جمہوریت اور حاکمیت عوام ۔ چند منطقی مغالطے / غیر مسلم معاشروں میں رہنے کے انسانی واخلاقی اصول / آسمانی شرائع میں جہاد کا صحیح تصور

محمد عمار خان ناصر

جمہوریت کو ’’حاکمیت عوام‘‘ کے نظریے کی بنیاد پر کفریہ نظام قرار دینے اور حاکمیت عوام کو اس کا جزو لاینفک قرار دینے والے گروہ کی طرف سے ایک عامۃ الورود اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ جمہوریت میں اگر دستوری طور پر قرآن وسنت کی پابندی قبول کی جاتی ہے تو اس لیے نہیں کی جاتی کہ وہ خدا کا حکم ہے جس کی اطاعت لازم ہے، بلکہ اس اصول پر کی جاتی ہے کہ یہ اکثریت نے خود اپنے اوپر عائد کی ہے اور وہ جب چاہے، اس پابندی کو ختم کر سکتی ہے۔ اس لیے دستور میں اس کی تصریح کے باوجود جمہوریت درحقیقت ’’حاکمیت عوام‘‘ ہی کے فلسفے پر مبنی نظام ہے۔

اس استدلال کے دو نکتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ دونوں منطقی مغالطوں کی شاہکار مثالیں ہیں۔

پہلا نکتہ یہ ہے کہ دستور میں قرآن وسنت کی پابندی دراصل قرآن وسنت کے واجب الاتبا ع ہونے کے عقیدے کے تحت نہیں بلکہ محض اس لیے قبول کی جاتی ہے کہ اکثریت یہ پابندی قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر دستور میں اس تصریح کا مطلب یہ نہیں کہ دستور ساز اسمبلی خود کو قرآن وسنت کا پابند سمجھتی ہے اور یہ محض حاکمیت عوام کے اصول کا ایک اظہار ہے تو اس مقصد کے لیے اسمبلی کو یہ تصریح کرنے کی آخر ضرورت اور مجبوری ہی کیا درپیش ہے؟ پھر تو دستور میں سادہ طور پر صرف یہ بات لکھنی چاہیے کہ قانون سازی کا مدار اکثریت کی رائے پر ہے اور اس بنیاد پر جو بھی قانون بنے گا، وہ اس وقت تک قانون رہے گا جب تک اسے اکثریت کی تائید حاصل رہے۔ جب دستور ساز اسمبلی اس سے آگے بڑھ کر باقاعدہ ایک اصول کے طو رپر یہ نکتہ دستور میں شامل کر رہی ہے کہ مقننہ قرآن وسنت کے احکام کی پابند ہوگی تو کس اصول کی رو سے اس پر یہ الزام عائد کیا جا سکتا ہے کہ وہ قرآن وسنت کی پابندی کو بالذات اور مستقل اصول کے طور پر قبول نہیں کر رہی؟ اس سامنے کی بات کو صاف نظر انداز کر دینے کو آخر تحکم کے علاوہ کیا عنوان دیا جا سکتا ہے؟

استدلال کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ چونکہ دستور میں اکثریت کی رائے کی بنیاد پر تبدیلی کی جا سکتی ہے اور اس اصول کے تحت اگر کسی وقت اکثریت قرآن وسنت کی پابندی کی شرط کو ختم کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، اس لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن وسنت کی پابندی کو فی نفسہ اور بالذات نہیں بلکہ محض اکثریت کی رائے کی بنیاد پر قبول کیا جا رہا ہے۔

یہ نکتہ پہلے سے بھی بڑھ کر عجیب بلکہ مضحکہ خیز ہے۔ سوال یہ ہے کہ دین وشریعت بلکہ دنیا کے کسی بھی قانون یا ضابطے کی پابندی قبول کرنے کا آخر وہ کون سا اسلوب یا پیرایہ ہو سکتا ہے جس میں یہ امکان موجود نہ ہو کہ کل کلاں کو پابندی قبول کرنے والا اس کا منکر نہیں ہو جائے گا؟ مثال کے طور پر ایک شخص کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کرتا ہے تو اسے اس بنیاد پر مسلمان تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ اس نے اپنی مرضی اور آزادی سے یہ فیصلہ کیا ہے، حالانکہ اس بات کا پورا امکان ہے کہ وہ کسی بھی وقت اسی آزادی کی بنیاد پر اسلام سے منحرف ہونے کا فیصلہ کر لے۔ اب کیا اس کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ چونکہ کل کلاں کو وہ اپنی مرضی سے اسلام کو چھوڑ سکتا ہے، اس لیے آج اس کے کلمہ پڑھنے کا مطلب بھی یہ ہے کہ وہ اسلام کو فی نفسہ واجب الاتباع نہیں سمجھتا، بلکہ اپنی ذاتی پسند اور مرضی کی وجہ سے قبول کر رہا ہے؟ دنیا کے ہر معاہدے اور ہر ضابطے کی پابندی کی بنیاد اسی آزادی پر ہوتی ہے جو انسانوں کو حاصل ہے اور جو آج کسی پابندی کے حق میں اور کل اس کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے، لیکن ہم اس آزادی کے منفی استعمال کے بالفعل ظہور پذیر ہونے سے پہلے کبھی مستقبل کے امکانی مفروضوں کی بنیاد پر حال میں یہ قرار نہیں دیتے کہ فلاں شخص یا گروہ درحقیقت اس قانون یا ضابطے کو فی حد ذاتہ واجب الاتباع ہی تسلیم نہیں کرتا۔

جمہوریت اور ’’حاکمیت عوام‘‘ کے تصور کو لازم وملزوم قرار دینے کے ضمن میں ایک اور منطقی مغالطہ جو بالعموم دیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ جمہوریت میں شریعت کے واضح اور مسلمہ احکام بھی کسی ملک میں اس وقت تک قانون کا درجہ اختیار نہیں کر سکتے جب تک کہ منتخب قانون ساز ادارہ اسے بطور قانون منظور نہ کر لے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جمہوریت میں اللہ کی شریعت، نفاذ کے لیے انسانوں کی منظوری کی محتاج ہے۔ اگر وہ بطور قانون اس کی منظوری نہ دیں تو کوئی حکم شرعی نافذ نہیں ہو سکتا اور ظاہر ہے کہ یہ ایک کفریہ تصور ہے۔

اس دلیل میں جو منطقی مغالطہ ہے، اسے ایک مثال کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کریں، ایک شخص کسی کو قتل کر دیتا ہے۔ ایسی صورت میں شریعت کا واضح اور قطعی حکم ہے کہ قاتل کو مقتول کے قصاص میں قتل کیا جائے۔ لیکن شریعت کا یہ حکم اس وقت تک عملاً نافذ نہیں ہو سکتا جب تک یہ مقدمہ باقاعدہ کسی با اختیار عدالت کے سامنے پیش نہ کیا جائے اور وہ یہ فیصلہ نہ سنا دے کہ قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت کا حکم اپنے نفاذ کے لیے ایک جج کی منظوری کا محتاج ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں، اس لیے کہ شریعت کے حکم اور اس پر عمل درآمد کے درمیان عدالت کا کردار اس تصور کے تحت نہیں رکھا گیا کہ خدا کی شریعت کو انسانی تائید کی احتیاج ہے، بلکہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس حکم کے نفاذ کے عمل کو منضبط اور غلطیوں سے محفوظ بنایا جا سکے۔ 

بالکل یہی معاملہ کسی شرعی حکم کو قانون سازی کے مرحلے سے گزارنے کا ہے۔ جب دستور میں اصولی طور پر یہ مان لیا گیا کہ شریعت بالادست قانون ہوگی تو تمام واضح اور قطعی احکام اصولاً قانون کا درجہ اختیار کر گئے۔ اس کے بعد ان احکام کے حوالے سے قانون سازی کے مراحل بنیادی طور پر پروسیجرل ہیں نہ کہ اس بنیاد پر کہ احکام شرعیہ کو ابھی قانون بننے کے لیے منظوری کی احتیاج ہے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ خاص طور پر ملحوظ رہنا چاہیے کہ شریعت کا کوئی بھی واضح اور صریح حکم اس وقت تک نفاذ میں نہیں آ سکتا جب تک اس کے ساتھ جڑے ہوئے چند اجتہادی سوالوں کا جواب نہ دے دیا جائے۔ مثلاً چوری کو لیجیے۔ محض یہ تسلیم کر لینے سے کہ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے، کسی بھی چوری کے مقدمے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ حکم کے اطلاق کے لیے شاید درجنوں اجتہادی سوالات کا جواب دینا پڑے گا اور اس کے لیے کسی نہ کسی اجتہادی تعبیر کو قانون کا درجہ دینا پڑے گا۔ مثلاً یہ کہ چوری کا مصداق کیا ہے، کتنے مال کی چوری پر یہ سزا لاگو ہوگی، کیا ہر طرح کے حالات میں یہ سزا دی جائے گی یا کچھ مخصوص حالات میں رعایت بھی دی جا سکتی ہے، ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اجتہادی سوالات ہیں جو نص میں تصریحاً مذکور نہیں اور ان کا جواب طے کیے بغیر کسی ایک مقدمے کا فیصلہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ 

گویا ہر واضح اور قطعی شرعی حکم نفاذ کے لیے ایک اجتہادی تعبیر کا محتاج ہے۔ قانون سازی دراصل اسی درمیانی مرحلے کو طے کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ قانون کے بنیادی پہلووں کی ایک متعین تعبیر کے بغیر، جس کی روشنی میں عدالتیں فیصلے کر سکیں، قانون کے نفاذ میں بہت سی پیچیدگیاں اور مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ جدید سیاسی نظام میں قانون ساز ادارے اس نوعیت کی پیچیدگیوں کو کم کرنے اور قانون کے بنیادی پہلووں کو واضح اور متعین کرنے کے کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر قانون کے بنیادی خطوط اور حدود اربعہ متعین نہ ہوں تو ظاہر ہے کہ قانون کی براہ راست تعبیر کا کام عدالتوں کو کرنا پڑے گا جس میں اختلافات کا پیداہونا اور اس کے نتیجے میں قانونی سطح پر پیچیدگیوں کا سامنے آنا ناگزیر ہے۔ علمی اور نظری سطح پر کسی قانون کی تعبیر میں اختلافات ہوں تو ان سے عملی پیچیدگیاں پیدا نہیں ہوتیں، لیکن قانونی نظام کی سطح پر بہرحال ایک بنیادی نوعیت کی یکسانی پیدا کرنا انتظامی پہلو سے ایک مجبوری کا درجہ رکھتا ہے۔ جمہوریت میں شرعی احکام کو نفاذ سے پہلے قانون ساز ادارے کی منظوری کے مرحلے سے گزارنا دراصل اسی پہلو سے ضروری ہوتا ہے، نہ کہ اس مفروضہ تصور کے تحت کہ شریعت کا حکم تب واجب العمل ہوگا جب انسان اسے قانون کے طور پر منظور کر لیں گے۔ چنانچہ صورت حال کی درست تعبیر یہ ہوگی کہ دستور کی اسلامی نوعیت طے ہو جانے کے بعد تمام احکام شریعت کی پابندی قبول کر لی گئی، البتہ انھیں قانون کی سطح پر نافذ کرنے کے لیے کچھ درمیانی مراحل طے کرنا ضروری تھا جن میں سب سے اہم مرحلہ قانون کی تعبیر کا تھا۔ 


جمہوریت کو علی الاطلاق کفر ثابت کرنے والی ایک مشہور کتاب میں دلائل کا سارا زور صرف کرنے کے بعد آخر میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ ’’اگر یہ جمہوریت کفر ہے تو پھر بعض علمائے کرام اس نظام میں کیوں شریک ہوتے ہیں؟‘‘ 

اگرچہ ’’بعض علمائے کرام‘‘ (جس سے مراد قیام پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک پاکستان کی مین اسٹریم مذہبی قیادت کے ، چند ایک کے استثنا کے ساتھ، تمام علماء کرام ہیں) کہہ کر سوال کی مشکل کو کافی کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، لیکن بہرحال سوال تو مشکل ہے۔ اب اس کا جواب ملاحظہ فرمائیے:

’’وہ علماء جو اس نظام میں شریک ہوئے اور اب اس دنیا سے جا چکے، ان کے بارے میں ہم یہی کہیں گے کہ ان پر اس جمہوری نظام کا کفر واضح نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا شریعت میں یہ ایک عذر ہے اور عذر کے ہوتے ہوئے کسی خاص شخص کی تکفیر نہیں کی جا سکتی۔ ۔۔۔ کسی کفر کا ظاہر ہونا نہ ہونا، اس کفر کا کسی پر پہلے ظاہر ہونا، کسی پر بعد میں، یہ کسی کے تقویٰ اور علم کے منافی نہیں۔ اس بحث میں یہ کہنا بے کار بات ہے کہ اگر جمہوریت کفر ہوتی تو تمام بڑے علماء اس کو کفر کیوں نہیں کہتے؟‘‘ سوال یہ ہے کہ ارشاد نبوی میں کسی چیز پر کفر کا اطلاق کرنے کے لیے ’’کفرا بواحا عندکم من اللہ فیہ برھان‘‘ کے الفاظ آئے ہیں اور فقہاء اس کے لیے مطلوبہ احتیاط کو یوں واضح کرتے ہیں کہ وہ کفر ایسا ہونا چاہیے کہ اس کے کفر ہونے میں کسی کو کوئی شبہ نہ ہو اور تمام اہل علم اسے کفر قرار دینے میں کوئی تردد محسوس نہ کریں۔

اگر جمہوریت ایسا ہی کفر صریح اور کفر بواح ہے تو ان ’’تمام بڑے علماء‘‘ کو آخر یہ کیوں دکھائی نہیں دیا؟ اور کیوں اس کی ضرورت پیش آ رہی ہے کہ مختلف منطقی مغالطوں سے کام لے کر ایسے دلائل گھڑے جائیں جو صرف سادہ ذہن اور جذباتی نوجوانوں کو متاثر کر سکیں اور انھیں مطمئن کرنے کے لیے ’’تمام بڑے علماء‘‘ پر وہ آیتیں منطبق کرنی پڑیں جو قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرنے والوں کے متعلق نازل ہوئی ہیں؟ ملاحظہ فرمائیے:

’’داعیوں کے سامنے جو اعتراض بار بار کیا جاتا ہے، وہ یہ ہوتا ہے کہ آپ زیادہ سمجھ دار ہیں یا بڑے زیادہ سمجھ دار ہیں؟ اگر یہ سب جو آپ بیان کر رہے ہیں، حق ہوتا تو ہمارے بڑے اس کو کیوں نہ اختیار کرتے؟ لیکن کیا ’’قوم‘‘ کے بڑے ہمیشہ حق پر ہوتے ہیں؟ کیا ’’نوجوان‘‘ ہمیشہ غلط ہوتے ہیں اور ان کا طریقہ کار کبھی بھی درست نہیں ہوتا؟ کیا شریعت اسلامیہ میں یہ کوئی معیار ہے کہ بڑوں اور چھوٹوں کی آرا جب مختلف ہو جائیں تو بڑوں کی بات ہی قابل اعتبار اور قابل عمل ہوگی؟ اور کیا حق کو صرف اس لیے رد کر دیا جائے گا کہ وہ معاشرے کے مشہور ونامور افراد کی زبان سے جاری نہیں ہوا؟ کیا اس قسم کے اعتراض حق کو رد کرنے والے پہلے ہی سے نہیں کرتے چلے آ رہے؟ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی ایسے ہی اعتراضات کیا کرتے تھے:

وقالوا لولا نزل ھذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم (الزخرف)
’’وہ کہتے کہ اس قرآن کو دونوں بستیوں (مکہ وطائف) میں کسی بڑی شخصیت پر کیوں نہ اتارا گیا۔‘‘

حالانکہ یہاں سوال بڑوں اور چھوٹوں یا اکثریت واقلیت کا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ فقہ وشریعت کی رو سے یہ ضروری ہے کہ جس بات کو ’’کفر‘‘ قرار دیا جا رہا ہو، وہ ایسی ہو کہ اس کے کفر ہونے میں کسی کو کوئی شبہ نہ ہو اور تمام اہل علم اسے کفر قرار دینے میں کوئی تردد محسوس نہ کریں۔ اگر جمہوریت ایسا ہی کفر صریح اور کفر بواح ہے تو ان ’’تمام بڑے علماء‘‘ کو آخر یہ ’’کفر‘‘ کیوں دکھائی نہیں دیا؟

غیر مسلم معاشروں میں رہنے کے انسانی واخلاقی اصول

امریکا کے حالیہ مطالعاتی سفر (۱۰؍ جولائی تا ۲؍ اگست) کے دوران میں ڈریو یونیورسٹی (نیو جرسی) کے سنٹر فار ریلجن، کلچر اینڈ کانفلکٹ ریزولوشن کے زیر اہتمام ایک سمر انسٹی ٹیوٹ میں شرکت کے علاوہ مختلف احباب سے ملاقات اور بعض مقامات پر مسلم کمیونٹی کے اجتماعات سے گفتگو کا موقع بھی ملا۔ ان نشستوں میں راقم الحروف نے خاص طور پر سیدنا یوسف علیہ السلام کے واقعے کی روشنی میں چند اخلاقی اصولوں کو واضح کرنے کی کوشش کی جن کی پابندی کسی غیر مسلم معاشرے میں رہتے ہوئے مسلمانوں کو کرنی چاہیے۔ ذیل میں اس کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔

قرآن مجید نے سیدنا یوسف علیہ السلام کا واقعہ یہ کہہ کر بیان کیا ہے کہ یہ احسن القصص یعنی بہترین قصہ ہے اور اس میں جستجو رکھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔ اس واقعہ کے سبق آموز پہلو تو کئی ہیں، لیکن اس موقع پر ہم اس خاص زاویے سے اس سے راہ نمائی لینے کی کوشش کریں گے کہ کسی ایسے معاشرے میں جہاں مسلمان اکثریت میں اور اقتدار میں نہ ہوں، ان کا رویہ اور معاملہ معاشرے کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے اور اس ضمن میں انھیں کن اخلاقی اور انسانی اصولوں کی پاس داری کرنی چاہیے۔ قرآن مجید نے اس حوالے سے مختلف واقعات کی مدد سے سیدنا یوسف علیہ السلام کے کردار اور فہم ودانش کے بعض ایسے پہلووں کو اجاگر کیا ہے جو اس باب میں نہایت بنیادی راہ نمائی فراہم کرتے ہیں۔

سب سے پہلا اخلاقی اصول تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو کسی معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کے مواقع میسر ہوں اور معاشرہ ان کے اخلاق وکردار پر اعتماد کرتے ہوئے انھیں اپنے وسائل اور سہولیات سے مستفید ہونے کا موقع دے رہا ہو تو اس کے جواب میں مسلمانوں کو بھی اس اعتماد پر پورا اترنا چاہیے اور خیانت سے کام لیتے ہوئے اس اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہیے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کو بازار مصر میں ایک غلام کے طور پر سستے داموں لا کر بیچا گیا تھا، لیکن ان کے مالک نے ان کے لیے رہائش، خوراک اور تربیت کا اچھا بندوبست کیا اور پردیس میں انھیں گھر جیسی سہولتوں کی فراہمی کا انتظام کیا۔ پھر سن رشد کو پہنچنے پر جب خاتون خانہ نے انھیں دعوت گناہ دی تو سیدنا یوسف کا سب سے پہلا اور فوری رد عمل یہ تھا کہ میں یہ خیانت کیسے کر سکتا ہوں، جبکہ میرے آقا نے میرے لیے یہاں سامان زندگی کا اتنا عمدہ بندوبست کیا ہے(انہ ربی احسن مثوای)۔ خاتون خانہ کی دعوت کو قبول کرنا اپنی ذات میں تو گناہ تھا ہی، اس کے ساتھ سیدنا یوسف نے اپنی سلیم فطرت کی بدولت اس کے اس پہلو کو بھی شدت سے محسوس کیا کہ یہ ایک محسن اور منعم کے ساتھ خیانت اور بد عہدی کا عمل ہوگا جو کسی شریف اور باکردار انسان کے شایان شان نہیں۔ یہ اصول، ظاہر ہے، جیسے افراد کے لیے ہے، ویسے ہی قوموں کے لیے بھی ہے اور صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات میں موثر نہیں، بلکہ اس کا تعلق آفاقی انسانی اخلاقیات سے ہے۔ چنانچہ سب سے پہلی چیز جو مسلمانوں کو انفرادی سطح پر بھی اور گروہی سطح پر بھی ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے، یہ ہے کہ جو معاشرہ ان کے لیے اپنے وسائل اور مواقع سے استفادہ کے دروازے کھول رہا ہو اور ان کے اخلاق وکردار پر اعتماد کر رہا ہو، وہ جواب میں اس کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کریں اور کوئی طرز عمل اختیار نہ کریں جو اس اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والا ہو۔

دوسرا اخلاقی اصول جو سیدنا یوسف کے کردار سے ہمارے سامنے آتا ہے، یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے ساتھ کہیں کوئی نا انصافی یا زیادتی ہو جائے تو وہ اسباب کی سطح پر داد رسی کے لیے ضرور کوشش کریں، لیکن معاشرے یا اس کے نظام وقانون سے متعلق کسی منفی رد عمل میں مبتلا نہ ہو جائیں اور خاص طور پر اس ناانصافی کی وجہ سے اس معاشرے کے لیے انسانی خیر خواہی کا رویہ ترک نہ کر دیں۔ سیدنا یوسف کو ایک بے بنیاد الزام پر، محض ایک با اثر گھرانے کو بدنامی سے بچانے کے لیے، جیل میں ڈال دیا گیا اور وہ کئی سال تک قید میں رہے۔ یہاں ان کی ملاقات شاہی دربار کے دو خادموں سے ہوئی جن میں سے ایک کو انھوں نے تاکید کی کہ جب تم رہا ہو کر بادشاہ کے پاس واپس جاو تو میرے متعلق اس کو بتانا۔ سوئے اتفاق سے اس شخص کو بادشاہ کے سامنے سیدنا یوسف کا ذکر کرنا یاد نہ رہا اور سیدنا یوسف مزید کچھ عرصے کے لیے جیل میں ہی پڑے رہے۔ اس کے بعد شاہ مصر نے ایک عجیب وغریب خواب دیکھا جس کی تعبیر کسی کی سمجھ میں نہ آ سکی تو بالآخر وہ موقع پیدا ہوا جس میں اہل مصر کو سیدنا یوسف علیہ السلام کی طرف رجوع کرنا پڑا جنھیں اللہ نے خوابوں کی تعبیر کی خاص مہارت عطا فرمائی تھی۔ 

یہاں ہمیں سیدنا یوسف کے کردار کی بلندی اوج کمال پر نظر آتی ہے۔وہ نہ تو خواب کی تعبیر پوچھنے کے لیے آنے والے شاہی خادم سے کوئی شکایت کرتے ہیں کہ تم نے میری رہائی کے لیے کوئی کوشش نہیں کی، نہ یہ رد عمل ظاہر کرتے ہیں کہ مصر کے نظام انصاف نے مجھے بے گناہ ہوتے ہوئے جیل میں ڈال رکھا ہے، اس لیے میں اہل مصر کے کام کیوں آوں اور نہ یہ شرط ہی رکھتے ہیں کہ پہلے مجھے انصاف دیا جائے، تب میں اپنے علم اور مہارت سے اہل مصر کو فائدہ پہنچاوں گا۔ اس کے بالکل برعکس، وہ نہ صرف بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتا دیتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ تدبیر بھی بتاتے ہیں کہ قحط کے زمانے میں خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس سے پہلے آنے والے سالوں میں غلے کا ذخیرہ جمع کر لیا جائیاور دانوں کو خوشوں کے اندر ہی رہنے دیا جائے۔ گویا وہ اپنے کردار سے یہ واضح کرتے ہیں کہ انسان کو جو علم، دانش اور حکمت دی گئی ہے، وہ اس کے پاس ایک امانت ہے جسے ہر حال میں لوگوں کی خیر خواہی اور بھلائی کے لیے استعمال ہونا چاہیے اور کسی شخص یا گروہ کے ساتھ ہونے والی کوئی نا انصافی یا زیادتی اس کا جواز نہیں بن سکتی کہ ضرورت کے موقع پر وہ لوگوں کو اپنی خداداد صلاحیت اور علم وتجربہ سے محروم رکھے۔

سیدنا یوسف علیہ السلام کے طرز عمل اور کردار سے تیسرا اہم اصول یہ سامنے آتا ہے کہ مسلمان جس معاشرے میں بھی ہوں، وہاں کے لوگوں اور وہاں کی سیاسی ومعاشی سرگرمیوں سے الگ تھلگ ہو کر رہنے کے بجائے معاشرت اور نظام سیاست ومعیشت کا حصہ بنیں اور اخلاقی حدود کے اندر رہتے ہوئے مواقع اور وسائل سے خود بھی مستفید ہوں اور خلق خدا کی بہتری کے لیے بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ چنانچہ سیدنا یوسف کو ان کے علم وفہم اور دانش مندی کی بدولت جب شاہ مصر کا مقرب خاص بننے کا موقع ملا تو انھوں نے نہ صرف یہ کہ اس میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، بلکہ خود اپنے لیے اہل مصر کی خدمت کا ایک خاص دائرہ منتخب کیا اور بادشاہ سے اس دائرے میں ذمہ داری اور اختیار تفویض کیے جانے کی درخواست کی۔ اسی سے آگے چل کر انھیں مصر کے نظام اقتدار میں وہ اثر ورسوخ حاصل ہوا کہ انھوں نے اپنے پورے کنبے کو مصر میں بلا لیا اور ان کے پہنچنے پر ان کا شاہانہ شان وشوکت کے ساتھ استقبال کیا گیا۔ مزید یہ کہ بنی اسرائیل کے لیے بطور ایک قوم طویل عرصے تک عزت اور وقار کے ساتھ مصر میں زندگی بسر کرنے کے اسباب فراہم ہوئے، تا آنکہ کچھ صدیوں کے بعد حالات کے الٹ پھیر سے وہ رفتہ رفتہ ایک محکوم اور مقہور گروہ کا درجہ اختیار کرتے چلے گئے۔

اس ضمن کا چوتھا اور اہم ترین دینی اصول یہ ہے کہ مسلمان کسی بھی معاشرے میں رہتے ہوئے اپنی بنیادی اور اصل ذمہ داری یعنی دعوت الی اللہ سے کسی حال میں غفلت اور بے پروائی اختیار نہ کریں اور معاشی ومعاشرتی ترقی کے مواقع سے بھرپور استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اس فریضے کی ادائیگی پر بھی پوری طرح توجہ مرکوز رکھیں۔ سیدنا یوسف کے واقعے میں قرآن نے اس کی ایک جھلک یوں پیش کی ہے کہ جب قید خانے میں دو شاہی ملازم اپنے خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لیے ان کے پاس آئے تو انھوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی حکمت کے ساتھ اور بڑے عمدہ اسلوب میں ان کے سامنے توحید کی دعوت بھی پیش کر دی۔ قرآن مجید کے ایک دوسرے مقام سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا یوسف نے مصر میں اقتدار اور سیاسی اثر ورسوخ ملنے کے بعد وہاں کے با اثر طبقات کو بھی دعوت الی اللہ کا باقاعدہ مخاطب بنایا اور دلائل وبینات کی روشنی میں توحید کا پیغام ان کے سامنے پیش کیا۔ ان کے مخاطبین اگرچہ عموماً ان کی دعوت کے حوالے سے تذبذب میں مبتلا رہے، تاہم مصر کی تاریخ میں اللہ کے ایک جلیل القدر پیغمبر کے طور پر انھیں احترام سے یاد کیا جاتا رہا۔

اس زاویے سے سیدنا یوسف کے واقعے پر غور کیا جائے تو، جیسا کہ عرض کیا گیا، نہ صرف غیر مسلم معاشروں میں زندگی بسر کرنے کے اخلاقی اصول واضح ہوتے ہیں، بلکہ ایک پوری حکمت عملی ابھر کر سامنے آتی ہے جس سے کسی بھی معاشرے میں رہنے والے مسلمان افراد یا طبقے استفادہ کر سکتے ہیں۔ معاصر تناظر میں مختلف غیر مسلم معاشروں میں مسلمان کمیونٹیز کی جو عمومی نفسیات دیکھنے میں آ رہی ہے، اس کے پیش نظر ان اصولوں کی طرف توجہ دلانے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اللہ کرے کہ ہر معاشرے کے ذمہ دار مذہبی وسماجی راہ نما اس طرف متوجہ ہوں اور اللہ کے ایک جلیل القدر پیغمبر کے اسوہ کی روشنی میں مسلمانوں کی نفسیات، ذمہ داریوں اور کردار کو درست طور پر تشکیل دینے میں کامیاب ہوں۔

آسمانی شرائع میں جہاد کا صحیح تصور

جہاد انبیاء کی شریعتوں میں مقصد کے حصول کے ایک ذریعے کے طور پر مشروع کیا گیا ہے اور اہل علم کی تصریح کے مطابق فی ذاتہ کوئی مطلوب یا مستحسن امر نہیں، کیونکہ اس میں انسانی جان ومال کا ضیاع ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر متبادل راستے موجود ہوں تو جنگ کے راستے سے گریز کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ جان ومال کی قربانی بھی تب مطلوب ہوگی اگر حصول مقصد کا ظن غالب ہو۔ بصورت دیگر یہ راستہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ ہاں، جب یہ ناگزیر ہو جائے اور حصول مقصد اسی راستے پر منحصر ہو جائے تو پھر مسلمانوں سے شریعت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور میدان جنگ میں جان ومال کی قربانی پیش کریں۔ ایسے حالات میں اس جیسا افضل عمل کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا اور حب دنیا اور بزدلی کی وجہ سے اس سے گریز کرنے والی قومیں ذلت ورسوائی کی حق دار ٹھہرتی ہیں۔

جہاد سے کس مخصوص مقصد یا غایت کا حصول پیش نظر ہے اور شریعت کا یہ حکم کب فرضیت یا استحباب کے درجے میں انسانوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے؟ اس کا تمام تر دار ومدار عملی حالات پر ہے۔ انبیاء کی تاریخ میں بعض دفعہ اس طریقے سے عالمی سطح پر انقلابی اور دور رس تبدیلیاں لائی گئیں، بعض دفعہ محدود اور وقتی مقاصد (مثلاً? جان ومال اور علاقے کا دفاع وغیرہ) حاصل کیے گئے، اور بہت سے حالات میں اس کو چھوڑ کر بالکل مختلف راستے اور طریقے اختیار کیے گئے۔ چنانچہ شریعت میں اصولی طور پر جہاد کا حکم موجود ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیشہ اور ہر طرح کے حالات میں اس راستے کا انتخاب شریعت کا لازمی تقاضا ہے۔ اس کا تعین حالات کریں گے اور حالات کی نوعیت ہر دور کے اہل علم وفقہ اپنی بصیرت کی روشنی میں طے کریں گے۔

تورات میں بنی اسرائیل کو جو شریعت دی گئی، اس میں واضح طور پر بنی اسرائیل کو اپنی سلطنت کے قیام کے لیے ایک مخصوص علاقے پر قبضہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس مقصد کے لیے جنگ کے تفصیلی احکام بیان کیے گئے تھے۔ تاہم انبیائے بنی اسرائیل نے اپنے طرز عمل سے واضح کیا کہ اس حکم پر عمل علی الاطلاق نہیں بلکہ بہت سی شرائط وقیود کی رعایت کے ساتھ ہی مطلوب ہے۔ چنانچہ:

۱۔ موسیٰ علیہ السلام کے دور میں جب بنی اسرائیل نے بیت المقدس کو فتح کرنے میں بزدلی دکھائی تو اللہ تعالیٰ نے چالیس سال کے لیے انھیں اس اقدام سے روک دیا اور متنبہ کیا کہ اب اگر اس سے قبل انھوں نے جنگ کی تو نقصان کے خود ذمہ دار ہوں گے۔

۲۔ حضرت داود علیہ السلام کے زمانے سے کچھ پہلے بنی اسرائیل کے قبائل الگ الگ سیاسی انتظام کے تحت زندگی گزار رہے تھے اور کوئی متحدہ اجتماعی نظم موجود نہیں تھا۔ اس موقع پر جب بنی اسرائیل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ وہ اپنے کھوئے ہوئے علاقے کفار سے واپس حاصل کرنے کے لیے جہاد کریں تو انھوں نے اپنے نبی سے درخواست کی کہ ان پر ایک بادشاہ کو مقرر کر دیا جائے جس کی قیادت میں وہ جہاد کر سکیں۔ ان کی درخواست پر اللہ نے طالوت کو ان کا بادشاہ بنا کر ان پر قتال کی ذمہ داری عائد کی۔ یہاں قرآن نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں، وہ بہت قابل توجہ ہیں۔ ’’فلما کتب علیھم القتال‘‘، یعنی جب ان پر جہاد فرض کیا گیا، حالانکہ جہاد کی فرضیت اصولی طور پر پہلے سے تورات میں موجود تھی۔ قرآن کی اس تعبیر سے ایک نہایت اہم شرعی نکتہ واضح ہوتا ہے کہ کسی مخصوص صورت حال میں عملاً? جہاد کا فرض ہونا، اصولی فرضیت سے مختلف ایک معاملہ ہے۔

۳۔ بابل کی اسیری اور پھر رومی سلطنت کے ہاتھوں بنی اسرائیل کی حکومت کے خاتمے کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام تک جتنے بھی انبیاء آئے، انھوں نے اپنی دعوت اور محنت کا موضوع خود بنی اسرائیل کی دینی واخلاقی حالت کو بنایا۔ کسی ایک نے بھی انھیں یہ سبق نہیں دیا کہ اس ذلت ورسوائی سے نکلنے کے لیے ’’جہاد’’ کی طرف لوٹیں۔ ان میں سے حضرت مسیح علیہ السلام نے تو اپنی دعوتی جدوجہد سے بنی اسرائیل میں رائج اس تصور کی غلطی کو آخری درجے میں واضح کر دیا کہ دینی احیاء کا مطلب صرف قومی حکومت اور سیاسی سیادت کی بحالی ہے۔ بنی اسرائیل نے انھیں ’’مسیح موعود’’ ماننے سے انکار ہی اس لیے کیا کہ ان کے خیال میں مسیح موعود کاکام بنی اسرائیل کے قومی اقتدار کی بحالی تھا، جبکہ حضرت مسیح نے اپنی دعوت کو تمام تر بنی اسرائیل کی اخلاقی حالت پر مرکوز رکھا اور انھیں بتایا کہ اگر انھوں نے اس اجتماعی حالت کو اس پہلو سے درست نہ کیا تو قیامت تک کے لیے رسوائی اور محکومی کے عذاب سے دوچار کر دیے جائیں گے۔

ان میں سے کسی بھی دور میں جہاد کا حکم نہ منسوخ ہوا تھا اور نہ اصولی طور شریعت میں اس کی اہمیت کم ہو گئی تھی۔ فرق صرف حالات میں پیدا ہوا تھا۔ بنی اسرائیل داخلی اعتبار سے اس جگہ پر نہیں تھے کہ انھیں اللہ کی نصرت ملتی، بلکہ اللہ کے وعدے کے مطابق ان کے دشمنوں کو ان کی بد اعمالیوں کی پاداش میں ان پر مسلط کر دیا گیا تھا۔ ایسی صورت میں انبیاء4 اور دعاۃ کی ذمہ داری یہی بنتی تھی کہ وہ انھیں ان کی اصل بیماری کی طرف متوجہ کریں، نہ کہ ایک مشروط ومقید شرعی حکم کو اصل قرار دے کر قومی حمیت وغیرت کا جذبہ بیدار کرنے میں لگ جائیں۔

آراء و افکار

(ستمبر ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter