(۱۴ نومبر ۲۰۱۷ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ اور اقبال انٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ (IIRD) کے اشتراک سے ’’دینی مدارس میں عصری تعلیم کے تجربات و نتائج‘‘ کے عنوان پر منعقدہ سیمینار میں گفتگو۔)
بعدالحمدوالصلوٰۃ۔میں سب سے پہلے تو مخدوم و مکرم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب، جناب مولانا عمارخان ناصر صاحب، الشریعہ اکادمی کے ذمہ داران اور ادارہ اقبال برائے مکالمہ و تحقیق کے ذمہ دارحضرات کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اس محفل میں حاضری کا اور اپنی گزارشات پیش کرنے کا موقع عنایت فرمایا۔ میں انتہائی مختصر وقت میں چند موٹی موٹی باتوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کروں گا۔
دینی مدارس میں عصری تعلیم کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ یا کیا ہونا چاہیے؟
اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز تویہ ہے کہ اس زمانے میں بچے کی سوشلائیزیشن یعنی بچے کو اپنی سوسائٹی کا، اپنے سماج کا حصہ بنانا کہ بچے کو اپنے معاشرے کی اقدار، معروف و منکر اور رہن سہن کا علم ہو، یہ مقصود ہوتا ہے۔اس طرح کے کام عموماً بچے کو والدین سکھایاکرتے تھے، لیکن آج کے دورمیں بچے کی سوشلائیزیشن کا عمل بھی تعلیمی اداروں ہی کے ذریعے سے ہوتاہے ۔ دینی مدارس میں ابتدائی عصری تعلیم کاایک مقصد یہ ہوسکتاہے اوردوسری طرف یہ بھی مقصد ہونا چاہیے کہ ہمارے جتنے بھی بچے ہیں اور بڑے ہوکرجس لائن میں بھی وہ جانے والے ہیں، چاہے وہ عالم دین بننے والے ہوں، انجینئر بننے والے ہوں یا ڈاکٹربننے والے ہوں، ان کی جو ابتدائی سوشلائیزیشن ہو رہی ہے، وہ تقریباً یکساں ہو۔ اگرہمارا بچہ شروع میں اسکول کی تعلیم سے بالکلیہ ناواقف ہوگاتوا س بات کاامکان موجود رہے گاکہ وہ اپنے آپ کو سوسائٹی کامکمل طور پرحصہ نہ سمجھ سکے۔
دوسری طرف بھی اس چیزکی ضرورت ہے کہ اسکول میں دینی بنیادی تعلیم، قرآن کی تعلیم کولازمی حصہ بنایاجائے۔ کہنے کی حدتک تویہ حصہ ہے، لیکن اس کو فعال اور متحرک بنانے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں مختلف تجربات مختلف جگہوں پرہوئے ہیں۔ مثلاً بہت ساری جگہوں پرحفظ کے ساتھ ساتھ ایک آدھ گھنٹہ نکال کربچے کو اسکول کی تعلیم دے دی جاتی ہے اورتھوڑے وقت میں بچہ بہت کچھ کور کر لیتا ہے۔ ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اصلاً تو بچہ اسکول جا رہا ہوتا ہے، لیکن پارٹ ٹائم قرآن کریم حفظ کررہاہوتاہے ۔ اس کی مثالیں بلکہ کامیاب مثالیں موجود ہیں۔
عام طور پر اس طرح کی چیزوں میں سب سے بڑاسوال یہ اٹھتاہے کہ حفظ کی تعلیم کے ساتھ اگر دوسری چیز اٹیچ ہوگی یادوسری تعلیم کے ساتھ حفظ اٹیچ ہوگا توحفظ کمزوررہے گا، لیکن حفظ کے کمزوررہنے یانہ رہنے کادارومدار اس چیز پر ہوتا ہے کہ حافظ بننے کے بعد اس نے قرآن مجید کی طرف توجہ کتنی دی ہے ۔ اگرکچا پکا یا درمیانہ سا یاد ہے لیکن زندگی بھر خاص طور پررمضان میں اگروہ قرآن کی طرف متوجہ رہتاہے تواس کاحفظ ٹھیک ہوتاہے۔ ایک تیسراتجربہ ہے، ہمارے ہاں بھی اس پرعمل ہورہاہے، اوربھی کئی جگہ پر اس پرعمل ہورہاہے۔ وہ یہ کہ وہ بچہ داخل کیاجائے جوپرائمری پاس ہویعنی ابتدا میں بچہ ناظرہ پڑھنے کے لیے مسجد میں بے شک جائے، لیکن حفظ کے لیے مدرسے میں قاری صاحب کے حوالے کرنے کی بجائے وہ روٹین میں اسکول ہی جائے، ابتدا میں ہم نے رعایت رکھی تھی کہ اساتذہ کے بچوں کوہم ابتدا ہی سے حفظ میں داخل کرلیتے تھے اورایک استادان بچوں کے لیے مقرر کر دیا تھا، لیکن وہ تجربہ بھی اتناکامیاب نہیں ہوا۔ اب ہم اپنے اساتذہ کوبھی کہتے ہیں کہ اپنے بچوں کوپرائمری تک اسکول میں پڑھاؤ۔
اس کے مختلف اسباب ہیں جن میں سے ایک تویہ کہ قاری صاحب کی درس گاہ میں جو جلال کاغلبہ ہوتاہے، چھوٹے بچے کے لیے وہ ماحول شایداتنازیادہ سازگار نہ ہو۔ دوسرے ماحول میں وقت گزارکرآئے گاتوبہت سی چیزیں سیکھا ہوا ہو گا اور ان پر محنت کی ضرورت نہیں رہے گی۔ دوسرایہ کہ اتنے چھوٹے بچے کی لرننگ کی رفتار سست ہوتی ہے ، اس کی سست رفتاری کو اپنے یا قاری صاحب کے ذمہ ڈالنے کی بجائے ابتدائی تعلیم اسکول میں عام ماحول میں ہی ہو تو بہتر ہے۔ بچہ پانچویں پڑھ چکاہو گاتواس کوحروف کی شناخت ہوچکی ہوتی ہے، سمجھ دارہوچکاہوتا ہے، وہ اڑھائی تین سالوں میں حفظ مکمل کر سکتا ہے۔ اس کی بہت ساری مثالیں ہیں بلکہ ایک سال میں حفظ کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ کرتے ہیں اوربہت ساری جگہوں پریہ ہو رہا ہے کہ چھٹی، ساتویں، آٹھویں کے مشکل مضامین تھوڑے تھوڑے کر کے ساتھ پڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ بچہ جب حفظ سے فارغ ہوتاہے توتھوڑی سی ٹیوشن پڑھ کر مڈل کاامتحان دے لیتاہے۔ اس کے بعد پھرا س کے لیے آگے راستہ کھلاہوتاہے۔
اس سے اوپرکی تعلیم میں کئی مقاصد پیش نظر ہوتے ہیں۔ ایک تویہ کہ عصری تعلیم کی ایسی سندموجود ہو جو سرکاری طور پر مسلمہ ہو۔ اس سے دینی مدرسے کے فارغ التحصیل کے لیے یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے راستے کھل جائیں گے اور الحمدللہ جب سے یہ راستے کھلے ہیں، اس کے بہت سارے اچھے فوائداورثمرات نظر آئے ہیں۔ دوسری چیز یہ پیش نظرہوتی ہے کہ ہمارے مدارس اور مساجدمیں شاید افرادکے کھپانے کی اتنی گنجائش نہیں ہے جتنی بڑی تعداد دینی مدارس سے الحمدللہ فارغ ہورہی ہے۔ جوفارغ التحصیل ،ہیں ان کے لیے روزگار کے مواقع ہونے چاہئیں تو اس حوالے سے بھی عصری تعلیم کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ یہ تعلیم روزگار میں کتنی کارگر ہے، یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن بہرحال یہ سوچ ذہن میں ہوتی ضرورہے۔
اس سلسلے میں ایک مستقل مجلس الشریعہ اکادمی میں ہو چکی ہے کہ فضلائے کرام کے معاشی مسائل کا حل کیا ہو؟ اس سلسلے میں، میں یہ عرض کروں گایہ صرف ہماری تعلیم ہی کامسئلہ نہیں ہے، ہماری جومین اسٹریم ایجوکیشن ہے، اس میں بھی یہ مسئلہ ہے کہ صرف نوکری کرنا سکھلایا جاتا ہے، اس کے علاوہ بچے کو اور کچھ نہیں سکھایاجاتا، حالانکہ تھوڑاسابزنس مائنڈ بنانا ضروری ہوتا ہے۔ اگر ایک فارغ التحصیل عالم نے کسی اور لائن میں جانا ہی ہے تو اگر وہ کچھ بزنس مائنڈڈ ہوگا تو بجائے اس کے کہ وہ کسی سے روزگار مانگے، وہ روزگار دینے والا بن جائے گا۔ اس کے علاوہ عصری تعلیم سے متعلق کچھ خالص دینی مقاصد بھی ہوتے ہیں اور یہ جتنی بھی بحثیں ہیں، اصل مقصدضرورہمارے پیش نظر رہنا چاہیے۔ اصل مقصود وہ متبحر، عمیق علم رکھنے والے، رسوخ فی العلم رکھنے والے علماء پیداکرناہے جوہرزمانے کے مطابق لوگوں کواللہ کی طرف، اللہ کے رسول کی طرف بلاسکیں اوردینی امورمیں لوگوں کی رہنمائی کرسکیں۔ یہ ایک مستقل مقصد ہے اوراس کے لیے الگ انداز سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ محض کوئی سندیاڈگری حاصل کر لینا شاید اس کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس دورکے جو چیلنجز ہیں، کچھ کلامی نوعیت کے ہیں، کچھ فقہی اورقانونی نوعیت کے ہیں، سماجی اور معاشرتی نوعیت کے ہیں، معاشی نوعیت کے ہیں، دعوتی نوعیت کے ہیں۔ ہرایک کوسامنے رکھ کراس کے حساب سے الگ سے تعلیم کابندوبست کرنے کی ضرورت ہے۔
ابتدائی تعلیم کے بعد بہت سارے مدارس ایسے ہیں جن میں اولیٰ کے سال کو دو حصوں میں تقسیم کرکے باقاعدہ میٹرک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ کافی حد تک اچھااور کامیاب تجربہ ہے، لیکن میری معلومات کی حد تک اس میں دوتین مسائل پیش آرہے ہیں۔ ایک مسئلہ تووہی ہے جس کا حضرت مولانا مفتی حامد حسن صاحب نے ذکرفرمایاتھاکہ ایک استاد رکھا تواس کے نتیجے میں طلباء چلے گئے۔ اپنااستاد ہوتویہ مسئلہ ذراکم ہوجاتاہے۔ یہ مسئلہ اس وجہ سے ہے کہ گھر والے بچے کویہ سوچ کر مدرسے میں بھیجتے ہیں کہ یہ کوئی زیادہ صلاحیت رکھنے والابچہ نہیں ہے، لیکن یہاں چونکہ وہ چوبیس گھنٹے ہماری نگرانی میں ہوتاہے، محنت کرتاہے، پڑھتا ہے، اس کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے تووہ میٹرک میں بہت اچھے نمبرلے لیتا ہے اور بعض اوقات والدین کی توقعات سے بہت بڑھ کرنمبرلے لیتاہے تووالدین کاذہن دوسری طرف چلناشروع ہو جاتا ہے کہ اچھا! ہمیں تواب پتہ چلا کہ ہمارابچہ ذہین ہے۔ اگریہ ذہین ہے تواسے ایف ایس سی کرانی چاہیے، اس کوکسی اورطرف لگاناچاہیے۔ اگرچہ یہ بچہ ابتداء میں مدرسے میں پڑھ کرکسی اورطرف بھی چلا گیا تو دین کی جوبنیاد اس کے اندرپڑ گئی ہے، وہ ان شاء اللہ اس کے ساتھ رہے گی، لیکن پھربھی ہم نے اس پرمحنت کی ہے، ہمارے ہی کام آئے اورآخرتک ہمارے پاس ہی پڑھے، یہ ہماراایک مقصد ہوسکتاہے۔ تواس میں اگرہمارے اپنے اساتذہ ہوں، وہ ترغیب سے کام لیں تواس مسئلے کوحل کیاجاسکتاہے۔
دوسرے ایک چیزمحسو س کی گئی ہے، ہماراپناذاتی تجربہ بھی ہے کہ آپ اولیٰ میں عربی زبان کے قواعد پڑھاتے ہیں یا اسے دوسالوں میں تقسیم کردیتے ہیں، اگرچہ دورانیہ اتناہی ہوتاہے، لیکن اس کے باوجود قواعدمیں، صرف ونحومیں کچھ نہ کچھ کمی ضرور رہ جاتی ہے۔ یہ قابل غورہے اور اس کاحل ہونا چاہیے۔ میں یہ سمجھتاہوں کہ دارالعلوم دیوبندمیں تعلیمی سال کا اختتام شعبان کے آخرمیں ہوتاتھا۔ پچیس شعبان کے لگ بھگ امتحان ہوتے تھے۔ دینی مدارس میں تعلیمی سال چھوٹا ہوتا جا رہا ہے۔ شعبان کاپہلاہفتہ امتحان کاہوتاتھا، اب رجب کے آخری ہفتہ بلکہ آخری عشرہ کی طرف آنے لگ گئے ہیں، اوردوسری طرف بعض مدارس میں تعلیم کاآغاز بھی ذرادیر سے ہوتا ہے۔ تو تعلیمی سال کودوبارہ بڑھانے کی طرف توجہ دیں تواس مسئلے کوحل کیاجاسکتاہے۔ ہم نے ایک تجربہ یہ بھی کیاکہ اولیٰ میں جومیٹرک والے طلبہ ہیں، ان کوہم رمضان سے ایک دو دن پہلے چھٹی دیں، لیکن باقی مدرسے میں چھٹی ہوچکی ہوتی ہے۔ چند ایک کوجب رکھتے ہیں تووہ ایک نیاماحول محسوس کرتے ہیں، اس میں ان کا دل پوری طرح لگانا، ان کوپڑھائی پر لگانا بھی اچھاخاصاکام ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم جس لیول پربھی ہو، ایک اہم مسئلہ تاریخوں کاclash ہوتاہے، انہی تاریخوں میں بورڈ کے امتحان ہورہے ہوتے ہیں، انہی تاریخوں میں وفاق کے امتحان ہو رہے ہوتے ہیں ۔ قمری وشمسی حساب کی وجہ سے بعض اوقات تاریخیں تقریباً اکٹھی ہو جاتی ہیں۔
میٹرک کے بعدمیرے علم کے مطابق تین ماڈلز چل رہے ہیں۔ ایک یہ کہ میٹرک کر کے طالب علم دورہ حدیث تک اب اپنے آپ کوروک کررکھے، اس دوران مزیدکسی اورطرف توجہ نہ دے۔ بہت ساری جگہوں پریہ ماڈل روبہ عمل ہے اور اس کے اپنے فوائد، اثرات اور نتائج ہیں۔ دوسراماڈل ہے کہ عصری تعلیم کوباقاعدہ اپنے نظام کاحصہ بنا لیا جائے، وہاڑی میں جامعہ خالدبن ولیدمیں، جامعۃ الرشید میں،اسلام آبادکے اندر مولانافیض الرحمٰن عثمانی کے ہاں، جامعہ حنفیہ بورے والا میں ایسا ہی ہے اور اس طرح کی کئی اور مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں۔ تیسراماڈل یہ ہے کہ ادارہ اپنی طرف سے کوئی اس طرح کاانتظام نہیں کرتا، لیکن طلبہ کومشروط طور پراجازت دے دیتاہے۔ مثلاًہمارے ہاں جامعہ امدادیہ میں گذشتہ سال کی حاضریوں کا ریکارڈ دیکھاجاتاہے، گزشتہ تعلیمی سال میں امتحانات میں نمبروں کی ایک مخصوص حدمتعین کی جاتی ہے تاکہ پتہ چلے کہ اس تعلیم میں توجہ کیسی ہے اورایک یہ کہ چھٹی جوملے گی، وہ صرف امتحان دینے کی ملے گی، تیاری کا زیادہ حصہ شعبان رمضان کی یادیگر چھٹیوں میں مکمل کرناہوگا۔
لیکن ان تینوں ماڈلز میں بھی مسائل ومشکلات ہیں۔ ممانعت والے میں یہ ہے کہ دورہ حدیث کے بعد اس گیپ کو اگر طالب علم کور کرنا چاہے توسال زیادہ لگتے ہیں اور کسی جگہ سیٹل ہونے میں وقت زیادہ لگ جاتا ہے۔ عمرکا مسئلہ بھی اس میں آ جاتا ہے۔ اپنے طورپرتیاری کے ماڈل میں ایک مشکل یہ پیش آرہی ہے کہ بچے چھٹیوں کے دوران اپنے گھروں میں کسی استادسے تیاری کر رہے ہوتے ہیں یا تعلیم کے ساتھ ہی عصرکے بعد یاکسی اوروقت اپنے طورپرکسی کے پاس جاکرتیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ دوقسم کی تیاریوں میں یکسانیت بعض اوقات نہیں ہوتی، اس سے تیاری کے سلسلے میں طالب علم کے ذہن پر اضافی بوجھ پڑتاہے۔ دوسرایہ کہ ایک بالکل مختلف ماحول میں کچھ دیر کے لیے طالب علم کو جانا پڑتا ہے ۔اصل ضرورت اس چیز کی ہے کہ بحیثیت مجموعی پورے سسٹم اورپورے نظام پرطویل اوروسیع پیمانے پرمشاورت ہواوروسیع غور وفکرہو۔
اس کی دوجہتیں ہیں۔ ایک تومدارس، وفاق ہائے مدارس، تنظیمات ہائے مدارس کی سطح پر۔ اگرہم اپنی پہلی ٹرمنالوجی کودیکھیں تو دینیات اور درسیات کے الگ الگ حصے ہوتے تھے۔ جس طرح آج کل عصری تعلیم کے بارے میں یہ ہے کہ یہ تدین کے حوالے سے برے اثرات پیداکرے گی، بعینہ یہی تحفظات پہلے بزرگوں کے ملفوظات میں درسیات، مثلاً منطق وفلسفہ کے متعلق ملتے ہیں، کیونکہ یہ اس دورکے عصری علوم تھے ۔ مثلاً حضرت مولانا خیر محمد صاحب کے بارے میں حضرت والدصاحب سے سناکہ ان کاذوق یہ تھاکہ مشکوٰۃ اوردورہ حدیث سے پہلے جودرسیات پڑھنی ہیں، شمس بازغہ اورملاصدرا وغیرہ، پڑھ لو، تاکہ اس کے اوپرجوتہہ لگے، وہ علم حدیث کی لگے اورجوبرے اثرات ہوسکتے ہیں، ان کاحدیث کے ذریعے سے ازالہ ہوجائے۔ وہ تحفظات وہاں بھی تھے جو آج عصری علوم میں ہیں، لیکن ان چیزوں کو نظام کا حصہ بنایا گیا۔ جوچیزیں ہم لے کرچل رہے ہیں، ان میں جوغیرضروری چیزیں ہوں، ان میں کمی کرکے ان کی جگہ پر ضروری چیزوں کو شامل کر لیں۔ بہرحال ہم عملی طور پر دوالگ الگ نظام ہائے تعلیم کی پیوندکاری کررہے ہوتے ہیں، بلکہ ہم کیاکررہے ہوتے ہیں، طالب علم اپنے طور پر کر رہا ہوتا ہے جس سے وہ ایک عجیب ساملغوبہ سا بن جاتا ہے۔ اگرمدارس ازخوداس پر جامع مشاورت کرکے ایک جامع نظام بنالیں تواس سے طلباء کے لیے آسانی بھی ہو جائے گی اورنتائج بھی بہترسامنے آنے کی توقع ہے ۔
اس مشاورت کادوسرا پہلو سرکاری سطح پر ہے، کیونکہ بہت سارے مقاصد اس چیزپرمنحصرہیں کہ جو سندبھی ہمارے بچے کے پاس ہے، وہ سرکاری طورپرتسلیم شدہ ہو۔ مدارس کی اسنادکا اعتراف کیسے کرناہے؟ کن بنیادوں پر کرنا ہے؟ اس کے لیے فی الحال میری ناقص معلومات کے مطابق کوئی قانون موجودنہیں ہے، چندایک نوٹیفکیشنز ہیں اور بس۔ ایک جامع قانون سازی کی ضرورت ہے اوراس قانون سازی کے پیچھے جتنے بھی اسٹیک ہولڈرزہیں، وفاق ہوں، مدارس ہوں، مدارس کے فضلاء ہوں، جہاں ان فضلاء نے کھپنا ہوتا ہے، وہ لوگ ہوں، جہاں ان فضلاء نے داخلہ لینا ہوتا ہے، وہ ادارے ہوں یا سوسائٹی کے سرکردہ لوگ ہوں، پہلے تو اس پروسیع مباحثہ ہوناچاہیے اور اس کے بعدضرورت کے مطابق ایک جامع قانون سازی کی جانی چاہیے۔خاص طور پردوبڑے اہم مسئلے آئندہ آرہے ہیں اور وہ ہمارے لیے مسائل پیداکریں گے ۔ ایک تویہ کہ اب تک گریجویشن دوسالہ ہے، دوسال میں بی اے ہو جاتی ہے ، لیکن ممکن ہے کہ پوری دنیا کے ٹرینڈ کے مطابق چارسالہ گریجویشن ہو جائے۔ اس سے یہ اپنے طور پر چلنے والاسلسلہ نبھانابہت مشکل ہو جائے گا۔ اس کے لیے ایک پورے سسٹم کی اور وسیع اور گہرے غوروخوض کی ضرورت ہے۔ دوسرامسئلہ یہ کہ یونیورسٹی لیول کی تعلیم میں پرائیویٹ تعلیم کا تصور اگر ختم ہو گیا توبھی مسائل پیدا ہوں گے۔ آنے والے وقت میں ہمارا جنرل تعلیمی رجحان اور دنیاکا رجحان کس طرف جارہا ہو گا، ہماری ملک کی عمومی تعلیم کدھرجارہی ہوگی، اس کاصحیح اندازہ لگاکربروقت سوچناہماری ذمہ داری ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے اس بیٹھنے کی برکت سے مزیدراہیں کھولیں۔ آمین