’’پیغام پاکستان‘‘ : پس منظر اور پیش منظر

مولانا حافظ عبد الغنی محمدی

دہشت گردی کے خلاف علماء کرام نے ’’ پیغام پاکستان‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں ایک متفقہ فتویٰ صادرکیا ہے جس پر 1800 سے زائد علماء کے دستخط ہیں۔اس کتا بچے کو ادارہ تحقیقا ت اسلامی نے شائع کیا ہے۔ اس کا قومی بیانیے کے حوالے سے اجراء صدر پاکستان کی سربراہی میں علماء کرام اور حکومتی نمائندہ شخصیات کی موجود گی میں اسلام آباد میں منعقدہ ایک کانفرنس میں ہوا۔ اس فتویٰ میں دہشت گردی، خونریزی، خود کش حملوں اور ریاست کے خلا ف مسلح جدو جہد کو، خواہ وہ کسی نام یا مقصد سے ہو، حرام قرارد یا گیا ہے اور ان چیزوں سے کیسے نمٹا جائے، اس حوالے سے علماء کرام کی تجاویز ہیں۔ اس فتویٰ کی اہمیت کے لیے یہ کافی ہے کہ اس کو تمام مسالک کے علماء ومفتیان کرام کی ایک بڑی تعداد نے نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے اور پھر ریاست نے اس کو قومی بیانیہ قرار دے دیا ہے۔ 

پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے نا درست خارجہ پالیسیوں یا کچھ عناصر کے بے لگام ہونے کی وجہ سے بد امنی اور انتشار کی کیفیت تھی۔ مشر ف حکومت کے بعد دہشت گردی اور بد امنی میں مزید اضافہ ہوا۔دہشت گردی ، بدامنی اور انتشار کی اس کیفیت نے ملک عزیز کی سلامتی کوداؤپر لگا رکھا تھا، پاکستان کی معیشت ہچکولے کھار ہی تھی، بہت سی قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا تھا۔ ملک میں داخلی سطح پر جو کیفیت تھی سو تھی، عالمی طور پر پاکستان کا امیج خراب ہو چکا تھا، اور ہمارے ہمسایے ہمیں آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔ انھی حالات میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ یہ واقعہ آرمی پبلک اسکو ل میں ڈیڑ ھ سو کے قریب بچوں، اساتذہ اور یگر عملے کی شہادت کا تھا۔ ننھی اور معصوم کلیوں کی شہادت کے درد کو پوری قوم نے محسوس کیا اور اس المناک حادثہ نے پوری قوم کو دہشت گردی کے خلاف ایک صف میں لا کھڑا کیا۔ دہشت گر دی کا مقابلہ کرنے اور اس کو شکست دینے کے لیے پوری قوم مضبوط و آہنی عز م کے ساتھ متحد ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ در حقیقت ملک عزیز کو درپیش چیلجز سے نمٹنے کے لیے ایسے ہی اتفاق و اتحاد کی ضرورت تھی۔ 

اس واقعہ کے بعددہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لیے ریاست نے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا، دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے لیے مختلف آپریشن کیے گئے، بینکوں میں اکاؤنٹس کی چھان بین کی گئی، سموں اور شناختی کارڈز کی رجسٹریشن کا نظام سخت کر دیا گیا، میڈیا و سوشل میڈیا کی کڑی نگرانی کی گئی، اور انسداد دہشت گردی کے ادارہ نیکٹا کو مضبوط کیاگیا۔ ان تمام عملی کاموں کے ساتھ دہشت گردوں کا نظری سطح پر بھی مقابلہ کیا گیا۔ اس ضمن میں علماء کرام کی خدمات نہایت وقیع ہیں۔ علماء کرام نے دہشت گردی کے خلاف فتاویٰ اور بیانیے صادر کیے، دہشتگردوں کا نظری سہارا ختم کرنے کے لیے ان آیات، احادیث اور عبارات کے جواب دیے جن کو وہ استعمال کر رہے تھے، ان نصوص کی درست تعبیرات و محل کو امت کے سامنے واضح کیا۔ دہشت گر دی کے خلاف جنگ میں امن پسند علماء کرام کو اپنے فتاویٰ کی بھاری قیمت چکا نا پڑی۔ اس جنگ میں بہت سے ممتاز علماء کرام کی شہادتیں ہوئیں۔ ان علماء کرام کی انفرادی کوششوں کے بعد اب یہ اجتما عی اور متفقہ فتویٰ بھی آچکا ہے جس کو قومی بیانیہ قرار دینا اور اس حوالے سے مزید کوششیں کرنا نہایت خوش آئند اقدام ہے۔ 

ہمارے ہاں مخصوص حالات اور خاص پس منظر میں کی جانے والی کوششیں صرف ان حالات سے نمٹنے کے لیے ہی ہوتی ہیں۔ بلاشبہ عام طور پر کوئی بھی کوشش مخصوص حالات اور خاص پس منظر میں ہی شروع کی جاتی ہے، لیکن اس کو ایسی مستقل بنیادوں پر استوار کرنا کہ دوبارہ اس قسم کے حالات سے دوچار نہ ہونے پڑے، یہی اصل دانشمندی ہوتی ہے۔ دہشت گر دی کے خلاف ہماری جو کوششیں ہیں، انہیں بھی مستقل بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم وقتی امن کی بجائے مستقل اور پائیدا ر امن قائم کرسکیں اور نسل نو کو آگے بڑھنے کے اچھے مواقع فراہم کرسکیں۔ 

اس ضمن میں کیا کیا جاسکتاہے، اس حوالے سے مختلف اہل علم اور صاحب قلم حضرات آرا دے رہے ہیں۔ میں بھی چند آرا دینا چاہوں گا۔ 

فرقہ واریت کا خاتمہ

دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے مختلف نوعیت کی محنت درکارہے۔ ایک کوشش فرقہ واریت کو ختم کرنے کی ہے۔ فرقہ واریت سے مراد کسی بھی سطح پر ایسی گروہ بندی یا فرقہ بندی ہے جو دیگر گروہوں کے خلاف منفی جذبات کی تعمیر میں مصروف ہو اور شدت پسندی کو ابھار رہی ہو۔ ایسی گروہ بندی مذہبی، لسانی، صوبائی یا کسی بھی لحاظ سے ہو، اس کا قلع قمع کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہمیں ایک قوم بننا ہے جس کی امنگیں، خواہشیں، ترجیحات اور مفادات یکساں ہوں۔ تبھی ہم ترقی کر سکتے ہیں اور اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ 

جو فرقے اور جماعتیں بن چکی ہیں، ان کو ختم کرنا تو شاید ممکن نہ ہو لیکن رواداری، احترام اوربرداشت کے ذریعے ہم پر امن ماحول پیدا کرسکتے ہیں۔ فرقہ واریت میں چند چیزیں ایسی ہیں جن کو اگر ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو فرقہ واریت کی شد ت کم ہو سکتی ہے:

1۔ مختلف فرقوں کی کتابوں اور لٹریچر میں ایک دوسرے کے خلاف سخت فتاو یٰ اور غیر مہذب اور اخلا ق سے عاری الفاظ موجود ہیں۔ ان فتاویٰ پر شاید ان مسالک کو دل و جان سے حرز جان بنانے والے لوگ بھی نہ عمل کر پاتے ہوں، کیونکہ معاشرتی طور پر ایک دوسرے سے اتنا کٹ جانا کہ آدمی معاشرتی افعال خرید و فروخت، شراکت، تعلق داری اور دیگر معاملات میں صرف اپنے مسلک تک محدود ہو کر رہے، یہ عملی طور پر بہت مشکل کام ہے۔ اس قسم کے شدت پسندی پر مبنی فتاویٰ اگر چہ عملی اور معاشرتی زندگی میں ناقابل عمل ہیں، لیکن نظری طور پر یہی فتاویٰ کسی بھی مسلک میں شدت پسندی اور دوسروں سے بغض و عداوت پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ نہ صرف موقع پرست علماء کے لیے بہتر ین ہتھیار ثابت ہوتے ہیں بلکہ جادہ اعتدال پر گامزن اور امن باہمی کی کوششیں کرنے والے علماء کے لیے بھی بہت بڑی رکاوٹ بنتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اب اس قسم کے عمر رسید ہ و سن یاس کو پہنچے ہوئے فتاویٰ کو ختم کر کے ان پر نظری تکیہ رکھنے والوں کا سہارا بھی ختم کیا جائے۔ اس زمرے میں کون سے فتاویٰ آتے ہیں، اس میں ہر مسلک کے معتدل و جید علماء و مفتیان کرام کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔ اگر تمام مسالک کے معتدل علماء اس قسم کے فتاویٰ کو ختم کرنے میں متفق و متحد ہوجائیں تو راکھ میں دبی اس چنگاری سے جو کسی بھی وقت ہلاکت خیز آگ کا روپ دھار سکتی ہے، ہم بچ سکتے ہیں۔ 

2۔ مولانا مودودیٰ کی کتابوں میں مقد س شخصیات کے حوالے سے بعض ایسی باتیں تھیں جو بظاہر نظر دیکھنے سے خلاف ادب معلوم ہوتی ہیں اور دینی حمیت رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے مقد س شخصیات کے بار ے میں ہمارے جذبات ایسے ہی ہونے چاہییں، لیکن ان جذبات کو اگرہم دائرہ قانون میں لے آئیں تو شاید اس قسم کے مسائل زیادہ احسن طریقے سے حل ہو سکیں گے۔ مولانا مودودی کی کتابوں سے قاضی حسین احمد صاحب نے اس قسم کا مواد ہٹا دیا۔ قاضی صاحب عبقری شخصیت کے مالک تھے، ان کے دیگر سیاسی و مذہبی کارناموں کے ساتھ یہ بہت بڑا کا رنامہ تھا۔ جماعت کے اندر سے بہت سے لوگوں نے اس کی سخت مخالفت کی، لیکن قاضی صاحب اپنی جرا ت رندانہ کے باعث یہ کام کر گزرے۔ 

قاضی حسین احمد کے ایسا کرنے کافائدہ یہ ہوا کہ مولانا مودودی کی شخصیت اصل روپ کے ساتھ نکھر کر سامنے آگئی۔ ان کی چند باتوں کو لے کر مخالفین نے ان کی شخصیت کے بہت سے مفید پہلوؤں کو چھپادیا تھا۔ قاضی حسین احمد نے ایسے لوگوں کے لیے وہ راہ مسدود کر دی اور مولانا مودودی کو بحیثیت بے مثل مفکر لوگوں کے سامنے پیش کردیا۔ اب جس شخص نے مولانا مودودی کے حوالے سے بات کرنی ہے، وہ کوئی فکری بات ہی کرے گا۔ طعن و تشنیع یا لایعنی و غیر مفید ابحاث کا سلسلہ ختم ہو چکاہے، اگر چہ بعض لوگ اب بھی گڑے مردے اکھاڑنے میں لگے رہتے ہیں۔ 

ایسے ہی اگر ہر مسلک کی نمائندہ شخصیات اپنے اکابر کی ایسی باتوں کو ختم کرنے کی طرف توجہ دیں تو ہم بجا طور پر ایک اچھی روایت کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ ایسی عبارات کی نشاندہی کوئی مشکل کام نہیں۔ ان پر باقاعدہ مختلف مسالک کے علماء کی کتابیں اور مناظرے موجود ہیں ۔ اپنے مسلک کی کسی بڑی اور عقیدتوں کی مرکز شخصیت کی تصانیف سے اس قسم کا مواد ہٹانا یقیناًبہت مشکل ہے۔ شاید اس کو ناممکن بھی کہا جا سکے۔ اس سے بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، مسلکی طور پر لوگوں کا یقین و اعتبار اٹھنے کا خطرہ ہوتا ہے، لیکن جتنا یہ پر امن بقائے باہمی اور شدت پسند ی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے، اتنا ہی علمی ترقی اور مکالماتی ماحول میں مفید ابحاث پر گفت و شنید کے لیے بھی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں مکالماتی ماحول اٹھ چکا ہے۔ اس کی جگہ جدل و مناظرہ نے لے لی ہے جس کا اختتام کسی فائدے کی بجائے باہمی رقابتوں میں اضافے، ماحول میں کشیدگی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر ہوتا ہے۔ مفید علمی ابحاث کا مکالمہ ایک عرصہ ہوا شاید ختم ہی ہو چکا ہے اوران حالات میں علمی ترقی ایک خواب اور سراب ہی ہو سکتی ہے۔

3۔ ہمارے ہاں طویل عرصہ سے چلنے والے مسلکی اختلافات دشمنی اور رقابت کا روپ دھار چکے ہیں جن میں ایک دوسرے سے شدید نفرت و عداوت پائی جاتی ہے۔ ان حالات میں ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کا پیدا ہوجانا بھی لازمی اور یقینی امر ہے۔ ہم کسی کا نقطہ نظر اس سے معلوم کر نے کی بجائے خود ہی طے کر کے اس پر فرضی قضیوں کی پوری عمارت تیار کر لیتے ہیں، ایسے میں غلط فہمیوں کا پیدا ہونا اور بھی لازمی اور یقنیی ہوجا تا ہے۔ہو سکتا ہے کہ ان غلط فہمیوں میں خیانت کا بھی دخل ہو ، لیکن ابتدائی طور پر کی گئی خیانت بعد میں ذہن میں رچ بس کر فکر کا ایسا حصہ بن جاتی ہے جس پر انسان ازسر نو غور نہیں کرتا اور ایسے خیالا ت ایک دوسرے کے بارے میں نسل در نسل چلتے رہتے ہیں۔ یہ غلط فہمیاں سیاسی، معاشرتی اور مذہبی ہر طرح کے مسائل میں ہو سکتی ہیں۔سب سے زیادہ غلط فہمیاں دوسروں کی عبارات و نظریات کی تفہیم میں ہوتی ہیں۔ ہر مسلک والے لازماً خود پر ہونے والی تنقید میں یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ان کے موقف پر دیانتدارانہ غور و فکر نہیں کیا گیا بلکہ اس سے من مانے معانی اخذ کر کے خیانت کا ارتکا ب کیا گیا ہے۔ یہ صرف آج کے دور میں ہی ایسا نہیں بلکہ ابتدائی ازمنہ سے ہی ہم مختلف مسالک کی آویز ش میں ایسی بہت سی مثالیں تلاش کر سکتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ مکالماتی ماحول پیداکیا جائے جس میں مختلف مسالک کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آسکیں اور باہم غلط فہمیاں دور کرسکیں۔ اس مکالماتی ماحول میں بازاری علماء اور پیشہ ور مناظرین جن کی روزی روٹی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور کسی بھی طرح غلط ثابت کرنے سے وابستہ ہو، ان کو دور رکھ کر سنجیدہ اور امن کی چاہت رکھنے والے علماء کو موقع دیا جائے۔

4۔ ایسی تحریروں، تقریروں، جلسے جلوسوں اور مناظروں پر پابندی عائد کی جائے جن سے باہمی نفرت میں اضافہ اور ماحول میں کشید گی پیدا ہوتی ہے۔ ایسے علماء و مناظرین کی ذہنی اور اخلاقی سطح کو بہتر بنانے کے لیے مختلف تربیتی کورسز اور ورکشاپس کااہتمام کیا جائے۔ ان علماء کی توجہ جدید مسائل اور اسلام کی آفاقیت کو در پیش چیلنجز کی طرف مبذول کروائی جائے تاکہ ان کی صلاحیتیں کسی اچھے مصرف میں استعمال ہو سکیں۔ دور جدید میں اسلام کو کس قسم کے چیلنجز اور مسائل کا سامنا ہے اور مسلم امہ کے مسائل کیا ہیں ؟ مسالک سے ماوراء مذاہب کی رقابت موجودہ دور میں کس موڑ پر پہنچ چکی ہے ؟ اور پھر اس سے بھی آگے مذہب کو لا دینیت اور دہریت کی موجودہ جن شکلوں سے سابقہ ہے، اس کا ادراک علماء امت کو ہونا چاہیے ۔ اس کے لیے ٹیم ورک کی ضرورت ہے اور ایسے افراد کو پیدا کرنا ضروری ہے جو علماء کی ان خطوط پر تربیت کر سکیں۔ 

پرائیویٹ جہادی گروپوں کا خاتمہ

علماء کرام کے موجودہ قومی بیانیہ کی حیثیت اختیار کرجانے والے فتویٰ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ جہاد صرف ریاست کا حق ہے، ریاست کے اندر ریاست بنانے کی کسی کو اجازت نہیں اور ریاست کی اجازت کے بغیر کوئی جہاد نہیں کر سکتا۔ اس بات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور اس فتویٰ کے بعد اس قسم کے تمام فتاویٰ جن سے دہشت گردوں کی پشت پناہی یا نظریات کو تقویت ملتی ہو، ختم کرنا بھی ضروری ہے۔ ایسے افراد یا جماعتیں جو اس کام میں ملوث رہی ہیں، ان کو قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے۔ ایسے افراد اگر سیاست میں حصہ لیتے ہیں یا فلاحی کام کر تے ہیں تو ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ تاہم لوگوں کو پرائیویٹ جہاد کے لیے تیار کرنے والوں، یا ایسے لوگوں کی کسی بھی قسم کی اعانت کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی ہونی چاہیے اور جن جماعتوں کو کا لعدم قرار دیا جا چکا ہے، ان کو کسی دوسرے نام سے وہی کام کرنے کی اجازت بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کا نظری سہارا ختم کریں تا کہ جن نصوص کی بنیادپر وہ خود غلط فہمی کا شکار ہیں یا لوگوں کو تیار کر تے ہیں، ان سے وہ استدلال نہ کرسکیں اور درست راستے کی طرف آسکیں۔ 

دیگر ممالک اور عالمی پالیسیوں پر نظررکھنا

ہمارے ملک میں دہشت گردی کی بڑی وجہ دوسرے ملکوں کی مداخلت بھی ہے۔ دوسرے ملکوں کے وہ لوگ جو اپنے مفادات کے لیے کسی خاص مسلک کی پشت پناہی کر رہے ہیں، اس کو جس حد تک ہو سکے روکا جائے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایران پاکستان میں شیعہ گروپوں کی سب سے زیادہ امداد کرتاہے۔ اب ایران ہو، سعودیہ یا کوئی اور ملک، یہ لوگ مذہبی نام پر مختلف مسالک یا تنظیموں کی مدد کرتے ہیں اور ان سے سیاسی مفادات حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ آج بھی ایران یا سعودیہ کے مختلف محاذوں پر باقاعدہ سپاہی کا کام کررہے ہیں اور اس کا محرک صرف مذہبی عقیدت ہے اور یہ سب ریاست سے ماوراء ہو رہا ہے۔ ایسے عناصر اور ان کے سر کردہ لوگوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ 

اسی طرح عالمی طور پر دہشت گردی نے ایک کاروبار کی شکل اختیار کی ہوئی ہے۔ امریکہ یا مختلف ملک باقاعدہ تنظیموں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اس کو کاروبار سمجھتے ہیں۔ جانے انجانے میں ان کی آلہ کار بننے والی شدت پسند تنظیموں اور جماعتوں پر بھی کڑی نظررکھی جائے۔ یورپی اور مغربی ممالک پاکستان کی نظریا تی سرحدوں کو متاثر کرنے کے لیے جس قدر سرمایہ کاری کرتے ہیں، اس کا ادراک و احساس بھی ضروری ہے۔ 

علماء کرام کے متفقہ فتوے میں یہ بات بھی موجود ہے جسے قوم کو اچھی طرح ذہن نشین کروانے کی ضرورت ہے کہ اسلام کے نام پر آئین کو پرے پھینک کر اور جغرافیائی سرحدوں کو نظر انداز کرکے کسی دوسرے ملک میں لشکر کشی کا حصہ بننا بھی خلافِ اسلام ہے اور عہد شکنی کے زمرے میں آتا ہے۔ پاکستانی شہری پر لازم ہے کہ وہ دستور میں کیے گئے عمرانی معاہدے کی پابندی دیں اور کسی بیرون ملک گروہ کی مدد کے نام پر اس میثاق کی خلاف ورزی نہ کریں کیونکہ ایسا کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوگا۔

ریاستی پالیسیاں

سب سے زیادہ ضرورت اس امرکی ہے کہ ریاست کی پالیسیاں بالکل صاف شفاف اور ملکی و عالمی قوانین و معاہدات کے مطابق ہوں۔ عالم اسلام میں مختلف مسلم ممالک میں جو ظلم و زیادتی کے واقعات ہیں، ہمیں ان کی سیاسی و سفارتی سطح پر مذمت کرنی چاہیے، تاہم دنیا بھر میں کسی بھی جگہ بشمول افغانستان، کشمیر، فلسطین وغیرہ، ہمیں نہ صرف ریاستی سطح پر مسلح جدو جہد کی پشت پناہی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمارے ملک کے ایسے لوگ یا تنظیمیں جو ان جگہوں پر مسلح جدوجہد میں مصروف عمل ہیں، ان کے خلا ف سخت تادیبی کاروائی عمل میں لانی چاہیے، اور شدت پسندی کے رویے پر بنی کسی بھی تنظیم کی حوصلہ شکنی کر نی چاہیے، نہ کہ حوصلہ افزائی۔ 

سماجی اور معاشرتی اصلاحات

دہشتگر دی کے خاتمے اور پر امن معاشرے کے قیام کے لیے مذہبی، معاشی، معاشرتی، قانونی اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں عدل وانصاف بہت ضروری ہے۔ معاشرے میں کچھ طبقات کے حقوق کو مسلسل نظر انداز کرنے سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں، ان کا اچھی طرح ادراک بہت ضروری ہے۔ وہ افراد اور گروہ جو مایوسی اور محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ اپنے ادنی مفادات کے لیے کسی بھی حدتک جا سکتے ہیں، اس لیے ہمیں انہیں حقوق دے کر ان کا احساس محرومی ختم کر نا چاہیے۔ ہمارے ملک میں مذہبی، معاشی، معاشرتی، قانونی، لسانی اور صوبائی سطحوں پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے اندر نہ صرف احساس مایوسی اور محرومی پنپ رہا ہے بلکہ ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کر رہا ہے جس کے پھٹنے سے جونقصان ہو گا، اس کی قیمت ہمیں نسل در نسل چکانی پڑے گی، اس لیے ہمیں نہ صرف ان لوگوں کی شکایات کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سننا ہوگا بلکہ ان کو مساوی حقو ق بھی مہیاکرنا ہوں گے۔ حقوق سے محرومی کے معاملے میں مذہبی اقلیتوں اور چھوٹے و پسماندہ صوبوں اور علاقوں کے لوگوں کا لحاظ خاص طور پر ضروری ہے۔ 

اسی طرح دہشت گردی ، بدامنی اور جرائم کے بنیا دی اسباب یعنی غربت جہا لت اور کر پشن کے خاتمے کے لیے موثر اور سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روایتی کھیلوں، ثقافتی میلوں، موسیقی، ڈرامے اور دیگر تفریحی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے باضابطہ پالیسیاں مرتب کی جائیں تاکہ فرسٹریشن سے پاک ایک اچھا اور صحت مند معاشرہ قائم ہو سکے۔

تعارف و تبصرہ

(مارچ ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter