلمانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ کیسے مختلف احوال میں مسلم رہتے ہوئے اور دین وشریعت پر قائم رہتے ہوئے زندگی گزاری جائے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ جاہلی زمانے میں تھے، یہ ان کے مقام نبوت پر دست درازی ہے؛ کیوں کہ زمانہ جاہلیت تو کفر وشرک سے بھرا وہ زمانہ ہوتا ہے جس میں کوئی نبی نہ ہو، اس زمانے میں تو وہ خود بطور نبی موجود تھے۔ یوں ہی حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں یہ کہنا کہ انھوں نے امارت وحکومت کی طلب کی تویہ سراسر غلط ہے اور قرآن کے سیاق وسباق اور اس زمانے کے حالات کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے ۔

در اصل بات یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر علم کی صفت سے ذکر کیا ہے اور ہوا یہ کہ جب زراعت کی باریکیوں اور اقتصادی مسائل وبحران کے حل کے سلسلے میں حضرت یوسف علیہ السلام کے علم کا اظہار مصری قوم جو خود بھی علم زراعت میں بہت ماہر تھی، کے سامنے قحط سالی کے دوران ہوا تو یوسف علیہ السلام کے پاس بار بار قاصد بھیجا گیا، لیکن آپ نہیں آئے یہاں تک کہ بادشاہ نے خود درخواست کی کہ آپ وزیر یا اقتصادی مشیر بن جائیں تو آپ نے اس کے اصرار پر یہ منصب قبول کرلیا، یہاں آپ نے خود سے امارت وحکومت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ آپ کو بہ اصرار یہ ذمے داری سونپی گئی۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں تمکین یااس کے مادے سے مشتق الفاظ مختلف مقامات پر مذکور ہیں، اور جن کو تمکین کی صفت حاصل ہوئی ان میں مسلم اور غیر مسلم دونوں تھے، لیکن ہر جگہ تمکین عطا کرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی جانب کی گئی ہے، کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ انھوں نے تمکین خود سے حاصل کرلی۔ گویا تمکین فی الارض کا معاملہ محبت کی طرح ہے کہ کوئی بھی انسان خود سے محبت دلوں میں نہیں ڈال سکتا، محبوبیت ومقبولیت اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے، انسان صرف محبت کے اسباب ووسائل کو اختیار کرتا ہے۔ 

تمکین سے تعلق رکھنے والی آیات اور خصوصا سورۂ یوسف اور واقعۂ ذوالقرنین سے تمکین کا جو مفہوم سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو جدید معاشرتی و ثقافتی امور، تہذیب وتعمیر اور ماڈرن سائنسی علوم میں اتنا ترقی یافتہ بنائے کہ اس کی علمی تحقیقات سامنے آئیں جس کے نتیجے میں بے روز گاری ختم ہو، فقر ومفلسی کی شرح کم ہو، بے گھر اور بے سہارا مردو عورت اور بچے نظر نہ آئیں، ہر طرف خوش حالی ہو اور انسانی سماج کی ترقی ہو۔ تمکین کا وہ معنی نہیں جو دہشت پسند تنظیموں نے سمجھا کہ پوری دنیا کو کافر ومشرک جان کر کسی بھی طرح ان سے زمامِ حکومت چھین لی جائے اور اس مقصد کے لیے جتنی بھی خون ریزیاں ہوں سب کو روا سمجھا جائے بلکہ اسے جہاد کا نام دے کر تقدس کا جامہ پہنادیا جائے۔ یہ دین وشریعت پر ظلم اور قرآن کے معانی ومفاہیم میں تحریف ہے ۔ 

وطن کا مفہوم

(۱) دہشت پسند تنظیموں کا وطن کے حوالے سے یہ نظریہ ہے کہ وطن صرف ایک مشت خاک ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں ۔ 

وطن سے محبت کا جذبہ ایک بے وقعت انسانی جذبہ ہے جس کو دور کرنا ایسے ہی ضروری ہے جیسے گناہوں کی جانب میلانات کو، وطن اور اس سے محبت کی فکر جاہلی اور مردود ہے؛ کیوں کہ یہ خلافت اور امت کے نظریے کے خلاف ہے، وطن استعماری طاقتوں کے بنائے ہوئے جغرافیائی حدود کا نام ہے، اس لیے ہمیں اس سے کوئی محبت نہیں، وطن تو اس مقام کو کہتے ہیں جہاں انسان رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی مذمت کی ہے۔ (فی ظلال القرآن، ۳؍۱۴۴۱) 

(۲)حب الوطنی پر کوئی آیت یا حدیث رسول موجود نہیں ہے۔

(۳)جن احادیث میں مکہ مکرمہ سے حضور نے اپنی محبت کا اظہار فرمایا ہے یہ مکہ کی خصوصیت ہے، دوسرے وطن کو اس پر ہم قیاس نہیں کریں گے۔ 

سید قطب نے ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں متعدد مقامات پر وطن کے حوالے سے انہی مفاہیم کا اعادہ کیا ہے اور حب الوطنی کے تمام تصورات کو جاہلی قرار دیا ہے۔ (دیکھیے: ج:۲، ص:۷۰۸) 

یہ ساری باتیں جو سید قطب کی جانب سے کہی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ وطن کا جو تصور سید قطب نے پیش کیا ہے وہ مخدوش تصور ہے؛ کیوں کہ وطن صرف ایک مشت خاک کا نام نہیں، بلکہ وطن ایک قوم، تہذیب وتمدن، تاریخ، مسائل، سیاست، فکری رجحانات، تنظیمیں، جغرافیائی حدود اورا س میں پیدا ہونے والی عبقری شخصیات سے عبارت ہے ۔ 

وطن کی جانب قلب کے میلان کو گناہوں سے تشبیہ دینا طیب وخبیث کوباہم خلط ملط کرنے کے مترادف ہے؛ کیوں کہ وطن کی محبت ہر قلب سلیم میں موجود ہوتی ہے، جب کہ گناہوں کا معاملہ ایسا نہیں ہے ۔ 

وطنیت ایسی کوئی فکر نہیں جو خلافت وامت کے نظریے کے بالمقابل ہو، بلکہ دین سے پورا تعلق برقرار رکھتے ہوئے کسی جغرافیائی علاقے سے نسبت کو اسلام نے مذموم نہیں قرار دیا ہے، ہاں! اگر یہ محبت دین وایمان پر غالب آجائے اور حق سے روک دے اور تعصب کا سبب بن جائے تب یہ مذموم ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وطن مکہ مکرمہ کی جانب اپنے اشتیاق کا اظہار فرمایا کرتے تھے ۔

وطن کو انگریزوں کے بنائے ہوئے جغرافیائی حدود سے تعبیر کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ ہزاروں سال سے چلے آنے والے جغرافیائی حدود کانام ہے، وطن کی تعبیر انسان کی پسندیدہ جائے سکونت سے کرنا اور پھر یہ کہنا کہ اللہ تعالی نے اس کی مذمت کی ہے، یہ درست نہیں ہے؛ کیوں کہ آیت کریمہ ’’وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا‘‘ (التوبۃ: ۲۴) میں رہائشی مکانات مراد ہیں اور ان سے ذاتی عیش وعشرت کی طرف اشارہ ہے، مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور جہاد فی سبیل اللہ یعنی خیر وسعادت کی نشر واشاعت اور سماجی فلاح وبہبود کی محبت ذاتی فلاح وبہبود پر غالب نہیں آنی چاہیے۔ 

ان دہشت پسند تنظیموں پر وطن کا مفہوم اس لیے واضح نہیں ہوسکا کہ فہم قرآن کے صحیح ذرائع و وسائل کا انھوں نے استعمال نہیں کیا، حب الوطنی کے اشارات قرآن کریم اور مفسرین کے کلام میں موجود ہیں، امام رازی، ملا علی قاری اور دوسرے بے شمار علما ومفسرین کے یہاں اس کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، یوں ہی احادیث نبویہ اور شارحین کے کلام میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ آپ جب سفر سے لوٹتے تو مدینہ کے در ودیوار کو بغور دیکھتے، اس حدیث کی شرح میں امام عسقلانی، عینی وغیرہم نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے حب الوطنی کی مشروعیت کا پتہ چلتا ہے، ان کے علاوہ دوسرے بہت سے محدثین وشارحین نے ایسی روایات اور مفاہیم ذکر کیے ہیں جن سے حب الوطنی کا درست ہونا معلوم ہوتا ہے ۔ 

ان کے علاوہ فقہا، اولیا، حکما، شعرا، ادبا، سب کے یہاں حب الوطنی کے جذبات کا اظہار ملتا ہے، یوں ہی حب الوطنی کے موضوع پر بہت سے علما نے کتابیں بھی لکھیں ہیں، جاحظ نے ’’حب الوطن‘‘ نامی کتاب لکھی، یوں ہی ابو حاتم سجستانی، سمعانی، ابوحیان توحیدی وغیرہم کی بالترتیب ’’الشوق الی الاوطان، النزوع الی الاوطان اور الحنین الی الاوطان‘‘ نامی کتابیں ہیں ۔ 

