ایک سوال ان دنوں کم و بیش ہر جگہ پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے ذریعے کفر کے فتوے کی اتھارٹی اب حکومت و عدالت کو منتقل ہوگئی ہے؟ اور اگر ایسا ہوگیا ہے تو مفتیان کرام کا اس میں کیا کردار باقی رہ گیا ہے؟
اس سلسلہ میں اپنا ذاتی نقطہ نظر پیش کر رہا ہوں جسے من و عن قبول کرنا ضروری نہیں ہے البتہ اس کے بارے میں اہل علم و دانش سے سنجیدہ توجہ اور غور و خوض کی درخواست ضرور کروں گا۔ یہ سوال اس سے قبل ہمارے سامنے اس وقت بھی آیا تھا جب بنگلہ دیش کی قومی اسمبلی میں یہ تحریک پیش کی گئی تھی کہ بنگلہ دیش میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ وہاں کے قادیانی حلقوں نے بڑے شد و مد کے ساتھ یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا کسی کو مسلمان یا کافر قرار دینا اسمبلیوں کا کام ہوتا ہے یا یہ ذمہ داری اہل علم و فتویٰ کی ہے؟ بنگلہ دیش کے بعض علماء کرام نے سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی سے اس سلسلہ میں رجوع کر کے راہنمائی طلب کی تھی جس پر مولانا چنیوٹی نے بہت سے دیگر علماء کرام کے علاوہ مجھ سے بھی مشورہ کیا تھا اور میری اس گزارش سے اتفاق کیا تھا کہ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کی شرعی حیثیت تو علماء کرام نے واضح کر دی ہے اور سب اہل علم کا اس سے اتفاق ہے، مگر اسے عملی قانون کا حصہ بنانے اور اس کے معاشرتی اطلاق و تنفیذ کے لیے پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا جا رہا ہے، کیونکہ کسی معاملہ کے سوسائٹی پر اطلاق اور اس کی عملی تنفیذ کی اتھارٹی بہرحال حکومت وقت کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم نے جب پاکستان کی حکومت اور پارلیمنٹ سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا تھا تو وہ مطالبہ یہ نہیں تھا کہ پارلیمنٹ قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا فتویٰ صادر کرے، بلکہ یہ تھا کہ چونکہ اس گروہ کو پوری امت مسلمہ غیر مسلم قرار دے چکی ہے، اس لیے قانون و دستور میں بھی ان کی یہ حیثیت تسلیم کی جائے۔
میرے خیال میں وہی سوال اب مذکورہ صورت میں ہمارے سامنے آگیا ہے کہ کفر و اسلام کی بحث تو اہل علم و افتاء کا کام ہوتا ہے، اس میں حکومت یا پارلیمنٹ کو اتھارٹی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ میری طالب علمانہ رائے میں کسی فرد یا گروہ کے کفر یا اسلام کو واضح کرنا تو بہرحال اہل علم و فتویٰ ہی کی ذمہ داری بنتی ہے مگر اس کی عملی تطبیق اور معاشرتی اطلاق کی اتھارٹی عدالت، پارلیمنٹ یا حکومت کے پاس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد ان کے بارے میں اس اجتماعی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے عدالت، حکومت اور پارلیمنٹ سے رجوع کیا تھا۔ قیامِ پاکستان سے قبل اس مقصد کے لیے ریاست بہاولپور کی عدالت کے سامنے حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیری، حضرت علامہ غلام محمد گھوٹوی اور دیگر اکابر علماء کرام کا پیش ہونا اور اس سے فیصلہ طلب کرنا اسی مقصد کے لیے تھا، جبکہ اسی ناگزیر ضرورت کے تحت قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ حکومت وقت سے کیا گیا تھا جو ۱۹۴۷ء میں ایک دستوری بل کی صورت میں منتخب پارلیمنٹ کے سامنے رکھا گیا تھا اور اس کے بعد یہ معاملہ وفاقی شرعی عدالت اور عدالت عظمیٰ کے سامنے بھی پیش ہوا تھا۔ یہ سارے مراحل اس امر کی توثیق کرتے ہیں کہ کسی فتویٰ کا عملی اطلاق اور اس کی معاشرتی تنفیذ حکومت و عدالت ہی کی ذمہ داری بنتی ہے۔
اس کی ایک مثال یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کسی قانونی یا دستوری مسئلہ پر حکومتی رائے وہ ہوتی ہے جو اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل یا ڈسٹرکٹ اٹارنی پیش کرتے ہیں، لیکن اسے قانونی فیصلے کی حیثیت متعلقہ عدالت کے حکم سے حاصل ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ باقاعدہ قانونی صورت اختیار کرتی ہے۔ ایک حد تک اس معاملہ کو اس فقہی قاعدہ کی صورت میں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی کیس میں قاضی کا فیصلہ قانونی تقاضے تو پورے کر لیتا ہے جبکہ حقیقتاً وہ درست نہیں ہوتا حتیٰ کہ اس میں حلال و حرام کے معاملات بھی گڑبڑ ہو جاتے ہیں، تو ایسی بعض صورتوں میں فقہاء کرام یہ کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ قضاء میں تو نافذ ہو جائے گا مگر دیانتاً نافذ نہیں ہوگا۔ دیانت اور قضا کے درمیان جو یہ فرق کیا جاتا ہے اس سے اتنی بات سمجھ میں آتی ہے کہ کسی مسئلہ کے عملی نفاذ و اطلاق کی صورت اس کی علمی و دینی حیثیت سے مختلف ہو سکتی ہے اور اس کا فقہی طور پر بھی اعتراف کیا جاتا ہے۔
میری یہ گزارشات ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کی توضیح یا دفاع کے حوالہ سے نہیں بلکہ اس سے پیدا ہونے والے ایک سوال کے بارے میں فقہی صورتحال کے ایک پہلو کی طرف توجہ دلانے کے لیے ہیں کہ کسی فرد، طبقہ یا گروہ کے مسلمان یا کافر ہونے کی بحث و فیصلہ تو اصولی طور پر اہل علم و فقہ کا کام ہے مگر اس کی معاشرتی تنفیذ اور قانونی اطلاق متعلقہ اور مسلمہ اداروں کے ذریعے ہی قابل عمل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جب ہم کسی مسئلہ کی شرعی پوزیشن کی وضاحت کے ساتھ ساتھ اس کے عملی اطلاق اور معاشرتی تنفیذ کے معاملات بھی اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے بہرحال کنفیوڑن پیدا ہوتا ہے، جبکہ ان دونوں معاملات کو الگ الگ رکھا جائے تو اس قسم کی الجھنوں سے بچا جا سکتا ہے۔