(میاں انعام الرحمن کے مجموعہ مقالات پر ایک نظر)
اسلامی ادبیات کے سدا بہار موضوعات میں سے ایک سیرت نگاری ہے۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت نگاروں کی فہرست میں جگہ پانا ایک عظیم سعادت ہے۔ سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچا تو آپ کی ولادت باسعادت سے بھی پہلے کا ہے۔ تاہم علومِ اسلامیہ میں بطور فن ،سیرت نگاری کامنظم آغاز پہلی صدی ہجری میں ہوا۔ تاریخِ علوم میں کسی انسان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اس کثرت کے ساتھ نہیں لکھا گیا جتنا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر لکھا گیا ہے ،لیکن اس کے باوجود عجائباتِ سیرت لا متناہی ہیں ،سیرت کے کتنے ہی گوشے ہنوز پردۂ مستور میں ہیں اور محققین کے لئے چیلنج ہیں ۔
قدیم ادبِ سیرت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصولِ روایت اور اصولِ درایت کو پوری طرح بروئے کار نہ لانے کی وجہ سے کتب سیرت میں کمزور اور موضوع روایات داخل کردی گئیں ،جن کی کوئی معقول توجیہ ممکن نہیں ۔یہی روایات مستشرقین کی مرغوب غذا ہیں جن کو بنیاد بنا کر سیرت پر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوا ہے ۔ سترھویں صدی کے آغاز سے موجودہ دور تک سیرت پر مستشرقین کی جو کتابیں منصہ شہود پر آئیں، ان میں سے بیشتر کتب میں انہی کمزور روایات کو تحقیقات کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ مشہور مستشرق سر ولیم میور(م ۱۹۰۵ء) (Sir William Muir) کی کتاب The Life of Muhammad بڑی تہلکہ خیز ثابت ہوئی۔ اس کتاب میں علمی انداز میں رسول اللہ ؐ کی ذات کو ہدفِ تنقید بنایا گیا اس کتاب کی پذیرائی نے مسلمان اہلِ علم کو شدید اضطراب میں مبتلا کردیا ۔ سر سید احمد خانؒ (م ۱۸۹۸ء ) ، اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت فرمائے، وہ اوّلین شخص تھے جنھوں نے۱۸۷۰ء میں ’’ خطباتِ احمدیہ‘‘ میں مستشرق مذکور کے اعتراضات کاعلمی اسلوب میں جواب دیا ۔ سر سید کے اسلوبِ نگارش اور طرزِ استدلال سے برصغیر میں سیرت نگاری کے ایک نئے رجحان نے جنم لیا ۔روایات سیرت کو تنقیدی نظر سے دیکھا جانے لگا ۔
علامہ شبلی نعمانی ؒ (م ۱۹۱۴ء ) نے سر سید کی روایت کو ایک منظم تحریک میں بدل دیا۔ علامہ موصوف نے سیرت نگاری میں غیر مستند موادکو الگ کرنے کے لئے اپنی قابلِ قدر تصنیف ’’ سیرۃ النبی‘‘ کے مقدمے میں سیرت نگاری کے گیارہ اصول بیان کئے۔علامہ شبلی نے سیرت نگاری کے جو اصول بیان کئے ہیں، ان کا تنقیدی جائزہ لیا سکتاہے، ان سے اتفاق یا اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہے، تاہم ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ علامہ شبلی نے سیرت نگاری کے جن اصولوں کو متعارف کروایا، اس نے مابعد ادبِ سیرت پر اتنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں کہ تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی سیرت نگار، علامہ شبلی کے اسلوب نگارش اور اصولِ سیرت نگاری کے حصار سے باہر نہیں نکل سکے۔علامہ شبلی نے سیرت نگاری کے جو اصول متعین کئے ہیں، ان اصولوں پر محدثین کے اصولوں کی گہری چھاپ ہے۔روایاتِ سیرت کو محدثین کی کڑی شرائط پر پر کھنا کس حد تک درست ہے، یہ بہر حال ایک الگ بحث ہے ،تاہم ان اصولوں کے عملی اطلاق کے بعد سیرت پر موجود مواد کے ایک معقول حصے سے محرومی لازم تھی ،لیکن اس سے ایک فائدہ ضرور ہوا کہ اہلِ علم نے روایاتِ سیرت کی جانچ پرکھ میں مزیداحتیاط کی روش اختیار کی۔
علامہ شبلی کے بعد، راقم الحروف کے علم کی حد تک، اصولِ سیرت نگاری پر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی کی کتاب ’’اصولِ سیرت نگاری‘‘ کے علاوہ اردو ادبِ سیرت میں کوئی دوسری مثال نظر نہیں آتی لیکن اس کتاب کی علمی قدروقیمت کا اعتراف کرنے کے باوجود یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس کتاب میں بھی اصولِ سیرت نگاری کے نام پر فاضل مصنف نے زیادہ گفتگو سیرت کے مصادر و مراجع پر ہی کی ہے ۔ فاضل مصنف نے سیرت نگاری کے جو پچیس اصول ذکرکئے ہیں، وہ اصول کم ،سیرت کے مصادر و مراجع زیادہ ہیں ۔
پروفیسر میاں انعام الرحمن ان خوش بخت لوگوں میں سے ہیں جن کو سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس موضوع پر قلم اٹھانے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔فاضل مصنف کی زیر نظر کتاب’’سفر جمال :نبی مکرم ؐ کی جمالیاتی مزاحمت کی پر عزم داستان ‘‘ اردو ادبِ سیرت میں ایک خوبصورت اور نادر اضافہ ہے۔یہ کتاب، تالیف نہیں ’’تصنیف ‘‘ ہے جس میں فاضل مصنف نے سیرت نگاری کے لگے بندھے انداز سے ہٹ کر ایک منفرد اسلوب اختیار کیا ہے۔ ہماری محتاط رائے میں اردو ادبِ سیرت میں زیر نظر کتا ب ایک نئے اورمنفردرجحان کی نمائندہ کتاب ثابت ہو گی ۔ فاضل مصنف نے قرآن مجید پر گہرے تدبر کے بعد سیرت نگاری کے اصول اخذ کئے ہیں۔ اس مختصر کتاب کا مقدمہ خاصے کی چیز ہے۔ مقدمہ بائیس (۲۲) صفحات پر مشتمل ہے جس میں فاضل مصنف نے سیرت نگاری کے ان اصولوں کی نشان دہی کی جن کو پیشِ نظر رکھنے سے سیرت نبوی کے آفاقی پہلو کی تفہیم ممکن ہے۔ کتاب کا مقدمہ مصنف کی اجتہادی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ کتاب کے قارئین سے درخواست ہے کہ وہ کتاب کا مقدمہ پوری توجہ سے ملاحظہ فرمائیں۔ کتاب کا امتیاز یہ ہے کہ مصنف نے سیرت نگاری کے جن اصولوں کی نشاندہی کی ہے، زیر نظر کتاب میں ان اصولوں کا اطلاق کرکے سیرت کے ایسے گوشوں کو منکشف کیا ہے جس کی طرف سیرت نگاروں نے کم ہی توجہ دی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ سیرت نگاری کے اس اسلوب سے ہمارے روایتی مذہبی حلقے میں برپا نوروبشر اور حاضر وناظر جیسی لا ینحل بحثوں کی گتھی بھی سلجھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ فاضل مصنف نے سیرت نگاری کے جن اصولوں کا تعین کیا ہے، ان میں سے چند ایک کا مختصر تعارف ہم ذیل کی سطور میں پیش کر یں گے ۔
پہلا اصول
قرآن مجید کی موجودہ ترتیب نزولی نہیں بلکہ توقیفی ہے اوریہ ترتیب اللہ تعالیٰ کے منشا اور حکم کے مطابق ہے ۔ فاضل مصنف نے حضرت عائشہؓ کے قول: ’’کان خلقہ القرآن‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے سیرت نگاری کا بڑا اہم اصول اخذ کیا ہے ۔پروفیسر میاں انعام الرحمن لکھتے ہیں :
’’جب قرآن مجید کی نزولی ترتیب کو اٹھالیا گیا، اسے باقی نہیں رکھا گیا اور اسی وجہ سے قرآن مجید اپنے نزول کے مخصوص دور سے ماورا ہو کر آفاقی اور قیامت تک کے لیے ہدایت کا آخری سرچشمہ قرار پایا تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو زمانی ترتیب سے منسوب کر کے ایک مخصوص دور کے لیے محدود کیوں کیا جائے؟‘‘ (ص: ۳۲)
ہماری رائے میں اگر اس اصول کو پیش نظر رکھا جائے تو سوانح نگاری اور سیرت نگاری میں جو فرق ہے ، وہ بالکل نمایاں ہوجائے گا۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کے خدا کا تعارف’’رب العالمین‘‘کی صفت سے کروایا ہے اور اپنا تعارف ’’ذکر للعالمین‘‘سے کروایا ہے۔ اور اگر سیرت نگاری میں اس اصول کو پیش نظر رکھا جائے تو سیرت نبویہ کس اس آفاقی پہلو کا جسے قرآن مجید نے’’ رحمۃ للعالمین‘‘کہا ہے، صحیح معنوں میں ظہور ہو گا۔ سیرت نگاری میں اس اصول کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت کیوں ہے ؟ میاں صاحب لکھتے ہیں :
’’چوں کہ محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نبی آخر الزمان ہیں، نبی خاتم ہیں، اس لیے آپ کی سیرت طیبہ کا بیان محض مسلمانوں کا داخلی معاملہ نہیں کہ آپ تو نوع انسانی کے ہر فرد بشر کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اس لیے سیرت نگاری صرف مسلم مخاطبین کو پیش نظر رکھ کر نہیں کرنی چاہیے۔ یہ صرف اور صرف مسلم مخاطبین کو پیش نظر رکھ کر کی گئی سیرت نگاری ہے جو نہ صرف زندگی کی واقعیت سے دور جاپڑتی ہے بلکہ مطالعہ سیرت کے غیر مسلم قاری کوشش و پنج میں مبتلا کردیتی ہے۔ اسی اپروچ کا نتیجہ ہے کہ مطالعہ سیرت کا روایتی بیانیہ، آپ کے رحمۃ للعالمین او رخاتم النبیین ہونے سے لگا نہیں کھاتا۔‘‘ (ص: ۳۸)
روایتی مذہبی حلقے میں سیرتِ طیبہ کی تفہیم کے محدود اور سطحی تصور پر گرفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بعض لوگ سیرت نگاری کے باب میں غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں جب وہ (نزولی ترتیب سے مربوط ارتقائی مراحل کی بناپر) کہتے ہیں کہ ہم ابھی مکی دور سے گزر رہے ہیں۔ انہیں جاننا چاہیے کہ اگر قرآن مجید کی حتمی ترتیب اپنے موضوعاتی بکھراؤ کے جلو میں، ایک ہی موضوع کے متعلق مختلف احکامات کو ارتقا کے (پرانے مراحل کے) بجائے نظامِ تناسبا ت کے اثبات کے ساتھ نئے زمانی احوال، سماجی مقتضیات اور تقافتی متغیرات کے حوالے سے دیکھتی ہے تو پھر صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کیوں کر (پرانے ارتقائی مراحل کی ) پابند رہ سکتی ہے؟ سیرتِ مطہرہ کے باب میں ، قرآن مجید کی حتمی ترتیب سے وابستہ حکمت اور قرآنی نظامِ تناسبات کا لحاظ نہ رکھنے کا نتیجہ ہے کہ علمی و عملی میدان میں ’غلو‘ کی نت نئی عجیب و غریب صورتیں ظہور پارہی ہیں۔‘‘ (ص: ۴۹، ۵۰)
ابتدائی صدیوں کی سیرت نگاری میں یہ گوشہ دب جانے کی وجہ سے ہی یہ تاثر پیدا ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صرف عربوں کے نبی ہیں۔ غالباً اسی پس منظر میں ایران میں نقطوی تحریک کا ظہور ہوا جن کا نظریہ یہ تھا کہ اسلام صرف ایک ہزارسال کے لیے ہی تھا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت آفاقی نہیں بلکہ صرف عربوں کے لیے تھی۔ اس تحریک نے برصغیر کو بھی متاثر کیا اور مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے اسی تحریک کے زیرِ اثر ’’دینِ الٰہی‘‘ کی بنیاد رکھی۔
دوسرا اصول
:سیرت نگاری کا دوسرا اصول جس کی طرف فاضل مصنف نے توجہ دلائی، وہ قرآن مجید میں سابقہ انبیاء کی سیرت کا تدبر سے مطالعہ کرتے ہوئے نمایاں ہوتا ہے ۔ قرآن مجید نے انبیاء کی سیرت نگاری میں نبوت و رسالت کے مرکز ی پیغام کو کسی بھی جگہ پر متاثر نہیں ہونے دیا ۔ قرآن مجید نے بعض انبیاء کا ایک سے زائد مقامات پر تذکرہ کیا ہے، لیکن تمام مقامات پر نبی کے پیغام کی مرکزیت پوری طرح نمایاں رہی ہے۔ انبیاء کرام ؑ کی بعثت کا بنیادی مقصد معاشرے کی اخلاقی تطہیر ہے، اس لیے انبیاء کرام کی سیرت نگاری میں دعوتی اور تذکیری پہلو بہت نمایاں ہے۔ فاضل مصنف نے اس سے یہ اصول مستنبط کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بھی اسی انداز سے بیان کیا جانا چاہیے کہ آپ کی زندگی کا دعوتی اور تذکیری پہلو نمایاں ہواور کسی بھی جگہ پیغامِ محمدی کی روح متاثر نہ ہونے پائے۔ میاں انعام الرحمن رقمطراز ہیں :
’’ قصص الانبیاء کے بیان میں خدا نے جو اسلوب اور منہج اختیا رکیا، سیرت نگاری میں اس سے بھرپور استدلال کرنا چاہیے کہ سیرت طیبہ کا بیان ایک اعتبار سے قصے کا بیان بھی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ اس کا رائٹر انسان ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ (قرآن میں مذکور) ہر نبی کا قصہ ایک اعتبار سے اس کی سیرت کا بیان ہے اور کسی کی بھی سیرت کو مکمل اور زمانی ترتیب سے پیش نہیں کیا گیا بلکہ ہر ایک کی سیرت میں سے ایسا ’انتخاب‘ کیا گیا ہے جو ابدی ہونے کے باعث تاقیامت انسانوں کی راہنمائی کرسکتا ہے ۔ایک لحاظ سے یہ انتخاب ’رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت پر سابقہ انبیا کی تاریخی مہر‘ثبت کرنے کی علامت بھی ہے۔‘‘ (ص: ۳۳)
ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ ہمارے ہاں سیرت نگاری میں فضائل و کمالات کا تذکرہ اس اسلوب میں کیا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور شان نمایاں ہو اور بس، لیکن اس قسم کی سیرت نگاری میں قارئین کے لیے کوئی عملی پیغام عام طور پر موجود نہیں ہوتا۔یہی حال ان کتابوں کابھی ہے جومحض معلوماتِ سیرت (Database) پرمبنی ہیں، اگرچہ اس نوعیت کی سیرت نگاری کی جزوی افادیت کا انکار ممکن نہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں چونکہ رسالتِ محمدیؐ کا مرکزی پیغام پیشِ نظر نہیں ہوتا لہٰذا سیرت کا آفاقی پہلو پردۂ اخفا ء ہی میں رہتا ہے ۔
تیسرا اصول
عربوں کو اپنی زبان دانی پر بڑا فخر تھا ۔ عرب شعراء نے فنِ شاعری اور خطباء نے مقفع و مسجع گفتگو اور نثرنگاری کو نکتہ کمال تک پہنچا دیا تھا اور اپنے مقابلے میں پوری دنیا کو عجمی سمجھتے تھے۔ قرآن مجید عرب شعراء اور خطباء دونوں کے لیے چیلنج کے طورپر نازل ہوا۔ فصحائے عرب کو اعتراف کرنا پڑا کہ قرآن نہ تو شاعری ہے اور نہ ہی محض مقفع ومسجع نثر نگاری، بلکہ قرآن صرف قرآن ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک جداگانہ صنف ہے۔ قرآن مجید میں اصل غلبہ اس کے پیغام کو حاصل ہے ۔ قرآن مجید نے عربوں کو اس بحث میں پڑنے ہی نہیں دیا کہ وہ قرآن مجید کو فن شاعری اور نثر کے اصولوں پر ہی پرکھنے کے چکر میں پڑے رہیں۔ قرآن نے اپنے اسلوب کو عربوں کے لیے چیلنج تو ضرور قرار دیا لیکن اپنی دعوت پر اس نئے اور منفرد اسلوب کو غالب نہیں آنے دیا۔ میاں انعام الرحمن چونکہ سیرت رسولِ عربی ؐ کو قرآن مجید کا پر توسمجھتے ہیں، اس لیے وہ اس نوعیت کی سیرت نگاری کے شدید ناقد ہیں جس میں’’ فن‘‘ سیرت نگاری پر غالب ہو،چنانچہ لکھتے ہیں :
’’سیرت نگاری کو ’’فن‘‘ کے اظہار کا ذریعہ ہرگز نہیں بنانا چاہیے، مثلاً بغیرنقطوں کے سیرت کی کتاب۔ سیرت نگاری کے باب میں فن کو مخدوم نہیں ، خادم ہونا چاہیے۔ ورنہ فن کے مخدوم ہونے کی صورت میں سیرت کے پیغام کی روح اور اس سے چھلکتی تاثیر، ہم سے غیر محسوس انداز میں چھنتی چلی جائے گی۔‘‘ (ص: ۳۱)
تاریخ گواہ کہ مسلمانوں کے دورِ زوال میں اس طرح کے لطائف ہماری علمی تاریخ کا حصہ رہے ہیں کہ ایک شخص کسی موضوع پر ایک ضخیم کتاب لکھتا ،پھر خود ہی’’ اختصار نویسی‘‘ کے فن کے اظہار کے لیے اس کا اختصار لکھتا اور پھر خود ہی اس کی شرح لکھنے بیٹھ جاتا۔ اس قسم کی’’قلمی عیاشیاں‘‘ اس وقت کی جاتی ہیں جب آپ کے پاس کہنے کو کچھ باقی نہ بچے۔ ہماری نظر میں میاں صاحب کی یہ رائے کہ سیرت نگاری کو اپنے فن کے اظہار کا ذریعہ بنانا، فن کی خدمت ہے ، سیرت کی ہرگز نہیں ،قابلِ توجہ ہے ، کیونکہ اگر غلبہ فن کو حاصل ہو گا تو خدشہ ہے کہ فن کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے سیرت سے وابستہ بعض حقائق تشنہ رہ جائیں گے اور پھر اس نوعیت کی سیرت نگاری پر اہم سوال یہ ہے کہ کیا سیرت کا متحرک پہلو ختم ہو گیا ہے ؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیرت کے عجائبات کبھی ختم ہونے والے نہیں ہیں۔
چوتھا اصول
سیرت نگاری کے جدید رجحانات میں جزئیات نگاری ایک جدید اور قابل قدر رجحان ہے ۔ اس وقت محققین کا ایک بڑا طبقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے انفرادی پہلوؤں کو اپنی تحقیق کا موضوع بنائے ہوئے ہیں ، مثلاً: طبِ نبویؐ،رسول اللہ ؐکی جنگی حکمت عملی، رسولِ اکرمؐ بطور معلم، رسول اللہ ؐ بطور ماہر نفسیات، نبی اکرم ؐ بطور تاجر، وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جن پر کثرت کے ساتھ لکھا جارہا ہے۔ سیرتِ نبوی ؐکے بیان میں جزئیات نگاری کا اسلوب قابلِ تعریف ہے ،لیکن اس نوعیت کی سیرت نگاری میں رسالتِ محمدی ؐ کا مجموعی تاثرنظر انداز ہو رہا ہے ۔میاں انعام الرحمن جدیدسیرت نگاری میں اس خلا کی نشاندہی کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
’’سیرت کی کسی ایک جہت پر قلم اٹھانے والے سیرت نگار کو اسوۂ حسنہ کی ’’کلیت‘‘ دھیان میں رکھنی چاہیے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ اس طبی ماہر جیسا ہوگا جو پورے جسم کا لحاظ رکھے بغیر صرف متعلقہ عضو کی دیکھ بھال کرنے کی کوشش کرے ۔اس کے نتیجے میں دیگر اعضا تو متاثر ہوتے ہی ہیں ، متعلقہ عضو بھی آخر کار مزیدبگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔ سیرت کے باب میں خوامخواہ کے اعتراضات اٹھانے والے مستشرقین و مستغربین و دیگر افراد اسی نوع کے ’ماہر‘ ہیں کہ اسوۂ حسنہ کی کلیت ان کی نظروں میں سما نہیں پاتی۔‘‘ (ص: ۳۴، ۳۵)
جزئیات نگاری کے ’’نقصانات ‘‘ کی ایک مثال قرآن مجید کی سائنسی تفسیر کا رجحان ہے۔ معروف مستشرق ڈاکٹر موریس بوکائے نے قرآن مجید اور بائبل کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد جب اپنی معروف کتاب"The Bible, The Quran and The Science"مرتب کی تو چونکہ موصوف علوم القرآن پر گہری نظر نہ رکھتے تھے اور محض ایک سائنسدان اور ڈاکٹر ہی تھے، اس لیے اپنی تحقیق میں قرآن مجید کے موضوع اور اس کے نزول کے حقیقی مقصد کو پیش نظر نہ رکھ سکے۔ فاضل مستشرق نے تمام سائنسی حقائق کو قرآن مجید سے ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ ان کی اس تحقیق کے نتیجہ میں تفسیری ادب میں بوکائے ازم کی صورت میں قرآن مجید کی سائنسی تعبیر و تشریح کے ایک نئے رجحان نے جنم لیا۔ یہ کوشش کتنی ہی اخلاص پر مبنی کیوں نہ ہو ، بہرحال نزولِ قرآن کا یہ مقصد ہرگز نہ تھا کہ اس سے سائنسی حقائق کو ثابت کیا جائے یا سائنسی حقائق کی سچائی کو قرآن مجید کی روشنی میں پرکھا جائے۔ قرآن مجید کا موضوع انسان ہے اور اس کا مقصدِ نزول انسان کی ہدایت ہے۔لہٰذا قرآن مجید کا مطالعہ اسی تناظر میں کرنا چاہیے، ورنہ لوگ قرآن مجید کو فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کی کتاب بنا کر رکھ دیں گے اور قرآن مجید کا اصل پیغام دب جائے گا۔
میاں صاحب نے سیرتِ محمدی میں جس ’’کلیت ‘‘ کو سیرت نگاری کا اصول قرار دیا ہے ، جزئیات نگاری میں اس کا لحاظ لازم ہے تاکہ کس بھی مرحلہ پر سیرت کا مرکزی پیغام متاثر نہ ہو۔ مثلاً بطور جرنیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی حکمت عملی پر لکھتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی اخلاقیات پر مبنی تعلیمات کو نمایاں کر نا اصل سیرت نگاری ہوگی نہ کہ جنگ کے مختلف طریقے۔ اسی طرح بطور تاجر آپ کی زندگی پر لکھتے ہوئے کاروباری اخلاقیات (Business Ethics) کے پہلو کو اجاگر کرنا اصل سیرت نگاری ہوگی نہ کہ محض کاروباری زندگی کی تاریخ،لہٰذا جزئیات نگاری میں دروس و عبر اور دعوتی پہلو کو نمایاں کیا جانا چاہیے۔
پانچواں اصول
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ یہ دور مغربی فکروفلسفہ کے غلبہ کا دور ہے، اسلام پر اہلِ مغرب کے اعتراضات کے پس منظر میں ہمارے اہلِ علم نے جب سیرت پر قلم اٹھایا تو سیرتِ طیبہ پر مغرب کے سوالا ت ان کے پیشِ نظر تھے ۔مغرب نے طویل علمی وفکری ارتقاء اور مسلسل تجربات کے بعد جس تہذیب کو جنم دیا ،اس کے فوائدو ثمرات بھی ان لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کر رہے تھے ،چنانچہ اس دور میں لکھی گئی کتبِ سیرت زیادہ تر تحفظات پر مبنی ہے۔ ان کتبِ سیرت میں مغرب کے اعتراضات کا رد بھی ہے اور اس کے ساتھ واقعاتِ سیرت کی ایسی تعبیرات بھی ہیں جن کا مقصد سیرت کا دفاع بھی ہے ۔اخلاص پر مبنی ان اہلِ علم کی بعض تعبیرات سے فاضل مصنف مطمئن نظر نہیں آتے، مثلاً ہمارے اہلِ علم نے بعض مستشرقین کے اعتراضات ، ’’انٹر نیشنل ہیومینٹیرن لاء‘‘ اور’’ بنیادی انسانی حقوق کا عالمی منشور ‘‘ سے ا ثر پذیر ہوتے ہوئے رسول اللہ ؐ کی جہادی زندگی کی ایسی تعبیرات کی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ کی جنگی مہمات دفاع پر مبنی تھیں۔ ان کی نظرمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمۃ للعالمین ہونا اس تعبیر کی بنیاد ہے ۔میاں صاحب نہ صرف اس تعبیر کو سرے سے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ وہ سیرتِ طیبہ کے کسی پہلو کی تعبیر میں اس قسم کی معذرت خواہی کے قائل نہیں ہی ہیں ،موصوف لکھتے ہیں :
’’اخلاق عالیہ، رحم دلی اور انسان دوستی وغیرہ کے نام پر سیرت نگاری میں معذرت خواہانہ اسلوب ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ زندگی کا جمالی پہلو ہی زندگی نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جلال و جمال ایک وحدت میں ڈھلتے ہیں یا کسی وحدت کے دو اجزاء بنتے ہیں تو زندگی کی ایک توانا اور نظر نواز صورت جنم لیتی ہے ۔ پوری انسانی تاریخ میں ایک بھی قوم ایسی نہیں گزری جس نے کبھی جنگ نہ کی ہو۔ یہ اس دنیاوی زندگی کی واقعیت ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔ اس لیے اخلاق اور رحم بھی تلوار اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ۔۔۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف بشیر ہوتے، نذیر نہ ہوتے تو کیا پھر بھی خلقِ عظیم سے متصف ہوتے ؟ محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام میں للکار نہ ہوتی تو آپ ؐ کا اسوہ،کیاپھر بھی اسوہ حسنہ قرار پاتا ؟ خدا کی قسم ! اگر محمد رسول اللہ ؐ بدر واحد کے میدان میں تلوار اٹھائے نہ نکلتے تو اللہ رب العزت آپ ؐ کو رحمۃ للعالمین قرار نہ دیتے۔‘‘ (ص: ۴۲)
یہی رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ جنگ کی ناگزیریت کو تسلیم کرتے ہوئے رسول اللہ ؐ کی جہادی زندگی میں جنگی اخلاقیات کے پہلو کو اجاگر کیا جائے۔ سیرت کے قارئین پر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آپؐ نے دنیا کوجنگ برائے امن کا تصور دیا۔آپ نے ؐ ’’ جنگ نہیں، جنگ کی تیاری ‘‘کا حکم دیا ہے تاکہ ظالم کا ہاتھ روکا جا سکے ۔یہ تعبیر تبھی ممکن ہے جب سیرت کے اس باب کو اس تناظر میں پڑھا جائے جس کی طرف فاضل مصنف نے اشارہ کیا ہے ۔
چھٹا اصول
تزکیہ نفس مذہب کا بنیادی ہدف ہے ، انسان کی شخصیت روح اور بدن کی تالیف اور امتزاج سے عبارت ہے۔ ایساکوئی مذہب اورنظریہ کامیاب نہیں ہو سکتا جو روح اور بدن میں سے ایک کو ابھارے اور دوسرے کو کچل دے۔ عیسائیت ، ہندو مت ، بدھ مت، اور دیگر مذاہب کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ انہوں نے ترک دنیا اور رہبانیت کے تیشے سے انسانی جسم کو صرف اس لیے گھائل کر دیا ہے تاکہ انسانی روح کو بیدار کیا جا سکے۔ لیکن اس غیر طبعی تعلیم اور جان سوزی کے نتیجے میں روح کی شمع بھی گل ہو کر رہ گئی۔ اہل کلیسا نے خانقاہوں میں بسیرا کر لیا، ہندؤوں او ر بدھوں نے جنگلوں کا رخ کر لیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ایک مقصد تزکیہ نفس بھی تھالیکن آپ ؐ نے نہ صرف رہبانیت کی مذمت کی بلکہ روحانی ترقی کے لئے بھر پور سماجی زندگی کو لازم قرار دیا۔ نکاح جیسے ’’دنیوی عمل ‘‘ کو ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری قرار دیا۔ اعلانِ نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھر پور خاندانی اور معاشرتی زندگی گزاری۔ اسلام نے تجرد اوررہبانیت کو رمضان کے دس روزہ اعتکاف اور حج تک محدود کریا ، اعلانِ نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بعض مواقع پر غارِ حرا ضرورگئے ہیں لیکن اعلانِ نبوت کے بعد حضور پھر کبھی غار حرا نہیں گئے۔ سماجی زندگی کے کڑے معیار پر پورا اترنا ہی سیرت طیبہ کا آفاقی پہلو تھا جس کو اس امت نے گم کردیا ہے۔میاں انعام الرحمن سیرت محمدیؐ کے اس تابناک پہلو کی عصری معنویت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’پوری انسانی تاریخ میں انسان اور سماج کے ہمیشہ دو بڑے مسائل رہے ہیں؛ازدواجی رشتہ اور معاشی رشتہ ۔ کتنی لطیف بات ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی اور سماجی دونوں اعتبارات سے دونوں رشتے مثالی انداز میں نبھائے ہیں۔ سیرت نگاری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے اسی نوع کے پہلو (بات کو غلط انداز میں نہ لیا جائے ) سیکولر منہج بیان کرنے چاہییں تاکہ کثیر مذہبی دنیا کے عام بشر کو راہنمائی مل سکے کہ وہ کیسے اور کیوں کر ازدواجی و معاشی رشتوں سے انصاف کرسکتا ہے۔‘‘ (ص: ۳۰)
صحابہ کرامؓ کے ذہنی رویوں کی تشکیل میں نبوی تعلیمات کابہت گہرااثر تھااس لئے وہ بجا طور پر سمجھتے تھے کہ سماجی زندگی ہی روحانی ترقی کی بنیاد ہے ،چنانچہ منقول ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک شخص کے حال کی تحقیق کے لئے گواہ طلب کئے تو ایک آدمی نے گواہی دی کہ موصوف ایک شریف آدمی ہیں ۔حضرت عمر فارقؓ نے اس سے سوال کیا: کیاآپ اس کے پڑوسی ہیں ؟ اس نے عرض کی کہ نہیں ۔پھر پوچھا: کیا آپ نے اس کے ساتھ کبھی لین دین کیا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ۔پھر فرمایا کہ کبھی اس کے ساتھ سفر کیا ہے ؟ اس نے عرض کی کہ نہیں ۔حضرت عمرؓ نے فرمایا : تم نے اسے رکوع ،سجدے ،ذکر اذکار اور تلاوت میں مشغول دیکھا ہوگا ؟ اس نے کہا : ہاں ۔اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: تم اسے نہیں جانتے اورپھر آپؓ نے اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:کسی ایسے شخص کو بلاؤ جو تمہیں جانتا ہو۔
امام محمد بن حسن الشیبانی فقہ حنفی کے مدونِ اول تھے۔ ان سے کسی نے سوال کیا کہ آپ نے زہد اور رقاق کے موضوع پر کوئی کتاب نہیں لکھی کہ لوگ اس کو پڑھتے اور ان کے دلوں میں تقویٰ پیدا ہوتا ۔آپ نے فرمایا کہ میں نے کتاب البیوع لکھ دی ہے۔یعنی جو شخص کتاب البیوع میں حلال و حرام کے احکام پر مسلسل عمل کرے گا، اس میں تدین ضرور پیدا ہوگا ۔دنیا دار العمل ہے اورعمل کا ’’معیاری اظہار ‘‘ حلال و حرام کی تمیز اور مثبت سر گرمیوں سے ہوتا ہے ۔
ساتواں اصول
فاضل مصنف کی رائے میں سیرت نگار کے لئے رسالتِ محمدی ؐ کی آفاقیت اور عصری معنویت کے پرت کب کھلیں گے، ملاحظہ فرمائیں:
’’سیرت نگار کو آثار و تاریخ اور روایات کے علاوہ ایسی قرآنی تفسیرات و تعبیرات سے بھی باہر جھانکنے کی جرأت کرنی چاہیے جو اسوۂ حسنہ کے باب میں واقعیت پر مبنی کسی سچائی کی راہ میں مزاحم ہوں۔ زمانے کی تحریک انگیز قوت ، تکوینی سطح پر علم و ہنر کے گلستان میں جو نت نئے پھول کھلاتی ہے سیرت نگار کو ان کی خوشبو سے محفوظ ہوتے رہنا چاہیے۔‘‘ (ص: ۳۹، ۴۰)
صدیوں کے علمی فکری اور تمدنی سفر میں مختلف معاشروں اور تہذیبوں نے عمرانی علوم میں کئی تجربات کئے ہیں۔ سوشل سائنسز کے عنوان سے سماجی زندگی کے مختلف گوشوں پر تحقیقات اب باقاعدہ درس گاہوں میں نصاب کا حصہ ہیں۔ سیرت نگار کے لئے لازم ہے کہ وہ جدید سماجی علوم وفنون سے واقفیت حاصل کرے تاکہ سیرت نگاری میں ’’سفرجمال‘‘ کی عزم داستان رقم کرنا اس کا نصیب بن سکے ۔
راقم الحروف کو اعتراف ہے کہ زیر نظر کتاب ’’سفر جمال :نبی مکرم ؐ کی جمالیاتی مزاحمت کی پر عزم داستان ‘‘پر جس طرح نظر ڈالنے کا حق تھا، وہ ادا نہیں ہو سکا، بلکہ درست بات تو یہ ہے کہ کتاب کے مقدمہ کا،جس میں سیرت نگاروں کے لئے ’’فکری غذا ‘‘ کا دریا موجزن ہے،مکمل تعارف بھی نہیں کروایا جا سکا، لیکن مجھے امید ہے کہ کتاب کا قاری جب کتاب میں غوطہ زن ہو گا تو اس کا دامن ان جواہر پارو ں سے خالی نہیں رہے گا ، جو سیرت کے قارئین کا نصیب ہوا کرتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ کتاب کے مطالعہ میں محبت و عقیدت کے ساتھ اپنی فکری صلاحیت کو بھی پوری طرح بروئے کار لائے ۔کتاب کے مقدمے میں مصنف نے عصر حاضرمیں سیرت نگاری کے لئے جن اصولوں کی نشاندہی کی ہے ، خودمصنف نے اپنے منفرد طرز استدلال اور اسلوب نگارش کا استعمال کرتے ہوئے سیرت طیبہ کی عصری معنویت کو خوب اجاگر کیا ہے ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس خدمت کو قبول فرمائے اور ان کے لئے توشۂ آخرت بنائے ۔ (آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسین ﷺ)