اسلامی غلبے کے پروجیکٹ کی حقیقت

بعض لوگوں نے اسلامی غلبے کے پروجیکٹ کے حوالے سے بڑا واویلا مچا رکھا ہے، جو اس کی حمایت کرتا ہے اس کو اللہ اور اس کے دین کا حامی سمجھا جاتا ہے اور جو اس کی مخالفت کرتا ہے اسے اللہ اور اس کے رسول کا دشمن قرار دیا جاتا ہے، لیکن کوئی بھی اس اسلامی پروجیکٹ کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے پیش نہیں کرتا تاکہ اس کے تعلق سے وہ اپنی صحیح رائے قائم کرسکیں، خدمت دین متین میں ازہر کی ہزار سالہ تاریخ کی روشنی میں اسلامی غلبے کے پروگرام کے اہم خصائص یہ ہونے چاہیے:

(۱) اسلامی پروگرام میں موجودہ عہد کے ڈیپلومیٹک، ادارتی، سیاسی، اقتصادی، سماجی، فلسفیانہ اور سائنسی سوالات ومشکلات کا تفصیلی اور جزئی جواب موجود ہو۔ 

(۲) اس جواب کا مبدا نصوص شرع، اس کے مقاصد، اجماعات، احکام وتشریعات، اخلاق واقدار، اصولی وفقہی قواعد، سنن الٰہیہ اور اس کے آداب وفنون ہوں۔

(۳) اس کی صورت یہ ہو کہ پہلے علوم ومناہج اور اس کی تنظیرات کو وجود میں لایا جائے، پھر اس کے ایسے عملی پروگرام ہوں جو تنظیمات اور ادارے کی شکل میں تبدیل ہوجائیں ۔

(۴) اس اسلامی پروجیکٹ کا مقصود یہ ہو کہ علوم ومعارف اور خدمات کے ایسے عملی ادارے قائم ہوں، جن میں مقاصد شریعت کی روح دوڑ رہی ہو، جن کے ذریعے نفس، عقل، عزت، دین، مال، احترام انسانیت کے اقدار کی حفاظت اور اخلاقی اساس کی تعظیم ہو، عالمی افادے اور استفادے کے لیے دروازے کھلے ہوں، جس کے ذریعے بچوں، عورتوں کی اہمیت وقیمت واضح ہو، ماحولیات اور حقوق کائنات، انسان وحیوان، نباتات وجمادات کی حفاظت ہو اور ہر جگہ نوارانی وربانی تاثیرات موجود ہوں، اور بہر صورت انسان کا تعلق اپنے خالق ومالک سے مضبوط ہو، تہذیب ایسی ہو جس میں مسلم، عیسائی، یہودی، بدھشٹ، اشتراکیت پسند، سیکولر، لیبرل، دایاں محاذ، بایاں محاذ، ملحد وبے دین اور سارے مذاہب کے لیے وسعت ہو، اس میں کسی کو اس کے معاملات میں مجبور نہ کیا جائے بلکہ سب کے ساتھ اسلامی رحمت ورافت اورعدل وانصاف کا مظاہرہ ہو۔ 

(۵) اسلامی پروگرام کا محور ومقصد اخلاق، مکارم انسانیت، بلند اخلاقی اقدار، احترام انسانیت اور دنیا اور آخرت میں لوگوں کو سعادت مندی سے بہرہ مند کرنا ہو۔ 

ان مقاصد سے ہٹ کر جو بھی اسلامی پروگرام ترتیب دیا جائے گا وہ باطل وبے معنی ہوگا۔ اس طرح کے پروگرام تیار کرنا عام آدمی کا کام نہیں ہے بلکہ یہ مجتہدین فقہائے شریعت اور ماہرین دین کی ایک ٹیم کا کام ہے ۔

ان باتوں کو سامنے رکھے بغیر دہشت پسند تنظیموں کی جانب سے آج جس اسلامی پروگرام کا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے، جس میں تکفیر وتشریک، تہمت، قتل وغارت گری، انسانی اقدار کی پامالی اور مقاصد وآداب شریعت کی بے حرمتی کے علاوہ کچھ بھی نہیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں اور اس کے ذریعے تو لوگ اسلام سے بدگمان ہوکر اسلام سے دور ہی ہورہے ہیں ۔ 

دہشت پسندوں کے فکری نقائص کی بنیادیں

کسی بھی مسئلے پر تفکر وتدبر اور قرآن وسنت سے استفادے کے لیے درج ذیل مراحل سے گزرنا ضروری ہے اور ان ہی مراحل سے نہ گزرنے کی بنا پر یہ تحریکات غلط افکار کے دلدل میں پھنس گئیں۔ 

فکری استنباط کا جن علمی مراحل سے گزرنا ضروری ہے، وہ درج ذیل ہیں 

(۱) استنباط کے وقت مسئلے سے تعلق رکھنے والی تمام آیات واحادیث پیش نظر ہوں، صرف فقہی آیات پر نظر نہ ہو بلکہ قصص، اخبار سب پر نگاہ ہو۔ طوفی شرح مختصر الروضۃ (جلد: ۳، ص:۵۷۷) میں کہتے ہیں کہ احکام شرع جس طرح اوامر ونواہی سے مستنبط ہوتے ہیں اسی طرح قصص ومواعظ سے بھی ان کا استخراج ہوتا ہے، قرآن کی شاید ہی کوئی آیت ہو جس سے کوئی حکم مستنبط نہ ہوتا ہو، اور استنباط بھی علما کے قرائح واذہان اور روحانی فتوحات کے اختلاف سے مختلف ہوا کرتے ہیں۔ یوں ہی درجات استنباط بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔

(۲) شرعی نصوص کو صحیح طور پر سمجھ کر ایک دوسرے سے ربط جوڑا جائے تاکہ تقدیم وتاخیر، عام وخاص اور مطلق ومقید کے خصائص تک رسائی ہوسکے۔

(۳) دلالتوں کی مختلف جہات پر اچھی نظر، مدلولات کی صحیح معرفت، عربی زبان کی وسعتوں سے مکمل آگہی اور علوم عربیہ کا کامل ادراک ہو، تمام علمائے اصولیین نے ان مباحث کا ذکر اصول استنباط کے ذیل میں کیا ہے ۔

استنباط کے وقت پہلے سے کوئی نظریہ نہ بنا ہوا ہو اور قرآن کو اپنے اس سابقہ نظریے کے اثبات کے لیے آلہ نہ بنایا جائے، بلکہ قرآن جس نتیجے تک اصول استنباط کی روشنی میں لے جائے اس کو اختیار کیا جائے ۔

(۴) قرآن اور نصوص شریعت سے ایسے مفاہیم نہ مستنبط کیے جائیں، جو مقاصد شرع سے مزاحم اور مسلمات دین سے متصادم ہوں۔ 

(۵) سابقہ اسلامی میراث کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائے اور ان سے استفادہ کیا جائے ۔

(۶) ان اصول ومناہج سے ہوشیار رہا جائے، جن کے بھنور میں سابقہ گمراہ جماعتیں پھنس چکی ہوں۔

ان کے علاوہ فکری استنباط کے وقت یہ باتیں بھی قابل توجہ ہیں :

(۱) معرفت وحی، اس کے مناہج فہم کا علم اور صورت حال کا صحیح ادراک، ان تینوں ارکان کے بغیر کبھی بھی صحیح فہم کی تکوین نہیں ہوسکتی۔

(۲)وہ فکریں اور وہ استنباطات جو نفسیاتی اور جذباتی دباؤ کے تحت وجود میں آتے ہیں ان میں عمیق تفکر اور صحیح مناہج کا فقدان ہوتا ہے، اس لیے حالت غضب میں فیصلے صادر کرنے کی احادیث کریمہ میں ممانعت آئی ہے ۔

(۳)مصالح ومفاسد کے باب میں اجتہاد کا حق صرف اس شخص کو ہے جس کو تفصیلی طور پر مقاصد شرع کی معرفت ہو ۔

(۴)مقاصد شریعت کی عدم معرفت اور سنن الٰہیہ سے بے خبری سے فہم میں خلل واقع ہوتا ہے ۔

فکری نقائص کے اثرات

بہت سی اسلامی اصطلاحوں کا صحیح مفہوم نہ سمجھ پانے کی وجہ سے پوری دنیا خصوصاً عالم اسلام، امت مسلمہ اور مذہب اسلام پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے، چناں چہ حاکمیت کا غلط مفہوم سمجھنے اور سمجھانے کا اثر یہ ہوا کہ دوسرے وہ تمام افکار سامنے آئے جن کا تذکرہ مسئلہ حاکمیت کے بعد کیا گیا ہے، یوں ہی سید قطب کی اس فکر سے تمام دہشت پسند تنظیمیں نکلیں، اخوان، القاعدہ، التکفیر والہجرۃ اور اس جیسی دوسری تنظیمیں سامنے آئیں جس کی انتہا موجودہ عہد میں داعش پر ہوئی۔ صالح سریہ، شکری مصطفی، محمد عبد السلام فرج جیسے بے شمار افراد نکلے اور ان کے قلم سے اسی فکر کا نمائندہ لٹریچر بھی ظاہر ہوا۔

نظریۂ جاہلیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری دنیا سے دین کو منعدم قرار دے کر شریعت اسلامیہ کے قیام کے نام پرکشت وخون کا بازار گرم کردیا گیا، ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا گیا، مسلم حکام کے خلاف بغاوت کی گئی اور پوری دنیا کا عموما اور مسلم دنیا کا خصوصاً امن وامان غارت کردیا گیا ۔

یہ نظریہ قائم کرکے کہ اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر مومنین کے غلبے کا جو وعدہ کیا ہے اس کے مستحق صرف یہی لوگ ہیں، سارے مسلمانوں کی تکفیر کردی گئی اور ان سے زمام مملکت چھیننے کی کوشش شروع ہوگئی، جہاد کے مفہوم کو قتال میں منحصر کرکے احادیث وقرآن کی تکذیب کی گئی، سارے علمائے شریعت کی مخالفت کی گئی اور پوری امت سے ہٹ کر ایسا نظریہ قائم کیا گیا جس سے انسانی جانوں کی پامالی اور ناقدری کی راہ ہموار ہوگئی اور نوجوانوں کا استحصال کرکے ان کے ذہن میں ہدایت ربانی، اخلاق نبوی، اسلامی عدل وانصاف اور رافت ورحمت کی عظمت کو راسخ کرنے کے بجائے قتل وخون کا زہر گھول دیا گیا۔نظریۂ تمکین کی آڑ میں جاہ وریاست کی طلب اور حصول اقتدار کی راہ ہموار کی گئی۔ قرآنی آیات کا غلط معنی پیش کرکے تحریف کے جرم کاا رتکاب کیا گیا، وطن کی غلط تعبیر وتشریح کرکے ایک پاکیزہ انسانی جذبے کی ناقدری کی گئی بلکہ اس کو سراپا معصیت بنادیا گیا، اس طرح انبیا، صحابہ اور ہزاروں ان علما کی بے عزتی کی گئی جن کے یہاں وطن کے حوالے سے محبت کے پاکیزہ احساسات پائے جاتے ہیں ۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ سید قطب کے عہد سے لے کر اب تک جتنی بھی دہشت پسند جماعتیں وجود میں آئی ہیں، سب کی فکری بنیادیں انہی بیان کردہ افکار وآرا پر ہیں، حیرت ہوتی ہے کہ ان میں آپس میں کس قدر فکری مماثلتیں پائی جاتی ہیں ۔

مقالہ نگار کے خیال میں مؤلف کتاب نے بڑی گہرائی سے سید قطب اور ان کے کوکھ سے پیدا ہونے والی تمام تنظیموں اور ان کے افکار کا مطالعہ کیا ہے اور بہت سلیقے سے علمی انداز میں ان پر تنقید کی ہے۔

مؤلف نے یوں تو اپنی کتاب میں عرب دنیا سے تعلق رکھنے والے دہشت پسند افراد، ان کے لٹریچر اور ان کی تنظیموں کا تجزیہ کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا تجزیہ برصغیر ہند وپاک اور دنیا بھر کی دہشت پسند تنظیموں پر پوری طرح منطبق ہوتا ہے اور یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس کتاب کو بنیاد بناکر پوری دنیا کی عموماً اور برصغیر ہندو پاک کی تمام بنام اسلام دہشت گرد تنظیموں کی خصوصا فکری تاریخ لکھی جاسکتی ہے اور ان کے دہشت گردانہ اقدامات کی روشنی میں ان کے افکار وخیالات کی عملی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

اللہ کریم امت مسلمہ کو صراط مستقیم پر قائم فرمائے اور افراط وتفریط اور تشدد وارہاب کی لعنت سے نکال کر ارشاد وہدایت اور دعوت وتبلیغ کے فریضے پر مامور فرمائے! آمین!


آراء و افکار

(ستمبر و اکتوبر ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter