فروری ۲۰۱۷ء

اختلاطِ مرد وزن، پردہ اور سماجی حقوق و فرائض / دینی مدارس کا نصاب ونظام۔ قومی پالیسی وضع کرنے کی ضرورت

― محمد عمار خان ناصر

اسلامی شریعت میں خواتین کے لیے پردے سے متعلق کیا احکام دیے گئے ہیں؟ مرد وزن کے میل جول کے ضمن میں وہ کون سے حدود وآداب ہیں جن کی پابندی شرعاً ضروری ہے؟ خواتین اجنبی مردوں کے سامنے اپنا چہرہ ننگا کر سکتی ہیں یا نہیں؟ جب عورت کا چہرہ ہی جسم کا سب سے زیادہ پرکشش حصہ ہوتا ہے تو کیا فتنے سے بچنے کے لیے اس کو چھپانا ضروری نہیں ہونا چاہیے؟ ذیل کی سطور میں ہم ان سوالات کے حوالے سے اپنے فہم کے مطابق اسلامی شریعت کے زاویہ نظر کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسلامی شریعت کا مزاج یہ ہے کہ وہ کسی معاملے کے صرف ایک پہلو کو مد نظر رکھ کر احکام طے نہیں کرتی، بلکہ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۷)

― ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۰۷) القول علی اللہ کا مفہوم۔ قرآن مجید میں قول علی اللہ کی تعبیر مختلف صیغوں میں استعمال ہوئی ہے، اس تعبیرکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف کسی بات کو منسوب کرکے یہ کہنا کہ اللہ نے یہ بات کہی ہے ، جب کہ کہی نہ ہو، یا یہ کہنا کہ اللہ ایسا کرتا ہے یا کرے گا، جب کہ ایسا نہ ہو۔ بعض مترجمین نے بعض مقامات پر اس کا ترجمہ اللہ پر تہمت لگانا اور بہتان باندھنا کیا ہے، یہ ترجمہ درست نہیں ہے۔ اس تعبیر کے اندر اللہ پر کسی طرح کی تہمت لگانے کا مفہوم نہیں پایا جاتا ہے۔ بعض مترجمین نے اللہ کی شان کے خلاف بات کہنے کا مفہوم بھی لیا ہے، وہ بھی اس لفظ کا اصل مفہوم...

’’سفر جمال: نبی مکرمؐ کی جمالیاتی مزاحمت کی پر عزم داستان‘‘

― پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

(میاں انعام الرحمن کے مجموعہ مقالات پر ایک نظر) اسلامی ادبیات کے سدا بہار موضوعات میں سے ایک سیرت نگاری ہے۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت نگاروں کی فہرست میں جگہ پانا ایک عظیم سعادت ہے۔ سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچا تو آپ کی ولادت باسعادت سے بھی پہلے کا ہے۔ تاہم علومِ اسلامیہ میں بطور فن ،سیرت نگاری کامنظم آغاز پہلی صدی ہجری میں ہوا۔ تاریخِ علوم میں کسی انسان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اس کثرت کے ساتھ نہیں لکھا گیا جتنا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر لکھا گیا ہے ،لیکن اس کے باوجود عجائباتِ سیرت لا متناہی...

حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ اور حضرت قاری محمد انورؒ کا انتقال

― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ ماہ کے دوران دو تین دنوں میں یکے بعد دیگرے تین محترم بزرگوں، شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ اور استاذ محترم حضرت قاری محمد انورؒ کی وفات کا صدمہ دینی حلقوں کو سوگوار کر گیا۔ تینوں بزرگوں کا تذکرہ خاصی تفصیل کا متقاضی ہے مگر سرِدست ابتدائی تاثرات ہی پیش کر سکوں گا۔ حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ علماء حق کے قافلہ کے سالار تھے اور انہوں نے علمی، عملی اور مسلکی محاذ پر جو خدمات سرانجام دیں، وہ تاریخ کے ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد تھے اور اپنے...

معاصر اسلامی معاشروں کو درپیش فکری تحدیات

― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ نے سالِ گزشتہ کا اختتام ’’معاصر اسلامی معاشروں کو درپیش فکری تحدیات‘‘ کے موضوع پر دو روزہ قومی کانفرنس سے کیا جو ۳۰ و۳۱ دسمبر ۲۰۱۶ء کو منعقد ہوئی اور اس کی مختلف نشستوں سے ڈاکٹر محمد ضیاء الحق، پروفیسر ڈاکٹر معراج الاسلام ضیاء، ڈاکٹر مستفیض احمد علوی، ڈاکٹر غلام عباس، ڈاکٹر عاصم ندیم، ڈاکٹر ریاض محمود، ڈاکٹر شہباز احمد منج، ڈاکٹر محمد سعد صدیقی، ڈاکٹر محمد حماد لکھوی، ڈاکٹر عبد القدوس حبیب، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، ڈاکٹر حافظ محمود اختر، ڈاکٹر محمد اکرم ورک، غازی عبدا لرحمن قاسمی، جناب محمد مجتبیٰ، ڈاکٹر سلطان...

دینی مدارس کے فضلا کا یورپی ممالک کا مطالعاتی دورہ ۔ مختصر روداد اور تاثرات

― مولانا محمد رفیق شنواری

جرمنی کی ایرفرٹ یونی ورسٹی کی طرف سے دینی مدارس کے طلبہ کے بعد وہاں کے ایک تحقیقی ادارے میکس پلانک فاؤنڈیشن (Max Foundation۔Planck ) کی دعوت پر دینی مدارس کے فضلا بھی یورپ کے دورہ سے ہو آئے ہیں۔ اس دورے کی مختصر روداد ، تاثرات اور اس کے انتظام و انصرام کے بارے چند گزارشات پیش کی جاتی ہیں۔ میکس پلانک فاؤنڈیشن کا تعارف اور دورے کا مقصد۔ سب سے پہلے میکس پلانک سوسائٹی کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں جرمنی، بکھرنے کے بعد جب دوبارہ لڑکھڑاتے وجود کے ساتھ ابھرنے لگا تو مختلف شعبوں میں حکومت کو رہنمائی فراہم کرنے کی خاطر 1948ء میں اس ادارے...

دینی مدارس اور عصری رجحانات

― غازی عبد الرحمن قاسمی

بر صغیر پاک وہند میں دینی مدارس کی بے مثال خدمات ہیں ۔اور ایسے مدارس کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے بے سروسامانی کی حالت میں دین متین کی تبلیغ واشاعت میں اہم کردار ادا کیا اور ان اداروں سے ایسی نامور علمی شخصیات تیار ہوئیں جن کی دینی روایات اور اسلامی اقدار کے لیے مساعی جمیلہ قابل ستائش اور وجد آفرین ہیں ۔ دور جدید میں نئے مسائل اور عصری تقاضے ہیں جن کی رعایت رکھتے ہوئے اگر دینی مدارس میں علوم اسلامیہ کی تعلیم وتدریس ہو توا س عظیم الشان کا م کو مزید بہتر انداز میں کیا جاسکتاہے ۔زیر نظر مقالہ میں بالعموم پاکستان کے دینی مدارس اور بالخصوص وفاق...

احمدی اور تصورِ ختم نبوت : ایک احمدی جوڑے سے گفتگو

― ڈاکٹر محمد شہباز منج

ایک یونی ورسٹی کی احمدی طالبہ میری نگرانی میں ایم فل کا تھیسز لکھ رہی ہے۔ وہ اپنے کام کے سلسلے میں اپنے خاوند کے ساتھ میرے پاس آتی ہے۔ پہلی دفعہ تو وہ دونوں بہت گْھٹے گْھٹے سے لگے،تاہم میں نے روٹین کے مطابق ان سے بساط بھر عام نرم و مہمان نواز لہجے اور ٹون میں بات کی ، اور کام سے متعلق لڑکی کی رہنمائی بھی کی۔ دی گئی رہنمائی کے مطابق کا م کرنے کے بعد وہ دونوں میاں بیوی گذشتہ روز پھر آئے۔رسمی ملاقات اور مقالے سے متعلق گفتگو کے بعد میں نے کہا: میں ایک تحقیقی ذہن کا آدمی ہوں اور آپ بھی محقق ہیں، میری کسی بات کو مائینڈ نہیں کرنا، نہ میں آپ کی کوئی بات...

مولانا محمد بشیر سیالکوٹیؒ ۔ چند یادیں، چند باتیں

― محمد عثمان فاروق

عربی زبان کے استاذ، متعدد کتابوں کے مولف مولانا بشیر سیالکوٹیؒ (۱۹۴۰۔۲۰۱۶ء) طویل علالت کے بعد ۱۶ اکتوبر کو انتقال کر گئے۔ ان کی پوری زندگی علوم اسلامیہ کی تدریس بالخصوص عربی زبان کی تعلیم میں گزری۔ مولانا سیالکوٹی عربی نظم و نثر دونوں میں یکساں اور کمال مہارت رکھتے تھے۔ ان کی دیرینہ آرزو اور والہانہ لگن تھی کہ ملک پاکستان میں لسان القرآن کو فروغ ملے تاکہ لوگوں کا خدا کی کتاب اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے زندہ تعلق قائم ہو۔ مولانا سیالکوٹی کی خدمات کے پیش نظر عالم عرب کے تین جید علماء (دکتور ف عبدالرحیم، دکتور عبدالغفور البلوشی،...

’’فقہائے احناف اور فہم حدیث ۔ اصولی مباحث‘‘

― ڈاکٹر حافظ مبشر حسین

حدیث کے ردو قبل کے اصول مخصوص نہیں ، بلکہ خیر القرون میں علمائے امت نے اپنے فہم اور علم کی روشنی میں انہیں منضبط کیا ہے۔ چنانچہ انسانی کاوش ہونے کے ناطے بعض اصولوں پر اختلاف رائے بھی پیدا ہوا۔ اس اختلاف رائے کے اولیں مظاہر حجازی و عراقی مکاتب فکر کی شکل میں وقوع پذیر ہوئے جبکہ آگے چل کر اس اختلاف کی خلیج نے محدثین اور فقہا کے دو مستقل اور ایک دوسرے کے حریف گروہوں یا طبقوں کی شکل اختیار کر لی۔ اس اختلاف کے یوں تو کئی علمی ، سیاسی اور معروضی اسباب تھے مگر ایک بڑا علمی سبب، میرے ناقص مطالعہ کے مطابق ، وہ اصول تھے جو حدیث کے ردو قبول اور اس کے معنی...

تلاش

Flag Counter