قومی ریاست اور جہاد: کیا کوئی نیا فکری پیراڈائم ممکن ہے؟

محمد عمار خان ناصر

جدید قومی ریاست کے بارے میں ایک بہت بنیادی احساس جو روایتی مذہبی اذہان میں بہت شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے، یہ ہے کہ اس تصور کو قبول کرنا درحقیقت جہاد کی تنسیخ کو تسلیم کر لینے کے مترادف ہےجو اسلامی تصور حکومت واقتدار کا ایک جزو لا ینفک ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ اسلامی شریعت میں مسلمان ریاست کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے، چند ضروری شرائط کے ساتھ، ارد گرد کے علاقوں میں قائم غیر مسلم حکومتوں کے خلاف جنگ کر کے یا تو ان کا خاتمہ کر دے اور ان علاقوں کو مسلمان ریاست کا حصہ بنا لے  یا کم سے کم انھیں اپنا تابع اور باج گزار بننے پر مجبور کر دے۔ قومی ریاست کے جدید تصور میں، ظاہر ہے، اس کی گنجائش نہیں، کیونکہ  اپنی جغرافیائی حدود میں سیاسی خود مختاری  کو ہر قومی ریاست کا بنیادی حق تسلیم کیا جاتا ہے اور کسی ریاست کو  یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی بھی بنیاد پر  دوسری ریاست کی جغرافیائی حدود یا  انتظام کار میں مداخلت کرے ۔ یوں جہاد اور قومی ریاست میں گویا تباین کی نسبت پائی جاتی ہے۔

تاہم مذہبی فکر کو اس عملی حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ موجودہ عہد میں  معاشروں کی بقا سر تا سر قومی ریاست کے تصور پر منحصر ہے، اس لیے جہاں یہ سوال اہم ہے کہ قومی ریاست میں جہاد کا امکان باقی رہتا ہے یا نہیں، وہاں یہ سوال بھی اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے  کہ اگر قومی ریاست کے تصور کو کالعدم کر دیا جائے تو بحالات موجودہ معاشروں کی نفس بقا کیسے ممکن ہوگی۔ یہ معلوم ہے کہ دور جدید میں نہ صرف استعمار (یعنی طاقت کے زور پر بالادست قوموں کے کمزور قوموں پر مسلط ہونے کے عمل) کا خاتمہ قومی ریاست کے تصور کے تحت ہی ممکن ہوا ہے، بلکہ طاقتور قوموں کے باہمی جنگ وجدال اور خوں ریزی کا سلسلہ بھی اسی اصول کو قبول کر لینے کی بدولت ہی رکا ہوا ہے۔ مزید براں،  طاقتور قوموں کے جوار میں قائم چھوٹے چھوٹے ممالک بھی اگر ایک سطح پر انفرادیت اور خود ارادی سے بہرہ ور اور اپنے زور آور پڑوسیوں کی  براہ راست چیرہ دستی سے محفوظ ہیں تو اس کے پیچھے بھی قومی ریاست کے احترام کا ہی اصول کار فرما ہے۔چنانچہ خدا نخواستہ آج اگر اس اصول کے حوالے سے بین الاقوامی اتفاق رائے ختم ہو جائے تو ایک نئی جنگ عظیم کا شروع ہو جانا  ہفتوں یا دنوں کی نہیں، بلکہ لمحوں کی بات ہے اور اس سارے فساد میں خاص طور پر کمزور اور پس ماندہ قومیں  جس تباہی سے دوچار ہوں گی، اس کا بس تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔

گویا فکر اسلامی کو ایک مخمصے کا سامنا ہے۔ اگر قومی ریاست کے تصور کو قبول نہیں کیا جاتا  تو خود اس معاشرے کا قیام اور بقا ممکن نہیں جس نے جہاد کی ذمہ داری انجام دینی ہے، اور اگر کیا جاتا ہے تو  مسلمان ریاست کی ایک بنیادی ذمہ داری یعنی جہاد سے دستبرداری کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ روایتی مذہبی فکر میں اس مخمصے کا عمومی طور پر قابل قبول حل یہ ہے کہ قومی ریاست کے تصورکو بادل نخواستہ اور بامر مجبوری ایک وقتی وعارضی  صورت حال کے طور پر تو قبول کیا جائے، اور جب تک یہ عملی رکاوٹ موجود ہو، اس وقت تک  جہاد پر عمل کو بھی  مجبوراً‌ معطل رکھا جائے، لیکن اسے کوئی مستقل اور معیاری اصول نہ مانا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی مسلمان حکومتیں اس پوزیشن میں آ جائیں کہ قومی ریاست کے تصور کو چیلنج کر سکیں تو وہ ایسا ہی کریں اور طاقت وحوصلہ کے بل بوتے پر اسلام کی سیاسی بالادستی غیر مسلم قوموں پر قائم کرنے کے لیے جہاد کا آغاز کر دیں۔ 

یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ نقطہ نظر فقہ اسلامی کے ایک خاص فہم اور  تعبیر پر مبنی ہے جس سے مختلف نقطہ نظر بھی موجود ہے۔ اس متوازی نقطہ نظر کے مطابق فقہ اسلامی میں غیر مسلم حکومتوں کے اصولی جواز کو تسلیم کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ لازماً‌ جنگ جاری رکھنے کو مسلمان ریاست کا مقصد یا فریضہ قرار نہیں دیا گیا۔ تاہم سردست ہم اس دوسرے نقطہ نظر پر بات نہیں کر رہے جس کی نوعیت دراصل دور جدید کے تناظر میں  فقہی ذخیرے کی تعبیر نو کی ہے۔ یہاں ہماری گفتگو فقہ اسلامی کی روایتی اور کلاسیکی تعبیر کےتناظر میں ہےجس کی رو سے مسلمان اور غیر مسلم ریاستوں کے مابین اصل تعلق جنگ ہی کا ہے۔ اس زاویہ نظر سے جدید قومی ریاست، جہاد کی ذمہ داری کی ادائیگی میں ایک مانع کا درجہ رکھتی ہے اور، جیسا کہ واضح کیا گیا ، اسے ایک وقتی اور عارضی کیفیت کے طور پر ہی قبول کیا جا سکتا ہے۔ 

تاہم یہ ایک فقہی اور قانونی انداز کا حل ہے جو ایک محدود دائرے میں قابل فہم ہے، لیکن صورت حال کی اصل پیچیدگی  کو موضوع نہیں بناتا۔اس پیچیدگی کے تین چار پہلو بہت بنیادی ہیں۔ ایک تو وہی جس کا اوپر ذکر کیا گیا، یعنی یہ کہ طاقت کے غیر معمولی عدم توازن کی موجودہ صورت حال میں  قومی ریاست کے تصور کی نفی کا نتیجہ عملاً‌ کس کے حق میں نکلے گا؟

دوسرا یہ کہ جدید دور میں قومی ریاست کے اصول سے انحراف کا تعلق طاقت اور استطاعت کی فراہمی یا عدم فراہمی سے ثانوی ، جبکہ قانونی واخلاقی جواز سے بنیادی ہے۔ اس اصول پر دنیا کے اجتماعی اخلاقی ضمیر کا اجماع ہو چکا ہے اور کوئی طاقت ور سے طاقت ور حکومت بھی اس کی خلاف ورزی کرے تو اخلاقی اور قانونی طور پر اس کا جواز تسلیم نہیں کیا جاتا۔ جب تک اجتماعی انسانی شعور میں اس حوالے سے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی اور، مثال کے طور پر، ماقبل جدید ادوار کے سیاسی تصورات کے مطابق دوبارہ طاقت کو حق حکومت کی جائز  بنیاد نہیں مان لیا جاتا، ایسا کوئی بھی اقدام اجتماعی انسانی ضمیر کی نظروں میں غیر اخلاقی اور غیر قانونی رہے گا۔ یہ صورت حال دور قدیم سے جوہری طور پر مختلف ہے جب سلطنتوں اور ریاستوں کے لیے توسیع حدود کو  ایک جائز سیاسی حق تصور کیا جاتا تھا اور  تسلط کے بالفعل قائم ہو جانے کے بعد  غالب طاقت کو  وہاں کا قانونی حاکم تسلیم کر لیا جاتا تھا۔ اس اصول کو بین الاقوامی عرف کی حیثیت حاصل تھی ، چنانچہ طاقت کے استعمال کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں نکلنے کے بعد قانونی واخلاقی جواز کا سوال  مستقل طور پر  سر نہیں اٹھاتا رہتا تھا۔ 

اس پہلو کو یہ کہہ کر جھٹکا نہیں جا سکتا کہ مسلمان اپنے اقدامات کےلیے دنیا سے سند جواز حاصل کرنے کے پابند نہیں، ان کے لیے خدا کی شریعت کا حکم ہی کافی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ  یہاں مسئلہ صرف ابتداءا سند جواز کی فراہمی کا نہیں، بلکہ عالمی اخلاقی عرف کے تناظر میں جواز کی مستقل sustainability کا ہے اور اس کے بارے میں یہ فرض کرنا کہ شریعت کو  اس سے مطلقاً‌ کوئی غرض نہیں یا یہ کہ وہ مسلمانوں کو    عالمی رائے عامہ کے سامنے مستقلاً‌ ایک اخلاقی ملزم سمجھے جانے کے امتحان میں ڈالنا چاہتی ہے، انتہائی سادہ فکری کا نتیجہ ہوگا۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہیے کہ صرف سیاسی طاقت ہر سوال کا جواب نہیں دے سکتی۔ طاقت کے استعمال کو اخلاقی جواز درکار ہوتا ہے اور اس جواز کی بنیادیں انسانی ضمیر کی سطح پر  مشترک ہونی چاہییں۔ اخلاقی جواز کے دائرے میں جزوی اور محدود سطح کے اختلافات، جن کا اثر وقتی اور عارضی ہو،  کی تلافی تو طاقت سے کی جا سکتی ہے، لیکن طاقت کے زور پر اخلاقی نوعیت کے سوالات کو مستقلاً‌ ایڈریس نہیں کیا جا سکتا۔ 

تیسرا انتہائی اہم پہلو وہ تبدیلیاں ہیں جو دور جدید میں جنگ کی نوعیت اور اس کی تباہ کاری کی صلاحیت میں رونما ہو چکی ہیں۔ جیسا کہ معلوم ہے، آج کی جنگ صرف میدان جنگ تک محدود نہیں رہی اور  معیشت واقتصاد پر اس کے عمومی اثرات کے علاوہ جنگی ہتھیار بھی مقاتل اور غیر مقاتل کی تفریق سے عاجز ہیں، بلکہ بہت سے ہتھیار تو بنائے ہی اس مقصد سے گئے ہیں کہ تباہی کا دائرہ صرف مقاتلین تک محدود نہ رہے۔ جنگ سے پھیلنے والی تباہی کا نشانہ سب سے زیادہ عام لوگ بنتے ہیں جو جنگ کا فیصلہ کرنے یا جنگی عمل کی انجام دہی میں شریک بھی نہیں ہوتے۔ جنگ کے بارے میں کلاسیکی اسلامی قانون کا تصور یہ ہے کہ یہ حسن لغیرہ ہے، یعنی انسانی خون بہانا اگرچہ فی نفسہ ایک قبیح چیز ہے، لیکن چونکہ اس پر قیام امن اور دفع فساد کا مقصد موقوف ہے، اس لیے ایک ذریعے کے طور پر اس میں بالواسطہ اخلاقی حسن پیدا ہو جاتا ہے۔ دور جدید میں جنگ کی تباہ کاری کی نوعیت بدل جانے کے تناظر میں مذکورہ تصور کی معنویت بھی  بدیہی طور پر برقرار نہیں رہی ، اس لیے کہ حسن وقبح کی بحث میں  تناسب کا سوال بنیادی ہوتا ہے۔ ایک قبیح چیز اسی وقت تک حسن لغیرہ ہو سکتی ہے جب تک اس سے پیدا ہونے والا ضرر، اس سے حاصل ہونے والے فائدے کے مقابلے میں  کم ہو اور متوقع فائدے کے حصول کا امکان بھی غالب ہو۔ دور جدید کی جنگ میں، جیسا کہ ہم جانتے ہیں،  صورت حال بالکل برعکس ہے۔

ایک اور نہایت اہم سوال یہ ہے کہ جہاد کے ذریعے سے اسلامی ریاست کے رقبے کی توسیع کی پالیسی قدیم دور میں دار الاسلام اور دار الحرب کی جس تقسیم پر مبنی تھی، بذات خود وہ تقسیم جدید دور میں کتنی بامعنی رہ گئی ہے؟ جدید دور میں کم سے کم دو بنیادی تبدیلیوں نے اس معاملے کی نوعیت کو بالکل بدل دیا ہے: ایک، بڑے پیمانے پر  انتقال آبادی اور دوسرے، شہری حقوق کا جدید سیاسی تصور۔ قدیم دور میں دنیا کے مسلمان، بنیادی طور پر اسلامی سلطنتوں کے حدود میں مقیم ہوتے تھے اور غیر مسلم حکومتوں کے دائرہ اختیار میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد کا تناسب نہ ہونے کے برابر تھا۔  جدید دور میں صورت حال بالکل مختلف ہے اور مختلف عوامل کے تحت مسلمانوں کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ اب غیر مسلم ریاستوں میں سکونت پذیر ہو چکا ہے۔ پھر یہ کہ بیشتر ممالک میں ان مسلمانوں کی حیثیت اجنبی یا  دوسرے درجے کے شہری کی نہیں، بلکہ انھیں مساوی مدنی وسیاسی حقوق سے بہرہ ور تسلیم کیا گیا ہے اور اس حیثیت سے انھیں اپنی تعداد اور معاشی صورت حال کے لحاظ سے ان ممالک کی پالیسیوں اور فیصلوں کی تشکیل میں شامل ہونے کا موقع بھی حاصل ہے۔ گویا غیر مسلم ممالک کے بارے میں یہ تصور کہ وہ اصولی طور پر غیر مسلموں کے ملک ہیں، اب اس طرح بامعنی نہیں رہا  جیسا کہ ماضی میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دور جدید کے فقہاء  نے ایسی مسلمان کمیونٹیز کے مسائل واحکام پر گفتگو کے لیے فقہ الاقلیات کے عنوان سے ایک مستقل باب وضع کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے، جبکہ کلاسیکی فقہ میں  اس موضوع پر چند منتشر جزئیات سے زیادہ کوئی راہ نمائی نہیں ملتی۔ 

صورت حال کی یہ تبدیلی قانون بین الممالک کے اساسی تصورات اور عملی ڈھانچے پر بھی براہ راست اثرات مرتب کرتی ہے اور بدیہی طور پر اس فریم ورک میں  جہاد کے کلاسیکی تصور کو، جس میں فرض کردہ صورت واقعہ بالکل مختلف تھی، رو بہ عمل نہیں کیا جا سکتا۔ 

یہ تمام پہلو ایک گہرے اور بنیادی نوعیت کے اجتہادی زاویہ نظر کا تقاضا کرتے ہیں اور فکر اسلامی کو اس حوالے سے سب سے اہم سوال یہ درپیش ہے کہ کیا حالات کے جبر اور اصول ضرورت کے علاوہ ان نئے سیاسی واخلاقی  تصورات کے ساتھ تعامل کا کوئی علمیاتی اور اخلاقی زاویہ بھی ہو سکتا ہےجس میں ان تصورات کی داخلی قدر وقیمت یا عملی افادیت  کو فیصلے کی بنیاد بنایا جا سکے؟اگر ایسا ممکن ہے تو کیا یہ تصور جہاد کی تنسیخ کے ہم معنی ہوگا یا اس کی کوئی ایسی تعبیر  بھی کی جا سکتی ہے جو شریعت کی آفاقیت اور جامعیت کے اسلامی عقیدے سے ہم آہنگ ہو؟ اتنا بہرحال واضح ہے کہ سوالات فلسفیانہ اور اصولی نوعیت کے ہیں۔ جزوی وفقہی نوعیت کا انداز نظر ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔

جہاد / جہادی تحریکات

(جون ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter