مدینے پر حملے کے تناظر میں اہل علم میں ایک دفعہ پھر" جہادی ذہنیت" اور اس کے بیانیے کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ محترم جناب ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب نے اپنی ایک تحریر میں اسے "سوچا سمجھا جنون" قرار دیتے ہوئے، "جنونی گروہ" کی" فقہ" کے اہم نکات بیان کیے ہیں۔ جناب ڈاکٹر مشتاق صاحب نے اس گروہ کے بیانیے کے جو نکات پیش فرمائے ہیں، وہ بالکل مبنی برِ حقیقت ہیں۔ اس تحریر کو پڑھتے ہوئے راقم نے اس پر جناب زاہد صدیق مغل کا یہ تبصرہ دیکھا کہ:" اس تفصیل کے ساتھ یہ مقدمہ کس نے پیش کیا؟"تو دل چاہا کہ اپنی وہ تحریر پیش کی جائے جو ممتاز قادری کیس پر بحث کے دوران میں نے تحریر کی تھی، لیکن شائع نہیں ہوئی تھی۔ یہ تحریر"جہادیوں" کے مقدمے کو ان کے بنیادی استدلالات کے ساتھ بیان کرتی ہے؛ ان کی کتابوں اور تحریروں پر مبنی ہے ؛ جناب مشتاق صاحب نے اپنی تحریر میں ان لوگوں کے مقدمے کا جو خلاصہ پیش کیا ہے، اس میں اس کے بہت سے دلائل اور ان کی بنیادیں بھی بیان ہوئی ہیں۔لیکن اس سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جناب مشتاق صاحب کی تحریر کا اقتباس پیش کر دیا جائے، اسے اور اس کے بعد میری تحریر دیکھنے سے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ جناب مشتاق صاحب کی طرف سے "جنونی گروہ" کی "فقہ" کے ہم نکات اس گروہ کا فرضی بیانیہ نہیں ، جس کی تفصیل کہیں ملتی نہ ہو یا اہل مقدمہ میں سے کسی نے بیان نہ کی ہو ،بلکہ یہ نکات صد فی صد درست اور ان کے فکر کی صحیح ترجمانی ہیں۔ مشتاق صاحب کا کہنا ہے:
’’اس سوچے سمجھے جنون کی فقہ کے کچھ نکات پر غور کریں۔ اس گروہ کے تصورات کچھ اس طرح ہیں: اس گروہ نے جن لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں، وہ مرتد ہیں؛ اس گروہ کے مخالفین کی حمایت کرنے والے سبھی لوگ، خواہ وہ فوج میں ہوں، پولیس میں ہوں، یا عام شہری ہوں، مرتد ہیں؛ اس گروہ کے مخالفین اور ان مخالفین کے حامیوں میں عاقل بالغ سبھی انسان مقاتلین ہیں، خواہ انھوں نے زندگی میں ایک بار بھی ہتھیار نہ اٹھایا ہو، یہاں تک کہ محض ٹیکس ادا کرنے سے بھی وہ مقاتلین بن جاتے ہیں، اور ٹیکس تو ٹافی خریدتے ہوئے بھی ادا کیا جاتا ہے، اس لیے میٹرک کا وہ طالب علم جو طبعی بلوغت کی عمر تک پہنچ چکا ہو، مقاتل ہے؛ جب مخالفین اور ان کے لیے ٹیکس ادا کرنے والے سبھی عاقل بالغ انسان مرتد اور مقاتل ہیں تو اس کے بعد حملے کو صرف "فوجی ہدف" تک محدود رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے؛ کسی بھی جگہ ان "نام نہاد شہریوں" پر، جو دراصل "مقاتلین" ہیں، حملہ کیا جاسکتا ہے؛ ہدف کے انتخاب میں صرف اور صرف "جنگی مصلحت" کو دیکھا جاتا ہے؛ کس ہدف پر کم سے کم وقت اور توانائی کے استعمال سے زیادہ سے زیادہ "جنگی فائدہ" اٹھایا جاسکتا ہے؟ فوجی کیمپ؟ چیک پوسٹ؟ سکول؟ مسجد؟ مخالفین، یا ان کے حامیوں، میں اگرچہ بعض "غیر مقاتلین" بھی ہیں، جیسے نابالغ بچے، لیکن ان کے والدین، یا مخالفین کے دیگر "عاقل بالغ مقاتلین"کو اذیت دینے، یا ان کا حوصلہ پست کرنے، کے لیے ان نابالغ بچوں کو بھی عمداً نشانہ بنایا جاسکتا ہے کیونکہ "یہ انھی میں سے ہیں!" مخالفین نے اگر اس گروہ کے بچوں کو نشانہ بنایا ہے تو پھر مخالفین، یا ان کے حامیوں، کے ان غیر مقاتلین بچوں کو نشانہ بنانے کے جواز کے لیے صرف "برابر کے بدلے" کا اصول ہی کافی ہے؛ ان کے ساتھ وہی کچھ، اور ویسا ہی کچھ،کرو جو انھوں نے تمھارے ساتھ، جس طرح، کیا ہے!
باقی رہیں مخالفین، یا ان کے حامیوں، کی عاقل بالغ عورتیں تو چونکہ وہ عاقل بالغ ہیں اور ٹیکس بھی ادا کرتی ہیں، نیز بعض دیگر کام بھی کرتی ہیں جن سے مخالفین کو کسی طور مدد ملتی ہے، اس لیے وہ بھی مقاتلین ہی ہیں اور ان کے ساتھ وہی کچھ کیا جاسکتا ہے جو مقاتلین کے ساتھ کیاجاتا ہے؛ جنگ میں ہر وہ کام باعث اجر و ثواب ہے جس سے مخالفین، یا ان کے حامیوں، کو اذیت ملتی ہے، یا ان کا حوصلہ پست ہوتا ہے، خواہ یہ کسی مقاتل عورت کو زندہ جلانا، یا کسی غیر مقاتل بچے کو ذبح کرنا، ہو؛ ( اب اس میں اضافہ کریں : " یا مسجد نبوی پر حملہ کرنا ہو !" لعنھم اللہ ! )خود کش حملہ کمزور فریق کا بہترین ہتھیار ہے؛ خود کش حملے کے خوف سے مخالفین تمھارے قریب نہیں آئیں گے اور تم زیادہ سے زیادہ آگے بڑھ کر ان کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچاسکتے ہو؛ پھر چونکہ تم موت کے خوف سے نہیں، بلکہ اپنے لوگوں کے رازوں کی حفاظت، یا دشمن کو نقصان پہنچانے کی خاطر، اپنی جان کی قربانی دوگے، اس لیے یہ شہادت کی اعلیٰ و ارفع قسم ہوگی؛ پس یہ سب کچھ کرنے کے بعد یہ آخری کام بھی کرگزرو تو جنت تمھاری ہے! ‘‘
قادری کیس میں مباح الدم والے فلسفے کے حوالے سے "جہادیوں " کا بیانیہ پیش کرتے ہوئے راقم الحروف نے عرض کیا تھا:
زیر نظر تناظر میں مسلمان کے مباح الدم ہو جانے کا فلسفہ، اس فلسفے سے کچھ مختلف نہیں ،جو بعض لوگ غیر مسلم کے مباح الدم ہونے کے بارے میں پیش کرتے ہیں؛ اور اس سے مسلمانوں کے ہاتھوں تمام غیر مسلموں کے قتل کے شرعاً جائز ہونے کا استدلال کرتے ہیں۔ اگر اِس مباح الدم کو ماننا ہے، تو پھر اْن کی بات بھی مانیے۔ وہ بھی قرآن وسنت اور فقہ سے اسی طرح دلائل لاتے ہیں۔ان کے دلائل کا ایک خلاصہ ملاحظہ کیجیے؛ اور اندازہ فرمائیے کہ شریعت کا یہ طرزِ تعبیر اور نصوص وروایات اور علماے سلف کی آرا واجتہادات سے نتائج کے استنباط کا یہ انداز کتنا تباہ کن ہے!:
ہر حربی کافر ایک عام مسلمان کے لیے بھی مباح الدم ہوتا ہے، جس کو وہ بلا وجہ قتل کردے یا اس کا مال لوٹ لے تو بھی مسلمان پر کوئی مواخذہ نہیں ؛اور حربی صرف وہ نہیں ہوتا، جو مسلمانوں کے ساتھ براہِ راست جنگ کر رہا ہو؛ بلکہ کفر کا وصف ہی آدمی کو حربی بنا دیتا ہے؛امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
وان کان کافرا حربیا فان محاربتہ اباحت قتلہ واخذ مالہ واسترقاق امراتہ (مجموع الفتاوی لابن تیمیہ ، ج 32۔ ص 343)
"اور اگرکافر جنگ کرنے کے لائق ہو تو بلاشبہ اس کے جنگجو ہونے نے ہی اس کے قتل، اس کے مال لینے اور اس کی عورت کو لونڈی بنانے کو مباح کردیا۔"
امام ابن نحاس نے المغنی کے حوالے سے لکھا ہے کہ احمد بن حنبل سے کافروں کے ایک بحری جہاز سے متعلق پوچھا گیا جس کو روم کے بادشاہ نے روانہ کیا،؛پھر ہو ا نے اسے "طرطوس"کی طرف پہنچا دیا،تو اہل طرسوس نے ان لوگوں کو قتل کردیا ؛اور ان کے مال لوٹ لیے،توامام صاحب نے کہا:یہ مسلمانوں کے لیے مالِ فے ہے جو انھیں اللہ نے عطا فرمایا۔ امام صاحب سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ اگر بعض لوگ راستہ کھوبیٹھیں، پھر مسلمانوں کی بستیوں میں سے کسی بستی میں جا پہنچیں؛اور کوئی مسلمان انھیں پکڑ لے،تو کیا حکم ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا :یہ بھی اس بستی کے لوگوں کا اجتماعی مال ہے ؛وہ اسے آپس میں تقسیم کرلیں۔ (مشارع الاشواق الیٰ مصارع العشاق لابن نحاس،ص1054)
امام سرخسی فرماتے ہیں: میں نے امام ابو حنیفہ سے پوچھا:اگر کوئی آدمی دشمن کو پکڑے تو وہ اسے امام کے پاس لائے یا قتل کر دے؟تو امام صاحب نے جواب دیا:دونوں میں سے جو بھی کرے ،ٹھیک ہے ؛کیونکہ قیدی بنانے کی صورت میں کوئی چیز اس کے خون کے مباح ہونے کو ختم نہیں کرتی!؛ امام اس کو قتل کرسکتا ہے۔سو قیدی بنانے والے کے لیے بھی اس کا قتل جائز ہے، جیساکہ قیدی بنانے سے پہلے جائز تھا۔ جب امیہ بن خلف بدر کے روز قیدی بنانے کے بعد قتل کیا گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کرنے والے (حضرت بلال رضی اللہ عنہ) پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔امام کے پاس لے جانا امام کے مقام و مرتبے کے لحاظ سے بہتر ہے؛لیکن اسے قتل کرنا مشرکین پر شدت کے اظہار اور ان کی طاقت توڑنے کے لحاظ سے بہتر ہے۔ اسے چاہیے کہ دونوں میں سے جو چیز مسلمانوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو، اس کے مطابق عمل کرے۔ (المبسوط للسرخسی ،ج12،ص337)
قرآن نے مومنین کو بہترین مخلوق قرار دیا اور کافروں کو بد ترین مخلوق۔ ( البینہ:6۔7) کافروں کو جانوروں سے بھی بد تر کہا گیا۔ (الاعراف:179) حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: یا اخوۃ القردۃ والخنازیر (المستدرک للحاکم) "اے بندروں اور خنزیروں کے بھائیو! "۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صلح حدیبیہ کے موقعے پر، ابو جندل رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر لے جانے والے، ان کے باپ کی طرف تلوار کا دستہ کرتے ہوئے کہا: ان دم الکافر عند اللہ کدم الکلب (فتح الوہاب،ج2،ص320) "بلاشبہ کافر کا خون ،اللہ کے نزدیک کتے کے خون جیسا ہے۔"
نتیجہ ان سب حقائق کا یہ ہے کہ اس دنیامیں اْسی انسان کو جینے کا حق حاصل ہے جو کلمہ توحید ،یعنی اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسولوں کی رسالت کااقرار کرتے ہوئے،اسلام کے دائرے کے اندر آجائے؛ جس نے یہ اقرار کیا ، اس کا مال وجان اور عزت محفوظ ومامون ہوگئی ؛اور جس نے ایسا نہ کیا ، اس کے مال وجان اورعزت کی کوئی حیثیت اورحرمت نہیں۔یہی وہ حقیقت تھی جس کو سمجھانے کے لیے انبیا ورسل آتے رہے؛ اور یہی وہ منہج تھا، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاربند رہے۔ آپ نے فرمایا تھا:
امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللہ فمن قال لا الہ الا اللہ فقد عصم منی نفسہ ومالہ الا بحقہ وحسابہ علی اللہ ( البخاری،رقم :2727)
"مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں؛ یہاں تک کہ وہ لاالہ الا اللہ کا اقرار کریں؛ پس جس نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیا، اس نے اپنی جان اور مال مجھ سے بچالیے ،سوائے حق کے،اور اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔"
حربی اور غیر حربی کافر کی بات کی جاتی ہے،لیکن اس ضمن میں واضح رہنا چاہے کہ کافر کا اصلی حکم حربی ہی کا ہے، اور اس کی جان و مال اور عزت ایک مسلمان کے لیے حلال ہے؛ الا یہ کہ اس کا شرعی بنیادوں پر غیرِحربی ہونا ثابت ہو جائے؛ چاہے یہ غیر حربی ہونا دار الاسلام سے کسی معاہدے کی وجہ سے ہو،یا مسلمانوں کی طرف سے امان دیے جانے کی وجہ سے ہو،یا پھردار الاسلام کے تحت ان کے ذمی بن جانے کی صورت میں ہو،یا پھر اْن صورتوں میں سے کوئی ایک ہو،جن کی وجہ سے شریعت نے ان کو استثنا دیا ہوا ہو؛ جیسے: کفار کی عورتیں ،بچے ،بوڑھے وغیرہ۔لیکن بعض صورتوں اور وجوہ کی بنیاد پر یہ استثنا بھی ختم ہوجاتے ہیں ،جیسا کہ: ان کفار کی عورتوں ،بچوں ،بوڑھوں وغیرہ میں سے کسی کا مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کسی بھی طرح شریک ہونا ،یا پھر معاہدے کی خلاف ور زی کرنا ،یا پھر شریعت کا استہزا، یاپھر ان کادیگر کفار میں گڈمڈ ہوجانا، یا کفار کا ان کو ڈھال بنالینا ،یاپھر معاملہ بالمثل کی وجہ سے؛ اس طرح کی صورتوں میں ان کی جان ومال کی حرمت بھی اٹھ جاتی ہے۔
آج کے دور میں اکثر کافر ممالک بالخصوص امریکہ اور اس کے مدد گاروں کی صورت ایسی ہی ہے۔ان کا حکم دارالحرب کا ہے؛اس لیے ان کے خلاف ہر طرح کی لڑائی لڑنا جائز ہے؛جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے؛ آپ جنگجو ملکوں کے قافلوں کو روکتے؛ جیساکہ آپ نے قریش کے قافلوں کو روکا؛ اور کافر ملکوں کے عوام کو ضرورت پڑنے پر ضمانت کے طور پر گروی رکھ لیتے؛ جیساکہ آپ نے ثقیف کی طرف سے اپنے صحابہ کو قیدی بنائے جانے پر اس کے حلیف قبیلے بنوعقیل کے ایک آدمی کو قیدی بنالیا تھا۔ لہٰذا برسرِ جنگ ملکوں کو نقصان پہنچانے سے منع کرنے والی شرعی حدود کا کوئی وجود نہیں ،سوائے اس کے کہ اگر عورتیں، بچے، اور بوڑھے واضح طورپر پہچانے جاتے ہوں اور وہ جنگ وحملے میں دشمن کے مدد گار بھی نہ ہوں ، تو انھیں نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ آج کے دور میں امریکہ وسیع پیمانے پر مسلمانوں سے برسرِ جنگ ہے؛یہ صرف ایک کافر ریاست ہی نہیں ، کفر کا ایک عالمگیر نشان بن چکا ہے؛ لہٰذا اس کی شان شوکت توڑنے کے لیے جو بھی اقدام کیا جاسکتا ہو،اسے سرانجام دیا جانا چاہیے!امریکی بحر و بر میں ،جہاں کہیں بھی ہو ، اس کو قتل کردینا چاہیے! کسی امریکی کو قتل کرنے کے لیے کسی سے مشورے کی ضرورت نہیں ! امریکہ یہود کے قبیلے بنو قریظہ ایسا ہے؛ امریکہ کے معاملے میں حکومت اور عام شہریوں ، دونوں کو ہدف بنانا چاہیے ! آج کے دور میں امریکہ اور امریکی لوگ "کفر کے امام " ہیں۔جنگ کی آگ بھڑکانے والی حکومتوں کو ووٹ دینے والے امریکی عوام ،کسی رعایت کے حق دار نہیں ہیں ؛ جو کوئی انہیں کسی بھی صورت ضرر پہنچاتا ہے، وہ امت کے لیے خیر خواہی کررہا ہے!۔
بعض لوگ غیر مسلم ملکوں میں مسلمانوں کے موجود ہونے اور کافروں سے جنگ کی صورت میں ان کو نقصان پہنچنے کے اندیشے کے پیش نظر جنگ سے گریز کی بات کرتے ہیں؛ لیکن اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔ جہاد از روئے شریعت قیامت تک جاری رہے گا ؛اور کبھی موقوف نہیں ہوگا۔کافروں میں رہنے والے مسلمانوں کے موت کے گھاٹ اتر جانے کا نقصان اس سے بہت کم ہے کہ جہاد کو اس وقت تک معطل رکھا جائے، جب تک عالمِ کفر مسلمانوں سے خالی نہیں ہو جاتا۔ کافروں میں رہنے کی، مسلمانوں کو شریعت، اجازت ہی نہیں دیتی ؛ احادیث و آثار اور فقہا کی تحقیقات سے واضح ہے کہ مسلمانوں کو کافروں سے کنارہ کشی اختیار کر لینی چاہیے۔اس شخص کو ملامت نہیں کرنی چاہیے،جو کفار کو قتل کرنے ، اْنھیں مرعوب کرنے اور اْن کے ملکوں کو تباہ کرنے جیسے حکمِ شرعی پر عمل کرتا ہے؛اور اس دوران وہاں موجود کچھ مسلمان قتل ہوجاتے ہیں؛ملامت تو اسے کی جانی چاہیے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہوئے مشرکوں کے درمیان اقامت اختیار کی؛ نتیجتاً ان حملوں کا نشانہ بن گیا۔ یہ کیا منطق ہوئی کہ :اللہ تعالیٰ کے حکم کو بجا لانے والا تو مجرم ہو ، لیکن کفارکے درمیان رہنے سے، جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براء ت کا اظہار کیا، وہ ایسا مومن ٹھہرے جس کے خون اور امن وامان کی حفاظت واجب ہے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے:
انا بریء من کل مسلم یقیم بین اظھر المشرکین (سنن ترمذی،رقم: 1530،سنن ابی داود:رقم 2274)
" میں ہر اْس مسلمان سے بری ہوں ،جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے۔"
حضرت سمرہ بن جندب سے مروی ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تساکنوا المشرکین ولا تجامعوھم فمن ساکنھم او جامعھم فھو مثلھم (سنن ترمذی، رقم:1530)
"مشرکوں کے ساتھ رہائش اختیار نہ کرو! اور نہ اْن کے ساتھ اکٹھے ہو!؛ جو کوئی اْن کے ساتھ رہتا ہے، یا اْن کے ساتھ اختلاط کرتا ہے، وہ اْنھی کی مانند ہے!"
حافظ شمس الدین ابن القیم نے "عون المعبود"کے حاشیے میں فرمایا:
لا یقبل اللہ من مشرک بعد ما یسلم عملا او یفارق المشرکین الی المسلمین (عون المعبود،رقم الحدیث:2274)
" اللہ کسی مشرک کے اسلام لانے کے بعد کوئی عمل اْس وقت تک قبول نہیں کرتا ، جب تک وہ مشرکوں کو چھوڑ کر مسلمانوں میں نہیں آجاتا۔"
آج جو مسلمان بھی کفارکے عالمی اقتصادی ،عسکری،انتظامی اور تجارتی مراکز میں کام کرتے ہیں، کفارکے خلاف کاروائی کے دوران ،چونکہ ان کو الگ شناخت نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا ان کے ساتھ کفار کے شرکائے کار افراد کا سامعاملہ کیا جائے گا؛ اگرچہ ان کا اخروی معاملہ مختلف ہے۔ اس کی دلیل صحیحین وغیرہ میں حضرت عائشہ کی وہ روایت ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
العجب ان ناسا من امتی یومون بالبیت برجل من قریش قد لجا بالبیت حتی اذا کانوا بالبیداء خسف بھم فقلنا یا رسول اللہ ان الطریق قد یجمع الناس قال نعم فیھم المستبصر والمجبور وابن السبیل یھلکون مھلکا واحدا ویصدرون مصادر شتی یبعثھم اللہ علی نیاتھم (مسلم،رقم :5134)
"تعجب ہے کہ میری اْمت کے کچھ لوگ اللہ کے گھر میں پناہ لیے ہوئے، قریش کے ایک آدمی پر حملے کے لیے اس گھر کی طرف آئیں گے، حتی کہ جب وہ ایک صحرا پر پہنچیں گے تو اْنہیں زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ ہم نے کہا :یا رسول اللہ! راستے سے بھی لوگ اکھٹے ہوجاتے ہیں ، توآپ نے فرمایا:جی ہاں! ان میں جاننے بوجھنے والابھی ہوگا اور مجبور بھی ومسافر بھی، سب کو ایک ہی طریقے پر ہلاک کردیا جائے گا، مگر وہ مختلف طریقوں سے اْٹھائے جائیں گے،اللہ تعالیٰ، اْنہیں اْن کی نیتوں پر اْٹھائے گا۔"
ابنِ حجر نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا:
قال المھلب: فی ھذا الحدیث ان من کثر سواد قوم فی المعصیۃ مختارا فان العقوبۃ تلزمہ معھم، قال: واستنبط منہ مالک عقوبۃ من یجالس شربۃ الخمر وان لم یشرب (فتح الباری لابن حجر، رقم الحدیث:1975)
" امام المہلب نے فرمایا: اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جومعصیت میں کسی قوم کی تعداد میں، خود مختاری میں اضافہ کرتا ہے، تو بلاشبہ اْن کے ساتھ اس پر بھی سزا لازم ہوتی ہے،اور کہا:امام مالک نے اس سے، اْس شخص کی سزا پر استدلال کیا ہے،جو شراب پینے والوں کے ساتھ بیٹھتا ہے؛ اگرچہ اْس نے شراب نہیں پی ہوتی۔"
امام احمد کی کتاب الزہدمیں ابن دینار سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں میں سے ایک نبی کی طرف وحی بھیجی:
قل لقومک لا تدخلوا مداخل اعدائی ولا تلبسوا ملابس اعدائی ولا ترکبوا مراکب اعدائی فتکونوا اعدائی کما ھم اعدائی۔
"اپنی قوم سے کہیے!: میرے دشمنوں کے داخل ہونے کی جگہ میں داخل نہ ہو؛اور نہ میرے دشمنوں والا لباس پہنو، اور نہ میرے دشمنوں کی سواریوں پر سوار ہو، ورنہ تم میرے اْسی طرح دشمن ہوجاؤ گے، جیسے وہ میرے دشمن ہیں۔"