قاری ملک عبد الواحد کی رحلت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شیرانوالہ لاہور کی مجالس میں شریک ہونے والے حضرات کو قاری ملک عبد الواحد ضرور یاد ہوں گے جو ایک دور میں ان محفلوں کا لازمی حصہ اور رونق ہوا کرتے تھے، ان کا گزشتہ روز انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میں ابھی قبرستان کلاں میں ان کا جنازہ پڑھا کر آیا ہوں اور آتے ہی قلم و قرطاس نے ماضی کی بہت سی یادوں کی طرف متوجہ کر دیا ہے۔ وہ گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے، میرے حفظ قرآن کریم کے دور کے ساتھیوں میں سے تھے، میں نے چند پارے مدرسہ نصرۃ العلوم میں 1958ء اور 1959ء کے دوران استاذ محترم قاری محمد یاسینؒ صاحب سے پڑھے تھے، اس وقت ملک صاحب مرحوم بھی ان کے پاس پڑھتے تھے، تب سے ان کے ساتھ تعلق قائم ہوا جو کہ ان کی وفات تک کم و بیش پچپن برس تک مسلسل جاری رہا۔ 

حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ ، حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ ، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ، اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے ساتھ ان کی گہری عقیدت اور وابستگی تھی۔ اور وہ سفر و حضر میں ان کی رفاقت سے اکثر فیض یاب ہوتے رہتے تھے۔ شیرانوالہ لاہور کی روحانی، مسلکی اور سیاسی ہر قسم کی مجالس کے حاضر باش رکن تھے۔ قرآن کریم کی تلاوت کا خاص ذوق رکھتے تھے اور عالم اسلام کے معروف قاری الشیخ عبد الباسط عبد الصمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے لہجے میں قرآن کریم پڑھتے تو عجیب سماں باندھ دیتے تھے۔ اپنے بزرگوں کی گفتگو کی نقل اتارنے میں خوب مہارت رکھتے تھے۔ حضرت درخواستیؒ ، حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، صاحبزادہ سید فیض الحسنؒ ، اور مولانا عبد الرحمن جامیؒ کی تقریروں کے حافظ تھے اور دوستوں کی فرمائش پر انہی کے لہجے میں سنایا کرتے تھے۔ وہ اگر سامنے موجود نہ ہوتے تو اچھے خاصے سمجھدار حضرات بھی مغالطہ میں پڑ جاتے تھے، ہم انہیں اس حوالہ سے ’’ٹیپ ریکارڈر‘‘ کہا کرتے تھے اور خاص محافل میں فرمائش کر کے ان سے ایسی تقاریر سنا کرتے تھے۔ 

درس نظامی کی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی مگر جامعہ نصرۃ العلوم کے دورۂ تفسیر اور دورۂ حدیث دونوں میں شریک ہوئے اور والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے انہیں سند فراغت سے بھی نوازا تھا۔ بڑے حاضر جواب اور نکتہ رس تھے، مباحثوں میں بڑے بڑوں کو لاجواب کر دیتے تھے۔ شیرانوالہ لاہور اور حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے ساتھ انتہائی عقیدت تھی جو کہ ان کے مرشد و شیخ بھی تھے۔ 1977ء کی تحریک نظام مصطفٰیؐ کے دوران حضرت الشیخ مولانا عبید اللہ انورؒ کو گرفتار کیا گیا تو ملک صاحب مرحوم نے از خود اپنے شیخ کی خدمت کے جذبہ کے ساتھ گرفتاری دے دی اور کچھ عرصہ ان کے ساتھ جیل میں رہے جس کی یادوں کا وہ تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ 

جمعہ کی نماز اکثر جامع مسجد شیرانوالہ گوجرانوالہ میں پڑھتے اور نماز کے بعد مختصر مجلس بھی ہوتی تھی۔ آخری چند سالوں میں خاصا عرصہ بیمار رہے مگر جب بھی ہمت ہوتی جمعہ کے لیے آجاتے۔ چھوٹی سول لائن گوجرانوالہ میں ان کی رہائش تھی۔ چند روز پہلے مجھے معلوم ہوا کہ ان کی طبیعت زیادہ خراب ہے تو بیمار پرسی کے لیے ان کے گھر گیا، وہ موجود نہیں تھے اور اپنے معالج ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے ہوئے تھے۔ اگلے روز میڈیکل چیک اپ کے لیے لاہور جاتے ہوئے کنگنی والا میں میری رہائش پر آگئے اور دروازے پر گاڑی رکوا کر مجھے کہا کہ آپ گھر آئے تھے لیکن میں موجود نہیں تھا اس لیے آج لاہور جاتے ہوئے صرف ملاقات کے لیے رکا ہوں۔ میں چاہتا تھا کہ انہیں کچھ دیر گھر میں روکوں مگر وہ علالت کی شدت کے باعث اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ گاڑی سے اتار کر انہیں اندر لایا جا سکتا اس لیے وہیں دعا کر کے انہیں لاہور کے لیے رخصت کیا مگر وہ تو ہمیشہ کے لیے رخصت ہونے آئے تھے کہ اس کے بعد ان سے ملاقات نہ ہو سکی اور وہ 16 اگست کو ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ 

آج ان کے جنازے میں شہر کے علماء کرام کی بڑی تعداد کو دیکھ کر ان کے حلقۂ احباب کی وسعت و برکت کا اندازہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند فرمائیں اور ان کے بیٹوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دیں، آمین۔ 

اخبار و آثار

(ستمبر ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter