معاصر اسلامی معاشروں کو درپیش فکری تحدیات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ نے سالِ گزشتہ کا اختتام ’’معاصر اسلامی معاشروں کو درپیش فکری تحدیات‘‘ کے موضوع پر دو روزہ قومی کانفرنس سے کیا جو ۳۰ و۳۱ دسمبر ۲۰۱۶ء کو منعقد ہوئی اور اس کی مختلف نشستوں سے ڈاکٹر محمد ضیاء الحق، پروفیسر ڈاکٹر معراج الاسلام ضیاء، ڈاکٹر مستفیض احمد علوی، ڈاکٹر غلام عباس، ڈاکٹر عاصم ندیم، ڈاکٹر ریاض محمود، ڈاکٹر شہباز احمد منج، ڈاکٹر محمد سعد صدیقی، ڈاکٹر محمد حماد لکھوی، ڈاکٹر عبد القدوس حبیب، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، ڈاکٹر حافظ محمود اختر، ڈاکٹر محمد اکرم ورک، غازی عبدا لرحمن قاسمی، جناب محمد مجتبیٰ، ڈاکٹر سلطان شاہ، حافظ محمد عمار خان ناصر اور دیگر ارباب فکر و دانش نے خطاب کیا۔ جبکہ گفٹ یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر قیصر شہریار درانی کی نگرانی میں کانفرنس اختتام کو پہنچی۔ راقم الحروف کو آخری نشست میں کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا جس کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔ 

بعد الحمد والصلاۃ۔ گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کو اس کانفرنس کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں جو یونیورسٹی کی علمی و فکری سرگرمیوں میں ایک اچھی پیش رفت ہے۔ مجھے چند سالوں سے یہ دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ملک کی جامعات میں علمی و فکری سرگرمیوں کے حوالہ سے اضافہ ہو رہا ہے اور خاص طور پر ان جامعات کے شعبہ ہائے علوم اسلامیہ دینی و ملی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے کانفرنسوں اور سیمینارز کا اہتمام کر رہے ہیں۔ اور ایک طرح سے صحت مندانہ مقابلہ کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے جو یقیناًخوش آئند ہے کہ قرآن کریم نے بھی خیر کے اعمال میں وفی ذلک فلیتنافس المتنافسون کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اسلامی علوم کے ان شعبوں میں علمی و فکری سرگرمیوں میں اضافہ کے ساتھ دوسری بات جو خوشی اور اطمینان کا باعث بن رہی ہے، یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے فضلاء اور دینی مدارس کے فضلاء میں میل جول بڑھ رہا ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان سرگرمیوں میں شریک ہونے والے اور ان کا اہتمام کرنے والے اساتذہ و طلبہ میں دونوں طرف کے فضلاء شریک ہیں۔ پی ایچ ڈی اسکالرز میں دینی مدارس کے فضلاء کی تعداد روز افزوں ہے اور دینی مدارس کے اساتذہ و فضلاء کی دلچسپی اس میں مسلسل بڑھ رہی ہے جو ہمارے پرانے خواب کی تعبیر ہے کہ قدیم و جدید علوم کے ماہرین یکجا بیٹھیں اور مل جل کر دینی، قومی، علمی اور ملی مسائل میں قوم کی راہنمائی کریں۔ 

حضراتِ محترم! ہماری اس قومی کانفرنس کا بنیادی موضوع وہ فکری تحدیات اور چیلنجز ہیں جو اس وقت امت مسلمہ کو درپیش ہیں اور جن میں صحیح سمت راہ نمائی کے لیے پوری امت ارباب فکر و دانش اور اصحابِ علم و فضل کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ہمارے بہت سے فاضل دوستوں نے اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا ہے۔ میں گفتگو کے آغاز سے پہلے سوچ رہا تھا کہ فکری چیلنجز کے کون سے دائرے میں بات کروں گا؟ اس لیے کہ فکری چیلنجز کا ایک دائرہ یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی کے عالمی ماحول میں امت مسلمہ کو متعدد اہم فکری چیلنجز درپیش ہیں، جبکہ ملت اسلامیہ کو داخلی سطح پر بھی بہت سی فکری تحدیات کا سامنا ہے اور ہم اپنے قومی ماحول یعنی پاکستانی قوم کے اندرونی دائروں میں مختلف فکری چیلنجز سے نبرد آزما ہیں۔ مجھ سے پہلے ڈاکٹر محمد اکرم ورک صاحب نے اپنی گفتگو میں ’’گلوبل سوسائٹی‘‘ کی بات کر کے میری یہ مشکل آسان کر دی ہے اس لیے میں بھی اسی حوالہ سے چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ 

پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے متعدد فاضل مقررین نے بجا طور پر یہ کہا ہے کہ ہمیں ان فکری تحدیات کا مقابلہ کرنے کے لیے قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت سے راہنمائی حاصل کرنا ہوگی، اس لیے کہ راہنمائی کے لیے ہمارا اصل علمی و فکری سرچشمہ وہی ہے اور اسی سے فیض حاصل کر کے ہم نہ صرف اپنے بلکہ نسل انسانی کے مسائل و مشکلات کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ 

جناب نبی اکرمؐکی سیرت و سنت کے بارے میں ایک پہلو کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں کہ (۱) حدیث (۲) سنت (۳) سیرت کے تینوں شعبوں کا سرچشمہ جناب رسول اللہؐکی ذات گرامی ہے۔ لیکن ان تینوں میں باہمی طور پر فرق موجود ہے جس کی وجہ سے محدثین کرام اور ائمہ عظام نے ان تینوں کے حوالہ سے علمی ذخیرہ الگ الگ عنوانات کے ساتھ جمع و مرتب کیا ہے۔ احادیث نبویہؐکا دائرہ الگ ہے، سنت و شریعت کا دائرہ مستقل ہے، اور سیرت و سوانح کا دائرہ ان دونوں سے مختلف ہے۔ ہماری علمی و فکری راہنمائی کا سرچشمہ یہ تینوں دائرے ہیں مگر میں اپنے اس طالب علمانہ تاثر اور احساس کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ مسائل و احکام کے استنباط اور استدلال میں حدیث اور سنت سے جس قدر استفادہ کیا گیا ہے اور کیا جا رہا ہے، سیرت کی طرف ہماری اس قدر توجہ نہیں ہے۔ ممکن ہے میرا یہ احساس درست نہ ہو، لیکن ایک طالب علم کے طور پر میں یہی محسوس کر رہا ہوں اور اس رائے کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ حدیث اور سنت کی طرح سیرت کو بھی ہمارے استنباط و استدلال کی مستقل بنیاد ہونا چاہیے۔ خصوصاً آج کی انسانی سوسائٹی کو درپیش مشکلات و مسائل کے حل کے لیے اس طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔

میرا تاثر یہ ہے کہ جناب رسول اکرمؐنے جس طرح اپنے قول اور عمل کے ساتھ امت کی راہنمائی فرمائی ہے، اسی طرح خاموش حکمت عملی اور طرز و رویہ کے ساتھ بھی بہت سے مسائل حل کیے ہیں جو ہمارے لیے قیامت تک مشعل راہ ہیں۔ اس طرز عمل اور مسلسل رویہ کی تلاش سیرت کے علمی ذخیرہ میں زیادہ آسانی کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر میں دو باتوں کا ذکر کروں گا۔ 

ایک مثال یہ کہ جناب رسول اللہؐہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے ماحول میں یہ تبدیلی سب نے دیکھی کہ آنحضرتؐکی تشریف آوری کے بعد باقاعدہ حکومت قائم ہوگئی جس کے سربراہ رسول اکرمؐخود تھے اور اس کے بعد دس سال تک آپؐنے ایک حاکم کے طور پر مدینہ منورہ میں زندگی گزاری۔ یہ مدینہ منورہ کے ماحول میں بہت بڑی تبدیلی تھی جس نے پورے جزیرالعرب کے مستقبل کا رخ ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیا۔ لیکن اس دوران ’’میرے عزیز ہم وطنو!‘‘ قسم کا کوئی خطاب حدیث و تاریخ کے ذخیرے میں کہیں دکھائی نہیں دیتا، البتہ آنحضرت کی وہ خاموش ڈپلومیسی ضرور دکھائی دے گی جس کے نتیجے میں نہ صرف حکومت کا وجود قائم ہوا بلکہ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے عنوان سے دستوری خاکہ بھی تشکیل پا گیا۔ 

دوسری قابل توجہ مثال یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں جناب رسول اکرمپر ایمان کا اظہار کرنے والوں میں منافقین کا وہ گروہ بھی شامل تھا جسے قرآن کریم نے وماھم بمؤمنین اور انھم لکاذبون کا خطاب دیا ہے۔ آپ کو اس گروہ کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم قرآن کریم میں ان الفاظ میں ہوا کہ جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم۔ مگر نبی اکرمنے پورے دس سال تک اس گروہ کے خلاف معروف معنوں میں کوکئی جہاد نہیں کیا، نہ عسکری کارروائی کی اور نہ ہی کوئی اجتماعی ایکشن لیا۔ البتہ حکمت عملی ایسی اختیار کی کہ وہ بتدریج سوسائٹی میں تحلیل ہوتے چلے گئے، حتیٰ کہ خلافت راشدہ کے دور میں اس قسم کے کسی گروہ کا مدینہ منورہ میں سراغ نہیں ملتا۔ 

جناب رسول اللہؐ کی یہ حکمت عملی اگر ظاہری نصوص میں تلاش کی جائے تو شاید استدلال و استنباط کے معروف دائروں میں نہ ملے، لیکن آپ کے مسلسل طرزِ عمل کا مطالعہ کیا جائے تو اس کا ایک ایک مرحلہ ترتیب کے ساتھ سامنے آجاتا ہے۔ یہ دو باتیں میں نے بطور مثال پیش کی ہیں ورنہ اس پہلو سے سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو بہت سے امور ایسے ملیں گے جن کی بنیاد آنحضرتؐ کے کسی صریح ارشاد یا متعین عمل پر نہیں بلکہ مسلسل طرز عمل اور رویہ پر دکھائی دے گی۔ اس لیے میں یہ گزارش کر رہا ہوں کہ حدیث و سنت کی طرح سیرت کو بھی استنباط و استدلال کا مستقل ماخذ بنانے کی ضرورت ہے جو اصلاً تو حدیث و سنت کے دائرہ میں ہی شامل ہے، لیکن وہ امتیاز و فرق جس کی وجہ سے سیرت کو حدیث و سنت سے الگ کر کے علمی ذخیرہ میں مستقل طور پر پیش کیا گیا ہے، وہ استنباط و استدلال میں بھی نمایاں ہونا چاہیے۔ اور فقہ القرآن، فقہ الحدیث اور فقہ السنکی طرح ’’فقہ السیرۃ‘‘ کو بھی علمی حلقوں میں موضوع بحث بنایا جانا چاہیے۔ 

دوسری بات یہ عرض کروں گا کہ اس وقت انسانی سوسائٹی میں فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کی جو کشمکش جاری ہے، وہ رفتہ رفتہ فیصلہ کن مراحل کی طرف بڑھ رہی ہے اور اگرچہ دیگر تہذیبیں اور فلسفے بھی اس کشمکش میں شریک نظر آتے ہیں، لیکن فائنل راؤنڈ اسلام اور مغربی تہذیب و فلسفہ کے درمیان ہی ہوگا۔ مغرب کا فلسفہ و تہذیب اس وقت غالب و قابض فلسفہ ہے جبکہ اسلامی فکر و فلسفہ نہ صرف مزاحمت کر رہا ہے بلکہ انسانی سوسائٹی کی قیادت حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان دونوں فلسفوں اور تہذیبوں کے درمیان اس بات پر کشمکش جاری ہے کہ مستقبل میں گلوبل انسانی سوسائٹی کی قیادت کون کرے گا؟ مغرب تو موجودہ کیفیت کو ’’اینڈ آف دی ہسٹری‘‘ قرار دے کر اپنے دائمی قبضے کا اعلان کر رہا ہے، لیکن اسلامی تہذیب و ثقافت نے دست برداری اور سپر اندازی قبول نہیں کی اور ابھی ان دونوں کے درمیان جنگ جاری ہے جس کا حتمی نتیجہ آخری راؤنڈ کے بعد ہی سامنے آئے گا۔ مغرب کے پاس قبضہ اور قوت ہے جس کے باعث وہ خود کو فاتح سمجھ رہا ہے جبکہ مسلمانوں کے پاس دلیل اور حسین ماضی ہے جس کے سہارے وہ یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ 

ہمارا موضوع چونکہ فکری تحدیات ہیں، اس لیے دلیل کی دنیا میں ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ مغرب کی دانش کو اس بات کا اندازہ ہوگیا ہے کہ وجدانیات، وحی اور آسمانی تعلیمات سے مکمل دستبرداری کے انسانی سوسائٹی پر منفی نتائج سامنے آئے ہیں، اس لیے اس پر نظر ثانی کی بہرحال ضرورت ہے۔ یہ بات سابق برطانوی وزیر اعظم جان میجر ’’بیک ٹو بیسکس‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ کہتے رہے ہیں، شہزادہ چارلس ’’وجدانیات کی طرف واپسی‘‘ کی ضرورت کا احساس دلاتے رہتے ہیں، جبکہ امریکی یونیورسٹیوں میں وحی اور عقل کے درمیان توازن کی تلاش تحقیقی سرگرمیوں کا اہم عنوان بن چکی ہے۔ میں سیاست اور طاقت کے میدان کی بات نہیں کر رہا کہ وہاں تو مغرب کی مکمل اجارہ داری ہے مگر دلیل کی دنیا میں مغربی دانش کی ایک سطح اپنے فکر و فلسفہ کی بنیادوں کا ازسرِنو جائزہ لے رہی ہے۔ اس سلسلہ میں ریورس گیئر لگ چکا ہے اور الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے جو ہمارے لیے ایک بہت بڑے علمی و فکری مشاہدہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا ہم مغرب کو اس واپسی کے لیے ’’باعزت راستہ‘‘ دینے کے لیے تیار ہیں؟ ہمارا مزاج اور نفسیات کم و بیش اس طرح کی بن چکی ہیں کہ ناک کی لکیریں نکلوائے بغیر کسی کو واپسی کا راستہ دینا ہمارے لیے مشکل عمل ہوتا ہے۔ جبکہ میرے خیال میں اب اس کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے کہ ہم دلیل و دانش کی دنیا میں مغرب کو واپسی کا باعزت راستہ دینے کی فکر کریں، اس کی راہ نمائی کرتے ہوئے اس کے سامنے اسلام کی آفاقی تعلیمات کو آج کی زبان اور مغرب کی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے پیش کریں، اور عقل اور وحی کے مابین توازن کے مکالمہ میں شریک ہو کر وحی کی ضرورت و برتری کو ثابت کریں۔ میری طالب علمانہ رائے میں اس وقت ہمارے جامعات اور دینی مدارس کو سب سے زیادہ اس بات کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ جس طرح مغرب نے ’’استشراق‘‘ کے نام سے اسلام اور مسلمانوں کا وسیع اور گہرا مطالعہ کیا ہے اور اسے ہمارے خلاف پوری مہارت کے ساتھ استعمال کیا ہے، اسی طرح ہم بھی مغرب کے فلسفہ و تہذیب اور معاشرت کا مطالعہ کریں اور تحقیق و تجزیہ کے ذریعہ اس کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اسلامی احکام و قوانین کی برتری کو واضح کریں۔ یہ کام بہت محنت طلب ہے اور جگر کاوی کا عمل ہے کہ اس کے لیے دماغ کی اعلیٰ صلاحیتوں کے استعمال میں قلب و جگر کا خون بھی جلانا ہوگا۔ یہ سطحی اور جذباتی کام نہیں ہے لیکن اس کے بغیر اب بات آگے نہیں بڑھے گی، یہ کام بہرحال کرنا ہوگا اور جامعات کو دینی مدارس و مراکز کے ساتھ مل کر کرنا ہوگا۔ 

موجودہ عالمی ماحول میں فکری تحدیات کا تیسرا دائرہ میری طالب علمانہ رائے میں یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں حکومتوں کی نہیں بلکہ بین الاقوامی معاہدات کی حکومت ہے۔ معاہدات نے پوری دنیا کو جکڑ رکھا ہے۔ میرے نزدیک صرف وہ پانچ ملک اس وقت آزاد ملک کہلانے کے مستحق ہیں جن کے پاس سلامتی کونسل میں ’’ویٹو پاور‘‘ ہے، ان کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک اس طرح کا آزاد اور خودمختار ملک نہیں ہے کہ وہ اپنی پالیسی اپنی اور اپنے عوام کی مرضی سے خود طے کر سکے۔ سب کے سب بین الاقوامی معاہدات کے اسیر اور پابند ہیں جن سے انحراف کی صورت میں وہی کچھ ہوتا ہے جو افغانستان اور عراق میں ہو چکا ہے۔ ان معاہدات کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے سیاسی طور پر حکومتوں کو جکڑ رکھا ہے اور ان کی خودمختاری کو قبضے میں لیا ہوا ہے۔ جبکہ اس کا دوسرا پہلو علمی، فکری اور تہذیبی ہے کہ یہ معاہدات مغربی تہذیب و فلسفہ کے علاوہ باقی سب کی نفی کر رہے ہیں اور ان کی زد میں سب سے زیادہ اسلام کے احکام و قوانین ہیں۔ قرآن و سنت کے احکام و قوانین کو بین الاقوامی معاہدات کی چھلنیوں سے گزار کر ان کی نفی کی جا رہی ہے، استہزاء کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مسلمانوں پر ان سے دستبردار ہونے کے لیے ہر طرح کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ 

اس صورت حال کا علمی و فکری تقاضا یہ ہے کہ ان کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے، اسلامی عقیدہ و ثقافت کے ساتھ ان معاہدات کے ٹکراؤ اور تضادات کی نشاندہی کی جائے اور اسلام کا موقف واضح کیا جائے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سب معاہدات کو یکسر مسترد کر دیا جائے اور نہ ہی یہ کہ انہیں من و عن قبول کر لیا جائے۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہوں گی، اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی معاہدات اور اسلامی تعلیمات کا تقابلی جائزہ لے کر بتایا جائے کہ کون سی باتیں قابل قبول ہیں اور کون سی قابل قبول نہیں ہیں۔ کن باتوں پر کسی درجہ میں مفاہمت ہو سکتی ہے اور کون سے امور ہیں جنہیں کسی طور پر بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالہ سے مغرب کو ایک متوازن موقف سے دوٹوک طور پر آگاہ کرنا ضروری ہے اور اس سلسلے میں امت مسلمہ کی راہنمائی ضروری ہے جو ہماری یونیورسٹیوں اور دینی مراکز کے کرنے کا کام ہے اور سنجیدہ علمی شخصیات کی نگرانی میں کرنے کا کام ہے۔ 

آخر میں گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کی اس علمی و فکری کاوش پر ایک بار پھر یونیورسٹی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت ہم سب کو اسلام اور امت مسلمہ کی صحیح خدمت کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ 

دین اور معاشرہ

(فروری ۲۰۱۷ء)

تلاش

Flag Counter