حدیث کے ردو قبل کے اصول مخصوص نہیں ، بلکہ خیر القرون میں علمائے امت نے اپنے فہم اور علم کی روشنی میں انہیں منضبط کیا ہے۔ چنانچہ انسانی کاوش ہونے کے ناطے بعض اصولوں پر اختلاف رائے بھی پیدا ہوا۔ اس اختلاف رائے کے اولیں مظاہر حجازی و عراقی مکاتب فکر کی شکل میں وقوع پذیر ہوئے جبکہ آگے چل کر اس اختلاف کی خلیج نے محدثین اور فقہا کے دو مستقل اور ایک دوسرے کے حریف گروہوں یا طبقوں کی شکل اختیار کر لی۔ اس اختلاف کے یوں تو کئی علمی ، سیاسی اور معروضی اسباب تھے مگر ایک بڑا علمی سبب، میرے ناقص مطالعہ کے مطابق ، وہ اصول تھے جو حدیث کے ردو قبول اور اس کے معنی و مفہوم کی تعیین سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کی تفصیل امام ابو یوسف اور امام محمد کی کتابوں بالخصوص امام محمد کی کتاب الحجۃ علی اھل المدینتہ اور امام شافعی کی کتاب الام میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
مذکورہ بالا علمی معرکہ آرائیوں میں محدثین کا مد مقابل فریق اگرچہ فقہا کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے، مگر بنیادی طور پر فقہا کے فریق میں حنفی فقہاہی زیادہ تر زیر بحث رہے ہیں اس لیے کہ حنفی فقہاء نے حدیث بالخصوص خبر واحد کے رد و قبول کے بعض اصولوں ( جنہیں اردو اصطلاح میں’’ درایتی اصول ‘‘ بھی کہا جانے لگا ہے) پر بھر پور تنقید کی اور بہت سے اہل علم بالخصوص محدثین آپ کی تنقید سے متاثر ہوئے اور انہوں نے ایسی بہت سے اخبار آحاد کو مستند تسلیم کر کے اپنے مجموعہ ہائے حدیث میں درج کیا جو حنفی فقہاء کے اصولوں کی روشنی میں غیر مستند قرار پاتی تھیں، بلکہ ایسا کرتے ہوئے محدثین کا حنفی فقہا کے خلاف رد عمل یا منفی تاثر بعض مواقع پر خاصا شدید ہو جاتا ہے ، مثلاً محدث ابن ابی شیبہ جو امام بخاری و امام مسلم وغیرہ جیسے محدثین کے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں، نے اپنے حدیث کی جامع کتاب ’’ المصنف‘‘ میں امام ابو حنیفہ کے رد میں ایک باب قائم کیا جس کا عنوان ہے:
ھذا ما خالف بہ ابو حنیفہ الاثر الذی جاء عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
’’ ابو حنیفہؒ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی جس جس اثر(حدیث) کی مخالفت کی ہے یہ باب اسی بارے میں ہے‘‘۔
اس باب کے تحت انہوں نے تقریباً سوا سو ایسے مسائل کی نشاندہی کی ہے جن میں ان کے بقول امام صاحب کی رائے حدیث کے خلاف ہے۔
زیر نظر کتاب’’ بنیادی طور پر دوسری صدی ہجری کے عظیم محدث حضرت امام ابن ابی شیبہؒ کی طرف سے ان کی معرکۃ الآرا تصنیف مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ پر اس حوالے سے کیے جانے والے اعتراضات کا نا قدانہ جائزہ ہے‘‘ (ص12 )تاہم مصنف کے بقول اس کتاب میں مذکورہ بالا موضوع کے علاوہ ان کی بعض وہ تحریریں بھی نظر ثانی کے بعد شامل اشاعت ہیں جو ماہنامہ الشریعہ، اشراق اور معارف وغیرہ میں’’ احادیث و آثار کے حوالے سے ائمہ احناف کا زاویہ نظر اور اصولی موقف کی وضاحت‘‘(ص 17)کے سلسلے میں شائع ہوئی ہیں۔
زیر نظر کتاب درج ذیل تین ابواب پر مشتمل ہے:
باب 1۔ حنفی منہج اجتہاد میں احادیث و آثار کی اہمیت
باب 2۔ احادیث کی تحقیق اور ردو قبول کے معیارات
باب3۔ حدیث کی تعبیر و تشریح کے اصول
کتاب کا پیش لفظ(ص 13-7 )جناب مصنف کے والد محترم مولانا زاہدالراشدی صاحب کا تحریر کردہ ہے جس میں انہوں نے مصنف کے کام کی تائید کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے، جب کہ کتاب کے آخر میں اہم علمی اصطلاحات (ص 253-251)اور مصادر و مراجع (ص 264-254)کی فہرستیں بھی شامل اشاعت ہیں۔
زیر نظر کتاب، جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے، بنیادی طور پر حنفی فقہا کے حدیث کے سلسلہ میں اختیار کیے جانے والے مخصوص علمی اسلوب پر ہونے والے نقد کے دفاع اور حنفی مکتب فکر کے بارے میں اس سلسلہ میں مشہور ہوجانے والی بعض غلط فہمیوں کی وضاحت پر مشتمل ہے۔ اس لحاظ سے یہ کتاب ایک ایسی بحث کا تسلسل ہے جو فقہ حنفی کے آغاز سے آج تک جاری ہے ، اور بالخصوص بر صغیر پاک و ہند میں تو خدا جانے یہ بحث کب اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی۔ ماضی میں علامہ ابن تیمیہ جیسے عبقری بھی اس بحث کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینے میں ناکام رہے ہیں!
زیر نظر کتاب میں مصنف نے حنفی فقہ کی وکالت بہت اچھے طریقے سے انجام دی ہے، تاہم اس سلسلہ میں کچھ چیزیں مزید غور و فکر کی متقاضی ہیں۔
پاک و ہند میں زیر بحث مسئلے میں حنفی مکتب فکر کا مد مقابل حریف عموماً غیر مقلد طبقہ رہا ہے جس میں اہل حدیث سب سے نمایاں ہیں اور انہی کے اعتراضات ، خواہ وہ تحریری شکل میں ہوں یا تقریری، سے ماحول میں جو تناؤ پیدا ہوا، اسے زائل کرنے کے لیے بالعموم اس نوعیت کی کتابیں حنفی مکتب فکر کی طرف سے وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں۔زیر نظر کتاب اس اعتبار سے اسی کا تسلسل ہے جیسا کہ کتاب کے دیباچہ اور پیش لفظ میں خود مصنف اور ان کے والد محترم نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔ تاہم کتاب کے مطالعہ کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں، اور ہو سکتا ہے کہ میری رائے غلط ہو ، کہ اس کتاب میں دیے گئے نتائج تحقیق سے حنفی مکتب فکر تو خوش ہوگا مگر مد مقابل فریق ، جو اس کاوش کا غالباً اصل مخاطب ہے یا ہونا چاہیے، بالکل متاثر نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مخاطب فریق کی طرف سے جو اصولی نوعیت کے اعتراضات حدیث کے ردو قبول اور فہم حدیث کے سلسلہ میں فقہ حنفی پر کیے جاتے ہیں، انہیں صحیح معنوں میں بحث کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
مثال کے طور پر زیر تبصرہ کتاب کے پہلے باب’’ حنفی منہج اجتہاد میں احادیث وآثار کی اہمیت‘‘ میں مختلف ذیلی عنوانات قائم کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ فقہ حنفی میں حدیث کو اتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے کہ ضعیف حدیث ، خواہ وہ مرسل ہو یا اس میں کوئی راوی مجہول ہو یا وجہ ضعف کچھ اور ہو، کو بھی قبل کیا جاتا ہے بلکہ قیاس و رائے پر بھی فوقیت دی جاتی ہے، اس طرح آثار صحابہ کی بھی یہی اہمیت بیان کی گئی ہے۔(دیکھیے،ص33تا99)۔ لیکن مخاطب فریق کا موقف یا اعتراض حنفی مکتب فکر پر یہ ہے کہ جہاں اپنے حنفی فقہا کی فقہی رائے بچانی ہو، وہاں اس رائے کی تائید میں موجود ضعیف حدیث بھی یقیناًقبول کر لی جاتی ہے اور جہاں حدیث واضح طور پر فقہ حنفی کے خلاف ہوتی ہے، وہاں اسے قبول نہیں کیا جاتا، خواہ وہ کتنی ہی مستند ہو اور اسے بخاری و مسلم جیسی مستند کتب حدیث میں کیوں نہ روایت کیا گیا ہو!
یہ اعتراض یا موقف اہل حدیث مکتب فکر میں بہت عام ہے اور ضروری ہے کہ اس حوالے سے فقہ حنفی سے انطباقی مثالوں کے ساتھ بھر پور علمی اور غیر جانبدارانہ تجزیہ پیش کیا جاتا۔ اور میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اس بحث میں ابن حزم کی آرا کو ضرور زیر بحث لایا جائے جس کے بعض حوالہ جات مصنف نے زیر نظر کتاب میں مختلف مقامات پر اپنی تائید میں پیش کیے ہیں، حالانکہ علامہ ابن حزم جتنا حنفی مکتب فکر کے خلاف شدید تھے، اتنا کوئی اور عالم شاید ہی رہا ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ ابن حزم کو اہل حدیث مکتب فکر میں خاص قبولیت حاصل ہے۔اسی طرح مصنف لکھتے ہیں،’’ احناف کے ہاں روایات کی جانچ پرکھ اور تحقیق کا ایک خصوصی معیار ہے جو بعض اہم پہلوؤں سے محدثین کے اختیار کردہ منہج سے مختلف ہے اور اس کے زیر اثر بہت سی روایات کے ردو قبول کے ضمن میں بھی احناف کا موقف محدثین کے موقف سے مختلف ہو جاتا ہے‘‘۔(ص105)
اگرچہ مصنف نے مذکورہ مخصوص معیار کی حنفی کتب فقہ سے مثالوں کے ساتھ تفصیلات فراہم کی ہیں، مگر یہاں بھی فریق مخاطب مخالف کے نقطہ نظر کو سمجھ کو موضوع بحث بنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ فریق مخالف کی رائے یہاں یہ ہے کہ حدیث کے ردوقبول کا یہ مخصوص معیار اختراعی یا الحاقی نوعیت کا ہے، یعنی ان کی رائے میں موسسین فقہ حنفی اس مخصوص معیار کے بانی خود نہیں، بلکہ متاخرین حنفی اصولیوں نے فقہ حنفی کو حدیث کی مخالفت کے الزام سے بچانے کے لیے اس ضمن میں مختلف اصول اور معیارات قائم کر کے انہیں اپنے ائمہ موسسین کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ اس کی تائید میں شاہ وہلی اللہ مرحوم کی بعض تحریروں کو بھی بطور سند پیش کیا جاتا ہے۔ اس مخصوص معیار کو قبول یا رد کرنا تو ایک الگ علمی بحث رہی ہے اور رہے گی ، مگر یہ کہنا کہ یہ مخصوص معیار الحاقی ہے، اس بارے میں زیر نظر کتاب کا مطالعہ کئی جہتوں سے تشنگی کا احساس پیدا کرتا ہے۔
اسی ضمن میں مصنف نے لکھا ہے کہ’’ اخبار آحاد کی تحقیق اور جانچ پرکھ کا معاملہ سر تا سر ایک اجتہادی معاملہ تھا اور محدثین اور فقہا کے مختلف گروہوں نے اپنے اپنے اجتہادی ذوق کے تحت ہی روایات کی تحقیق کے لیے مختلف معیارات وضع کیے۔‘‘ (ص108) مجھے ذاتی طور پر اس رائے سے اختلاف نہیں، لیکن چونکہ بہت سے اہل حدیث علما کی رائے اس باب میں مختلف ہے، اس لیے اگر مصنف اس موضوع پر تفصیل سے اظہار خیال کرتے تو شاید قارئین کے لیے اس موقف پر مزید غور و فکر کا سامان میسر آتا۔
میں اس بات پر فاضل مصنف کو مبارکباد پیش کروں گا کہ انہوں نے یہ کتاب لکھ کر فقہ حنفی کی نمائندگی، یا دوسرے لفظوں میں، فقہ حنفی پر حدیث کے حوالے سے پائے جانے والے شبہات کا ازالہ کی کوشش خوب عمدگی سے کی ہے، قطع نظر اس سے کہ فریق مخالف اس سے متاثر یا مستفید ہوتا ہے یا نہیں، تاہم جاوید احمد غامدی صاحب کے ساتھ مصنف کا جو سلسلہ تلمذ رہا ہے، کتاب کے بعض مندرجات مصنف پر جناب غامدی صاحب سے اثر پذیری کی غمازی بھی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کتاب مذکور کے صفحات 106 یا 107 پر ’’ دائرہ اختلاف کی تعیین‘‘ کے عنوان کے تحت مصنف نے جو کچھ لکھا ہے ،غامدی صاحب کے تصورِ حدیث،تصورِ سنت،تصورِ اُسوہ سے واقفیت رکھنے والے اہل علم اس کی بو یہاں محسوس کر سکتے ہیں، تاہم کتاب کے موضوع کے اندر رہتے ہوئے مصنف نے یہاں کھل کر کوئی بات نہیں کی جو جناب غامدی صاحب کی فکر کی عکاسی کرتی ہو، اس لیے شک کے فائدے کی گنجائش بہرحال انہیں حاصل ہے، مگر درج ذیل عبارت کی کیا توجیہ کی جائے ، میرے فہم سے بالا ہے۔
مصنف لکھتے ہیں، ’’کتاب اللہ اور سنت متواترہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث دین کا تیسرا بنیادی ماخذ ہیں جنہیں فکر و تدبر کا موضوع بنانا دین کے مکمل اور جامع فہم کے لیے ایک لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ (ص 167)
کیا حنفی فقہ اور اصول فقہ کی کتابوں میں قرآن، سنت اور حدیث کی شکل میں شریعت کے تین بنیادی مصادر الگ الگ حیثیت میں بیان کیے گئے ہیں، یا اس کی تہہ میں کہیں فکر غامدی کے اثرات کار فرما ہیں؟ اس سوال کا جواب میں مصنف اور اپنے حنفی دوستوں پر چھوڑتا ہوں!
(بشکریہ ماہنامہ ’’البرہان‘‘ لاہور)