’’مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار اور تنظیم فکرِ ولی اللہی کے نظریات کا تحقیقی جائزہ‘‘

مولانا سید متین احمد شاہ

2014ء میں مولانا عبیداللہ سندھی اور تنظیم فکر ولی اللہی کے حوالے سے ’’مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار اور تنظیم فکرِ ولی اللہی کا نظریات کا تحقیقی جائزہ‘‘ نامی کتاب شائع ہوئی جس کے مؤلف جناب مفتی محمد رضوان ہیں۔ یہ کتاب اصل میں مولانا سندھی کے بارے میں مختلف اہل علم کی ناقدانہ آرا اور تنظیم فکر ولی اللہی کے نظریات پر علما کے فتووں کا ایک تالیفی مجموعہ ہے۔اس کتاب کا حال ہی میں دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوا ہے جس کے تقریباً تمام مندرجات پہلے ایڈیشن والے ہیں، البتہ اس میں پہلے ایڈیشن پر ہونے والے بعض تبصرے شامل کیے گئے ہیں جن میں سب سے مبسوط تبصرہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے مؤقر جریدے نقطہ نظر (شمارہ 37، اکتوبر 2014ء۔ مارچ 2015ء )کا ہے۔ اس تبصرے میں مولانا کے فکری پس منظر کو بڑی جامعیت کے ساتھ عہد بہ عہد دیکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ کتاب کے بعض اندراجات کے بارے میں قارئین کے سوالات کے جوابات بھی نئی اشاعت میں شامل کیے گئے ہیں۔ 

کتاب کا پہلا حصہ "مولانا عبید اللہ سندھی کے متعلق اکابر علما کا موقف" ہے۔ اس میں مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا مفتی تقی عثمانی، مولانا مفتی عبدالواحد، مولانا ابن الحسن عباسی، جناب شکیل عثمانی، مولانا موسیٰ بھٹو اور بعض دیگر اہل علم کے مقالات اور آرا جمع کی گئی ہیں جن میں مولانا عبیدا للہ سندھی کے افکار پر نقدو تبصرہ کیا گیا ہے۔یہ حصہ مرتب کی محنت اور کاوش کا ثبوت ہے کہ موضوع سے متعلق مواد کوپہلی بار اس طور پر یک جا کیا ہے جس کی تلاش اور دست یابی اس سے پہلے اتنی آسان نہیں تھی۔

مولانا عبید اللہ سندھی کی شخصیت و افکار کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قلم بند کرنا راقم کے لیے ذرا مشکل معاملہ ہے اور اس کی وجہ ان کے حوالے سے پائے جانے والے مختلف افکارو آرا ہیں جن پر نظر ڈالی جائے تو ہمارے سامنے تین قسم کی آرا آتی ہیں:

ایک نقطہ نظر کی رو سے مولانا عبیداللہ سندھی کی فکر جمہور علمائے امت کی فکر سے جدا ہے (اور یہی حکم تنظیم فکر ولی اللہی کا ہے۔) زیر تبصرہ کتاب کے مؤلف کا نقطہ نظر یہی ہے اور اسی کی تائید کرنے والی تحریرات کو اس میں جمع کیا گیا ہے۔ یہ نقطہ نظر ان کی اپنی زندگی میں لکھی گئی یا دیگر مرتبین کی مرتب کردہ کتابوں کی روشنی میں بنتا ہے۔

دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ مولانا کی فکر میں اگرچہ شاذ امور بھی پائے جاتے ہیں تاہم بہ حیثیت مجموعی وہ کتاب و سنت کی ہی ترجمان ہے۔ اس نقطہ نظر کے حاملین کے نزدیک مولانا سندھی کی طرف بعض افکار اور تحریریں غلط طور پر بھی منسوب ہیں جن کی ذمے داری ان پر نہیں آتی، بلکہ ان کے تلامذہ اس کے ذمہ دار ہیں؛ تاہم ان حضرات کے نزدیک تنظیم فکر ولی اللہی کے افکار درست نہیں ہیں۔ اس رجحان کے قائل مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مولانا صوفی عبدالحمید سواتی، مولانا زاہد الراشدی اور مولانا عبدالحق خان بشیر وغیرہم ہیں۔

مولانا صوفی عبدالحمید سواتی لکھتے ہیں : 

’’انصاف کی بات یہ ہے کہ حضرت مولانا عبیداللہ سندھی کے بعض افکار شاذ بھی ہیں۔ بعض مرجوح قسم کے خیالات بھی ہیں اور بعض باتیں ایسی ہیں کہ مولانا ان پر بے جا سختی بھی کرتے تھے۔بعض باتیں مصلحت کی خاطر بھی ناگزیر خیال کرتے تھے اور بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جن کی نسبت ان کی طرف کرنے میں ان کے تلامذہ نے غلطی کی ہے۔ اس کی ذمہ داری حضرت مولانا پر نہیں، بلکہ ان کے ناقلین پر ہے۔ انھوں نے ان باتوں کو نقل کیا ہے اور شاید سابق لاحق سے قطع نظر کر کے حضرت مولانا سندھی کا مطلب بھی نہیں پا سکے۔بہرحال خیالات وافکار کا شذوذ تو ہر مجتہد اور محقق میں پایا جاتا ہے، لیکن بایں ہمہ مولانا سندھی اپنے مسلک، عقیدہ اور عمل کے لحاظ سے پکے سچے راسخ العقیدہ اور پرجوش مسلمان تھے۔‘‘ (1)

مولانا عبدالحق خان بشیر نے 2004ء میں ایک کتاب ’’مولانا عبیدا للہ سندھی اور تنظیم فکر ولی اللہی‘‘ کے نام سے تحریر کی تھی جس کا بنیادی مقدمہ یہی ہے کہ مولانا عبید اللہ سندھی کے افکار کو ان کے ناقل شاگردوں نے غلط طور پر پیش کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ان کی فکر یگانوں اور بیگانوں کے ہاں متنازع بن کر رہ گئی۔اس کتاب کا مقدمہ مصنف کے بھائی مولانا زاہد الراشدی نے تحریر کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں :’’بدقسمتی سے مولانا سندھی کے خوشہ چین، جنھوں نے اپنے استاد کی پیروی میں کیمونسٹ انقلاب اور نظام کے مطالعہ کی زحمت تو اٹھا لی، لیکن ان کی طرح فکری و نظریاتی توازن قائم نہ رکھ سکے، خود پر ’’لغزشِ پا‘‘ کا الزام زیادہ بوجھل سمجھتے ہوئے انھوں نے اسے اپنے استاد کی طرف منتقل کر دینے میں عافیت محسوس کی اور یہ بات ناقدین کے بے رحم ہاتھوں میں پہنچ کر ایک نئے فکری معرکے کا عنوان بن گئی۔‘‘ (2)

اس کتاب میں بڑی تفصیل کے ساتھ مولانا سندھی کا دفاع کیا گیا ہے اور اس کے لیے مختلف عقلی اور نقلی معیارات وضع کیے گئے ہیں، جن پر ، مصنف کے بہ قول، مولانا سندھی کی فکر کو پرکھا جا سکتا ہے۔ایک عنوان ’’امام سندھی کی فکری صحت پر ٹھوس شہادتیں‘‘ قائم کر کے مختلف علما کی طرف سے مولانا سندھی کو پیش کیا گیا خراجِ عقیدت بھی مصنف نے نقل کیا ہے۔ان علما میں مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا احمد علی لاہوری جیسے اہل علم کا نام بھی شامل ہے۔ تاہم یہ نام پیش کرنے میں جو چیز نظر انداز ہوئی ہے، وہ مولانا سندھی کی فکر کے زمانی مدارج ہیں۔ مولانا تھانوی اور مولانا لاہوری کی طرف سے بلاشبہ حضرت سندھی کے حق میں بلند پایہ اظہارِ عقیدت بھی ملتا ہے اور یہ بات صرف انھی دو علما پر بس نہیں، علمائے دیوبند میں سے دیگر حضرات کے ہاں بھی یہ جذبات موجود ہیں، لیکن خود انھی علما کی تصریحات کے مطابق اصل مسئلہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جب مولانا سندھی افغانستان، سوویٹ یونین، ترکی اور حجاز کے قیام کے بعد 1939 میں ہندوستان پہنچے تو ان کی تقاریر اور تحریروں میں پیش کیے جانے والے خیالات سے علما کو اختلاف ہونا شروع ہوا۔ (3) اگرچہ دیوبند میں قیام کے دوران میں اس سے بہت پہلے بھی مولانا سندھی کے بعض امور پر اختلافات سامنے آچکے تھے، لیکن ان کی فکر میں نمایاں اور جوہری تبدیلیوں کا تعلق سفر کابل کے بعد کا ہے۔ مولانا تھانوی کی جو تحریر اس سلسلے میں پیش کی گئی ہے، وہ 1915ء کی ہے جب کہ مولانا سندھی کے افکار کے شاذ امور سامنے آنے کے بعد مولانا تھانوی کے ملفوظات وغیرہ میں ان پر تنقید بھی ملتی ہے۔ 

اس کتاب کے مؤلف نے ایک عنوان ’’امام سندھی کے ناقابل اعتماد تلامذہ‘‘ کے الفاظ میں باندھا ہے جس کے تحت مولانا لاہوری، خواجہ عبدالحی فاروقی? وغیرہ کو قابل اعتماد جب کہ موسیٰ جار اللہ اور مولانا عبداللہ لغاری کو ان کے ناقابل اعتماد تلامذہ میں شمار کیا ہے۔ ان حضرات کے ساتھ پروفیسرمحمد سرور کا نام نقل نہیں کیا گیا، حالاں کہ ہندوستان میں مولانا سندھی کے افکار پر جو تنقید ہوئی ہے، زیادہ تر ان تحریروں کی روشنی میں ہوئی ہے جو پروفیسر محمد سرور کی مرتب کی ہوئی ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی کی زندگی ہی میں ان کی معروف کتاب ’’افادات وملفوظات‘‘ شائع ہوئی تھی۔ان کی ایک دوسری کتاب ’’مولانا عبیداللہ سندھی: حالات ، تعلیمات اور سیاسی افکار‘‘ کے نام سے ہے۔ مولانا سندھی کی فکر پر جو اشتراکیت ، وحدتِ ادیان ، تشریعات کے غیر ابدی ہونے جیسے مسائل کے حوالے سے سب سے زیادہ تنقید ہوئی ہے، وہ افکار پروفیسر محمد سرور کی انھی کتابوں سے اٹھائے گئے ہیں۔دوسری طرف ان کے بارے میں ایسے علما کے بلند پایہ الفاظ موجود ہیں جو مولاناسندھی کی فکر کے سب سے بڑے خوشہ چین اور ان کے عقیدت مند کہلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا احمد علی لاہوری کے بیٹے مولانا عبیداللہ انور کے قلم سے پروفیسر سرور کے بارے میں ایک مضمون ہے جس کے بعض مندرجات یہاں نقل کیا جاتے ہیں: 

’’خود سرور صاحب کی تصنیف ارمغان شاہ ولی اللہ اپنے موضوع پر بے نظیر کتاب ہے جسے شاہ ولی اللہ کی کتابوں کا خلاصہ اور نچوڑ کہنا چاہیے اورعلومِ قرآنی کے طلبہ کے لیے تو وہ ایک نعمت ہے۔ ایسے ہی مولانا سندھی پر ’’افادات و ملفوظات‘‘ اور ’’مولاناعبیداللہ سندھی نام‘‘ کی دو کتابیں لکھ کر تو انھوں نے امت پر احسانِ عظیم کیا ہے۔‘‘ ۔۔۔’’ملک نصر اللہ خان عزیز نے مولانا سندھی سے پوچھا، اس کتاب کے بارے میں خود آپ کی کیا رائے ہے؟ مولانا نے فرمایا: ’’پروفیسر صاحب نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ میرے افکاروخیالات سے متصادم کوئی چیز اس میں نہ آنے پائے۔ ظاہر ہے خیالات تو میرے ہی ہیں، لیکن زبان وبیان سرور صاحب کا ہے۔‘‘ ۔۔۔’’بہرحال میں قدرت کی اس بے نیازی پر حیران ہوں کہ علم وادب کی یہ عظیم خدمت اس نے کس کے سپرد کی جس کا کوئی علمی پس منظر نہیں۔سرور صاحب کا تعلق گجرات کے ایک گھرانے اور پس ماندہ علاقے سے ہے۔‘‘ ۔۔۔’’سرور صاحب کا تعلق تو پرانی نسل سے تھا، لیکن لکھتے وہ نئی نسل کے لیے تھے اور زیادہ تر فائدہ بھی اس سے آئندہ نسلیں ہی اٹھائیں گی۔ میرا خیال ہے مستقبل میں ان کی تحریریں او رمقبول ہوتی چلی جائیں گی کیوں کہ یہ کوئی وقتی باتیں یا سطحی نظریات نہیں۔ یہ دراصل مولانا سندھی کے برسوں کے تجربات اور شاہ ولی اللہ کی مجتہدانہ تعلیمات پر مبنی ہیں۔‘‘ ۔۔۔’’سرور صاحب فطرت کا ایک عطیہ تھے جن کی دریافت مولانا سندھی ہیں اور مولانا سندھی نے ہمارے لیے شاہ ولی اللہ کو دریافت کیااور شاہ ولی اللہ نے خیر القرون سے لے کر اپنے دور تک اسلام کی فلاسفی کو جس طرح مدون کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔‘‘ (4)

ان اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پروفیسر سرور نہ صرف مولاناسندھی کے ہاں معتمد علیہ شخصیت تھے، بلکہ بعض دیگر ثقہ علما کی رائے بھی ان کے بارے میں نہایت مثبت تھی، نیز یہ کہ انھوں نے مولانا سندھی کے افکار کو منتقل کرنے میں کسی علمی خیانت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہی خیال جناب سید خالد جامعی کا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’حضرت مولانا عبیدا للہ سندھی کے بارے میں ہمارے محترم کفیل بخاری صاحب اور عابد مسعود صاحب کی رائے ہے کہ پروفیسر سرور کی محرف تحریروں کے باعث مولانا سندھی کے افکار کا غلط خاکہ تیار ہوا ہے۔ساحل کا بھی یہی موقف تھا، لیکن جب اس سلسلے میں ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری سے رابطہ کیا تو انھوں نے واضح طور پر دوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ پروفیسر سرور نے مولانا سندھی کے حوالے سے جو کچھ تحریر فرمایا ہے، وہ مولانا سندھی کے افکار کی درست ترجمانی ہے۔اس میں کوئی تحریف، اضافہ، سرور صاحب سے منسوب کرنا درست نہیں۔مولانا سندھی کے یہی افکار تھے۔‘‘ (5)

تیسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ مولانا سندھی کی جملہ تحریرات و افکار ان کی اپنی ہی ہیں اور کوئی چیز ان کی طرف غلط منسوب نہیں ہے۔ یہ نقطہ نظر ان کے جملہ افکار کا مؤید اور داعی ہے۔ یہ ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری اور تنظیم فکر ولی اللہی کا رجحان ہے اور ان حضرات نے علما کی طرف سے دیے گئے فتووں کا جواب اور اپنے نظریات کی وضاحت بھی کی ہے۔

زیر تبصرہ کتاب میں ، جیسا کہ ذکر ہوا ، پہلے نقطہ نظر کے حوالے سے تحریرات جمع کی گئی ہیں۔مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی نے پروفیسر محمد سرور کی کتاب ’’مولاناعبید اللہ سندھی: حالات ، تعلیمات اور سیاسی افکار‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا سندھی کی فکر کے قابل تنقید امور پر نقد کرتے ہوئے لکھا تھا:

’’مولانا مرحوم کی یہ بڑی خوش قسمتی تھی کہ ان کا تعلق علماء کرام کے اس طبقہ سے تھا جو اپنی گروہ بندی کی عصبیت میں حد کمال پر پہنچا ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مولانا یہ سب کچھ فرما گئے اور لکھوا اور چھپوا بھی گئے اور پھر بھی تنقید کی زبانیں بند اور تعریف کی زبانیں تر رہیں، ورنہ اگر انھوں نے اس طبقہ خاص سے باہر جگہ پائی ہوتی تو ان کا استقبال سرسید اور علامہ مشرقی سے کچھ کم شاندار نہ ہوا ہوتا۔‘‘ (6)

تاہم زیر نظر کتاب مولانا مودودی کی اس بات کی تردید کرتی ہے، کیوں کہ اس میں شامل تقریباً تمام مقالات علمائے دیوبند کے ہیں جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے دینی مکاتب فکر میں خوداحتسابی اور تنقید کی روایت زندہ رہی ہے اور محض عقیدت مندی کی بنا پر اپنے حلقے کے بزرگوں کے قابلِ نقد افکار پر پردہ نہیں ڈالا گیا بلکہ ان پر علمی تنقید ہوتی رہی ہے۔ یہ نکتہ اور یہ پہلو سامنے رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ دینی حلقوں پر ایک عمومی الزام ہے کہ وہ اپنے بڑوں کی اندھی تقلید یا رائج اصطلاح میں ’’اکابر پرستی‘‘میں مبتلا ہوتے ہیں۔مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا مسعود عالم ندوی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: 

’’آپ نے سچ کہا۔ مولانا شبلی کی پیش گوئی کہ آخر دیوبند بھی کب تک دیوبند رہے گا، برہان(7) والوں کے مضامین نے اسی کا ثبوت بہم پہنچایا۔ حضرت شاہ صاحب کے ان ہی خیالات کی اس تشریح کو اگر سرسید اور شبلی کا قلم بیان کرے تو بے دینی اور اگر فضلائے دیوبند لکھیں تو عین دین؛ بسوخت عقل زحیرت کہ این چہ بوالعجبی ست۔‘‘ (8)

اسی طرح مولانا مناظر احسن گیلانی (جو کہ دیوبند کے جلیل القدر عالم ہیں) نے مولانا عبدالماجد دریابادی کے ہفت روزہ ’’صدق‘‘ میں مولانا سندھی کے حوالے سے ایک تنقیدی خط لکھا اور مولانا سندھی کا دفاع کرنے والے دیوبندی حلقہ فکر کے لوگوں پر ذرا سخت الفاظ لکھے ہیں۔(9) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا عبید اللہ سندھی کے افکار پر احتساب کا معاملہ دیوبند کے اہل علم کے ہاں قابل چشم پوشی نہیں رہا، بلکہ انھوں نے اس کا بھرپور ثبوت دیا ہے اور اس کا سب سے بڑا شاہد یہی زیر تبصرہ کتاب ہے۔ 

اس کتاب میں مولانا اشرف علی تھانوی کا ایک تنقیدی مضمون بھی شامل ہے، جو اصلاً تو اس وقت مولانا لاہوری کی تفسیر پر تنقید کے سلسلے میں سامنے آیا، لیکن وہ افادات مولانا سندھی ہی کے تھے۔ مولانا سندھی کے افکار میں جب تک شاذ امور داخل نہ ہوئے تھے، مولانا تھانوی نے ان سے اپنی عقیدت کا اظہار اچھے الفاظ میں کیا تھا، تاہم مولانا سندھی کے افکار میں شذوذ کے ظہور کے بعد مولانا تھانوی کے کلام میں ان پر تنقیدیں ملتی ہیں جن کا ایک حصہ اس کتاب کا جزو ہے۔ کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں کسی سائل کے اعتراض پر مؤلف نے مولانا تھانوی کے وہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں اور ان کی توجیہ یہ پیش کی ہے کہ یہ اظہارِ عقیدت اس دور کا ہے جب کہ مولانا سندھی کے افکار میں شاذ باتیں نمایاں نہیں ہوئی تھیں۔ (10)

مولانا عبید اللہ سندھی کی فکر کے جو اجزا علما کے نزدیک محل نظر رہے ہیں اور جن کی تائید کتاب میں شامل تحریروں سے ہوتی ہے، ان مقالات پر ایک مجموعی اور کلی نظر ڈالی جائے تو ان میں سے ضروری اور بڑے بڑے امور کو مندرجہ ذیل نکات کی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہے:

1۔ تفسیر قرآنی میں تفسیر بالرائے کا رجحان

2۔ اشتراکیت اور نیشنل ازم کا تاثر

3۔ وحدتِ ادیان کا تصور

4۔ قادیانیت کے بارے میں نرم گوشہ

5۔ تشریعی احکام (خصوصاً حدود وغیرہ) کی زمانیت اور ابدیت

6۔بعض کلامی امور(جیسے نزولِ عیسیٰ ، عذابِ فاسقین، کفار کا خلود فی الناروغیرہ)کے بارے میں تفردات

اس کے علاوہ بھی مختلف نکات ذکر کیے جا سکتے ہیں، لیکن جناب مفتی محمد رضوان کی زیر تبصرہ کتاب کے اکثر مقالات انھی امور کے گرد گھومتے ہیں۔

پہلے نکتے کے لحاظ سے زیر تبصرہ کتاب میں مولانا اشرف علی تھانوی کا ایک رسالہ التقصیر فی التفسیر شامل اشاعت ہے۔ یہ رسالہ مولانا نے 1347ھ میں تصنیف فرمایا تھا۔اس وقت مولانا عبیدا للہ سندھی حیات تھے۔یہ رسالہ بعد میں طبع نہیں ہوا۔(11)اس رسالے میں مولانا تھانوی نے مولانا عبیداللہ سندھی کے ان تفسیری افکار پر نقد کیا ہے جو وہ جدید مسائل کے استنباط کے معاملے میں قرآن سے پیش کیا کرتے تھے۔ سیاسی اور اقتصادی مسائل کے باب میں مولانا سندھی صوفیہ کے طریق پر تاویل اور اعتبار سے کام لیتے ہوئے قرآنی آیات سے ’’ تفسیر اشاری‘‘ کے مسائل کا استنباط کیا کرتے تھے، تاہم اس طرز کو مولانا تھانوی نے تفسیر بالرائے کی قبیل سے دیکھا ہے اور اس پر نقد کیا ہے۔ 

یہ رسالہ ایک مقدمے اور تین فصلوں پر مشتمل ہے۔ مقدمے میں بعض اصولی باتیں ذکر کی ہیں جن میں دلالت کی انواع اور جائز و ناجائز استنباطات کا ذکر ہے۔ فصل دوم میں قرآن کے اصل مقصود اور اس کی غرض وغایت پر گفتگو کی گئی ہے۔ تیسری فصل میں مولانا سندھی کی تفسیراتِ اعتباریہ میں سے تقریباً اکیس نمونے نقل کر کے ان پر تنقید کی گئی ہے۔ 

مولانا سندھی کے یہ استنباطات کس طرح صوفیہ کی تفسیر اشاری سے جدا ہیں اور غیر مطلوب فی الدین ہیں؟ اس کی وضاحت میں مولانا تھانوی نصوص کی دلالت کی مختلف صورتوں کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جن احکام کو نصوص کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، وہ دو قسم کے ہیں:ایک قسم معتبر دلالتوں کی ہے، اگر وہ واضح ہو تو وہ تفسیر ہے، خواہ قطعی ہو یا ظنی اور استنباطاً ہو تو اس کا نام فقہ واجتہاد ہے۔دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو دلالت سے تو تعلق نہیں رکھتی، لیکن ان احکام کی نصوص کے مدلولات سے ایک گونہ مشابہت ہوتی ہے۔ اس قسم کے احکام کو مدلولِ نص کہنا درست نہیں ہے، ورنہ یہ تفسیر بالرائے ہے۔ رہا اس کا جواز اور عدمِ جواز تو ایسی چیزیں اگر دین میں مطلوب ہوں تو ایسے احکام کا ذکر کرنا جائز ہوگا، جیسے تفسیر اشاری صوفیہ کے ہاں ملتی ہے، لیکن اگر یہ دین میں مطلوب نہ ہوں تو پھر ان احکام کا ذکر ان نصوص کے ذیل میں ناجائز ہوگا۔ مولانا تھانوی نے مولانا سندھی کی جن باتوں پر نقد کیا ہے، ان میں سے زیادہ تر اسی آخری قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔ (12) 

اس کی ایک مثال: اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وان اردتم ان تسترضعوا اولادکم فلا جناح علیکم (13) (اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں (یعنی کوئی دودھ پلانے والی بلا کر)۔ اس آیت کے تحت ’’اعتبار ‘‘ کے طور پر مولانا سندھی نے لکھا ہے کہ ’’اگر از ممالک خارجہ کساں برائے ترتیب نہر وغیرہ قوم خود طلبانیدہ شود درست است۔‘‘(اگر بیرون ممالک سے حکومت اپنے ہاں نہری اور آب پاشی کے نظام کے اجرا اور ترقی کے لیے ماہرین بلائے تو درست ہے۔ ) اس پر مولانا تھانوی نے تنبیہ کرتے ہوئے لکھا ہے : 

’’اس عبارت کے مقدمہ میں بھی کچھ لکھا گیا ہے اور اس میں ایک خاص خبط (یعنی بدعقلی کا مظاہرہ) بھی کیا گیا ہے کہ مطلق رعیت کو جو کہ قدیم (یعنی پرانی رعایا) کو بھی شامل ہے، بجائے اولاد کے قرارد یا گیا ہے اور عبارت پانزدہم (یعنی پندرھویں عبارت) میں صرف نئی رعیت کو بجائے اولاد کے قرار دیا تھا۔اس کا مقتضا یہ ہے کہ اس آیت میں صرف جدید رعیت کی مصالح کے لیے غیر ملکی لوگوں کو بلانا جائز ہو اور اگر مختلف اعتبارات کی بنا پر سب تشبیہات کی تصحیح کی جاوے تو دوسرے شخص کو جائز ہوگا کہ دوسرے اعتبارات فرض کر کے ان احکام کے مضاد (یعنی مخالف) احکام قرآن سے مستنبط کرے، تو قرآن کیا ہوا ، موم کی ناک ہوئی۔نعوذ باللہ۔‘‘ (14)

مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا سندھی کی ’’قرآن کی سیاسی تعبیر‘‘ پر نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نظارۃ المعارف القرآنیہ کے تحت انگریزی و عربی کے فارغ التحصیل اور نیم فارغ التحصیل لوگوں میں ’’ درس ]قرآن[ کا منشا یہ تھا کہ پورے قرآن کو جہاد وسیاست ثابت کیا جائے اور تمام احکام کو اس جنگی رنگ میں پیش کیا جائے۔اس تفسیر کی جھلک آپ کو ان کے تلامذہ مثلا خواجہ عبدالحی صاحب فاروقی کی تفسیر اور مولانا احمد علی صاحب لاہوری کے قرآنی حواشی میں پوری طرح نظر آئے گی۔‘‘ (15) غالباً انھی تنقیدوں کا محرک تھا کہ اس تفسیر پر بعد میں دیوبند کے کئی علما کی تقاریظ لی گئیں جن میں اس کے حق میں تائیدی اور تعریفی کلمات کہے گئے ہیں۔

مولانا سندھی کی فکر میں جن امور پر سخت تنقیدیں ہوئی ہیں، ان میں وحدتِ ادیان کی فکرکا عنصر بھی ہے۔ کتاب میں شامل مقالات میں مولانا مسعود عالم ندوی کے مقالے میں درج ہے کہ :’’مولانا سندھی اسلام اور ہندوستانی قومیت کا ایک معجون مرکب پیش کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ہندوؤں کو اسلام سے وحشت نہ رہے اور مسلمان خوشی خوشی ہندوستانی قومیت کا جز بن سکیں۔اسی اعتبار سے وہ وحدتِ انسانیت اور وحدتِ ادیان کے قائل ہیں۔ مولانا کے نزدیک قرآن مجید بھی اسی بنیادی فکر کا ترجمان ہے۔‘‘ (15) اسی طرح مولانا ابن الحسن عباسی، مولانا سندھی کی تفسیر الہام الرحمان کا حسب ذیل اقتباس پیش کر کے کہتے ہیں کہ مولانا وحدتِ ادیان کی فکر کے قائل ہیں:

’’ہم تمام ادیان کی حقانیت اور صحت کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن صرف اس قدر جتنا ان کی طرف نزول ہوا ہے، اور ان ادیان میں اختلاف کو ہم اس طرح کا اختلاف قرار دیتے ہیں جس طرح حدیث کی مختلف کتابوں میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔۔۔ اس لیے ہم تمام ادیان کو جمع کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ کی تطبیق دیتے ہیں جس طرح مختلف احادیث میں جمع وتطبیق اختیا رکی جاتی ہے۔ ‘‘ (16)

آگے ایک اور مقام پر اسی سلسلہ میں لکھتے ہیں:

’’عام فقہا نے مسلمانوں کو اپنے اس فتویٰ سے گمراہ کیا کہ تمام کے تمام غیر مسلم باطل پر ہیں اور ان کے پاس حق میں سے کچھ بھی نہیں۔‘‘ (17)

کتاب میں جناب اقبال شیدائی کے نام مولانا سندھی کے خطوط (مرتبہ پروفیسر محمد اسلم ) کے اقتباسات بھی دیے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا سندھی کا قادیانیت کے بارے میں موقف، عام موقف سے ہٹ کر اور نرم تھا۔ ان کے خطوط میں حکیم نورالدین بھیروی اور مولوی محمد علی لاہوری کے بارے میں بلند تعریفی الفاظ ملتے ہیں۔ 

مذکورہ بالا امور تو زیر تبصرہ کتاب کی اس تصویر کے حوالے سے ہیں جو مولانا عبیداللہ سندھی کے بارے میں کتاب پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن میں بنتی ہے؛ تاہم مناسب ہو گا کہ اختصار کے ساتھ یہاں مولانا سندھی کے دفاع میں پیش کی جانے والی باتوں کی ایک جھلک بھی سامنے رکھ دی جائے تاکہ موضوع سے متعلق تصویر کے دونوں رخ سامنے آ جائیں۔ کسی شخصیت یا نظامِ فکر کے معروضی مطالعے کے لیے یہ بات ناگزیر ہے کہ اس کے دونوں پہلو سامنے رہیں۔ 

اس سلسلے میں کچھ امور تو اوپر مولاناعبدالحق خان بشیر کی کتاب ’’مولانا عبیداللہ سندھی اور تنظیم فکر ولی اللہی‘‘ کے حوالے سے آ گئے ہیں جس کی رو سے مولانا سندھی کے بارے میں محل نظر افکار کے انتساب کی اصل وجہ ان کے شاگردوں کے ’الحاقات‘ اور ’حدیثِ دیگراں ‘ ہے جو ’سرِ دلبراں‘ کی شکل میں سامنے آ گئی ہے۔ اس کے ذمہ دار اصل میں مولانا سندھی نہیں ہیں، لیکن جیسا کہ گذشتہ سطور سے معلوم ہوا، یہ موقف زیادہ مضبوط معلوم نہیں ہوتا۔جزوی طور پر یہ موقف درست ہے، لیکن اسے کلی طور پر قبول کرنا کافی مشکل ہے کہ مولانا سندھی کی فکر کے وہ امور جو عام علما کے افکار سے مختلف ہیں، وہ سب دوسروں کی دسیسہ کاری ہے۔خود مولانا سندھی کی فکر سے والہانہ وابستگی رکھنے والے علما ان کی فکر میں شذوذ کے قائل ہیں، تاہم اس الحاق کا کلی طور پر انکار بھی ممکن نہیں اور حق بات ان دونوں کے درمیان معلوم ہوتی ہے۔ (18)

مولانا سندھی کے دفاع کے حوالے سے دوسرا موقف وہ ہے جو دیوبند ہی کے سرکردہ علما میں سے مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور بعض دیگر اہل علم کا ہے جنھوں نے مولانا مسعود عالم ندوی کی تنقید کے جواب میں اپنے مجلے برہان میں قلم سنبھالا اور ایک سے زائد اقساط میں مولانا سندھی پر ہونے والی تنقیدوں کا جواب لکھا جو بعد میں کتابی شکل میں ’’مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کے ناقد‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔اس تنقید کے بارے میں مولانا اکبر آبادی کا موقف یہ تھا کہ ’’اس بات کا سخت افسوس ہے کہ مولانا مسعود عالم نے مولانا سندھی پر جو تنقید کی ہے، اس میں مولانا کے افکار کو بالکل توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے جس سے حقیقت کچھ سے کچھ ہو گئی ہے اور کہیں کی بات کہیں جا پہنچی ہے۔‘‘ (19( مختلف امور پر مولانا اکبر آبادی کا موقف پیش کرنے سے پہلے خود مولانا سندھی کی فکر کے افکار سے اتفاق نہیں ہے اور وہ ان کی خواہ مخواہ طرف داری کے قائل نہیں ہیں۔ (20)

مولانا عبید اللہ سندھی کی طرف وحدتِ ادیان کی فکر کے انتساب کی وضاحت مولانااکبرآبادی نے یہ کی ہے کہ مولانا سندھی اس معنی میں وحدتِ ادیان کے قائل ہیں کہ دین اپنی اصل تعلیمات میں اشتراک رکھتے ہیں اور قرآن نے اسی بات کی صراحت کی ہے، لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آیا موجودہ وقت میں اسلام دیگر ادیان پر برتری رکھتا ہے اور نجات کے لیے اس کے حلقے میں داخل ہونا ضروری ہے تو اس کی وضاحت میں مولانا اکبر آبادی، مولانا سندھی کی کتابوں کی عبارتوں سے استمداد کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’مولانا سندھی قرآن کو آخری آسمانی کتاب مانتے ہیں۔ان کے نزدیک قرآن ان تمام صداقتوں کا کامل مجموعہ ہے جو اسلام سے پہلے مختلف ادیان میں بکھری پڑی تھیں۔ قرآن کا قانون تمام انسانوں کے لیے ہے اور انسانیت کی بھلائی کا راز صرف اسی کے اتباع اور پیروی میں ہے۔سرور صاحب لکھتے ہیں کہ مولانا کے نزدیک قرآن نے تمام اقوام ، ادیان اور مذاہب کے مرکزی نکات کو جو کل انسانیت پر منطبق ہو سکتے ہیں، یک جا کیا اور ساری دنیا کو یہ دعوت دی کہ صرف یہی ایک اساس ہے جس پر صحیح انسانیت کی تعمیر ہو سکتی ہے۔‘‘ (21)

کتاب میں شامل مقالات میں اس بات پر بھی تنقید ملتی ہے کہ مولانا عبیداللہ سندھی کی فکر میں اشتراکیت اور نیشنل ازم کا عنصر شدت سے موجود ہے اور وہ اس طرزِ فکر کے داعی تھے۔ مولانامسعود عالم ندوی کی کتاب ’’مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کے افکاروخیالات پرا یک نظر‘‘ کے مختلف اجزا اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ تاہم انصاف کی بات یہ ہے کہ مولانا سندھی نے جہاں اس تحریک کی خوبیوں کو بنظر استحسان دیکھا ہے، اس کی خامیوں پر بھی مختلف مقامات پر گفتگو کی ہے۔اس سلسلے میں مولانا سندھی کی تحریروں کی طرف رجوع کیا جائے نیز ان کے دفاع میں لکھی جانے والی باتوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس سوشل ازم کو دو مختلف پہلوؤں سے دیکھتے ہیں۔اس کا ایجابی پہلو یہ ہے کہ یہ تحریک بندہ مزدور کے استحصال کے خلاف آواز اٹھاتی ہے اور موجودہ دور کی سب سے بڑی لعنت سرمایہ داری کی مخالف ہے۔ اس پہلو سے مولانا سندھی کے ہاں اس کے استحسان پر گفت گو ملتی ہے، لیکن اس تحریک کے معنوی پہلو پر مولانا سندھی کی تنقید بھی بالکل واضح ہے اور اس سے صرفِ نظرکرنا کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں ہے۔یہاں ان کی تفسیر الہام الرحمان کا ایک اقتباس درج کیا جاتا ہے:

’’روسی انقلاب ایک اقتصادی انقلاب ہے جس کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ حیاتِ اخروی سے کوئی سروکار رکھتا ہے۔ہم نے ان کی صحبتوں میں بیٹھ کر نہایت لطیف طریق سے امام ولی اللہ دہلوی کا وہ پروگرام انھیں بتایا جو حجۃ اللہ البالغہ میں مذکور ہے۔ جب انھوں نے ہم سے پوچھا کہ اس پروگرام پر کوئی قوم عمل بھی کرتی ہے تو ہمیں اس کا جواب نفی میں دینا پڑا تو انھوں نے کہا کہ افسوس اگر کوئی ایسی قوم ہوتی تو ہم ان کا مذہب اختیار کر لیتے اور جو ہمارے پروگرام میں سخت مشکل پیش آتی ہے ، یعنی کسانوں کا مسئلہ، وہ دور ہو جاتی۔ یہ ہے ان کی تمام باتوں کا ملخص ۔ اس فکر میں ہم نے کوئی تحریف نہیں کی، ہم اس سے یقین کرتے ہیں کہ وہ قرآن کے پروگرام کو قبول کرنے پر مجبور ہیں، خواہ کچھ عرصہ کے بعد ہی سہی۔ تاریخ انسانیت میں اشتراکیت سے بڑھ کر کوئی تحریک فطرت انسانی یعنی تعلیم قرآنی کے مخالف پیدا نہیں ہوئی۔ جب یہ تحریک بھی ہدایت قرآنی کے قبول کرنے کی محتاج ہے تو باقی تحریکات کا کیا پوچھنا۔‘‘ (22)

زیرِ تبصرہ کتاب کی یہ گزارشات مولاناسندھی کے افکار کے حوالے سے تھیں جو طویل ہو گئیں۔ 

کتاب کا دوسرا حصہ تنظیم فکر ولی اللہی کے حوالے سے ہے۔تنظیم فکر ولی اللہی ، خانقاہِ رائے پور کے چوتھے صدر نشین مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری نے ملتان میں 1987ء میں قائم کی جس میں کالج ، یونی ورسٹیوں اور مدارس کے طلبہ شامل ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے بورڈ نے 3 جمادی الثانیہ 1421ھ ، 4 ستمبر 2000ء کو اپنی مرکزی مجلس عاملہ میں تنظیم فکر ولی اللہی کے طرزِ عمل اور افکار ونظریات کے پیش نظر ، اس کو بورڈ سے خارج کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کی وجہ یہ تھی کہ وفاق کے نزدیک ’’اس تنظیم کے نظریات ، جمہور امت کے موقف کے منافی ہیں۔‘‘ (23) کتاب میں شامل تنظیم کے خلاف فتاویٰ میں تنظیم کے افکار کو بھی پیش کیا گیا ہے، جن کے باعث فتاویٰ وجود میں آئے ہیں۔ جامعہ فاروقیہ کراچی کے فتوے میں درج ہے:

’’یہ لوگ اپنا نظریہ اور منشور عام لٹریچروں اور مجلسوں میں بیان نہیں کرتے، بلکہ مختلف پروگراموں کے ذریعے تدریجاً اپنے کارکنوں کے ذہن میں منتقل کرتے رہتے ہیں، چنانچہ کچھ عرصے بعد اس تنظیم سے منسلک ہونے والا آخر کار دہریت کے قریب یا بالکل دہریہ بن جاتا ہے۔ ‘‘ (24)

بنوری ٹاؤن کراچی کے فتوے میں تنظیم کے محل نظر افکار کا نسبتاً تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے جو حسب ذیل ہیں:

بلا سمجھے قرآن پڑھنے کو بت پرستی جیسا سمجھنا

جنت ودوزخ کو نفسی کیفیات قراردینا

جنت ودوزخ کے دوام کا انکار کرنا 

حوضِ کوثر کو مجردات ادراک سے حاصل شدہ عقلی لذت قرار دینا

عقید? شفاعت کو اخلاق کی بربادی کا باعث قرار دینا

عصرِ حاضر کی مساجد کو مسجدِ ضرار قرار دینا

حیاتِ عیسیٰ جیسے عقیدہ کو یہودی وصابی من گھڑت کہانی قرار دینا

ظہورِ مہدی اور نزولِ عیسیٰ کے عقیدہ کو غیراسلامی کہنا

حدیث کو مستقل وحی نہ ماننا، وغیرہ۔ (25)

دیگر فتاویٰ میں بھی اس طرح کے امور ذکر کیے گئے ہیں۔

ان فتاویٰ کے معروضی اور عادلانہ جائزے کا تقاضا یہ ہے کہ خود تنظیم فکر ولی اللہی کے لٹریچر کی طرف رجوع کیا جائے کہ وہ حضرات ان باتوں کے جواب میں کیا کہتے ہیں۔ اس بات کا جائزہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ موجودہ دور میں جس طرح افتراق وتشتت نے ہمارا اجتماعی شیرازہ بکھیرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے، وہ ہماری جدید تاریخ کا افسوس ناک باب ہے۔بعض اوقات یک رخے فتووں کی وجہ سے کسی شخصیت یا جماعت کے بارے میں ایک ایسی تصویر تیار کر دی جاتی ہے جو خود ان لوگوں کی تصریحات کے خلاف ہوتی ہے جن کے خلاف فتاویٰ دیے گئے ہوتے ہیں۔ مذکورہ بالا فتاویٰ کے منظر عام پر آنے کے بعد تنظیم کے تین علما مفتی عبدالمتین نعمانی، مفتی عبدالقدیر اور مفتی عبدالغنی قاسمی نے ان فتاویٰ کا جائزہ لیا اور ایک کتاب اپریل 2006ء میں ’’تنظیم فکر ولی اللہی کی بابت فتووں کی حقیقت‘‘ کے نام سے شائع کی۔ دیانت کا تقاضا ہے کہ ان فتاویٰ پر ان تصریحات کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ مذکورہ بالا فتاویٰ جب سامنے آئے تو تنظیم کے بانی مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری نے مولانا عبیدالرحمن اشرفی (نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ) کے نام ایک خط لکھا جس میں کہا کہ :

’’آج کل بعض شرپسند عناصر نے خودساختہ چند غلط عقائد بنا کر میری طرف منسوب کرنے کی انتہائی مکروہ کوشش کی ہے تاکہ خانقاہ رائے پور کے عظیم سلسلہ اور میرے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کیے جائیں۔میں اپنے اکابر علماء دیوبند ، اکابر رائے پور، اکابر مجلسِ احرار اور جمعیۃ علماء ہند کے مسلک ومشرب کا پابند وترجمان ہوں۔میرے خیالات اپنے بزرگوں اور سرپرستوں اور اکابرین دیوبند سے ذرہ بھر مختلف نہیں ہیں۔ میں اپنے بزرگوں کی تصدیق سے چھپنے والی کتاب المہند علی المفند مؤلفہ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ میں مذکورہ عقائد کا ہی پابند ہوں، گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے سے پھیلائے جانے والے عقائد ونظریات سے میرا اور میرے متعلقین کا کوئی تعلق نہیں۔ ہم بزورتاکید اس کی تردید کرتے ہیں۔‘‘ (26)

اس کتاب میں مولانا سلیم اللہ خان کے نام تنظیم والوں کے خطوط بھی شامل ہیں جن میں ان تمام عقائد سے براء ت کا اظہار کیا گیا ہے جن کی تفصیل اوپر ذکر کی گئی ہے اور جن کی بنیاد پر تنظیم کے افراد پر گم راہ ہونے کا فتویٰ دیا گیا ہے۔ کتاب کے ص 62 پر ’’الزامات کی حقیقت‘‘ کے نام سے ایک عنوان قائم کیا گیا ہے جس کے تحت ایک ایک کر کے ان تمام عقائد کی تردید کی گئی ہے کہ تنظیم کے افراد یہ موقف نہیں رکھتے، نیز مولانا عبیداللہ سندھی کی عبارات کو بھی ان الزامات کی تردید کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ تفصیل ص 146 تک پھیلی ہے اور کتاب کا اصل حصہ ہے، البتہ اس کتاب میں ایک کمی بہرحال نظر آتی ہے کہ فتووں میں مولانا سندھی کی جو محل نظر عبارات پیش کی گئی ہیں،ان کی توجیہ کے لیے کتاب عام طور پر خاموش ہے، لیکن بہرحال تنظیم کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے نہایت ضروری ہے کہ ان تفصیلات کو پیش نظر رکھا جائے، کیوں کہ کسی مسلمان کے بارے میں تفسیق یا ضلال کا فتوی بے حد نازک اور اخروی نقطہ نظر سے سنگین بات ہے۔ دنیاوی پہلو سے موجودہ افتراق کی فضا میں بھی اس بات کا التزام بہت ضروری ہے۔ برصغیر میں ایسے متعدد واقعات ہیں کہ فتاویٰ کے اجرا میں مطلوبہ احتیاط نہیں برتی گئی اور اس کا نتیجہ باہمی توڑ اور انتشار کی صور ت میں ہم بھگت رہے ہیں۔ 

کسی انسان کی وہی رائے معتبر ہوتی ہے جس کی تصریح وہ خود اپنے بارے میں پیش کرے، اس لیے ضروری ہے کہ فتاویٰ کے جواب میں اس بنیادی کتاب کو کسی صورت بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔ زیر تبصرہ کتاب میں ان فتاویٰ کو تو پیش کر دیا گیا ہے، لیکن ضروری تھا کہ احقاقِ حق کے لیے خود تنظیم کے افراد کے جواب پر بھی مختصراً کچھ عرض کر دیا جاتا، تاکہ معروضی مطالعے کا ذہن رکھنے والے ایک قاری کے لیے کسی نتیجے پر پہنچنا آسان ہوتا۔ محض یک طرفہ بات کو ذکر کرنا پہلے سے طے شے ذہن کا نتیجہ ہوتا ہے جو علمی اور تحقیقی نقطہ نظر سے افسوس ناک ہے اور علمی دنیا کے مسلمہ ضابطوں کے منافی۔ مولانا عبدالحق خان بشیر کی کتاب کا ذکر بھی اس تبصرے میںآیا ہے جو 2004ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں بھی تنظیم کے افکار پر نقد ہے، تاہم اس کتاب کو بھی 2006ء میں شائع ہونے والے اس جواب کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ زیر تبصرہ کتاب کے یک رخے مطالعے کا ایک داخلی قرینہ یہ بھی ہے کہ اس میں تنظیم فکر ولی اللہی کے بارے میں علماء کی آرا نقل کرتے ہوئے مولانا عبدالحق خان بشیر کی رائے نقل کی گئی ہے، لیکن انھوں نے اپنی کتاب میں مولانا سندھی کا جو دفاع کیا ہے، اس کا اشارہ بھی کتاب میں مؤلف نے نہیں کیا۔ اپنے مطلب کی بات اخذ کرنے کی یہ افسوس ناک روش ہے۔  

مولانا سندھی کے افکار کے محل نزاع ہونے میں ایک بڑا مسئلہ ان کے طریق ابلاغ کی ژولیدگی بھی ہے۔انھوں نے مولانا منظور نعمانی کے مجلے الفرقان شاہ ولی اللہ نمبر کے لیے ایک مضمون ’’امام ولی اللہ دہلوی کی حکمت کا اجمالی تعارف‘‘ املا کروا کر بھیجا تو اس کے آغاز میں مولانا نعمانی نے جو نوٹ لکھا، اس کا ایک حصہ یہ ہے :

’’حضرات اہل علم ، خصوصاً اصحابِ درس سے گزارش ہے کہ وہ اس مقالہ کو سرسری نظر سے نہیں ، بلکہ غور وتعمیق کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں، نیز ہر بحث کو شروع سے آخر تک بالاستیعاب ملاحظہ فرمائیں اور جہاں جہاں ضروری سمجھیں، ایک دفعہ سے زیادہ غور فرمائیں۔ میں نے خود بھی بعض مقامات کا چند چند بار اور بہت غور سے مطالعہ کیا تو مراد کو سمجھ سکا۔‘‘ (27)

خود امام شاہ ولی دہلوی، جن کے شارح مولانا سندھی ہیں، کی عبارات کے بارے میں مولانا سید سلیمان ندوی کا تبصرہ ہے کہ : ’’ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی تعبیرات ایسی نازک ہیں کہ کفرواسلام کے درمیان پل صراط کا فرق رہ جاتا ہے۔‘‘(28)

اس تبصرے میں ممکنہ حد تک کوشش کی گئی ہے کہ یک رخا نہ ہو اور مسلمانوں کی ایک جماعت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ حسن ظن کا باعث ہو۔ اس میں مولانا سندھی کے تفردات (جن کا انکار خود ان کے عقیدت مند بھی نہیں کرتے) کا بے جا دفاع کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی اور ان کے افکار کی کلی مخالفت کے طرز کو بھی محل نظر سمجھا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ مولانا سندھی کے بارے میں تصویر کے دونوں رخ سامنے آ جائیں تاکہ ایک قاری جب اس مطالعے کو اپنا موضوع بنائے تو اس کے پیش نظر دونوں پہلو ہوں۔ مولانا سندھی کے بارے میں تنظیم فکرولی اللہی کے افراد کے لیے بھی مناسب طرز یہی ہے کہ مولانا سندھی کے جو افکار شاذ ہیں اور امت کے اجماعی تعامل کے منافی ہیں، ان کے بے جا دفاع کرنے سے گریز کریں۔ امت کو افتراق وتشتت سے بچانے کا یہی اسلم طریق ہے۔مولانا سندھی کی سیاسی بصیرت، معاصر حالات اور تاریخ کی بدلتی کروٹوں کاگہری عمرانی ادراک ، ’بزمِ جہاں کے اور ہی انداز ‘ پر نظروغیرہ وہ امور ہیں، جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور ایسے مفکر کی نظر اگرفہم دین کی Approach Textual سے آگے بڑھ کر Textual Semi یا Contextual کی حدود میں داخل ہو جائے تو معاصر تناظر میں اس کی اہمیت پر عمرانی اور عالمی حالات کے پہلو سے غور کرنا چاہیے۔


حوالہ جات

1۔ مولانا صوفی عبدالحمید سواتی، مولانا عبیداللہ سندھی کے علوم وافکار (گوجرانوالہ: ادارہ نشر واشاعت، 2007ء)، 13۔

2 ۔ حافظ عبدالحق خان بشیر نقشبندی، مولانا عبیدا للہ سندھی اور تنظیم فکر ولی اللہی، مقدمہ، مولانا زاہد الراشدی (گجرات: حق چار یار اکیڈمی، 2004ء)، 22۔

3۔ مولانا سندھی کی فکر میں بعد از ہجرت کا یہ زمانہ نمایاں امتیازات اور تغیرات کا زمانہ ہے، ورنہ ان کی فکر کے بعض اجزا پر دیوبند میں کافی پہلے اختلاف سامنے آگیا تھا۔ چنانچہ زیر تبصرہ کتاب میں مولانا مناظر احسن گیلانی کی کتاب احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن کے اقتباسات دیے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بعض افکار سے اختلاف دیوبند میں 1914ء ، 1915ء کے زمانے میں نمایاں ہو چکا تھا۔ (دیکھیے: مفتی محمد رضوان، مولانا عبیدا للہ سندھی کے افکار اور تنظیم فکر ولی اللہی کا تحقیقی جائزہ(راولپنڈی: ادارہ غفران،2014ء)، 109 ومابعد۔)

4۔ مولانا عبیداللہ انور، ’’پروفیسر محمد سرورمرحوم‘‘ مشمولہ پروفیسر محمد سرور، ’’مولانا عبید اللہ سندھی: حالات ، تعلیمات اور سیاسی افکار‘‘ (لاہور: عبیداللہ سندھی فاؤنڈیشن، 2014ء)، 273۔ 278۔

5۔ نبی بخش لودھی کے مضمون ’’فکر مولانا عبیداللہ سندھی ایک معروضی جائزہ‘‘ کے آغاز میں شامل تعارفی کلمات ، ماہنامہ ساحل کراچی، مارچ 2007ء، ص 86۔ 

6۔ سید ابوالاعلی مودودی،’’تبصرہ بر کتاب مولانا عبید اللہ سندھی از پروفیسر محمد سرور‘‘،ترجمان القرآن،جولائی، اگست، ستمبر 1944ء، 25: 1، 2، 3، 4 ، 119۔ 120۔

7۔ یہاں اشارہ مولاناسعید احمد اکبر آبادی کی طرف ہے جنھوں نے مولاناسندھی کے دفاع میں ندوۃ المصنفین سے اپنے جاری کردہ مجلے برہان میں مقالات تحریر کیے جو بعد میں ’’مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کے ناقد‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ 

8۔ سید سلیمان ندوی، مکاتیب سید سلیمان ندوی، مرتب ،مسعود عالم ندوی(لاہور: مکتبہ چراغ راہ، 1954ء )، 187۔یہ خط 10 مئی 1945ء کا ہے۔یہ وہ دور ہے جس سے کافی پہلے مولانا ندوی،مولانا اشرف علی تھانوی کے حلقہ ارادت میں آ چکے تھے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے یہاں تنقید میں کسی موضوعیت کو رکاوٹ نہیں بننے دیا ہے۔ 

9۔ دیکھیے: محمد موسیٰ بھٹو، بیسیویں صدی کے اسلامیت کے ممتاز شارح(حیدر آباد سندھ:سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ، 2005ء)، 179، 180 بہ حوالہ ہفت روزہ صدق، 23جون 1945ء۔ 

10۔ دیکھیے: مفتی محمد رضوان، مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار اور تنظیم فکر ولی اللہی کے نظریات کا تحقیقی جائزہ(راولپنڈی : ادارہ غفران، 2016ء)، 489 ومابعد۔

11۔ مفتی محمد رضوان، نفس مصدر(طبع دوم)، 31۔

12۔ نفس مصدر، 35، 36۔ 

13۔ القرآن 2:233۔

14۔ مفتی محمد رضوان، مصدرِ سابق، 56۔

15۔ نفس مصدر، 225۔ 

16۔ نفس مصدر، 238۔

17۔ نفس مصدر، 352، 353۔ 

18۔ چنانچہ مولانا صوفی عبدالحمید سواتی ، مولانا عبیداللہ سندھی کے علوم وافکار میں یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ’’انصاف کی بات یہ ہے کہ حضرت مولانا سندھی کے بعض افکار شاذ بھی ہیں، بعض مرجوح قسم کے خیالات بھی ہیں اور بعض باتیں ایسی ہیں کہ مولانا ان پر بے جا سختی بھی کرتے تھے، بعض باتیں مصلحت کی خاطر بھی ناگزیر خیال کرتے تھے اور بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جن کی نسبت ان کی طرف کرنے میں ان کے تلامذہ نے غلطی کی ہے۔ان کی ذمہ داری حضرت مولانا پر نہیں، بلکہ ان کے ناقلین پر ہے جنھوں نے ان باتوں کو نقل کیا ہے اور شاید سابق لاحق سے قطع نظر کر کے حضرت مولانا سندھی کا مطلب بھی نہیں پا سکے۔‘‘ (سواتی، مرجع سابق، 13۔) 

19 ۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کے ناقد(لاہور: المحمود اکیڈمی)، 26۔

20 ۔ اکبر آبادی، نفس مصدر، 27، 28۔ 

21 ۔ نفس مصدر، 50۔ 

22 ۔ عبدالحق خان بشیر نقشبندی، مولانا عبیداللہ سندھی اور تنظیم فکر ولی اللہی(گجرات: حق چار یار اکیڈمی، 2004ء)، 161، 162 بہ حوالہ مولانا عبید اللہ سندھی، الہام الرحمن ، 1: 14، 15۔ 

23 ۔ مفتی محمد رضوان، مصدرِ سابق، 374۔ 

24 ۔ نفس مصدر، 376۔ 

25 ۔ دیکھیے: نفس مصدر، 379، 380۔

26 ۔ عبدالمتین نعمانی، عبدالقدیر، عبدالغنی قاسمی، تنظیم فکر ولی اللہی کی بابت فتووں کی حقیقت(شعبہ نشرواشاعت تنظیم فکرولی اللہی پاکستان، 2006ء)، 44، 45۔ 

27 ۔ الفرقان شاہ ولی اللہ نمبر، جلد 7، شمارہ 9، 10، 11، 12، بابت ماہ رمضان، شوال، ذی قعدہ، ذی الحجہ 1359ھ، 234۔ 

28 ۔ مسعود عالم ندوی(مرتب)، مکاتیب سید سلیمان ندوی (لاہور:مکتبہ چراغ راہ، 1954ء)، 179۔

تعارف و تبصرہ

(ستمبر ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter