مسیحیت ، ہندو مت ، بدھ مت، اور دیگر مذاہب کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ انہوں نے ترک دنیا اور رہبانیت کے تیشے سے انسانی جسم کو صرف اس لیے گھائل کر دیا تاکہ انسانی روح کو بیدار کیا جا سکے، لیکن اس غیر طبعی تعلیم اور جان سوزی کے نتیجے میں روح کی شمع بھی گل ہو کر رہ گئی۔ اہل کلیسا نے خانقاہوں میں بسیرا کر لیا، ہندؤوں او ر بدھوں نے جنگلوں کا رخ کر لیا۔ مسیحیت کی غیر فطری تعلیمات کے ردِ عمل میں پروان چڑھنے والے مغربی فکرو فلسفہ میں یورپ کے ارباب فکر ودانش نے مادہ پرستی کی رو میں بہتے ہوئے نہ صرف روح کے ہر تقاضے کو نظر انداز کر دیا بلکہ روح ہی کا انکار کر دیا اور اس عالم رنگ وبو کو ہی انسانیت کا منتہا قرار دیا ۔ جسم کی تو خوب پرورش کی ،لیکن روح کو کچل کر رکھ دیا۔ نتیجہ کے طور پر وہ انسان تیار ہوا جوان اخلاقی اقدار ہی سے عاری ہے جو اس کا طرۂ امتیاز ہے ۔مغرب کی اخلاقی اقدار کسی روحانی محرک سے محروم ہیں۔اخلاقی قدروں کی ترویج میں بھی مارکیٹنگ کی نفسیات کار فرما ہے ۔"Eathical guide book for call girl"جیسی کتابوں کا سر عام فروخت کے لیے پیش کیا جانامغرب کے اخلاقی بحران اور دیوالیہ پن کا نکتہ کمال ہے۔سچ تو یہ ہے کہ مذاہبِ عالم کے زوال کے بعد مغربی تہذیب بھی اپنے زوال کی منازل طے کر رہی ہے، اور اس زوال کی سب سے بڑی وجہ ’’فطرت‘‘ کے نام پرفطرت سے بغاوت ہے۔ بقول اقبال
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
مغربی تہذیب کا سب سے تباہ کن پہلو یہ ہے کہ اس نے روح اور بدن میں افتراق پیدا کر دیا ہے، حالانکہ انسان کی شخصیت روح اور بدن کی تالیف اور امتزاج سے عبارت ہے۔ ایساکوئی مذہب اور کوئی نظریہ کامیاب نہیں ہو سکتا جو روح اور بدن میں سے ایک کو ابھارے اور دوسرے کو کچل دے۔ مغربی تہذیب نے گذشتہ کئی صدیوں میں فکری ارتقاء کا کٹھن سفر طے کیا ہے،مسلسل فکری ارتقاء اور تجربات کے نتیجے میں اس کے ہاں کئی تصورات اور نظریات اب مسلمہ عقائد کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔اہلِ مغرب اب ان نظریات پرکوئی سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ مغرب نے سماجی ،معاشرتی اور اخلاقی حوالے سے جو تجربات کیے ہیں، اس کے نتیجے میں ان کے ہاںیہ سوچ پختہ ہو رہی ہے کہ انسانیت اپنے سماجی ارتقاء کی آخری سیڑھی پر قدم رکھ چکی ہے ۔مغرب میں "The End of History"کے عنوان سے لکھی جانے والی کتب اسی سوچ کی مظہر ہیں ۔اس اندازِ فکر پر یہ سوال بہرحال موجود ہے کہ پھر انسان مسلسل روحانی اور اخلاقی بحران کا شکار کیوں ہے؟کمی کہاں پر ہے ؟
اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے آزادئ اظہارِ رائے، انسانی جان کی حرمت، انسانی مساوات، سماجی انصاف، حقوقِ نسواں، مذہبی آزادی، عدلِ اجتماعی اور امن عالم جیسے تصورات کو مذہبی اور روحانی بنیادیں فراہم کیں۔ مذاہب عالم اور جدید مغربی فکر و فلسفہ کے مقابل ا سلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے روح اور جسم ددنوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھا ہے۔ مذاہبِ عالم میں شاید اسلام ہی واحد دین ہے جس نے خالصتاً روحانی غلطیوں پر بھی مالی جرمانے کی سزا عائد کی ہے۔ حکم ہے کہ اگر رمضان کا روزہ ٹوٹ جائے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔قسم ٹوٹنے کی صورت میں تین مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے ۔اپنی بیوی سےِ ظہار کی صورت میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے ۔حتی کہ قتل جیسے سنگین معاملے میں مقتول کے ورثاء ضرورت مند ہوں تو وہ دیت پر صلح کر سکتے ہیں ۔ گویا اسلام کی نظر میں ضرورت مندوں کی داد رسی سے ہی روحانی سکون حاصل ہوسکتا ہے ۔ اسلام کے نظامِ عبادت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز ،روزہ، زکوٰۃ اور حج کا بنیادی فلسفہ عدل اجتماعی کا قیام ہی ہے ۔
دینِ اسلام پر اس انداز سے غور کرنے سے ا للہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں انسان کی معاشی ، سماجی اور معاشرتی زندگی اور حقوق کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے ۔
اعلانِ نبوت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سماجی زندگی لوگوں کے لیے آپؐ کی نبوت و رسالت کی دلیل ٹھہری ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی قرآن وسنت اور اسوۂ رسول ؐ سے یہی أ خذکیا کہ وہی شخص اللہ تعالیٰ کی نظر میں معتبر ہے جو اس کے بندو ں سے اپنے معاملات ٹھیک رکھتا ہے ۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت عمرؓ (م ۲۳ھ) نے ایک شخص کے حال کی تحقیق کے لیے گواہ طلب کیے تو ایک آدمی نے گواہی دی کہ موصوف ایک شریف آدمی ہیں ۔حضرت عمر فارقؓ نے اس سے بڑا اہم سوال کیاکہ کیاآپ اس کے پڑوسی ہیں ؟ اس نے عرض کی کہ نہیں ۔پھر پوچھا کہ کیا آپ نے اس کے ساتھ کبھی لین دین کیا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں۔ پھر فرمایا کہ کبھی اس کے ساتھ سفر کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ نہیں ۔حضرت عمرؓ نے فرمایا :تم نے اسے رکوع وسجود اور ذکر اذکار میں مشغول دیکھا ہو گا ؟ اس کہا جی ہاں۔اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا : تم اسے نہیں جانتے اورپھر حضرت عمرؓ نے اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکسی ایسے شخص کو بلاؤ جو تمہیں جانتا ہو ۔گویا حضرت عمرؓ کی نظر میں کسی انسان کی اصل پہچان عبادت و ریاضت سے نہیں بلکہ اس کے سماجی رویے سے ہوتی ہے۔
امام محمد بن حسن الشیبانی(م ۲۸۵ھ) فقہ حنفی کے مدونِ اول تھے ان سے کسی نے سوال کیا کہ آپؒ نے زہد اور رِقاق کے موضوع پر کوئی کتاب نہیں لکھی کہ لوگ اس کو پڑھتے اور ان کے دلوں میں تقویٰ پیدا ہوتا ۔آپؒ نے فرمایا کہ میں نے کتاب البیوع لکھ دی ہے ۔یعنی جو شخص کتاب البیوع میں حلال و حرام کے احکام پر مسلسل عمل کرے گا اس میں تدین ضرور پیدا ہوگا ۔دنیا دار العمل ہے اورعمل کا ’’معیاری اظہار ‘‘ حلال و حرام کی تمیز اور مثبت سر گرمیوں سے ہوتا ہے ۔
اسلام کی نظر میں سماجی زندگی کی اس اہمیت کے پس منظر میں ہمارے قابلِ قدر تلمیذ محمد تہا می بشر علوی کی تحریروں کا زیر نظر مجموعہ ’’درِ ادراک ‘‘ ایک قابلِ قدر کاوش ہے ۔یہ تصنیف کل تین حصوں پر مشتمل ہے، جبکہ زیرتبصرہ حصہ کتاب کے آخری دوحصے ہیں۔فاضل محقق نے اپنی ان تحریروں میں سماجی رویوں کی تشکیل میں اسلام کے کردار کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے۔ موصوف نے داعیانہ اسلوب اور پورے دردِ دل کے ساتھ مختلف طبقات میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کی ہے اور ان خرابیوں کے اسباب و وجوہ کا تجزیہ کرنے کے بعد حل بھی تجویز کیا ہے ۔
ہمیں نہایت تاسف سے اعتراف کرنا چاہیے کہ آج علماء کرام عمل کے معیاری اظہار کے فروغ کے بجائے تبلیغ محض کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔دین کی بجائے مسلک کی تبلیغ روز افزوں ہے ،نادان لوگوں نے اپنے اپنے مسلک کو ہی کل دین سمجھ لیا ہے ۔دینداری کے بجائے فنِ دین داری کا خوب دور دورہ ہے ۔ ظاہری وضع قطع اورعبادت کے نام پرچند عادات اورمرنے جینے کی مخصوص رسموں کے علاوہ دین کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ اور جس مسلک کی دین کے نام سے تبلیغ کی جارہی ہے اس کا غالب حصہ بھی ما بعد الطبعیاتی مباحث سے متعلق ہے۔نور وبشر ،علم غیب ،حاضرو ناظر ،محرم،میلاد اور گیارہویں کی مجالس کے جواز اور عدم جواز کی بحثیں ہی زندہ موضوعات ہیں ۔عام لوگوں میں یہ سوچ پختہ ہو رہی ہے کہ مذہب کا ریاست، سیاست اورمعاشرت وغیرہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ لوگ بجا طور پر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ دین کا چونکہ دنیوی امور سے کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا اس کے حقیقی فوائدو ثمرات کے لئے فوت ہو نا ضروری ہے۔ معاشرتی اصلاح اور سماجی رویوں کی تشکیل میں اسلام کے کردار کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔علماء کرام لوگوں کے سماجی اور نفسیاتی مسائل اور عرف سے بڑی حد تک نابلد ہیں ۔مذہبی طبقے میں دعوت و تبلیغ کی جگہ فتویٰ بازی سکہ رائج الوقت ہے ،فتویٰ بازی میں عرف اور سماجی رویوں کامطالعہ کرنے کی بجائے محض فتاویٰ جات کی قدیم کتب سے استفادہ کافی سمجھا جاتا ہے ۔ معاشرتی اصلاح اب مذہبی طبقے کی ترجیحات میں آخری درجے میں ہے۔ فاضل محقق نے دینی مدارس کے موجودہ کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے خوب لکھا ہے:
’’ایک وقت تھا جب مدرسے تعلیمی ادارے ہوا کرتے تھے ۔پھر المیہ یہ ہوا کہ اب یہ مسلک پرستوں کے تحریکی ادارے بن کر رہ گئے ہیں ۔یہاں ’’میں اور میرا مسلک ‘‘ عین حق اور میں اور میرے مسلک کے سوا مکمل باطل کا نفسیاتی شاکلہ تیار ہوتا ہے۔‘‘
اقبال سے انتہائی معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑتاہے:
گلا توگھونٹ دیا ’’اہلِ مدرسہ‘‘ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ
عام طور پر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ"THE SOCIAL CONTRACT"کا مصنف مشہور فرانسیسی مفکر اور دانشور ژاں ژاک روسو(م ۱۷۷۸ء) انسانی تاریخ کا پہلا شخص ہے جس نے انسانی ضروریات اور احتیاجات کو اس کا ’’حق‘‘ ثابت کیا ہے۔ ہماری بد نصیبی ملاحظہ کیجئے کہ مغرب کی طرف سے آنے والی کوئی انسانی قدر جب شہرتِ دوام حاصل کرنے لگتی ہے توہم اسے قرآن و حدیث سے ثابت کرنے بیٹھ جاتے ہیں ۔اگرچہ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے وہ اس کو جہاں بھی پائے حاصل کر لے،لیکن اگروہ جواہر پارہ براہِ راست ہمارے علمی خزانے کا حصہ ہو اور ہم اپنی کور چشمی کی وجہ سے اس کو دیکھ ہی نہ پارہے ہوں تو اس پرماتم کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے ۔ اب بھلا کون ہماری اس بات پرغور کرے گا کہ انسانی تاریخ میں روسو نہیں بلکہ اسلام نے سب سے پہلے انسانی ضروریات کو انسان کا ’’حق‘‘ ثابت کیا ہے۔ سورۃ الذاریات میں ہے:
وَفِیْ أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاءِلِ وَالْمَحْرُومِ (۵۱/۱۹)
ترجمہ : اور ان مالوں میں سائل اور محروم لوگوں کا’’ حق ‘‘ہے۔
یہ آیت مکی دور میں نازل ہوئی اور اس وقت تک زکوٰۃ فرض نہیں ہوئی تھی ۔مطلب یہ کہ زکوٰۃ کی فرضیت سے پہلے ہی مسلمانوں کی تربیت اس ماحول میں ہو رہی ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کے بغیر بھی ان پر دوسرے مسلمانوں کی ضروریات کو پورا کرنا بطور ’’حق‘‘ لازم ہے ۔قرآن و سنت میں زکوٰۃ اورصدقہ جیسے الفاظ’’ فریضہ‘‘ اور’’ حق‘‘ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں ۔ کسی چیز کو خیرات کے طور پر مانگنے اور حق کے طور پر طلب کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے ،لیکن ہماری غلط دینی تعبیرات کا نتیجہ یہ ہے کہ عام لوگوں کا تو کیا کہنا پڑھے لکھے لوگ بھی زکوٰۃ اورصدقہ کو خیرات کے ہم معنی ہی سمجھتے ہیں ۔ فقیہ شہر کا فتویٰ یہ ہے کہ فرض تو قرض کی طرح ہے جنت کا ٹکٹ تو صرف اس کے لیے کنفرم ہو گا جو ’خیرات‘ بانٹتا ہے۔اس تبلیغ کا نتیجہ یہ ہے کہ آج باوسائل اور مقتدر طبقہ مزدور اور غریب کے لازمی حق کو نظر اندازکرکے صدقہ و خیرات کے نام پر اس کا استیصال رہا ہے ۔مقتدر طبقات کی نظر میں مزدور اور غریب کو اس کا حق دینے کی بجائے خیرات دینا پسندیدہ عمل ہے تاکہ اس کی گردن ہمیشہ اپنے مالک کے سامنے جھکی رہے اور وہ انہیں اپنا آقاو مولیٰ سمجھتا رہے ۔زیر نظر کتاب میں اس معاشرتی کجی کی ان الفاظ میں نشاندہی کی گئی ہے :
’’پاکستان دنیا کا کم ترین مزدوری دینے والا ملک ہے ،اور پاکستان ہی دنیا کا سب سے زیادہ خیرات کرنے والا ملک بھی ہے ۔ہمارے معاشرے کا یہ تضاد ایک بہت بڑی کجی کا اظہار ہے ۔ہم نے مزدور کے استحصال کو ایک معاشرتی قدر بنادیا ہے ۔ہم پہلے ان کو کم مزدوری دے کر محتاج بناتے ہیں ، پھر ان کی محتاجیوں سے مزید محتاجیاں جنم لیتی ہیں ،اور پھر ہم صدقہ و خیرات سے ان محتاجوں کی مدد کرکے ان کو اپنا احسان مند بھی بنالیتے ہیں اور اس احسان مندی سے ایک طرف ہم اپنا کاروبار چمکاتے ہیں اور دوسری طرف ان کی دعاؤں سے جنت کے محل تعمیر کرالیتے ہیں۔‘‘
ایک غیر ہنرمند مزدور کے خاندان کو ماہانہ تقریباً36,000سے40,000ہزار درکار ہیں جبکہ حکومت نے کمال مہربانی سے مزدور کی کم ازکم اجرت 13سے14ہزار روپے مقرر کی ہے ۔جبکہ مزدوروں کا ایک طبقہ اس سے بھی کم ماہانہ تنخواہ پا رہا ہے۔ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ مذہب سے گہری عقیدت رکھنے والا سرمایہ داربھی مزدور کو اس کا حق دینے کی بجائے خیرات دینا ہی پسند کرتا ہے ۔کسی کی عزت نفس کا لحاظ، اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں کتنے رتبے کا کام ہے، کاش یہ بات ہم پر کھل جائے تو یقین کیجئے معاشرے کا مزاج ہی تبدیل ہو جائے ۔لوگ خیرات بھی رات کے اندھیرے میں دینا پسند کریں گے ۔
دنیا کے تمام مذاہب نے مختلف طبقات کے حقوق کی نشاندہی اپنے اپنے اسلوب میں کی ہے ،بالخصوص جدید مغربی معاشرے میں بنیادی انسانی حقوق کی تحریک کا منظم ظہور ہواہے ۔مغرب بجا طور پر انسانی حقوق کی جدید تحریکوں کا بانی ہے، لیکن محض حقوق کے مطالبات سے معاشرے میں ٹکراوکی نفسیات جنم لیتی ہیں سماجی سطح پر اس حوالے سے اسلام کا اسلوب بہترین ہے کہ حقوق کے شعور کے ساتھ اصل زور فرائض کی ادائیگی پر دیا جائے ۔ جب ہر طبقہ اپنے فرائض کو ادا کرنے لگے تو کسی طبقے کے حقوق پامال نہیں ہوں گے ۔ بظاہر یہ بات معمولی نظر آتی ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے یہ طرزِ عمل دور رس نتائج کا حامل ہے۔ مغرب میں اس طرزِ فکر کی ایک بڑی مثال حقوقِ نسواں کی جدید تحریک ہے جس نے عورت کو بھڑکا کر مرد کا مدمقابل بنا دیا ہے ۔جس کے نتیجے میں مغرب میں خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر رہا ہے ۔ عورتوں کا اپنے حقوق سے آگاہ ہونا بے شک ضروری سہی لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ عورت کے حوالے سے مرد پر بحیثیت باپ،بھائی اور شوہرجو فرائض عائد ہوتے ہیں ان کا شعور اتنے تسلسل سے اجاگر کیا جائے کہ حقوقِ نسواں کی کسی تحریک کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔اس حوالے سے ہمارے فاضل تلمیذ نے آج کے معروضی حالات کے تناظر میں معاشرتی اصلاح کے لیے زیر نظر کتاب میں عورت کے حقوق اور مرد کے فرائض کے حوالے سے اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے ۔تفصیل کے لیے :’’نکاح کے بعد‘‘،’’بیوی پر پابندیاں‘‘،’’ شادی کا فیصلہ‘‘،’’رفیقِ حیات کا فیصلہ کیسے ہو؟‘‘،کے عنوانا ت ملاحظہ فرمائیں ۔
کسی معاشرے کی طاقت اس کا اتحاد اور یکجہتی ہے ،اسلام کی برکت سے جب عربوں میں اتحادو یگانگت کا ظہور ہوا تواللہ تعالیٰ نے اس اتحاد کا اپنے خصوصی فضل کے طور پر تذکرہ فرمایا اسی اتحادکی بدولت وہ موقع پیدا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقیقی معنوں میں ’خاک کے ذروں کو ہمدوش ثریا کردیا ‘لیکن پھر ’اپنی ملت کو اقوام مغرب پر قیاس نہ کرنے والوں ‘ نے اس سبق کو بھلادیا تو اللہ نے بھی ان کو بھلادیا۔خاک مدینہ و نجف کو اپنی آنکھوں کا سرمابنانے والی قوم فرقہ بندی کے عفریت کی نظر ہو گئی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ فرقہ وارایت کا جن بے قابوہو چکا ہے۔ مسئلہ صرف مذہبی تعصبات تک محدود نہیں رہا بلکہ ہمارے سماج میں فرقہ وارایت کا ظہور کئی شکلوں میں ہورہا ہے ۔اس وقت مسلم معاشرے کا اتحادذات برادری، مسلکی،فقہی،لسانی ، جغرافیائی اورنسلی تعصّبات کے طوفان میں بری طرح گھر چکا ہے ۔ جس طبقے کے ذمے ان تعصبات کے خلاف سر پر کفن باندھ کر میدان کارزار میں نکلنا تھا اس کی نظر میں سرے سے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ ہمارے مذہبی طبقے میں تو یہ موضوع سماجی مسئلے کے طورکم ہی زیر بحث آتا ہے ۔اس تناظر میں فاضل مصنف نے اتحادو یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے والے منفی سماجی رویوں کو پوری قوت سے اجاگر کیا ہے ۔موصوف نے ’’قبیلہ پرستی‘‘،’’تعصبات اور قبیلہ پرستی خدااوررسول ؐ کی نظر میں‘‘، ’’قبیلے سے باہر شادیاں‘‘،’’بزرگوں کے طور طریقے‘‘، ’’اب ایسا نہیں چلے گا‘‘،جیسے عنوانات کے تحت آج کے ایک زندہ مسئلے کو موضوع بحث بنایا ہے ۔
کتاب کے مطالعے سے احساس ہوتا ہے کہ فاضل محقق بلدئ فکر کے ساتھ زبان و بیان پر بھی گہری گرفت رکھتے ہیں۔ بعض جملے اتنے شاندار ہیں کہ گویا دریا کوزے میں بند کر دیا گیا ہو اس نوعیت کے جملے بجا طور پر ان کو’’ اقوالِ زریں ‘‘ میں شمار کرنے کے لائق ہیں ۔چند جملے ملاحظہ ہوں :
(ہمارا علاج قیمتی باتوں میں نہیں ،ضروری باتوں میں ہے ۔)
(انسانی تعمیر سے دلچسپی میں مبتلاء احباب کو علیم سے زیادہ حکیم ہونا ضروری ہے ۔)
(لوگ اس خیال پر جمے بیٹھے ہیں کہ تبدیلی حکمران بدلنے سے آئے گی حقیقت مگر یہ ہے کہ حکومت ہمارے بدلنے سے بدلے گی ۔)
(مدرسوں میں بندگی کو چھوتا ہواادب ایک طرف طلبہ کے مزاج میں پستی پیدا کر رہا ہوتاہے اور دوسری طرف اساتذہ میں غرور بڑھا رہا ہوتا ہے ۔)
(قربانی کسی ’’صاحبِ نصاب ‘‘کے’’عمل ‘‘کے طور نہیں بلکہ اپنے ’’وفا شعاروں ‘‘ کی ’’ادا‘‘کے طور پر ہی محبوب ہے۔)
اس وقت زیر نظر کتاب پر تفصیلی تبصرہ مقصود نہیں ہے تاہم مختلف مضامین پر نظر ڈالنے سے کتاب کی اس خصوصیت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ’’درِ ادراک‘‘ ایک طرف ہمارے ہاں منفی سماجی رویوں کا بیان ہے تو دوسری طرف اصلاح معاشرہ کی کوششوں اور طریق کار پر ایک شاندار استدراک بھی ہے ۔توقع ہے کہ کتاب اپنے اسلوبِ بیان اور مصنف کے گہرے سماجی مطالعے اور تنقیدی نظر کی وجہ سے قارئین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی۔