مولانا گلزار احمد آزاد کے سفر جاپان کے مشاہدات

ڈاکٹر حافظ محمد رشید

۱۴ اگست کو الشریعہ اکادمی میں گوجرانوالہ کی معروف دینی شخصیت مولانا حافظ گلزار احمد آزاد کے ساتھ ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا۔ حافظ صاحب حال ہی میں جاپان کا دورہ کر کے واپس تشریف لائے ہیں۔ ان کا یہ سفر جاپان کے درد دل رکھنے والے حضرات کی درخواست پر ہوا جو وہاں قادیانی حضرات کی سرگرمیوں کی وجہ سے فکر مند تھے ۔ حافظ صاحب نے اس نشست میں جاپانی قوم کی چند نمایاں خصوصیات اور وہاں قادیانیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا ۔ ان کے خیالات کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

آج پاکستان میں سارے لوگ جشن آزادی منا رہے ہیں۔ آزادی بہت بڑی نعمت ہے ۔ پاکستان کی آزادی کے لیے بہت بڑی بڑی قربانیاں دی گئی ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ تقریباً ستر سال گزرنے کے باوجود لوگ ایک قوم نہیں بن سکے۔ پاکستان کے ساتھ کچھ اور ممالک بھی آزاد ہوئے تھے، لیکن آج ان کی تاریخ اور حالات ہم سے بہت مختلف ہیں۔ جاپان کے لوگ ایک قوم بن چکے ہیں ۔ قوم تقریروں سے، نعروں سے اور اشعار سے نہیں بنتی۔ ان سے مدد تو مل سکتی ہے، لیکن قوم نہیں بن سکتی ۔ قوم بااختیار لوگوں کے نمونے سے بنتی ہے۔ لوگ ان کو آئیڈیل سمجھتے ہیں ۔ وہ جب اپنی مثال پیش کرتے ہیں تو پھر لوگ اس کی پیروی کر کے قوم کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ بااختیار لوگوں کو قانون کی بالادستی کا نمونہ پیش کرنا چاہیے ۔ اگر بااختیار لوگ یہ سمجھیں گے کہ میرے پیسے پاکستان میں محفوظ نہیں ہیں، سوئزرلینڈ میں محفوظ ہیں، میری تجارت یہاں اتنی کامیاب نہیں ہے، اگر میری تجارت بیرون ممالک میں جائے گی تو کامیاب ہو گی تو قوم کیسے بنے گی اور ملک کیسے ترقی کرے گا۔ میں نے وہاں لوگوں سے پوچھا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ تمہارا وزیراعظم اپنے ملک سے باہر کاروبار کرے اور پیسہ ملک سے باہر لے جائے تو کیا وہ اس سب کے باوجود وزیراعظم رہ سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ایک لمحہ بھی حکمرانی کر سکے ۔ قومیں ایسے بنتی ہیں۔ اسی طرح اگر قانون عام آدمی پر تو نافذ ہو لیکن حکمران پر نافذ نہ ہو تو پھر کیسے قوم بنے گی ۔

وہاں میں نے سنا کہ لوگ بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے گاڑی استعمال نہیں کرتے ۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انہوں نے سکول قریب قریب بنائے ہیں اور بچے پیدل وہاں آسانی سے جا سکتے ہیں ۔ دوسری وجہ یہ پتہ چلی کہ وہ چاہتے ہیں کہ بچے بچپن ہی سے محنت کے عادی بنیں اور جفا کشی اختیار کریں ۔ وہاں ابتدائی اسکول کے بچوں کے پاس کوئی بیگ نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی کتاب ہوتی ہے ۔ اسی طرح استاد کے پاس بھی کوئی کتاب نہیں ہوتی ۔ میں نے پوچھا کہ پھر یہ پڑھتے کیا ہیں ؟ انہوں نے مجھے بتایا کہ اس عمر میں بچوں کو اسکول میں صرف اخلاقیات سکھائی جاتی ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا، دھوکا نہیں دینا ، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی ، صاف ستھرا رہنا ہے اور ملک کو صاف رکھنا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ ایک صحافی کا واقعہ پڑھا تھا جس کا مشاہدہ میں نے وہاں جا کر کیا ۔ وہ صحافی کہتا ہے کہ جب جاپان میں سونامی آیا تو میں نے ایک جگہ دیکھا کہ ایک لمبی لائن لگی ہوئی ہے اور لوگ کھانے پینے کی چیزیں وصول کر رہے ہیں ۔ میں اپنے حصے کی چیزیں لے چکا تھا ۔ میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی لائن میں لگا ہوا ہے۔ میں نے اس سے احوال دریافت کیے تو اس نے بتایا کہ جب سونامی آیا تو میں اپنے سکول کی چھت پر اپنے والد کا انتظار کر رہا تھا۔ میں اپنے باپ کو گاڑی میں آتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے سونامی کی لہر آئی اور اس کو گاڑی سمیت بہا کر لے گئی۔ میری ماں اور دیگر خاندان بھی انھی لہروں کی زد میں آ گیا۔ میں اکیلا ہی بچا ہوں ۔ وہ صحافی لکھتا ہے کہ مجھے اس پر ترس آیا تو میں نے اپنا سامان اسے دے کر کہا کہ یہ تم لے لو اور استعمال کر لو۔ اس بچے نے وہ سامان لیا اور لائن سے نکل کر میرے دیکھتے ہی دیکھتے جہاں سامان تقسیم ہو رہا تھا، وہاں جمع کروا آیا اور دوبارہ لائن میں کھڑا ہو گیا ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ بیٹا، یہ تو میں نے تم کو استعمال کرنے کے لیے دیا تھا ! اس نے جواب دیا کہ جب میری باری آئے گی تو مجھے مل جائے گا۔ یہ ان کی اس ابتدائی تربیت کا ہی اثر ہے کہ یہ قومی احساس چھوٹے بچوں میں بھی اس حد تک پختہ ہے۔

وہاں میں نے ایک خصوصیت یہ دیکھی کہ وہ معاملات میں بہت صاف ہیں۔ ان کے ہاں گاڑیوں کا بہت بڑا کاروبار ہے۔ ہمارے لوگ تو کوشش کرتے ہیں کہ گاڑی کے ظاہری عیب تو بتا دیں، لیکن کوئی اندرونی عیب چھپ جائے تاکہ قیمت تو کچھ زیادہ لگے، لیکن جاپانی لوگ اس بات کی سختی سے پابندی کرتے ہیں کہ کوئی چیز بیچتے ہوئے اس کا ہر قسم کا عیب گاہک کو بتا دیں۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے جس پر افسوس کے ساتھ آج ہمارے بازاروں میں عمل نہیں ہو رہا۔ اس کے علاوہ ان کے ہاں دوسروں کے حقوق کا بہت خیال رکھا جاتا ہے ۔ میں جن کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا، انہوں نے ایک دن مجھ سے کہا کہ ذرا آہستہ آواز میں بات کریں۔ میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ یہاں لکڑی کے مکان بنے ہوئے ہیں، ساتھ والے مکان میں آواز جاتی ہے جس سے وہ لوگ تنگ ہوتے ہیں، اس لیے آہستہ بات کریں۔ میرے میزبانوں نے کہا کہ ہم رات کو واشنگ مشین نہیں لگاتے، یہ کبھی کبھی یہ آواز دینے لگ جاتی ہے کہ کہیں ہمسائے کو تکلیف نہ ہو۔ اس قدر احساس ہے ان لوگوں کو اپنے ہمسایوں اور دیگر لوگوں کا۔ ہمارے پاکستانی وہاں تو بہت محتاط رہتے ہیں، لیکن یہاں آ کر ائیرپورٹ پر اتر کر پھر پاکستانی بن جاتے ہیں ۔

وہاں ایک علاقے میں قادیانیوں کا مرکز ہے۔ یہاں قادیانی لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور عام مسلمان بھی ان کو بالکل اسی طرح کا ایک فرقہ سمجھتے ہیں جیسے کہ پاکستان میں فرقے ہیں، یعنی لوگ ان کے بارے میں کافی لچک رکھتے ہیں۔ میں اس علاقے کے دوستوں کی دعوت پر وہاں گیا اور نوجوانوں اور تبلیغی احباب سے رابطہ کیا اور مجھے ان لوگوں کو یہ سمجھانے میں بڑی محنت کرنی پڑی کہ قادیانی لوگ اصل میں کیا ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں ۔ وہاں لوگوں کا خیال تھا کہ یہ لوگ یہاں بالکل اپنی تبلیغ نہیں کرتے ۔ میں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قادیانی ہوں اور اپنی تبلیغ نہ کریں۔ وہاں قادیانیوں نے ہر پبلک جگہ پر اپنا لٹریچر رکھا ہوا ہے، خصوصاً لائبریریوں میں اور کیفے وغیرہ میں۔ میں نے کچھ نوجوانوں کی ڈیوٹی لگائی جنہوں نے ان کا لٹریچر برآمد کروایا اور لوگوں کو یہ بات سمجھائی کہ یہ لوگ یہاں مسلمانوں کے بھیس میں اپنے عقائد کی تبلیغ کر رہے ہیں ۔ میں نے وہاں ختم نبوت کورس رکھا جس میں شرکاء بڑی دور دور سے سفر کر کے شریک ہوئے اور الحمد للہ اس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے۔ امید ہے کہ اللہ وہاں کام کو جاری فرمائیں گے اور عام مسلمان قادیانیوں کے گمراہ کن عقائد سے محفوظ رہیں گے۔ کام کا آغاز ہو گیا ہے، اور ان شاء اللہ اب جاری رہے گا۔

مشاہدات و تاثرات

(ستمبر ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter