مولانا عمار خان ناصر کے سفر امریکا کے تاثرات

ادارہ

۱۴ اگست کو ہی بعد از نماز عصر اکادمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر مولانا عمار خان ناصر نے اپنے حالیہ سفر امریکہ کے تاثرات بیان کیے۔ مولانا عمار خان ناصر نے ڈریو یونیورسٹی (نیو جرسی، امریکہ) میں قائم سنٹر فار ریلیجن، کلچر اور کانفلکٹ ریزولوشن (CRCC) کی دعوت پر ۱۰ تا ۲۸ جولائی، تین ہفتے کے ایک سمر انسٹی ٹیوٹ میں شرکت کی جس کا عنوان ’’مذہب اور حل تنازعات‘ ‘ تھا۔ مولانا عمار خان ناصر کے تاثرات کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

آج کی دنیا میں مذہب کے مطالعہ کا ایک بڑا نمایاں زاویہ یہ ہے کہ جس معاشرے میں بھی ایک سے زیادہ مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں اور ان کے درمیان تنازعات پائے جاتے ہیں، ان کے حل میں مذہبی قائدین کا کردار کیا ہو سکتا ہے۔ اس وقت دنیا میں، اور عموماً تاریخ میں بھی، جہاں مذہب پر مبنی تنازعات نظر آتے ہیں، وہاں مذہب part of the problem نظر آتا ہے، یعنی مذہب ان جھگڑوں کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا کردار ادا کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو اسے کیسے part of the solution بنایا جائے۔ ہر مذہب ایثار ، قربانی، انصاف پسندی اور انسانی ہمدردی کی تعلیم دیتا ہے ، ان تعلیمات سے تنازعات کے حل میں کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ 

ڈریو یونیورسٹی میں قائم اس مرکز کی سرگرمیوں کا خاص میدان بھی یہی ہے کہ معاشرے میں موجود تنازعات کے حل میں مذہب اور مذہبی قائدین کا کیا کردار ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے سنٹر کے منتظمین ورکشاپس اور کانفرنسز منعقد کرتے رہتے ہیں۔ جس ورکشاپ میں مجھے شرکت کی دعوت دی گئی، اس میں دنیا کے چھ ممالک (پاکستان، نائیجیریا، مصر، انڈونیشیا، فلسطین اور اسرائیل )سے تینوں ابراہیمی مذاہب سے تعلق رکھنے والے پینتیس کے قریب افراد شریک تھے۔ یہ وہ ممالک ہیں جن میں کسی نہ کسی حوالے سے مذہبی تنازعات یا مذہبی کشیدگی کا مسئلہ موجود ہے۔ شاید اسی حوالے سے ان کا انتخاب کیا گیا۔ نائیجیریا میں مسلم مسیحی تصادم کی صورت حال پچھلے کئی سالوں سے درپیش ہے۔ پاکستان میں بھی مذہبی تشدد اور مذہب پر مبنی تنازعات موجود ہیں ۔ انڈونیشیا میں مسلمان معمولی اکثریت میں ہیں، جبکہ بہت بڑی تعداد دیگر مذاہب سے وابستہ ہے، اس لیے وہاں بھی تنازعات موجود ہیں۔ مصر میں بھی صورتحال ایسی ہی ہے اور فلسطین اور اسرائیل کے بارے میں تو سب جانتے ہی ہیں۔ 

سمر انسٹی ٹیوٹ میں پاکستان سے سات لوگ مدعو تھے۔ ادارہ برائے امن وتعلیم، اسلام آباد سے وابستہ تین حضرات، ڈاکٹر محمد حسین، محمد رشید اور غلام مرتضیٰ شریک ہوئے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے مسیحی مذہبی راہ نما فادر ارنسٹ ندیم بھی ہمارے ساتھ تھے، جبکہ لمز یونیورسٹی کی دو طالبات مناہل مہدی اور فاطمہ خالد بھی اس ورک شاپ میں شریک تھیں۔ اسی طرح باقی ممالک سے بھی اوسطاً چھ چھ، سات سات افراد کو دعوت دی گئی تھی۔ 

سمر انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں کی ترتیب یہ تھی کہ پہلے سے طے شدہ موضوعات پر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو مدعو کیا جاتا تھا جو متعلقہ عنوان پر لیکچر دیتے تھے۔ اس پر سوال وجواب کا سلسلہ ہوتا تھا اور پھر شرکاء کو مختلف گروپس میں تقسیم کر دیا جاتا تھا تاکہ وہ آپس میں اس موضوع پر تبادلہ خیال کریں۔ 

جن موضوعات پر گفتگو ہوئی، ان میں تینوں مذاہب کا تعارف، ان کے بنیادی عقائد، مختصر تاریخ، ہر مذہب کے مقدس صحائف اور مذہبی مآخذ کا تعارف، ان کی درجہ بندی اور ان کے مطالعہ کے بنیادی اصول وغیرہ شامل تھے۔ ہر مذہب میں کچھ نہ کچھ داخلی تقسیم ہوتی ہے ۔ کچھ بنیادی چیزوں پر متفق ہوتے ہوئے بھی بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان تقسیمات کا مختصر تعارف بھی عنوانات میں شامل تھا۔ جیسے مسلمانوں میں شیعہ سنی کی تقسیم ہے، سلفی اور صوفی کی تقسیم ہے۔ اسی طرح کی تقسیم ہر مذہب میں موجود ہے۔ اس پہلو پر بھی بات ہوئی کہ ان تینوں مذاہب کو جدید دور میں کن سوالات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ مثلاً خواتین کی سرگرمیوں کا کیا دائرہ ہے، ان کے معاشرتی ومذہبی حقوق کیا ہیں، معاشرے میں ان کا کردار کیا ہے، مذہبی قیادت میں ان کا کس قدر حصہ ہے ، وغیرہ۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو تینوں مذاہب کو درپیش ہے۔ ہر مذہب سے وابستہ خواتین میں یہ سوچ پیدا ہوئی ہے کہ خواتین کو بھی مذہبی روایت کی تشکیل میں، مذہبی قیادت اور مذہب کی تعبیر و تشریح میں کردارادا کرنے کا موقع ملنا چاہیے جبکہ تینوں مذاہب میں روایتی موقف عموماً یہ ہے کہ مذہبی دعوت وتبلیغ کے حوالے سے متحرک معاشرتی کردار، مذہبی تحقیق اور مذہب کی تعبیر وتشریح، یہ مردوں کا شعبہ ہے۔ خواتین کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ گھروں میں رہیں اور بچوں کی پرورش کریں۔ اسی طرح ہر مذہب اخلاقیات اور کچھ عملی پابندیوں کی بات کرتا ہے۔ جدید دور میں ان مذہبی پابندیوں کے بارے میں بھی سوالات پیدا ہوئے ہیں کہ یہ پابندیاں کس نوعیت کی ہیں، ان کی پابندی ضروری ہے یا نہیں اور ان میں کس حد تک لچک پیدا کی جا سکتی ہے۔ جدیدیت کے تناظر میں تینوں مذاہب کو یہ اہم سوال بھی درپیش ہے۔ 

سمر انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں میں دوسری اہم چیز Scriptural Reasoning اور Textual Reasoning پر مبنی مطالعاتی نشستیں تھیں جن کا بنیادی مقصد اس بات کی تفہیم پیدا کرنا تھا کہ مختلف مذہبی اور ثقافتی پس منظر کیسے مذہبی متون کے مطالعہ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور مثلاً تورات، انجیل، قرآن یا احادیث کو پڑھتے ہوئے کیسے مختلف لوگ اپنے اپنے ذہنی تناظر میں ان متون کو سمجھتے ہیں۔ یہ اختلاف اور تنوع ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے مابین بھی ہو سکتا ہے اور اسی طرح مختلف مذاہب کے لوگ جب کسی دوسرے مذہب کی کتاب پڑھتے ہیں تو ان کے فہم میں اور خود اس مذہب کے پیروکاروں کے فہم اور تعبیر وتشریح میں بھی فرق واقع ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے Scriptural Reasoning اور Textual Reasoning پر مبنی مطالعاتی نشستوں کا اہتمام کیا گیا جن میں بائبل اور قرآن کے کے منتخب متون کو زیر مطالعہ لایا گیا۔ ایک گروپ میں شامل سب افراد اپنے اپنے ذہنی تناظر میں متعلقہ متن پر غور کر کے اپنے نتائج یا سوالات واشکالات کو باقی شرکاء کے سامنے رکھتے اور زیر بحث نکات پر باہم تبادلہ خیال کرتے تھے۔ اس ایکسرسائز کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مذہبی زاویہ نظر کے اختلاف کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے، خواہ وہ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے مابین ہو یا مختلف مذاہب کے مابین۔ یہ واضح ہوتا ہے کہ پڑھنے والے کا مذہبی پس منظر اور ذہنی تناظر کیسے مطالعہ متن پر اثر انداز ہوتا ہے اور بسا اوقات اس فرق سے کیسے، دوسرے مذاہب کے متعلق غلط فہمیاں اور غیر حقیقی تاثرات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ 

مثلاً قرآن کریم سے جو آیات منتخب کی گئیں، وہ بہت اہم تھیں ۔ ان میں سے بعض کا تعلق جہاد کے ساتھ اور بعض کا خواتین کے حقوق وفرائض کے ساتھ تھا۔ جب ایک یہودی یا مسیحی یہ متن پڑھے گا تو اپنے پس منظر کے اعتبار سے اس کا مفہوم اور معنویت طے کرے گا۔ اس طرح جب ہم مسلمان بائبل کو پڑھیں گے تو کسی بھی مسئلے پر اپنے پس منظر کے اعتبار سے رائے قائم کریں گے۔ لیکن اگر یہی متن ہم مل کر پڑھیں اور تبادلہ خیال کریں تو اس کا موقع ہوگا کہ میں اپنی مذہبی کتاب کا مدعا بہتر طریقے سے دوسروں کو سمجھا سکوں۔ چنانچہ ان نشستوں میں بھی ایسے مواقع پیدا ہوئے کہ مسلمانوں نے بائبل کا متن پڑھا اور ان کے ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہوئے اور انہوں نے اس کے بارے میں اپنا فہم پیش کیا، لیکن یہودی یا مسیحی رفقاء نے کہا کہ ہماری مذہبی روایت میں اسے اس طرح نہیں بلکہ اس طرح سمجھا جاتا ہے۔

تیسری چیز جو اس ورکشاپ کا موضوع تھی، وہ تھی حل تنازعات کی حکمت عملی، یعنی سوسائٹی میں تنازعات پیدا کیسے ہوتے ہیں، بڑھتے کیسے ہیں، ان میں پیچیدگیاں کیسے در آتی ہیں، وہ خون ریزی تک کیسے جا پہنچتے ہیں۔ تنازع کی مختلف شکلیں کیا ہوتی ہیں ، مختلف سطحیں کیا ہوتی ہیں ، کون سے تنازعات ایسے ہوتے ہیں جن کو ختم کیا جا سکتا ہے، اور کن کی شدت کم کی جا سکتی ہے ۔ بعض ابتدائی سطح کے ہوتے ہیں جن کو روکا جا سکتا ہے ، بعض اپنی انتہا تک پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہ ان کو حل کرنے کے لیے یا ان کی شدت کو کم کرنے کے لیے با اثر لوگ کیا کر سکتے ہیں، کون سے Tools استعمال کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر مذہبی قائدین حل تنازعات میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ گفتگو زیادہ تر نظری نوعیت کی رہی۔ میں نے اپنے تاثرات میں لکھا کہ اگر نظری مباحث کے بجائے کچھ عملی تجربات اور مثالیں سامنے لائی جاتیں تو بہتر ہوتا۔ کچھ عملی مثالیں پیش بھی کی گئیں، لیکن اکثر مباحث نظری نوعیت کی ہی رہے ۔ 

سمر انسٹی ٹیوٹ کے شرکاء کو تینوں مذاہب کی عبادت گاہوں کا دورہ کروانے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا تاکہ وہ ہر مذہب کے مخصوص طریقہ عبادت کا مشاہدہ کر سکیں۔ اس غرض کے لیے جمعے کا ایک دن مختص کیا گیا تھا۔ چنانچہ پہلے شرکاء کو یہودیوں کی ایک عبادت گاہ (سینی گاگ) میں لے جایا گیا۔ اس کے بعد ایک چرچ کا وزٹ کروایا گیا۔ تاہم ان دونوں جگہوں پر ہم عملاً عبادت ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکے، کیونکہ جمعہ کا دن تھا۔ پھر آخر میں سب شرکاء کو نیو یارک کے ایک اسلامک سنٹر میں لے جایا گیا جہاں جمعہ کا اجتماع تھا۔ ہم نے جمعہ ادا کیا اور غیر مسلم شرکاء ایک گیلری میں بیٹھ کر مشاہدہ کرتے رہے۔ یہ جمعہ کا ایک بڑا اجتماع تھا اور مسجد بھی بہت بڑی اور خوب صورت تھی۔ ہمارے ساتھ جو یہودی رفقاء آئے تھے، انہوں نے بتایا کہ انھیں اس منظر اور اس کی خوبصورتی اور عبادت کے خاص ماحول نے بہت متاثر کیا۔ ان میں سے بہت سے لوگ پہلی دفعہ مسجد میں گئے تھے اور پہلی مرتبہ مسلمانوں کو عبادت کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ 

سمر انسٹی ٹیوٹ کی رسمی نشستوں کے علاوہ شرکاء کو کھانے کی میز پر ، چائے پیتے ہوئے اور اسی طرح فارغ اوقات میں غیر رسمی سطح پر بھی آپس میں گھلنے ملنے اور تبادلہ خیال کرنے کے مواقع میسر تھے۔ ڈھائی تین ہفتے تک ایک ساتھ رہنے کا مقصد یہی تھا کہ لوگ بے تکلفی کے ماحول میں ایک دوسرے کو جانیں، شخصی تعلقات بنائیں اور اپنے اپنے ماحول اور کلچر سے دوسروں کو آگاہ کریں۔ یوں شرکاء کو بہت اچھے اور دوستانہ ماحول میں ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ خاص طور پر یہ کہ ہم اپنے نقطہ نظر اور زاویے سے کسی معاملے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو دوسرا اس معاملے کو کیسے دیکھتا ہے؟ 

مولانا عمار خان ناصر کے تاثرات کے بعد سوال وجواب کا سیشن بھی ہوا اور شرکا نے بہت مفید سوالات کے ذریعے سے تاثرات میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ۔ آخر میں اکادمی کے سابق ناظم مولانا حافظ محمد یوسف صاحب کی دعا پر تقریب کا اختتام ہوا۔

مشاہدات و تاثرات

(ستمبر ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter