شمس الرحمان فاروقی (۱۹۳۵ء) ادبی دنیا کا ایک مقتدر نام ہے۔ وہ شاعر، ادیب، نقاد اور سماجی دانشور ہیں۔ الٰہ آباد سے ایم اے انگریزی بھی کیا ہے اور انوکھے انداز میں تنقیدی کلیے وضع کیے ہیں۔ مختلف اعزازات سے انہیں نوازا گیا ہے۔ پاکستان آچکے ہیں اور کراچی کی ایک باوقار ادبی تقریب میں چبھتے ہوئے سوالوں کا جواب محتاط انداز میں دیا ہے جس کا انہوں نے اپنی تحریر یں ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے انڈین ایکسپریس کی ۵ اپریل کی اشاعت میں ایک بھرپور مضمون لکھا ہے۔ یہ ایک چشم کشا تحریر ہے اور پاکستانی دانشوروں کے لیے ایک لمحۂ فکریہ۔ مضمون ۷۰ سالہ تجربات، مشاہدات کا نچوڑ ہے۔ ڈاکٹر صاحب روایتی طور پر جمعیۃ علماء ہند سے تعلق کے ناطے کانگریس کے وفادار ہیں۔ اس مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر فاروقی بچپن ہی سے سیاسی منظر نامہ کو دیکھ اور سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے تقسیم ہند کو بھارتی مسلمانوں کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جو ایک روایتی اپروچ ہے۔ لیکن ایک نقاد کی حیثیت سے انہوں نے اپنے مضمون میں جس توازن اور احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے وہ سامنے نظر آرہا ہے۔ کانگریس اور بھارتی قیادتوں کی تعریف اور توصیف کے پس پردہ وہ اپنے دل کی بات بھی کر گئے ہیں۔ مضمون کا عنوان ایک عالمانہ اور حساس ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ “تنہائی کا شکار اقلیتوں کی کرب ناک زندگی” ،اگرچہ یہ ترجمہ انگریزی عنوان کی مؤثر شکل نہیں ہے۔
اس مضمون میں جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ کئی مرتبہ مختلف انداز میں دہرائی گئی ہیں لیکن ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی کے قلم سے لکھی گئی باتیں پروپیگنڈا یا سیاست بازی کے زمرے میں نہیں آتیں۔ یہ ایک مفکرانہ اور معروضی اظہار حقیقت ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے واضح طور پر بتایا ہے کہ تقسیم کے بعد مسلم دشمنی میں اضافہ ہوا ہے اور اب بات بہت آگے نکل چکی ہے۔ یہ بات ڈاکٹر صاحب کی گرفت میں نہیں آتی کہ ان ہی خدشات نے پاکستان کی تخلیق کی۔ کانگریس کی وزارتوں نے سیاسی، مالی، نظریاتی اور انتظامی اعتبار سے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس سے اکٹھا رہنے کے تمام امکانات ختم ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب نے موجودہ قیادتوں کا تجزیہ کرتے ہوئے دبے لہجے میں یہ کہہ دیا ہے کہ موجودہ صورتحال اگر زیادہ دیر تک قائم رہی تو مسلمان اپنی شناخت سے محروم ہو جائیں گے۔ دراصل یہ کوئی نئی پالیسی نہیں۔ کانگریس کی حکومت ہو یا آر ایس ایس کی، مسلمانوں کے بارے میں ایک جیسی سوچ رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کانگریس نے اپنے نفاق سے مسلمانوں کو دھوکہ دیا ہے اور بی جے پی کھل کر مسلمان دشمنی کا اظہار کر رہی ہے۔ امریکی پشت پناہی نے اسے اتنا منہ زور کر دیا ہے کہ وہ مصلحت اور اخفاء کو ضروری نہیں سمجھتی۔
یہ ان کوششوں کا عروج ہے جن کا آغاز بہت پہلے سے ہوا۔ ڈی پی دھرکی سرپرستی میں ایک کمیٹی (کمیشن) بنائی گئی اور اس کے ذمہ اسپین (ہسپانیہ) کے ثقافتی امور کا مطالعہ تھا۔ اصل میں وہ یہ تحقیق کرنا چاہتے تھے کہ اسپین میں مسلمانوں کو کیسے ختم کیا گیا حالانکہ وہاں پر بھی مسلمانوں نے ۶ سو سال حکومت کی تھی۔ سب سے بڑی کامیابی نصاب سازی کی شکل میں ہوئی، بھارت کے تعلیمی اداروں میں ایسا نصاب پڑھایا جا رہا ہے جس سے مسلمانوں کی حکومت کے اثرات ختم کیے جائیں۔ نصاب میں مسلمانوں کو غاصب اور استعماری حکمرانوں کا نام دیا گیا ہے، تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے، الٹی سیدھی توجیہیں دے کر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں نے ہندوستان کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہ سب عمارتیں ہندوؤں نے بنائیں جن پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔ جب طلباء مہا بھارت کے مقدس مقامات کے بارے میں پوچھتے ہیں تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ کچھ ملیچ (پلید)مسلمانوں کے قبضے میں ہیں جنہیں آزاد کرانا ضروری ہے۔
دراصل بھارت سے ہمارا جھگڑا پانی، سرحدوں اور تجارت کا ہی نہیں، بھارت نے اب تک پاکستان کے وجود کو قبول نہیں کیا۔ ان کا سیاسی نقشہ ہندوکش سے لے کر خلیج ملاکا تک پھیلا ہوا ہے۔ نتھورام گاڈسے کی راکھ ممبئی کے ایک مندر میں محفوظ ہے اور ہر سال اسے باہر نکال کر اس عہد کی تجدید کی جاتی ہے کہ اس راکھ کو اس دن گنگا میں بہایا جائے گا جب نتھو رام کا مشن مکمل ہو جائے گا۔ اور مشن کیا ہے؟ تقسیم ہند کو ختم کر کے اکھنڈ بھارت کا قیام۔ ان کا تاریخی اور سیاسی فلسفہ داہریت سے جڑا ہوا ہے۔ اسلام وہ واحد دین/عقیدہ ہے جسے وہ ہضم نہیں کر سکے۔ یہ اس دین کی حقانیت کا ثبوت ہے۔
دوسری جانب ہم نے اپنے نصاب کی جو درگت بنائی ہے وہ اب کھل کر سامنے آگئی ہے۔ ہم تحریک پاکستان کی توانائی کو اپنی آنے والی نسلوں تک منتقل نہیں کر سکے۔ بھارت نے پاکستان دشمنی ہر طالب علم کے بستے تک پہنچا دی ہے۔ ڈاکٹر فاروقی نے اپنی کلاس روم کے ایک استاد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قائد اعظم (جسے وہ جناح میاں کہتے ہیں) جب مشرقی پاکستان جائیں گے تو ان کا جہاز بھارت کے وسیع علاقے میں گم ہو جائے گا اور وہ اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ جب کلاس روم میں یہ پڑھایا جائے تو اس نسل سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کیونکہ قومیں نصاب سے بنتی ہیں۔ اب یہ مسئلہ بیس کروڑ مسلمانوں کا ہے جنہیں کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کی سیاست میں مسلمانوں کے لیے کسی خیر کی گنجائش نہیں۔ اب بھارتی مسلمانوں کے مسائل کا پائیدار حل ایک اور پاکستان ہے۔ یہ نعرہ مسلمانوں کو ایک احساس سمت مہیا کرے گا اور ان کی قوت کو ایک نقطہ ماسکہ فراہم کرے گا۔ ظاہر ہے بھارتی قیادتوں کا ردعمل سفاکانہ ہوگا لیکن قومی اور دینی شناخت کو بچانے کے لیے ایک نسل تو وقف کرنی ہوگی۔ ’’فاش میگویم جہاں برہم زنم‘‘ اگر یہ نعرہ لگ گیا تو کلمہ طیبہ اس کو توانائی بخشے گا۔ پاکستان کی تخلیق میں بھی ایسا ہی ہوا۔
کانگریس نے تین مراحل میں بابری مسجد کو اجاڑا۔ ۱۹۴۸ء میں مسجد میں بت سجائے گئے، اس کے بعد وہاں بتوں کی پرستش بھی شروع کی گئی اور اس کے بعد حملہ کر کے مسجد کو تباہ کر دیا گیا۔ اس وقت کے ایس پی (ضلعی پولیس چیف) آج کل پٹنہ کے ڈی جی پولیس ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑے ربط اور تسلسل کے ساتھ یہ معلومات فراہم کی ہیں۔ مضمون زیر نظر میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے لیے بطور مسلمان کوئی جگہ نہیں ہے۔ بھارت میں آکر رہنا ہے تو پھر گھر لوٹنا ہے یعنی ہندو بن کر رہنا ہے یا ہندونما مسلمان بن کر۔ صاحب دانش حضرات بھارتی جمہوریت کا ذکر بڑے فاخرانہ انداز میں کرتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ بھارت پر کن لوگوں کی حکومت رہی ہے۔ شرع میں نہرو ۱۷ سال تک وزیر اعظم رہے، وہ کشمیری پنڈت (سپرد) تھے جو سب سے اعلیٰ درجہ کے برہمن سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے بعد مسلسل برہمنوں کی حکومتیں رہیں اور ہیں۔ ہندو مت برہمن کو حکومت کا حقدار سمجھا جاتا ہے۔ جے پی نرائن نے پہلی مرتبہ برہمن رول کو مؤثر طریقہ سے چیلنج کیا تو ہنگامی حالت (Emergency) کے تحت بنیادی حقوق کو معطل کیا گیا۔ اسی طرح وی پی سنگھ کا حشر بھی عبرتناک تھا۔ ان حقائق کو ذرا گہری نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت ایک مذہبی حکومت (Theocracy) ہے جس نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے مذہب کو قبول کیا ہے ریاستی سطح پر (Theocracy) کو نہیں۔ تھامس ٹان بی نے اسلامی تاریخ کے اہم واقعات کی درجہ بندی (Ranking) کی ہے۔ سب سے پہلے ریاست مدینہ کا قیام اور اس کے بعد اس نے قیام پاکستان کو رکھا ہے۔ کیونکہ پاکستان عقیدتاً ایک Generic تصور ہے کسیBrand کا نام نہیں۔ جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی وہاں ایک پاکستان بنے گا۔ اس کا نام مختلف ہو سکتا ہے لیکن وجہ وجود وہی ہوگی جو پاکستان کی تھی۔ اس کی مثال آج کا بوسنیا ہے، اس کا جغرافیہ بے ہنگم سہی لیکن مسلمان وہاں مذہبی طور پر آزاد ہیں، مسجدیں ہیں، مدارس ہیں، موانع پر کسی حد تک کنٹرول ہے اور نئی نسل کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔ بھارت میں بات یہاں تک آ پہنچی ہے کہ وہاں کے وزراء کہتے پھرتے ہیں کہ یا رام زادے بنو یا حرام زادے۔ جس کا سلیس لفظوں میں طلب یہ ہے کہ غیر ہندو بالخصوص مسلمانوں کے لیے بھارت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
بنگلہ دیش کی تخلیق کے بعد پاکستان دشمنوں نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبونے کی کوشش کی اور کچھ لوگوں نے پاکستان کے اندر بھی اسی منطق کو دہرایا اور دہرا رہے ہیں۔ لیکن وہ واضح اور غیر مبہم حقیقت کو نفاقاً نظر انداز کر جاتے ہیں کہ پاکستان سے علیحدہ ہونے کے بعد بنگالیوں نے انڈین یونین میں شمولیت اختیار نہیں کی حالانکہ بنگال اور مشرقی بنگال میں بہت کچھ مشترک ہے۔ زبان ایک ہے، لباس اور خوراک بھی ایک جیسی ہے، ثقافتی اور روایتی اقدار بھی کسی حد تک مشترک ہیں۔ لیکن انہوں نے مغربی بنگال کے ساتھ اتحاد نہیں کیا اور ایک علیحدہ ملک بنایا۔ جس کا جواز صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور ان کی شناخت ہندوانہ نہیں ہے۔ ہماری دشمنی اپنی جگہ، اس کے سیاسی و معاشی وجوہ تھے، نظریاتی نہیں۔ اگر بنگالی انڈین یونین میں شامل ہو جاتے تو دو قومی نظریے کو کچھ نقصان ضرور پہنچتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ڈاکٹر فاروقی نے اس طویل نوحہ کے بعد ایک معرکہ کا سوال پوچھا ہے۔ اور وہ یہ کہ کوئی یہ بتائے کہ آج کا عام بھارتی مسلمان پاکستان کو کیوں محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسے پاکستان کو جانے والے رستے کیوں پرکشش نظر آتے ہیں؟ حالانکہ ان لوگوں کو پاکستان کے صدر اور وزیراعظم کے نام تک نہیں آتے۔ وہ بات ادھوری چھوڑ گئے ہیں۔ اس لاعلمی کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کے عام مسلمان ہمارے لیڈروں سے نہیں بلکہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں کہ ایسے میں تو پاکستانی عوام اور بھارتی مسلمانوں کے انداز فکر میں کچھ مماثلت سی نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب بین السطور بہت کچھ کہہ گئے ہیں جو مقام فکر ہے۔ آخر میں وہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کے لیے کانگریس ہی ایک آپشن ہے، اس کے نفاق کے باوجود وہ مسلمانوں کو ساتھ رکھنے کے لیے زبانی جمع خرچ تو کرتے ہیں جسے ڈاکٹر صاحب نے Lip Service کا نام دیا ہے۔ بات یہاں نہیں رکتی، کانگریس ہو یا کوئی اور ، مسلمانوں کا مستقبل غیر یقینی رہے گا۔ کے ایل گابا نے اپنی کتاب Passive Voices (مجہول آوازیں) میں بہت پہلے مسلمانوں کی حالت زار بمعہ اعداد و شمار بیان کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کانگریس کو پھر اپنانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن بھارتی مسلمانوں کے مسائل اور تحفظِ شناخت کے لیے ایک اور پاکستان کی ضرورت ہے، اس میں جو مشکلات او رخطرات پیش آئیں گے اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن قربانیوں کے بغیر اپنے دینی شناخت کا تحفظ ممکن نہیں، ورنہ گائے کو ذبح کرنا ایک سنگین جرم ہوگا اور مسلمان کو ذبح کرنا ایک قابل قبول ردعمل بات ہوگی جن کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے۔ ایک اور پاکستان، یہ نعرہ اب لگ جانا چاہیے۔