جناب محترم مفتی شبیراحمد صاحب کی ہدایت پراس ناچیز نے جناب ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب کا مضمون "یکبارگی تین طلاقوں کے نفاذ کا مسئلہ" مطالعہ کیا، لیکن افسوس مجھے شدید مایوسی ہوئی کہ انہوں نے تین طلاقوں کو تین ہی قرار دینے کی کچھ خودساختہ علتیں بیان کی ہیں۔ان علتوں کو طلاق کے مسئلے سے منسلک کرنے کے لیے انہوں نے قرآن وسنت سے کوئی دلیل نہیں دی، بلکہ "عرب معاشرے اور سماج" کی کچھ خصوصیات کو اپنی دانست میں تین طلاقوں کے اکھٹے نفاذ کی علت قرار دے دیا ہے اورپھرخود ہی نتیجہ نکالتے ہوئے فرمایا ہے کہ چونکہ آج ہمارے "معاشرے" میں یہ علتیں موجود نہیں ہیں، اس لیے تین طلاقوں کو تین نہیں بلکہ ایک طلاق قرار دینا چاہیے۔ حالانکہ اگر ان علتوں کوتسلیم کرلیاجائے تو پھر سرے سے طلاق کے تصور ہی کو ختم کرنا پڑے گا۔ کجا ایک ، دو اور تین طلاقوں کی بحث میں انسان الجھے!
۱۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ "عرب معاشرے" میں عورت کو مہر کی ادائیگی نکاح کے قبل یا پھرفوراً بعد کی جاتی تھی اور اس پر عورت کا قطعی حق تسلیم کیاجاتا تھا، جبکہ آج کل عورت کو مہر کی ادائیگی نہیں کی جاتی یا مہر کی مقدار بہت تھوڑی مقرر کی جاتی ہے۔
مہر کی ادائیگی اور اس کی ملکیت تو عورت کا قطعی حق اب بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کس نے آکریہ حق تین طلاقوں کوایک سے بدلنے کے عوض سلب کر لیا ہے؟ مہر کے تقرر اور ادائیگی کا تعلق نکاح سے ہے، نہ کہ طلاق سے۔ نکاح کے منعقد ہونے کے لیے مہر مقرر کرنا شرط ہے جس کے بغیر نکاح ہی درست نہیں ہوتا، کجا کہ طلاق کا سوال پیدا ہو سکے۔ اگر عورت کو حق مہر سے محروم رکھا جاتا ہے تو اس کی حق تلفی کو روکنے کے لیے مرد کو ریاستی طاقت یا عدالت کے ذریعے حق مہر اداکرنے پر مجبور کیاجائے۔ طلاق کا قانون چھیڑنے کی کوئی سبیل نہیں۔
۲۔ دوسری علت ڈاکٹر صاحب نے یہ بیان فرمائی ہے کہ عرب معاشرے میں طلاق کے بعد بچوں کی ذمہ داری مرد پر ہی عائد ہوتی تھی، آج کل عورت پر سارا بار ڈال دیا جاتا ہے۔ بچوں کی پرورش کی ذمہ داری طلاق سے پہلے بھی اور بعد میں بھی مرد پرہی عائد ہوتی ہے۔ شریعت کا یہ حکم بھی منسوخ کرنے والا کوئی پیدا نہیں ہوا۔ بچوں کی ذمہ داری عورت پر ڈالنے کے بدلے میں مرد کی دی گئی تین طلاقوں کو ایک تصور کرلینا دین میں خودساختہ قطع وبرید سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ بہانے بازیاں دراصل شریعت اسلامی کے متعلق پھیلائی گئی سیکولر اور لبرلز طبقات کی ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ ہے جس سے بعض مسلمان مفکرین غیر ارادی طور متاثر ہوئے ہیں۔
۳۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق عرب معاشرے کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس میں مطلقہ اور بیوہ سے شادی کرنا نہ صرف معیوب تصورنہیں کیاجاتا تھا بلکہ مستحسن امر گرداناجاتا تھا۔ یہ خصوصیت تو درحقیقت عرب معاشرے کی اسلامائزیشن کا اثرتھا۔ اسلام نے اس ٹمٹماتے رویے کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس کی طرف اور زیادہ مؤثر انداز سے ترغیب دی، لیکن اس کا طلاق کے منعقد ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
یہ ہمارے آج کے معاشرے کا ایک بڑا المیہ ہے کہ طلاق کوعورت کے لیے (اور بعض علاقوں میں مرد کے لیے بھی) ایک گالی بناکررکھ دیا گیا ہے۔ طلاق یافتہ عورت کو طلاق ہونے کاواحدسبب اس کی مبینہ" بدکرداری" ہی کو سمجھاجاتا ہے۔ چنانچہ اس سے شادی کرنا پورے معاشرے کی توپوں کا رخ اپنی طرف کرانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ یہ معاشرے کی جاہلانہ سوچ ہے۔ لڑکی کی منگنی ٹوٹنے یااس کوطلاق ہوجانے کومحض بدکرداری کی عینک سے دیکھ کراس کو ہمیشہ کے لیے اچھوت قراردینا معاشرے میں علم اور سمجھ بوجھ کے عنقا ہونے کی علامت ہے، نہ کہ طلاق کے قانون میں خرابی کی دلیل۔شریعت مرد کو طلاق کی مطلق اجازت دیتا ہے۔ طلاق کی بہت سی دیگر وجوہات بھی ہیں جو ضروری نہیں کہ عورت کی بدکرداری پر ہی دلالت کرتی ہوں۔ معاشرے کی اس جہالت کو دور کرنے کی بجائے طلاق کے منعقد ہونے یا نہ ہونے کو اس خودساختہ علت پر موقوف ٹھہرایاجارہا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔
۴۔ ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب کا یہ فرمانا کہ " عرب معاشرے میں اکٹھے تین طلاقوں کو نافذ کرنے کا نقصان مرد کوہوتا تھا، اس لیے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے مرد کو سزا دینے کے لیے اسے نافذ کیا، اور ساتھ میں اکٹھے تین طلاق دینے والے مرد کو تعزیری سزا بھی دیتے تھے'' بھی میرے ناقص خیال میں ناواقفیت پر مبنی ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرد کو تعزیری سزا دینے کے حضرت عمر کے فیصلے کو تو باقی رکھنا چاہتے ہیں، البتہ تین طلاقوں کو تین ہی نافذکرنے کے حضرت عمر کے اسی فیصلے کے دوسرے پہلو کو ختم کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ یہ دونوں آپس میں لازم وملزوم ہیں۔ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا معصیت ہے اور اس معصیت کا ارتکاب نہ صرف مرد کے لیے رجوع کی گنجائش باقی نہیں چھوڑتا بلکہ عورت کو بھی مرد کی رنجش اور ناراضگی دور کرنے کے مواقع سے محروم کردیتا ہے، تبھی حضرت عمر نے اس کے لیے تعزیری سزائیں دیں۔ اگر تین طلاقیں بیک وقت واقع ہی نہ ہوتیں تو یہ ایک لغو فعل ہوتا۔ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص پر غضبناک ہوتے جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ساتھ دی تھیں اور نہ حضرت عمر تعزیری درے لگواتے۔ قرآن اور احادیث رسول کی روشنی میں ایک اچھے مسلمان کی علامت یہ ہے کہ وہ لغوباتوں سے تعرض نہیں کرتے۔
ڈاکٹر صاحب نے معاشرے کی جاہلانہ رسوم ورواج اور ان کے نتیجے میں عورت پرمرتب ہونے والی زیادتیوں کا ذمہ دار سراسر تین طلاقوں کے یکبار گی انعقاد کو قرار دے کر ثابت کیا ہے کہ انہیں کچھ بھی ایسا چاہیے جس سے ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دیا جاسکے۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اگر ان کی رائے کو اپناتے ہوئے مرد تین مختلف اوقات میں طلاق دے کر عورت کو گھر سے نکالے گا تو پھر کیا اس کو مہر کی ادائیگی فرشتے اتر کریں گے؟ کیا اس صورت میں بچوں کی ذمہ داریاں مرد اٹھانے پر رضاکارانہ تیار ہو جائے گا؟ کیا اس صورت میں مہر کے کم ہوتے ہوئے بھی عورت مالدار ہوجائے گی؟ کیا پھر طلاق یافتہ عورتوں کو بدکردارسمجھنے کا رجحان جڑ سے اکھڑ جائے گا؟ اور ان سے شادی کرنے میں کوئی امرمانع نہیں رہے گا؟ میرے خیال میں تو جو عورت اس طرح طلاقیں لے کر گھرسے نکلے گی، وہ زیادہ ذلت ورسوائی کا سامنا کرے گی۔ اگر معاشرے کی اصلاح کی بجائے طلاق کے قوانین کا "اصلاح" کے نام پر اس طرح حلیہ بگاڑا جاتا رہا تو ایسی صورت میں طلاق یافتہ عورت سے نکاح کرنا تو درکنار، کوئی ترس کھاکر اس کو بھیک بھی نہیں دے گا۔
اب ذرا اس پر نظر ڈالتے ہیں کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے واقعی ڈاکٹر صاحب کے بیان کردہ انہی معاشرتی علل کے تحت تین طلاقوں کو تین نافذ کیا تھا یا اس کی دلیل "شرعی" ہے؟
مستند احادیث کے مطابق اکٹھی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں جسے فقہی اصطلاح میں طلاق مغلظہ کہاجاتا ہے۔ مستند اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود تین طلاقوں کو نافذ کیا ہے، لیکن طلاق دینے والے کو اللہ کی نافرمانی کا مرتکب بھی قراردیا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کی والدہ کو ہزار طلاقیں دیں۔ انہوں نے جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا۔ آپ نے فرمایا:
بانت منہ بثلٰث فی معصیۃ اللہ تعالیٰ، وبقی تسع ماءۃ وسبع وتسعون ظلماً وعدواناً؛ ان شاء اللہ عذبہ وان شاء غفرلہ
’’تین طلاقوں سے تو اللہ کی نافرمانی کے ساتھ وہ عورت اس سے جدا ہوگئی،اور باقی نو سو ستانوے طلاقیں ظلم اور عدوان کے طورپر باقی رہ گئی ہیں جن پر اللہ چاہے تو اسے (یعنی تیرے باپ کو) عذاب دے اور چاہے تو معاف کردے۔‘‘
البتہ ایک حدیث میں، جس سے انتہائی کمزور طرز استدلال کے ذریعے یکبار دی گئی تین طلاقوں کو ایک طلاق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ذکر ہے کہ ایک شخص نے آکر عرض کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دیتے وقت محض تاکید کی خاطر لفظ "طلاق" کو تین بار دہرایا تھا حالانکہ میری نیت ایک ہی طلاق دینے کی تھی۔ آپ نے اس سے دوبارہ پوچھا کہ کیا واقعی تم نے ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی؟ اس نے اقرار کیا۔ تب آپ نے اسے ایک طلاق قراردیا۔ تین طلاقوں کو ایک ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے اس حدیث کا سہارا لیتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث بھی تین طلاقوں کو تین ثابت کرنے میں صریح ہے، کیونکہ اس میں نیت ایک طلاق کی ہونے کی تصریح ہے۔لہٰذا اس کو تین کی نیت سے دی گئی طلاقوں کو ایک قرار دینے کی دلیل کس طرح بنایاجاسکتا ہے؟
اس واقعے کو بنیاد بناکر لوگ کثرت سے تین طلاق دینے کے بعد یہی عذر تراشنے لگے کہ ان کی نیت فقط ایک ہی طلاق کی تھی جس پر حضرت عمرنے اپنے دورخلافت میں لوگوں کے اس قسم کے دعووں پر اعتماد کرنے سے انکارکرنے کا اعلان کیا کہ آئندہ ایسا کوئی عذر قبول نہیں کیاجائے گا اور تین طلاقیں تین ہی سمجھی جائیں گی۔ عہد نبوی میں کسی ضعیف الایمان شخص کو بھی جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ کوئی بیان خلاف واقعہ دے سکے کیونکہ یہ خوف تھا کہ کہیں اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آشکارا نہ کردے۔ (غالباً حضرت عبداللہ بن عمر سے منقول ہے کہ عہد نبوی میں ہم اپنی بیویوں کے ساتھ بھی دل کھول کر بے تکلفی کرنے سے ڈرتے تھے، مبادا ہمارے بارے میں وحی نازل نہ ہو جائے)۔ لیکن عہد رسالت کے بعد یہ اندیشہ نہیں رہا تھا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اقدام پر کسی ایک صحابی نے بھی اعتراض نہیں کیا، حالانکہ ان کے دور میں اگرایک بدو کو بھی شبہ ہوتا کہ کسی معاملے میں امیر المومنین سے خلاف سنت یا خلاف انصاف فعل سرزد ہورہا ہے تو وہ فوراًبلاخوف اور براہ راست انہیں ٹوک سکتا تھا۔
لہٰذا اگر تین طلاقوں کی یکبارگی نفاذ کے سلسلے میں وہ قرآن مجید یا سنت رسول کی منشاء کے خلاف کوئی قانون وضع کر رہے ہوتے توجماعت صحابہ میں ان کی بھرپور مخالفت کی جاتی۔ اور یہ کوئی ایسا غیرمعمولی اقدام نہ تھا جس پر کبار صحابہ میں سے کوئی بھی نوٹس نہ لیتا۔ نہ صرف ان کے دور میں کسی نے ا س کے خلاف رائے نہیں دی بلکہ ان کے بعد حضرات عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کے ادوار خلافت میں بھی اکٹھی دی گئی تین طلاقوں کو تین قراردینے پر اتفاق رہا۔ بعد کے ادوار میں بھی بشمول ائمہ اربعہ متفقہ مسلک یہی بن کر سامنے آیا۔ آج بھی پوری دنیا کے اندر علمائے دین کی عظیم اور غالب اکثریت اسی قول کو راجح مانتی ہے۔
اگر غور کیا جائے تو اصل مسئلہ طلاق کا نہیں، بلکہ طلاق کے بعد دونوں خاندانوں میں بالخصوص اور معاشرے کے رویوں میں بالعموم افراط وتفریط پر مبنی رویوں کا ہے جسے دعوت، تعلیم وتربیت اور تزکیہ نفوس کے ذریعے دور کرنا ایک صبرآزما اور محنت طلب کام ہے۔اگر اصلاح ، آگاہی اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کا مطلوبِ شریعت کلچر پیدا کیا گیا تو پھر نہ بچوں کی پرورش کا بہانہ بنا کر "حلالہ" جیسے ملعون افعال کا ارتکا ب کرنے کی "ضرورت" باقی رہے گی اور نہ ہی عورت کو طلاق کے بعد دوسری یا تیسری شادی میں کوئی مشکل پیش آئے گی۔ لیکن ہمارے دانشور حضرات بنیادی کام سے جان چھڑا کر شارٹ کٹ کے چکروں میں پڑگئے ہیں اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ اس طرح کی کچھ ملمع کاریاں کرکے وہ کچھ معاشرتی مسائل کوڈھانپ سکیں گے اوراسلام کے چہرے پر جمی"گرد" کو صاف کرکے سیکولر اورلبرل طبقات کی طعنہ زنی سے بچ جائیں گے، حالانکہ یہ انداز فکر سراسر غیر علمی ہونے کے ساتھ ساتھ عملاً ناممکن بھی ہے۔