اسلامی شریعت میں خواتین کے لیے پردے سے متعلق کیا احکام دیے گئے ہیں؟
مرد وزن کے میل جول کے ضمن میں وہ کون سے حدود وآداب ہیں جن کی پابندی شرعاً ضروری ہے؟
خواتین اجنبی مردوں کے سامنے اپنا چہرہ ننگا کر سکتی ہیں یا نہیں؟ جب عورت کا چہرہ ہی جسم کا سب سے زیادہ پرکشش حصہ ہوتا ہے تو کیا فتنے سے بچنے کے لیے اس کو چھپانا ضروری نہیں ہونا چاہیے؟
ذیل کی سطور میں ہم ان سوالات کے حوالے سے اپنے فہم کے مطابق اسلامی شریعت کے زاویہ نظر کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
اسلامی شریعت کا مزاج یہ ہے کہ وہ کسی معاملے کے صرف ایک پہلو کو مد نظر رکھ کر احکام طے نہیں کرتی، بلکہ تمام متعلقہ پہلوؤں کی پوری رعایت کرتے ہوئے اور ہر ہر پہلو کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے وزن دیتے ہوئے حدود اور پابندیوں کا تعین کرتی ہے۔ مرد وزن کے اختلاط کے حوالے سے احکام شرعیہ کے مجموعی مطالعے سے بھی یہی نکتہ واضح ہوتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ دونوں صنفوں میں قدرت نے ایک دوسرے کے لیے فطری کشش رکھی ہے جس کی وجہ سے دونوں کا ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہونا اور ربط وتعلق کی خواہش کا پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ اگر اس فطری کشش کو حدود وآداب کا پابند نہ بنایا جائے اور دونوں صنفوں کے آزاد اور بے قید تعلق کو قبول کر لیا جائے تو معاشرے میں اخلاقی انارکی کا پھیلنا لازم ہے جس کا آخری نتیجہ جنسی جبلت کے، اعلیٰ انسانی واخلاقی اوصاف پر غالب آ جانے اور معاشروں اور تہذیبوں کی اخلاقی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔
دوسری طرف انسانی معاشرت کا یہ پہلو بھی بہت اہم ہے کہ خواتین اپنی فطری وخلقی صلاحیتوں کے لحاظ سے اس طرح کی معاشرتی ذمہ داریاں اپنے سر نہیں لے سکتیں جو مرد انجام دیتے ہیں۔ اس طرح ناگزیر طور پر خواتین کا معاشرتی کردار کئی پہلوؤں سے مردوں کے مقابلے میں محدود ہو جاتا ہے اور اپنے تحفظ اور دیگر معاشرتی حقوق کے لیے انھیں بنیادی طور پر مردوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسانی تاریخ میں خواتین بطور ایک طبقے کے عموماً زیادتی ، جبر اور استحصال کا شکار رہی ہیں اور دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں انھیں ان کے بہت سے معاشرتی حقوق سے محروم رکھنے کے لیے باقاعدہ نظری فلسفے اور جواز گھڑے گئے ہیں۔
اسلامی شریعت نے ان مختلف پہلوؤں میں توازن کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے معاشرتی نظام میں خواتین کے کردار، حدود اور حقوق وفرائض کی تعیین کی ہے۔ چنانچہ اس نے صنفین کی باہمی کشش، پسندیدگی اور تعلق کی خواہش کو بنیادی طور پر درست اور جائز تسلیم کرتے ہوئے اسے کچھ حدود اور آداب کا پابند بنایا ہے اور نکاح کو اس کا جائز طریقہ ٹھہراتے ہوئے خفیہ یاری آشنائی یا بے قید جنسی تعلق کو غیر اخلاقی قرار دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ باہمی اختلاط کے ماحول میں بہت سی ایسی اخلاقی ہدایات اور احتیاطی تدابیر تجویز کی ہیں جن کی پابندی معاشرے کو بحیثیت مجموعی عفت مآب بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ قرآن وحدیث کے نصوص کی روشنی میں ان ہدایات وتدابیر کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
- مرد اور عورت خلوت میں تنہا جمع ہونے سے حتی الامکان اجتناب کریں اور اس معاملے میں گھر کے قریبی، لیکن غیر محرم رشتہ داروں، مثلاً دیور وغیرہ کے معاملے میں بھی بے احتیاطی سے کام نہ لیں۔ (ترمذی، رقم ۱۱۵۳)
- خواتین، غیر محرم مردوں کے سامنے حتی الامکان اپنی زیب وزینت کی نمائش نہ کریں اور نہ کسی بھی انداز سے مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کریں۔ بالخصوص گھر سے باہر نکلتے ہوئے انھیں تیز خوشبو کے استعمال یا دیدہ زیب، شوخ رنگ اور بھڑکیلے لباس پہننے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ لوگ خواہ مخواہ ان کی طرف متوجہ نہ ہوں۔(سورۃ النور، آیت ۳۱۔ ابو داود، رقم ۳۶۹۹)
- اگر مرد اور عورتیں کسی مجلس میں اکٹھے ہوں تو فریقین اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں، کیونکہ غلط نگاہ، زنا کی طرف پہلا قدم ہے۔ غلط نگاہ بے اختیار اور بلا ارادہ پڑ جائے تو فوراً متنبہ ہو کر نظر پھیر لینی چاہیے اور قصداً وارادتاً نظر لوٹانے سے خود کو روک لینا چاہیے۔(سورۃ النور، آیت ۳۱۔ ابوداود، رقم ۱۸۷۵)
- لباس ایسا ہونا چاہیے جو جسم کے مستور اعضا کو اچھی طرح چھپا لے۔ ایسا باریک یا چست لباس جو جسم کو چھپانے کے بجائے اعضا کو نمایاں کرنے کا ذریعہ ہو، گویا برہنہ پھرنے کے مترادف ہے۔ اس سے بطور خاص اجتناب کرنا چاہیے۔(سورۃ النور، آیت ۳۱۔ مسلم، رقم ۴۰۸۷۔ ابو داود، ۳۶۳۶)
- بلوغت کی عمر میں ہاتھ پاؤں اور چہرے کے علاوہ، عورت کے جسم کا کوئی حصہ اجنبی مردوں کے سامنے ظاہر نہیں ہونا چاہیے۔ خواتین بالخصوص اپنے سر کی اوڑھنی سے اپنے سینے کو ڈھانپے رکھنے کا اہتمام کریں۔ (سورۃ النور، آیت ۳۱۔ ابو داود، ۳۶۳۶)اسی طرح سر کے بالوں کو کھلا رکھنا، خاص طور پر جب کہ ان کی زیب وزینت کا اہتمام کیا گیا ہو، خواتین کے لیے مناسب نہیں۔
- ایک ہی ماحول میں کام کرتے ہوئے غیر محرم مردوں اور خواتین کے میل جول اور باہمی گفتگو کو حیا اور وقار کا مظہر ہونا چاہیے۔ اس میں بے تکلفی، لگاوٹ اور دوستانے کا انداز، دلوں میں غلط خیالات پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے، اس لیے درمیان میں مناسب فاصلہ برقرار رکھنا چاہیے۔ اسی طرح حتی الامکان اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ مشترک مجالس میں مردوں اور عورتوں کی نشستیں الگ الگ ہوں اور صنفین کے جسمانی قرب کا موقع کم سے کم پیدا ہو۔
- قرآن مجید نے سورۂ احزاب کی آیت ۵۹ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ، آپ کی بیٹیوں اور عام مسلمان خواتین کو منافقین کی فتنہ انگیزیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ تدبیر بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ایک بڑی چادر لے کر اپنے جسم پر ڈال لیا کریں تاکہ ان کے لباس کی یہ خاص وضع انھیں دوسری خواتین سے ممتاز کر دے اور منافقین مختلف بہانوں سے ان کے قریب جانے اور گفتگو کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش نہ کر سکیں اور مسلمانوں کی خواتین تک ان کی رسائی کا دروازہ ہی بند ہو جائے۔ قران کی اس ہدایت سے یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ خواتین کو اپنی حفاظت اور عرفی تشخص وامتیاز کے پہلو سے ماحول کے اتار چڑھاؤ سے بھی چوکنا اور خبردار رہنا چاہیے۔ چنانچہ اگر ماحول میں فتنہ انگیز عناصر موجود ہوں اور ماحول کا عمومی بگاڑ خواتین کو ایذا پہنچانے اور ان کی عزت وآبرو پر حملہ کرنے میں ان کا مددگار بن رہا ہو تو ایسے حالات میں مسلمان خواتین کو اپنے لباس اور ظاہری وضع قطع میں امتیاز پیدا کرنے اور عام معمول سے بڑھ کر اپنے جسم کو ڈھانپنے کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ فتنہ انگیز عناصر کی حوصلہ شکنی ہو اور وہ اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے کوئی عذر یا جواز نہ پیش کر سکیں۔
مذکورہ اخلاقی ہدایات اور احتیاطی تدابیر کے علاوہ شریعت نے ایسی کوئی غیر فطری پابندی مسلمان معاشرے پر عائد نہیں کی جس کے نتیجے میں مرد اور عورت بطور ایک صنف کے، نکاح کے رشتے کے علاوہ، ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی اور دو الگ الگ دنیاؤں کی مخلوق نظر آنے لگیں۔ اس کے بجائے شریعت نہ صرف صنفین کو اس کا حق دیتی ہے کہ وہ نکاح کے لیے اپنی پسند کے مرد یا عورت کا انتخاب کریں، بلکہ اس کی ترغیب بھی دیتی ہے کہ نکاح سے پہلے دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ہو اور باہمی رغبت اور پسند پر اس رشتے کی بنیاد رکھی جائے۔چنانچہ احادیث میں نکاح کی غرض سے نہ صرف مردوں کے لیے اس کی ترغیب بیان ہوئی ہے کہ وہ متعلقہ خاتون اور اس کے جسمانی محاسن کا جائزہ لیں تاکہ نکاح پوری رغبت کے ساتھ کیا جا سکے، بلکہ روایات میں سبیعہ اسلمیہ کا دلچسپ واقعہ بھی ملتا ہے۔ یہ بدری صحابی، سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں جن کا حجۃ الوداع میں انتقال ہو گیا۔ اس وقت سبیعہ حاملہ تھیں، لیکن وفات کے پندرہ دن بعد ہی وضع حمل سے فارغ ہو گئیں اور اس کے بعد نکاح کی خواہش رکھنے والوں کے لیے بن سنور کر اپنے گھر میں بیٹھ گئیں (فتجملت للخُطّاب)۔ مختلف لوگ آتے اور آکر ان سے نکاح کے لیے بات چیت کرتے اور یہ گفتگو براہ راست ہوتی تھی۔ خواہش مندوں میں ایک، ابو السنابل بن بعکک بھی تھے جو ذرا ادھیڑ عمر تھے۔ تاہم سبیعہ کا میلان ایک دوسرے خواہش مند ابو البشر ابن الحارث العبدری کی طرف ہو گیا جو جوان تھے۔ اس وقت سبیعہ کے اہل خاندان وہاں موجود نہیں تھے۔ چنانچہ ابو السنابل نے یہ اندازہ کرتے ہوئے کہ وہ سبیعہ کے خاندان والوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور اگر ان کے آنے تک انتظار کیا جائے تو سبیعہ کو اپنے حق میں راضی کیا جا سکتا ہے، سبیعہ سے کہا کہ تم اس وقت نکاح نہیں کر سکتیں۔ تمھیں چار ماہ دس دن کی عدت پوری کرنی ہوگی۔ سبیعہ یہ سن کر سیدھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلی گئیں اور صورت حال بتائی۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، بچہ جننے کے بعد تمھاری عدت پوری ہو چکی ہے۔ اب تم جس سے چاہو، نکاح کر سکتی ہو۔ (یہ تفصیلات موطا امام مالک اور صحیح بخاری کی روایات میں بیان ہوئی ہیں)۔
اس واقعے میں دو تین باتیں بہت اہم اور قابل توجہ ہیں:
ایک یہ کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل آخری ایام (حجۃ الوداع کے بعد) کا واقعہ ہے۔ گویا اس میں اس طرح کی کوئی تاویل نہیں کی جا سکتی کہ اس وقت ابھی پردے کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔
دوسرا یہ کہ سبیعہ نے باقاعدہ زیب وزینت کے ساتھ نکاح کے خواہش مندوں کو ملنے اور بات چیت کا موقع دیا اور یوں یہ واضح کیا کہ اگر اپنی پسند کے رفیق حیات کا انتخاب مرد کی طرح عورت کا بھی حق ہے تو اس کا موقع اسے بھی میسر ہونا چاہیے کہ وہ نکاح کے ممکنہ خواہش مندوں کو اپنی طرف راغب (woo)کر سکے۔
تیسرا یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ساری صورت حال پر نہ صرف یہ کہ کوئی اعتراض نہیں کیا، بلکہ سبیعہ کو اس کا بھی پابند نہیں کیا کہ وہ اپنے اہل خاندان کی مرضی کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی یا یہ کہ ان کا انتظار کر لینا مناسب ہے۔ آپ نے اسے فیصلہ کرنے اور اس کے مطابق نکاح کی فوری اجازت دے دی۔ ویسے بھی آپ نے اس ضمن میں جو عمومی ہدایت بیان فرمائی، وہ یہی تھی کہ کنواری لڑکی کا سرپرست اس کی رضامندی سے اس کا نکاح کرے، جبکہ مطلقہ یا بیوہ اپنے معاملے میں بالکل خود مختار ہے۔ (الثیب احق بنفسھا من ولیھا والبکر تستامر فی نفسھا)۔
اس واقعے سے عبد نبوی میں خواتین کے سماجی حقوق اور آزادیوں کی جو شکل سامنے آتی ہے، ظاہر ہے کہ وہ پردے کے ایسے ماحول میں ممکن نہیں جس میں مردوں اور عورتوں کے مابین مکمل معاشرتی علیحدگی ہو اور صنفین کو ایک دوسرے کو دیکھنے تک کی اجازت نہ ہو۔
اس میں شبہ نہیں کہ خواتین، حیا کے فطری احساس کے تحت نیز مردوں کی غلط نگاہوں سے بچنے کے لیے ازروئے احتیاط اپنے چہرے کو چھپا کر رکھنا چاہیں تو شریعت اس جذبے کو یقیناًپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے، خاص طور پر جب کہ کسی جگہ ماحول میں خرابی اور بگاڑ کا عنصر نمایاں ہو اور خواتین اپنے تحفظ کے پہلو سے ایسا کرنے کو مناسب محسوس کریں۔ تاہم شریعت نے چونکہ ایسی کوئی لازمی پابندی خواتین پر عائد نہیں کی، اس لیے ایسا کرتے ہوئے توازن اور اعتدال کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور خاص طور پر گھر کے داخلی ماحول میں اس حوالے سے ایسا بے لچک رویہ نہیں اپنانا چاہیے جو خود خواتین کے لیے یا دیگر متعلقین کے لیے بے جا زحمت کا باعث بن جائے۔ چنانچہ عہد رسالت اور عہد صحابہ میں لونڈیاں مسلم معاشرت کا ایک اہم حصہ تھیں اور گھریلو کام کاج انجام دینے کے علاوہ، وہ بازار کی ضروریات اور پیغام رسانی کے فرائض بھی انجام دیا کرتی تھیں۔ مردوں کے ساتھ اختلاط کی عام ضرورت کے تحت ان کے لیے لباس کی وہ پابندیاں لازم نہیں کی گئیں جو شریعت میں آزاد خواتین کے لیے بیان کی گئی ہیں، کیونکہ ایسا کرنا صریحاً حرج اور مشقت کا باعث ہوتا۔
ستر وحجاب کی بحث میں ایک اور پہلو بھی بطور خاص توجہ کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ یہ کہ شریعت نے خواتین کی جسمانی ساخت اور خلقی صلاحیتوں کی رعایت سے انھیں اکتساب مال اور اس طرح کی دوسری ذمہ داریوں سے مستثنیٰ کرتے ہوئے ان کی کفالت اور حفاظت کا فریضہ خاندان کے مردوں پر عائد کیا ہے۔ تاہم گھر کے ماحول سے باہر نکل کر سماجی سرگرمیوں میں شرکت یا مردوں کے ساتھ معاشرتی میل جول کے حوالے سے کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کی جس کے نتیجے میں معاشرتی سطح پر ان کی انفرادی شناخت ہی باقی نہ رہے اور وہ اپنے سماجی کردار کی انجام دہی یا معاشرتی حقوق کے حصول کے لیے سر تا سر اپنے گھر کے مردوں کی محتاج بن جائیں۔
پردے سے متعلق اسلامی شریعت کے زاویہ نظر کو ہمارے نزدیک اس پہلو سے سمجھنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ کسی فرد یا طبقے کے سماجی کردار یا معاشرتی حقوق کے معاملے میں سب سے بنیادی سوال یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں اس کی شناخت کیا ہے اور اسے دوسرے طبقوں کے ساتھ میل جول اور اختلاط کے مواقع اور کسی حق تلفی کی صورت میں اپنی آواز ذمہ دار افراد یا طبقات تک پہنچانے کی سہولت کتنی میسر ہے۔ اگر کوئی طبقہ کلی طور پر کسی دوسرے طبقے پر انحصار کر رہا ہو، حتیٰ کہ اس کے افراد اپنی انفرادی شناخت بھی معاشرے میں ظاہر نہ کر سکتے ہوں تو بدیہی طور پر اس کے لیے کوئی فعال معاشرتی کردار ادا کرنے یا زیادتی اور حق تلفی کی صورت میں داد رسی کے مواقع اور امکانات بہت محدود ہو جاتے ہیں اور کتابی طور پر اس کے حق میں جتنی بھی باتیں کر لی جائیں، عملاً اس پہلو کا رو بہ عمل ہونا خارج از امکان رہتا ہے۔
دینی مدارس کا نصاب ونظام۔ قومی پالیسی وضع کرنے کی ضرورت
دینی تعلیم کے نصاب میں اصلاح کی بات کم وبیش ڈیڑھ صدی سے ہمارے ہاں چل رہی ہے اور کم سے کم اصولی طور پر نصاب میں تبدیلی کے مسئلے پر ارباب مدارس نے جمود کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مثال کے طور پر وفاق المدارس العربیہ کا موجودہ نصاب اپنی تفصیلات اور ترجیحات کے لحاظ سے ستر اسی فی صد تک درس نظامی کے اصل نصاب سے مختلف ہو چکا ہے، اور اب اسے محض ایک تاریخی نسبت سے ہی ’’درس نظامی‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اصلاحات کی گنجائش آج بھی اتنی ہی محسوس ہوتی ہے جتنی پہلے دن تھی۔ اس کی بنیادی وجہ اصل میں نصاب کے اہداف ومقاصد کی تعیین میں زاویہ نظر کا اختلاف ہے۔ ہمارے نزدیک اس ضمن میں بنیادی نکتہ اس امر کو متعین کرنا ہے کہ آج کی علمی وتعلیمی ضروریات کے تناظر میں ہمارے معاشرے کو کس طرح کے دینی علما اور اسکالرز کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہماری رائے میں نصاب میں نہ صرف مسلمانوں کی مجموعی علمی روایت اور اس کی نمایاں شاخوں کا غیر جانب دارانہ تعارفی مطالعہ شامل ہونا چاہیے، بلکہ ایسے عصری علوم اور مباحث سے بھی علماکو واقفیت ہونی چاہییے جو دور جدید کے غالب نظریہ حیات کو سمجھنے اور اس کے تناظر میں اسلام کا زاویہ نظر واضح کرنے کے لیے ضروری ہیں۔
اس کے برعکس ارباب مدارس کا بنیادی مطمح نظر اپنے بزرگوں اور اکابر کی قائم کردہ تعلیمی روایت کو لے کر آگے چلنا ہے جس کے بنیادی ڈھانچے اور مزاج میں کوئی تبدیلی ان کے لیے قابل قبول نہیں اور جزوی وفروعی تبدیلیاں بھی حد درجہ ہچکچکاہٹ اور تردد کے بعد بامر مجبوری قبول کی جا رہی ہیں۔ گویا داخلی طور پر نصاب کے اہداف کو ازسر نو متعین کرنے اور پھر اجتہادی زاویہ نظر سے نصاب کی تشکیل کا داعیہ ارباب مدارس میں نہیں پایا جاتا جس کی وجہ سے اس ضمن میں کی جانے والی اچھی سے اچھی کوششیں اور تجاویز سرد خانے میں ہی پڑی رہتی ہیں۔
چنانچہ مدارس کے نظام ونصاب میں اصلاح کے خواہش مند حلقوں کو یہ پہلو بہرحال مد نظر رکھنا چاہیے کہ یہاں نقطہ نظر کا ایک جوہری اختلاف موجود ہے جس کے ہوتے ہوئے اس سمت میں کوئی حقیقی پیش رفت ممکن نہیں۔ اس لیے اصلاحی مساعی کو اس نکتے پر زیادہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ مدارس کے ماحول میں فکری طور پر وہ تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جس کی روشنی میں نصاب ونظام میں مطلوبہ اصلاحات کے لیے آمادگی پیدا ہو سکے۔ اس کے لیے موجودہ تناظر میں بنیادی ضرورت مذہبی فکر اور نفسیات کو موضوع بنانے کی ہے، جبکہ نصاب پر گفتگو کی اہمیت ثانوی ہے، کیونکہ نصاب، سوچ کو نہیں پیدا کر رہا، بلکہ سوچ نصاب اور اس کی ترجیحات کو متعین کر رہی ہے۔
اس ضمن میں ریاست کی دلچسپی کا محوری نکتہ اب تک یہ رہا ہے کہ مدارس کے نظام کے ساتھ فرقہ واریت یا مذہبی انتہا پسندی جیسے جو مسائل وابستہ ہیں، ان سے انتظامی سطح پر کیسے نمٹا جائے۔ جہاں تک مدرسے کے مجموعی کردار اور اس میں مطلوب اصلاحات کا تعلق ہے تو ارباب حکومت کو ابھی تک اس سے کوئی خاص دلچسپی پیدا نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک وفاقوں کے ساتھ رابطے اور اصلاح نصاب کے ضمن میں مذاکرات وغیرہ کا فریضہ عموماً وزارت داخلہ کے ذمہ داران ہی انجام دیتے ہیں۔ وزارت تعلیم نے کبھی اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔یہ ایک المیہ ہے اور جب تک حکومتیں اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ اپنی ذمہ داری کے طور پر قبول نہیں کرتیں، وہ اس حوالے سے کوئی مفید کردار ادا نہیں کر سکتیں۔
اگر ریاست واقعتا مدرسے کے معیار اور کردار کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے تو دینی تعلیم کے مسئلے پر قومی سطح پر ایک جامع اور سنجیدہ بحث ومباحثہ کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بحث ومباحثہ کی روشنی میں ایک جامع قومی پالیسی وضع کی جائے اور تیسرے مرحلے پر اس پالیسی کو رو بہ عمل کرنے کے لیے جامع قانون سازی کی جائے۔ اس حوالے سے وقتاً فوقتاً محض نیم دلی سے کی جانے والی حکومتی کوششیں معاملے کو درست سمت میں آگے بڑھانے اور مطلوب اصلاحات کو رو بہ عمل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